آؤ اختلاف پر اتفاق کرلیں
اختلاف کے ساتھ جینے کو ہم کفر سمجھے بیٹھے ہیں ۔جو ہمارے نظریات سے متفق نہیں وہ واجب القتل ہے
CHANTILLY, VA, US:
جون ایلیا لکھتے ہیں میں کوئی اور رائے رکھتا ہوں اور تم کوئی اور رائے رکھتے ہو میں کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں اور تم کسی اور جماعت کے ساتھ ہو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے کبھی برا سمجھا گیا ہو یا برا سمجھا جانا چاہیے۔ یہ تو سچ تلاش کرنے کا ایک طور ہے میں سچ کو دائیںطرف تلا ش کرتا ہوں اورتم سچ کو بائیں طرف تلاش کرتے ہو لیکن یہاں ایک دوسرے سے جدا رائے رکھنے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا دشمن ہونا ایک دوسرے پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کرنا۔ کیا عقل و ہوش کی سلامتی اور سیاست کے یہ ہی معنی ہیں ایک جماعت کسی بھی معاملے میں دوسری جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو ملک کا دشمن اورقوم کا غدار خیال کرتے ہیں ان دو لفظوں کے سوا اپنے حریف کے لیے ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کائنا ت کی ساری سچائیاں اور اچھائیاں اس کی جیبوں میں جمع ہوگئی ہیں۔
وہ اس زمین کا سب سے منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ ہے اور تاریخ نے آج تک جو سفر طے کیا ہے اس کی غرض اورغائیت یہی تھی کہ اس منتخب ، محبوب اور برگزیدہ گروہ کو اس دور کے حوالے کر سکے اور بس ۔ سوچو اور سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں وہ بھی سچ ہوسکتا ہے نہ تم آسمان سے اترے ہو اور نہ تمہارے حریف ، بحث ہونی چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔ شکوہ ہی اس بات کا ہے کہ یہاں بحث نہیں ہوتی ،حضرت عیسیٰ نے فرمایا ہے کہ سچ تمہیں آزاد کرتا ہے ۔ تمام مذاہب کی ابتداء میں ان کی تعلیمات ان کے اصول اور قوانین زندگی انتہائی سادہ تھے جو کہ آسانی سے ہر فرد کی سمجھ میں آجاتے تھے اور جن پر آسانی سے عمل کیا جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان مذاہب میں ایسا طبقہ وجود میں آتا چلا گیا جنھوں نے روزمرہ کی زندگی کی جو رسومات تھیں ان کی ادائیگی کا ذمہ اپنے سر اٹھا لیا اور ان رسومات کی ادائیگی کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ صرف وہ ہی ان کو پورا کرنے کے اہل ہوگئے اور عام آدمی ان کا محتاج ہوتا چلا گیا۔
اس صورتحال کا تقریباً تمام مذاہب کے پیروکاروں کو سامنا رہا ہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا یہودی یا ہندو غرض ایک عام آدمی ان کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقیدہ پرستوں اور عقل پرستوں کے درمیان ایک تصادم اور کش مکش شروع ہوگئی جو آج بھی دنیا کے تمام معاشروں میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ عقیدہ پرستوں کی یہ کوشش ہے کہ لوگوں کو عقیدے کی زنجیروں میں باندھ کر غلام بنایا جائے تو دوسری طرف عقل پرست اس بات کی کوشش میں ہیں کہ لوگوں کو ان زنجیروں سے آزاد کر وایا جائے یہ ہی کش مکش پاکستان میں بھی جاری ہے ۔ مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور حبس و جبر کی صورتحال المتوکل کے تحت نشینی کے بعد پیدا ہوئی اور رہی سہی کسر المنصور کی تخت نشینی کے بعد پوری ہوگئی ان دونوں اور بعد میں آنے والے مسلم حکمرانوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبو ط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی ، تنگ نظری ، رجعت پرستی ، قدامت پرستی ، انتہا پسندی کو فروغ دے کر مسلم خرد افروزی ، روشن خیالی کا مسلم معاشروں میں گلا گھونٹ دیا اور انہیں زندہ درگور کردیا۔
مسلم بادشاہ ، سلطان ، آمر عقل و دانش ، روشن خیالی کی لاشوں کو نوچ نوچ کر ادھیڑتے رہے ممنوعہ کتابوں اور منصفوں کو زندہ جلا دیا جاتا رہا لیکن پھر بھی نئے خیالات کو پیدا ہونے سے روکا نہیں جاسکا ۔ انتہا پسندی ایک عالمگیر ذہنی کیفیت ہے ایک طرز فکر وعمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے ۔وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف اور نفرت کا زہر گھولتی ہے اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہے وہ عبارت ہے اس مخصوص ذہنیت سے جو اپنے سوا تمام دنیا پر عقل و دانش و فہم کا دروازہ بند کردیتی ہے اور لوگوں کے ذہن و فراست پر قفل ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے اغراض پورا کرنے میں تامل نہیں کرتی۔ پاکستانی قوم سیاسی غلامی کے پہلو بہ پہلو معاشی و فکری غلامی کی بھی گرفت میں ہے جس کی صحیح طریقے سے رہنمائی اور تربیت نہ ہوسکی نہ ریاستی سطح پر نہ سیاسی سطح پر اور نہ ہی تعلیم و تہذیبی سطح پر۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک منظر دوسری طرف ہے اور وہ ہے ہمارے معاشرے پر قدامت پرستوں ، رجعت پرستوں اور بنیاد پرستوں کا غلبہ اور قبضہ ۔ ہمارے معاشرے میں جاگیرداری ، سرمایہ داری اور جہالت تینوں موجود ہیں ۔ایمرسن کہتا ہے عقل کی حد ہوتی ہے لیکن بے عقلی کی کوئی حد نہیں ہوتی جہالت جیسی غربت کوئی اور نہیں۔ گھٹن ، فکری حبس ، تنگ نظری اور جمود ہمارا مقدر بن کر رہ گیا ہے ۔کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح مذہب کے جملہ حقوق اپنے نام الاٹ کروا رکھے ہیں بحث و مباحثے کو گناہ کبیرہ کا درجہ حاصل ہے ۔ اختلاف پر فتوئوں کی بارش ہوجاتی ہے، گریز اور فرار کا رویہ ہمارے قومی نشانات بن گئے ہیں صرف میں سچا ہوں باقی سب گمراہ ہیں ہمارا قومی نعرہ بن چکا ہے۔
اختلاف کے ساتھ جینے کو ہم کفر سمجھے بیٹھے ہیں ۔جو ہمارے نظریات سے متفق نہیں وہ واجب القتل ہے سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں جھوٹ کے قیدی بنے بیٹھے ہیں جو سماج افلاس ،جہالت اور عدم برداشت و عدم رواداری کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا صحت مند خواب دیکھ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی وہ اس کا حق رکھتا ہے ہماری حالت قابل ملامت بھی ہے اور قابل رحم بھی ۔ ہم اپنے اندر بھٹک رہے ہیں جس طر ح نیرو نے جلے ہوئے روم کو دوبارہ تعمیر کیا تھا آئیں ہم اپنی گلی سڑی بدبودار سماج کی لاش کو دفنا کر ایک نئے سماج کو تعمیر کریں جس میں دل و ذہن کے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں جہاں نئے خیالات نئی سوچ ، اور نئے نظریات کے تازہ جھونکے آرہے ہوں جہاں اختلاف پر کسی کو نہ مارا جائے بلکہ اختلاف پر اتفاق ہو جہاں بحث و مباحثے ہو رہے ہوں جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو جہاں برداشت کی حکمرانی ہو جہاں ہوٹلوں اور دکانوں میں سیاسی و مذہبی گفتگو منع ہو کے بجائے سیاسی و مذہبی گفتگو ضرورکی جانی چاہیے کی تحریر آویزاں ہو ۔جہاں مساوات ہو جہاں رو شن خیالی اور خرد افروزی کا راج ہو ۔
جون ایلیا لکھتے ہیں میں کوئی اور رائے رکھتا ہوں اور تم کوئی اور رائے رکھتے ہو میں کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں اور تم کسی اور جماعت کے ساتھ ہو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے کبھی برا سمجھا گیا ہو یا برا سمجھا جانا چاہیے۔ یہ تو سچ تلاش کرنے کا ایک طور ہے میں سچ کو دائیںطرف تلا ش کرتا ہوں اورتم سچ کو بائیں طرف تلاش کرتے ہو لیکن یہاں ایک دوسرے سے جدا رائے رکھنے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا دشمن ہونا ایک دوسرے پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کرنا۔ کیا عقل و ہوش کی سلامتی اور سیاست کے یہ ہی معنی ہیں ایک جماعت کسی بھی معاملے میں دوسری جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو ملک کا دشمن اورقوم کا غدار خیال کرتے ہیں ان دو لفظوں کے سوا اپنے حریف کے لیے ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کائنا ت کی ساری سچائیاں اور اچھائیاں اس کی جیبوں میں جمع ہوگئی ہیں۔
وہ اس زمین کا سب سے منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ ہے اور تاریخ نے آج تک جو سفر طے کیا ہے اس کی غرض اورغائیت یہی تھی کہ اس منتخب ، محبوب اور برگزیدہ گروہ کو اس دور کے حوالے کر سکے اور بس ۔ سوچو اور سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں وہ بھی سچ ہوسکتا ہے نہ تم آسمان سے اترے ہو اور نہ تمہارے حریف ، بحث ہونی چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔ شکوہ ہی اس بات کا ہے کہ یہاں بحث نہیں ہوتی ،حضرت عیسیٰ نے فرمایا ہے کہ سچ تمہیں آزاد کرتا ہے ۔ تمام مذاہب کی ابتداء میں ان کی تعلیمات ان کے اصول اور قوانین زندگی انتہائی سادہ تھے جو کہ آسانی سے ہر فرد کی سمجھ میں آجاتے تھے اور جن پر آسانی سے عمل کیا جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان مذاہب میں ایسا طبقہ وجود میں آتا چلا گیا جنھوں نے روزمرہ کی زندگی کی جو رسومات تھیں ان کی ادائیگی کا ذمہ اپنے سر اٹھا لیا اور ان رسومات کی ادائیگی کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ صرف وہ ہی ان کو پورا کرنے کے اہل ہوگئے اور عام آدمی ان کا محتاج ہوتا چلا گیا۔
اس صورتحال کا تقریباً تمام مذاہب کے پیروکاروں کو سامنا رہا ہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا یہودی یا ہندو غرض ایک عام آدمی ان کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقیدہ پرستوں اور عقل پرستوں کے درمیان ایک تصادم اور کش مکش شروع ہوگئی جو آج بھی دنیا کے تمام معاشروں میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ عقیدہ پرستوں کی یہ کوشش ہے کہ لوگوں کو عقیدے کی زنجیروں میں باندھ کر غلام بنایا جائے تو دوسری طرف عقل پرست اس بات کی کوشش میں ہیں کہ لوگوں کو ان زنجیروں سے آزاد کر وایا جائے یہ ہی کش مکش پاکستان میں بھی جاری ہے ۔ مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور حبس و جبر کی صورتحال المتوکل کے تحت نشینی کے بعد پیدا ہوئی اور رہی سہی کسر المنصور کی تخت نشینی کے بعد پوری ہوگئی ان دونوں اور بعد میں آنے والے مسلم حکمرانوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبو ط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی ، تنگ نظری ، رجعت پرستی ، قدامت پرستی ، انتہا پسندی کو فروغ دے کر مسلم خرد افروزی ، روشن خیالی کا مسلم معاشروں میں گلا گھونٹ دیا اور انہیں زندہ درگور کردیا۔
مسلم بادشاہ ، سلطان ، آمر عقل و دانش ، روشن خیالی کی لاشوں کو نوچ نوچ کر ادھیڑتے رہے ممنوعہ کتابوں اور منصفوں کو زندہ جلا دیا جاتا رہا لیکن پھر بھی نئے خیالات کو پیدا ہونے سے روکا نہیں جاسکا ۔ انتہا پسندی ایک عالمگیر ذہنی کیفیت ہے ایک طرز فکر وعمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے ۔وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف اور نفرت کا زہر گھولتی ہے اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہے وہ عبارت ہے اس مخصوص ذہنیت سے جو اپنے سوا تمام دنیا پر عقل و دانش و فہم کا دروازہ بند کردیتی ہے اور لوگوں کے ذہن و فراست پر قفل ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے اغراض پورا کرنے میں تامل نہیں کرتی۔ پاکستانی قوم سیاسی غلامی کے پہلو بہ پہلو معاشی و فکری غلامی کی بھی گرفت میں ہے جس کی صحیح طریقے سے رہنمائی اور تربیت نہ ہوسکی نہ ریاستی سطح پر نہ سیاسی سطح پر اور نہ ہی تعلیم و تہذیبی سطح پر۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک منظر دوسری طرف ہے اور وہ ہے ہمارے معاشرے پر قدامت پرستوں ، رجعت پرستوں اور بنیاد پرستوں کا غلبہ اور قبضہ ۔ ہمارے معاشرے میں جاگیرداری ، سرمایہ داری اور جہالت تینوں موجود ہیں ۔ایمرسن کہتا ہے عقل کی حد ہوتی ہے لیکن بے عقلی کی کوئی حد نہیں ہوتی جہالت جیسی غربت کوئی اور نہیں۔ گھٹن ، فکری حبس ، تنگ نظری اور جمود ہمارا مقدر بن کر رہ گیا ہے ۔کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح مذہب کے جملہ حقوق اپنے نام الاٹ کروا رکھے ہیں بحث و مباحثے کو گناہ کبیرہ کا درجہ حاصل ہے ۔ اختلاف پر فتوئوں کی بارش ہوجاتی ہے، گریز اور فرار کا رویہ ہمارے قومی نشانات بن گئے ہیں صرف میں سچا ہوں باقی سب گمراہ ہیں ہمارا قومی نعرہ بن چکا ہے۔
اختلاف کے ساتھ جینے کو ہم کفر سمجھے بیٹھے ہیں ۔جو ہمارے نظریات سے متفق نہیں وہ واجب القتل ہے سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں جھوٹ کے قیدی بنے بیٹھے ہیں جو سماج افلاس ،جہالت اور عدم برداشت و عدم رواداری کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا صحت مند خواب دیکھ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی وہ اس کا حق رکھتا ہے ہماری حالت قابل ملامت بھی ہے اور قابل رحم بھی ۔ ہم اپنے اندر بھٹک رہے ہیں جس طر ح نیرو نے جلے ہوئے روم کو دوبارہ تعمیر کیا تھا آئیں ہم اپنی گلی سڑی بدبودار سماج کی لاش کو دفنا کر ایک نئے سماج کو تعمیر کریں جس میں دل و ذہن کے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں جہاں نئے خیالات نئی سوچ ، اور نئے نظریات کے تازہ جھونکے آرہے ہوں جہاں اختلاف پر کسی کو نہ مارا جائے بلکہ اختلاف پر اتفاق ہو جہاں بحث و مباحثے ہو رہے ہوں جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو جہاں برداشت کی حکمرانی ہو جہاں ہوٹلوں اور دکانوں میں سیاسی و مذہبی گفتگو منع ہو کے بجائے سیاسی و مذہبی گفتگو ضرورکی جانی چاہیے کی تحریر آویزاں ہو ۔جہاں مساوات ہو جہاں رو شن خیالی اور خرد افروزی کا راج ہو ۔