کیا وہم کا بھی کوئی علاج ہے

وہم بلاشبہ ایک بیماری ہے جو عمرکے ابتدائی حصے میں ہوتی ہے اور پھر آسانی سے جان نہیں چھوڑتی

فوٹو : فائل

اس مرض میں مبتلا لوگ ذرا سی چوٹ یا تکلیف میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ معمولی سی علامت کو بہت بڑا کرکے پیش کرتے ہیں۔ کسی عضو میں خرابی اور تکلیف کے نہ ہوتے ہوئے بھی اسے محسوس کرتے ہیں۔

آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا اگر کوئی مسئلہ ایسا دیکھنا ہو جو بہت عام ہو تو وہ وہم ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثر سے کم ہی لوگ محفوظ ہیں۔

وہم کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ تسلیم نہ کرنا زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔ وہم سے ہم بنتا ہے اور وہی ہم سے شک جنم لیتا ہے ، وہم ہی یقین کی دیمک ہے۔

وہم سدا بہار شبہ ہوتا ہے۔ وہم گمان کی راہ سے بدگمانی کی پشیوں کی سیڑھی ہے۔ وہم جب عروج ہے تو اوہام بن جاتے ہیں اور اوہام پرست کی راہ شرک پرستی کی طرف ہی جاتی ہے۔

وہم عام بھی ہے۔ ہاتھ دھو لیے لیکن کچھ لمحوں میں ہی بار بار ہاتھوں کو دیکھ کر یہ شک ہونا کہ ٹھیک نہیں دھلے۔

تالا لگا کر بھی بار بار چیک کرنا کہ لگایا کہ نہیں۔ عین نماز میں کپڑوں کی پاکی ناپاکی کا سوچنا۔ ایسی ہی ہزاروں مثالیں جہاں زندگی اذیت بن جاتی ہے اور روز و شب اس شک و وہم میں گزارتے چلے جاتے ہیں اور انسان اپنی ہی ذات کی کشمکش میں الجھا رہتا ہے۔

وہم خاص بھی ہوتے ہیں۔ دوستوں اور عزیزوں میں گمان پر وہم پال لینا۔ ان وہموں پر رشتوں کو تولتے رہنا ۔ اس تول مول میں اب برتاؤ کو اپنے اس تول مول سے جوڑ لینا کسی بیماری کا ذکر سن کر اپنی ذات میں اسے ڈھونڈنا کہ کہیں ہمیں تو نہیں ہے۔

شک ہو جائے تو وہم کی خوردبینی مشاہدے میں اس پر یقین کر لینا اور اس یقین پر بیمار بن جانا ۔ وہم ہماری رسموں میں در آیا ہے۔

وہم ہمارے معاشرت میں جگہ بنا کر بیٹھ چکا ہے۔ کبھی نئے گھر پر پرانے جوتے لٹکا دیتا ہے، کبھی گاڑی پر کالے کپڑے ، کبھی شادی میں دلہن سے بھانت بھانت کی رسمیں کرا دیتا ہے تو کبھی نومولود بچے کے پاس چھری رکھوا دیتا ہے ۔ چھوٹے بچے ہر لمحہ والدین اور بزرگوں کے اسی وہم کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تربیت بچوں کو بھی وہمی بنا دیتی ہے۔

اس وہم نے بہت سے آستانے بھی بنوادیے۔ تو دوسری طرف لیبارٹریز بھی بنوا دی ہیں۔ ہمارا پورا ٹائم شوگر لیول، بلڈپریشر، کولیسٹرول کو ناپنے میں گزرتا ہے، قسم قسم کی وٹامن کھانے میں زندگی بسر ہو رہی ہے اور اسی ناپ تول پر ہماری صحت کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔

ورنہ بات تو سیدھی ہے کہ بیمار ہو تو علاج کرو اور اس یقین کے ساتھ علاج کرو کہ اللہ شفا دے گا، یہ سمجھ کر کریں کہ سنت ہے۔

وہم بلاشبہ ایک بیماری ہے جسے میڈیکل کی زبان میں آبسیسوکمپلسوڈس آرڈر کہتے ہیں۔ یہ عمرکے ابتدائی حصے میں ہوتی ہے جہاں پہلے خیالات بنتے ہیں۔

، ان خیالات کی کوئی وجہ نہیں ہوتی لیکن متواتر بننے سے ایک خوف و ڈر پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس خوف و ڈر سے چھٹکارے کے لیے ہم اس وہمی خیال کے مطابق حرکت کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر فائدہ حاصل ہوجاتا ہے۔

بیماری آہستہ آہستہ جڑ پکڑ جاتی ہے۔ پھر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنی ذات سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جن کی عادات پختہ ہو چکی ہیں اور جو درجہ معذوری میں داخل ہوچکے ہیں وہ اسے بیماری جان کر اپنا علاج کروائیں۔


وہم اور منفی سوچ کیسے آپ کو دائمی اذیت میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی پسند کی نوکری کے لیے درخواست دی ہے اور اب آپ انٹرویو کے دوسرے مرحلے کے لیے منتخب ہوگئے ہیں، کیا آپ اب تک کی اپنی اس کامیابی پر خوش ہوتے ہیں اور نئے چیلنجز کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ یا پھر آپ نے ابھی سے اپنے مسترد ہونے کا تصور کرنا شروع کردیا ہے اور اس اذیت میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ آپ کی خود اعتمادی کا کیا ہوگا۔

یا پھر غالباً جب آپ کے دوست کی جانب سے آپ کو فوری طور پر میسیج کا جواب نہیں ملتا تو آپ یہ سوچے بغیر کہ ممکن ہے دوسرا بندہ کسی اور کام میں مصروف ہو ، یہ سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید آپ نے اس شخص کو ناراض کیا ہے آپ کسی برے واقعے کے ہو جانے کا حد سے زیادہ اندازہ لگا لیتے ہیں۔ آپ کسی بھی ممکنہ صورت حال کے بہت زیادہ منفی نتائج کا خدشہ پال لیتے ہیں۔

یہ منفی طور پر کسی چیز کے بارے میں سوچ لینے کی عادت ہے جس سے جذباتی طور پر انسان ایسی کیفیت تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

نفسیاتی طور پر ایسے مسائل بچپن میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ہوتے ہیں یا پھر قدرتی طور پر جنسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

کچھ معاملات میں تو لوگ بے چینی کے باعث جسم میں پیدا ہونے والے احساسات کو بھی انتہائی درجے تک خطرناک تصور کرنے لگتے ہیں۔ منفی سوچوں کی صورت میں نکلتا ہے کہ انسان کو مکمل طور پر گھبراہٹ اور بے چینی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔

وہم کی حالت میں انسان شکی مزاج ہو جاتا ہے ہر بات اور ہر کام میں بے معنی شک، ڈر، خوف و کھٹکا سا لگا رہتا ہے، یاس، ناامیدی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یقین کی صورت حال جاتی رہتی ہے۔ وہی شخص ایک کام بار بار کرتا ہے۔ بچے کے وہم کو باتوں سے سائیکو تھراپی سے درست کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ مزید چڑچڑا ہو جاتے ہیں۔

وہم کا علاج

(1)۔ اگر بچہ وہم کی وجہ سے بہت زیادہ چڑچڑا ہو جائے تو دوا ہے نائٹرک ایسڈ 30۔ ہر 8 گھنٹے کے بعد۔

(2)۔ اگر خون کے سرخ ذرات کی کمی ہو اور وہم کے ساتھ بے چینی بھی زیادہ ہو تو کالی آرسینیکم Kali. Ars 30 ہر 8 گھنٹے کے بعد۔ علامات ٹھیک ہونے تک۔

(3)۔ اگر وہم کے سبب اپنے آپ کو برا بھلا کہے اور بہت زیادہ حساس بھی ہو تو۔اورم مینالیکم Aurum Met 30 ہر 12 گھنٹے کے بعد۔ علامات کے بدلنے تک زیادہ سے زیادہ 3 ماہ تک۔

(4)۔ اگر مریض یہ سوچے کہ وقت گزر نہیں رہا۔ ہر کام جلدی جلدی کرے۔ اپنے جسم یا کام کے بارے میں وہم میں مبتلا ہو تو۔ ارجنٹم میٹالیکم Arg. Met 6 ہر 6 گھنٹے کے بعد علامات کے بدلنے تک زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک کھائیں۔

(5)۔ اگر بچہ بہت ہی حساس ضدی ہے، بے چین اور وہمی ہو تو۔ فاسفورس ہر 4 گھنٹے بعد صرف ایک ہفتے کے بعد۔

(6)۔ اگر بچہ والدین اور ہر اس شخص سے لا تعلق ہو جوکہ اسے چاہتے ہیں اور شام کے وقت اس کی تکلیف بڑھتی ہو تو سیپیا6 سے Sepia 30دن میں تین بار دینے سے اس کیفیت میں مبتلا کو ٹھیک کردیتی ہے 30 دن سے زیادہ نہ دیں۔

(7)۔ اگر بچہ وہمی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت شرمیلا ہو تو سیباڈیلاSabadilla دن میں 3 بار ایک ماہ تک۔
Load Next Story