گوادر کے بنیادی مسائل ترقیاتی منصوبے اور ’حق دو تحریک‘
غربت اور دہشت گردی کا شکار صوبہ بلوچستان اپنے وسائل پر اپنے حقِ ملکیت کی جنگ لڑ رہا ہے
گزشتہ دنوں گوادر کے امن و امان کے حوالے سے خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔ ان خبروں کی وجہ ایک بار پھر 'گوادر کو حق دو' تحریک کے مولانا ہدایت الرحمٰن اور ان کے ساتھی تھے، جو ایک بار پھر اپنے مطالبات کےلیے دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔ تاہم اس بار یہ دھرنا پرامن نہیں تھا اور اس بار ریاست اور قانون کی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔ جس کے جواب میں بلوچستان حکومت کی جانب سے بھی بھرپور ردعمل دیا گیا۔ گرفتاریاں ہوئیں، یہاں تک کہ گوادر میں دفعہ 144 نافذ کی گئی، جبکہ موبائل سروس اور انٹرنیٹ کو بھی بند کیا گیا۔
بلوچستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ خطہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیاسی و ذاتی رنجشوں، اختلافات اور مفادات کی وجہ سے پسماندہ رہا ہے۔ غربت اور دہشت گردی کا شکار یہ صوبہ اپنے وسائل پر اپنے حق ملکیت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس صوبے کے رہنے والوں میں ناراضی ہے، مایوسی ہے، احساس کمتری اور احساس محرومی ہے۔
صوبے کے امن و امان، تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے حوالے سے ہماری سیاسی قیادت کی بیان بازیاں تو بہت ہوتی ہیں، لیکن جب عملی اقدامات کی بات ہوتی ہے تو نتیجہ وہ نہیں ہوتا جس کی توقع بلوچستان رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے بلوچستان اور وفاق کے درمیان فاصلے جو شروع دن سے ہیں، وہ آج تک موجود ہیں اور ان فاصلوں کو کم کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔ اسی ناراضی کی وجہ سے یہاں مختلف علیحدگی پسند تحریکیں وجود میں آئیں جو دشمن ملک کی آلہ کار بن کر قومی سلامتی اور امن کے درپے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے معاہدے سے یہ توقع ہے کہ اس کی وجہ سے بلوچستان کے حالات میں بہتری اور تبدیلی آئے گی۔ لیکن بلوچستان کے اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں، بالخصوص گوادر کے حوالے سے قوم پرست جماعتوں کے خاصے تحفظات ہیں جو اقتصادی راہداری کے منصوبے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
بلوچستان کے جنوب مغرب میں بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع گرم پانی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ گوادر اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی دلچسپی کی حامل ہے۔ 2015 میں پاکستان اور چین کے درمیان چین پاک اقتصادی راہداری ''سی پیک'' منصوبہ طے پایا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے سرگرمیوں کا آغاز 13 نومبر 2016 سے کیا گیا اور اس منصوبے کو گیم چینجر کہا گیا۔ لیکن مقامی سیاستدانوں کے مطابق گوادر میں آج بھی بجلی، گیس، پانی جسی بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔
ایسی صورتحال میں گزشتہ سال 'گوادر کو حق دو' تحریک، جس کے بنیادی مطالبات میں بلوچستان کی سمندری حدود سے غیرقانونی ماہی گیری کی روک تھام، مسنگ پرسنز کی بازیابی، گوادر سمیت مکران سے منشیات کا خاتمہ، سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹس پر تحفظات اور گوادر شہر کے بنیادی مسائل کےلیے اقدامات شامل ہیں، کو بہت مقبولیت ملی۔
گوادر کے حقوق کےلیے کیے جانے والے اس احتجاجی دھرنے کو قومی سطح پر بھی توجہ ملی اور حکومت بلوچستان کے ساتھ ان کے مذاکرات کامیاب بھی ثابت ہوئے۔ تاہم اس سال اچانک پھر مولانا ہدایت الرحمٰن کی جانب سے 'حق دو گوادر' تحریک نے پھر احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے۔ لیکن اس بار حیران کن طور پر یہ احتجاج پرامن نہیں تھا بلکہ اس میں تشدد کا رنگ بھی شامل ہوگیا۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ یہ معاملہ جب مذاکرات، بات چیت اور افہام و تفہیم کی فضا میں حل کیا جاسکتا ہے تو پھر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا، امن کو سبوتاژ کرنا اور گوادر پورٹ کو بند کرنا غیر ذمے داری نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
شاہ داد بلوچ جو گوادر کے رہائشی ہیں، انہوں نے گودار کی صورتحال کے حوالے سے بتایا کہ اب گوادر کی صورتحال بالکل معمول پر ہے جبکہ موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بھی بحال ہوگیا ہے، جبکہ ماہی گیر بھی سمندر پر اپنے شکار کےلیے جارہے ہیں۔ کچھ مقامات پر پولیس اور لیویز کی نفری زیادہ تعداد میں موجود ہے تاکہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو تو اس سے فوری نمٹا جاسکے۔
'گوادر کو حق دو' تحریک کے حوالے سے ان کا کہنا ہے مولانا ہدایت الرحمٰن پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ اصل میں اقتدار کی خاطر وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ کیونکہ ان کی تحریک کو ڈیڑھ سال ہوگیا ہے لیکن کوئی نمایاں فرق نہیں دیکھا گیا، سوائے اس کے کہ جو چیک پوسٹوں کا معاملہ ہے اس میں نرمی آئی ہے۔ فشنگ ٹرالر کا جو معاملہ ہے، وہ تو جیسے پہلے تھا ویسا ہی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کے ساتھ بھی عوام کی بڑی تعداد ہے اور ان کی تحریک کو عوامی پذیرائی حاصل ہے کیونکہ گوادر کے لوگوں کو اپنی حق تلفی کا غصہ ہے۔
گوادر کےلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے تاہم لوگوں کو تکلیف نہ دیں اور سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ گوادر بہت حساس علاقہ ہے۔ یہاں چائینز بھی رہتے ہیں اور بیرون ملک سے آئے افراد بھی موجود ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے سیکیورٹی ایشوز ماضی میں بھی رہے ہیں، اس لیے اس خطے کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ شاہ داد کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کی جانب سے جاری احتجاج میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پتھراؤ کیا گیا، سرکاری آفسز کے گیٹ جلائے گئے۔ یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔ اس لیے کریک ڈاؤن بھی ہوا اور عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ تو ہوگئی گوادر کی موجودہ صورتحال، اب ذرا نظر ڈالتے ہیں گوادر کے بنیادی مسائل اور ان کے حوالے سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر۔
گوادر میں بجلی کی فراہمی
گوادر کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی فراہمی ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے، ایران تربت ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے گوادر کو 17 میگاواٹ بجلی فراہم کرتا ہے جو کہ ناکافی ہے اور اس میں منفی اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ تاہم ایران سے اضافی 100 میگاواٹ بجلی کا منصوبہ نوے فیصد مکمل ہے۔ اس منصوبے پر 2.5 بلین روپے لاگت آئی ہے۔ جبکہ مکران کو نیشنل گرڈ سے جوڑنے کےلیے 100 میگاواٹ خضدار۔ پنجگور ٹرانسمیشن لائن ناگ بسیمہ کے راستے کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ بھی 75 فیصد مکمل ہے۔ دور دراز علاقوں میں سولر پلیٹوں کی تقسیم کی جارہی ہے۔ 3600 سولر پلیٹوں کو ڈیلیور کیا گیا۔ 10000 مزید ڈیلیور کی جائیں گی۔
300 میگاواٹ کا گوادر کول پاور پلانٹ 2025، جس کی حکومت پاکستان نے منظوری دے دی ہے، اس کےلیے تھر کا کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔ جس کےلیے گوادر کو چائینز کمپنی کا تعاون حاصل رہے گا۔ 500 کے وی اے ٹرانسمیشن لائن (لسبیلہ-جیوانی) تک کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں آبادی کی اکثریت کا بجلی کا مسئلہ مارچ 2023 تک حل ہوجائے گا، کیونکہ گوادر کی بجلی کی استعداد 17 میگاواٹ سے بڑھا کر 217 میگاواٹ کردی جائے گی۔ جبکہ دور دراز علاقوں میں مفت سولر پلانٹس بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔
گوادر کے پانی کے مسائل
گوادر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کے محدود وسائل تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ گوادر میں پانی کی فراہمی کےلیے شینزک ڈیم منصوبے کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، جس کا کام 98 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔ اس ڈیم کی لاگت 11 بلین روپے ہے۔ پانی کی فراہمی کےلیے 2 1. MGD ریورس اوسموسس ڈی سیلینیشن پلانٹ، جو چینی امداد کے ساتھ لگایا گیا ہے، اس کی لاگت 2.23 بلین روپے ہے۔ ایئرپورٹ پر 3 لاکھ گیلن یومیہ ڈی سیلینیشن پلانٹ سے شہر کو یومیہ 6 سے 8 لاکھ گیلن اضافی پانی سپلائی کیا جائے گا۔ 2 ملین گیلن پرانے ڈی سیلینیشن پلانٹ سے 7 سے 8 لاکھ گیلن یومیہ پانی کی سپلائی کی جارہی ہے۔ گوادر کی پانی کی ضرورت اگلے پانچ سال کےلیے پوری ہوچکی ہے اور ٹرانسمیشن لائنیں تقریباً تعمیر ہوچکی ہیں یا گلیوں کی سطح پر بحال ہوچکی ہیں۔ جی او پی صنعتی زون اور بندرگاہ کے مکمل آپریشن کے بعد پانی کی ضرورت پر کام کررہی ہے۔
سڑکوں کا انفرااسٹرکچر
M-8 سیکشن (آواران) جس کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ کو سی پیک کی مشرقی، وسطی اور مغربی صف بندی کے ذریعے شمال کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ سی پیک روٹس کے مشرقی، وسطی اور مغربی الائنمنٹ کے ذریعے گوادر کا شمال کے ساتھ رابطہ ممکن بنایا جائے گا، جس کے ذریعے گوادر تا رتوڈیرو صرف 23 کلومیٹر ہوگا۔
گوادر ایئرپورٹ
گوادر میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے، جس کے مرکزی ٹرمینل کی عمارت کا 4 ہزار 600 ٹن اسٹیل ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق گوادر میں بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر جون 2023 تک مکمل ہوگی، جبکہ ایئرپورٹ پر ٹیسٹ لینڈنگ اور NGIA کو فعال بنایا گیا ہے۔
گوادر میں ماہی گیری کے مسائل اور وسائل کی فراہمی
گوادر کے ماہی گیروں کو 2000 بوٹ انجنوں کی تقسیم دسمبر 2022 میں کی جاچکی ہے۔ دوسری جانب گوادر میں سندھ کے ماہی گیروں کی غیر قانونی ٹرالنگ ایک بڑا تنازع ہے، تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی معاملہ ہے۔ اس لیے PMSA/ پاکستان نیوی کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔ سندھ کے پاس کراچی میں ماہی گیروں کو محدود کرنے کےلیے کوئی ایکٹ موجود نہیں ہے جبکہ بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری کے پاس وسائل محدود ہیں، کیونکہ صوبائی سمندر بہت بڑا ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کو مسئلے کو حل کرنے کےلیے کہا گیا لیکن دو سال سے ملاقات کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔
غیر قانونی ماہی گیری کےلیے Council of Common Interest یا کسی فورم یا کمیٹی میں اس معاملے کو جلد سے جلد حل کرلیا جائے۔
گوادر میں جاری انسانی ترقی کے اقدامات
گوادر کے نوجوانوں کےلیے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ گوادر یونیورسٹی کے قیام کےلیے 500 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے، جس کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب جنوری یا فروری 2023 میں متوقع ہے۔ گوادر یونیورسٹی کو شنگھائی میری ٹائم یونیورسٹی سے منسلک کیا جائے گا۔ اس میں میری ٹائم سینٹر آف ایکسی لینس بھی بھی بنایا جائے گا۔
گوادر کے ماہی گیروں کو چھت فراہم کرنے کےلیے ماہی گیر کالونی کےلیے 200 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے۔
صحت کے شعبے میں پاک چین فرینڈ شپ اسپتال (PCFH) گوادر 70 بستروں کا اسپتال یہاں کام کررہا ہے۔ جبکہ فیز II میں اس اسپتال کو انڈس اسپتال کے حوالے کرکے اضافی 100 بستر بھی مہیا کیے جائیں گے۔
گوادر کی سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال
گوادر میں اس وقت ضرورت سے زیادہ چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں جبکہ سیکیورٹی کےلیے صرف دو مشترکہ چیک پوسٹس ہیں۔
بارڈر مارکیٹس کا قیام
صوبائی حکومت کو سو فیصد فنڈز بارڈر مارکیٹوں کےلیے گبد، مند اور چیڑھی میں مختص کیے گئے ہیں۔ انہیں M-8 کوسٹل ہائی وے سے جوڑا جائے گا۔ حکومت بلوچستان کی ذمے داری ہے کہ بارڈر مارکیٹس کو جلد سے جلد تعمیر کرے، جس کےلیے ان کو مطلوبہ رقم مل چکی ہے۔
ٹیلی کام سروسز کی صورتحال
گوادر کا ایک مسئلہ خراب ٹیلی کام کنیکٹیویٹی کا بھی ہے، جس کےلیے VBox پہلے سے کام کر رہا ہے اور آپٹیکل فائبر جلد ہی مکمل ہوجائے گا۔
گوادر کے جو بنیادی مسائل ہیں ان کو جلد سے جلد حل کیا جانا چاہیے، جس کےلیے بہت ضروری ہے کہ مقامی سیاستدانوں کے درمیان دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 'گوادر کو حق دو' تحریک گوادر کی توانا آواز بن کر سامنے آئی ہے جبکہ مقامی سیاسی حلقوں میں مولانا ہدایت الرحمٰن کی اکثریت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گوادر میں بلدیاتی الیکشن میں حق دو تحریک کی کامیابی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ تاہم مولانا کو بھی اپنےاحتجاج کو پرامن رکھنا ہوگا اور اپنے مطالبات کو آئین اور قانون کے دائرے میں ہی رکھنا ہوگا۔ ساتھ ہی ان کی جانب سے مستقبل میں ریاستی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف بلوچستان حکومت کو بھی تحمل اور برداشت کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنا چاہیے اور عوام کے جائز مطالبات کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ بلوچستان ویسے ہی دہشت گردی اور پاکستان کے امن دشمنوں کےلیے ایک آسان ٹارگٹ ہے اور ایسے میں باہمی چپقلش کا فائدہ ملک دشمن قوتیں اور عسکریت پسند اٹھائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلوچستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ خطہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیاسی و ذاتی رنجشوں، اختلافات اور مفادات کی وجہ سے پسماندہ رہا ہے۔ غربت اور دہشت گردی کا شکار یہ صوبہ اپنے وسائل پر اپنے حق ملکیت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس صوبے کے رہنے والوں میں ناراضی ہے، مایوسی ہے، احساس کمتری اور احساس محرومی ہے۔
صوبے کے امن و امان، تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے حوالے سے ہماری سیاسی قیادت کی بیان بازیاں تو بہت ہوتی ہیں، لیکن جب عملی اقدامات کی بات ہوتی ہے تو نتیجہ وہ نہیں ہوتا جس کی توقع بلوچستان رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے بلوچستان اور وفاق کے درمیان فاصلے جو شروع دن سے ہیں، وہ آج تک موجود ہیں اور ان فاصلوں کو کم کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔ اسی ناراضی کی وجہ سے یہاں مختلف علیحدگی پسند تحریکیں وجود میں آئیں جو دشمن ملک کی آلہ کار بن کر قومی سلامتی اور امن کے درپے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے معاہدے سے یہ توقع ہے کہ اس کی وجہ سے بلوچستان کے حالات میں بہتری اور تبدیلی آئے گی۔ لیکن بلوچستان کے اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں، بالخصوص گوادر کے حوالے سے قوم پرست جماعتوں کے خاصے تحفظات ہیں جو اقتصادی راہداری کے منصوبے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
بلوچستان کے جنوب مغرب میں بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع گرم پانی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ گوادر اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی دلچسپی کی حامل ہے۔ 2015 میں پاکستان اور چین کے درمیان چین پاک اقتصادی راہداری ''سی پیک'' منصوبہ طے پایا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے سرگرمیوں کا آغاز 13 نومبر 2016 سے کیا گیا اور اس منصوبے کو گیم چینجر کہا گیا۔ لیکن مقامی سیاستدانوں کے مطابق گوادر میں آج بھی بجلی، گیس، پانی جسی بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔
ایسی صورتحال میں گزشتہ سال 'گوادر کو حق دو' تحریک، جس کے بنیادی مطالبات میں بلوچستان کی سمندری حدود سے غیرقانونی ماہی گیری کی روک تھام، مسنگ پرسنز کی بازیابی، گوادر سمیت مکران سے منشیات کا خاتمہ، سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹس پر تحفظات اور گوادر شہر کے بنیادی مسائل کےلیے اقدامات شامل ہیں، کو بہت مقبولیت ملی۔
گوادر کے حقوق کےلیے کیے جانے والے اس احتجاجی دھرنے کو قومی سطح پر بھی توجہ ملی اور حکومت بلوچستان کے ساتھ ان کے مذاکرات کامیاب بھی ثابت ہوئے۔ تاہم اس سال اچانک پھر مولانا ہدایت الرحمٰن کی جانب سے 'حق دو گوادر' تحریک نے پھر احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے۔ لیکن اس بار حیران کن طور پر یہ احتجاج پرامن نہیں تھا بلکہ اس میں تشدد کا رنگ بھی شامل ہوگیا۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ یہ معاملہ جب مذاکرات، بات چیت اور افہام و تفہیم کی فضا میں حل کیا جاسکتا ہے تو پھر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا، امن کو سبوتاژ کرنا اور گوادر پورٹ کو بند کرنا غیر ذمے داری نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
شاہ داد بلوچ جو گوادر کے رہائشی ہیں، انہوں نے گودار کی صورتحال کے حوالے سے بتایا کہ اب گوادر کی صورتحال بالکل معمول پر ہے جبکہ موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بھی بحال ہوگیا ہے، جبکہ ماہی گیر بھی سمندر پر اپنے شکار کےلیے جارہے ہیں۔ کچھ مقامات پر پولیس اور لیویز کی نفری زیادہ تعداد میں موجود ہے تاکہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو تو اس سے فوری نمٹا جاسکے۔
'گوادر کو حق دو' تحریک کے حوالے سے ان کا کہنا ہے مولانا ہدایت الرحمٰن پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ اصل میں اقتدار کی خاطر وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ کیونکہ ان کی تحریک کو ڈیڑھ سال ہوگیا ہے لیکن کوئی نمایاں فرق نہیں دیکھا گیا، سوائے اس کے کہ جو چیک پوسٹوں کا معاملہ ہے اس میں نرمی آئی ہے۔ فشنگ ٹرالر کا جو معاملہ ہے، وہ تو جیسے پہلے تھا ویسا ہی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کے ساتھ بھی عوام کی بڑی تعداد ہے اور ان کی تحریک کو عوامی پذیرائی حاصل ہے کیونکہ گوادر کے لوگوں کو اپنی حق تلفی کا غصہ ہے۔
گوادر کےلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے تاہم لوگوں کو تکلیف نہ دیں اور سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ گوادر بہت حساس علاقہ ہے۔ یہاں چائینز بھی رہتے ہیں اور بیرون ملک سے آئے افراد بھی موجود ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے سیکیورٹی ایشوز ماضی میں بھی رہے ہیں، اس لیے اس خطے کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ شاہ داد کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کی جانب سے جاری احتجاج میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پتھراؤ کیا گیا، سرکاری آفسز کے گیٹ جلائے گئے۔ یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔ اس لیے کریک ڈاؤن بھی ہوا اور عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ تو ہوگئی گوادر کی موجودہ صورتحال، اب ذرا نظر ڈالتے ہیں گوادر کے بنیادی مسائل اور ان کے حوالے سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر۔
گوادر میں بجلی کی فراہمی
گوادر کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی فراہمی ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے، ایران تربت ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے گوادر کو 17 میگاواٹ بجلی فراہم کرتا ہے جو کہ ناکافی ہے اور اس میں منفی اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ تاہم ایران سے اضافی 100 میگاواٹ بجلی کا منصوبہ نوے فیصد مکمل ہے۔ اس منصوبے پر 2.5 بلین روپے لاگت آئی ہے۔ جبکہ مکران کو نیشنل گرڈ سے جوڑنے کےلیے 100 میگاواٹ خضدار۔ پنجگور ٹرانسمیشن لائن ناگ بسیمہ کے راستے کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ بھی 75 فیصد مکمل ہے۔ دور دراز علاقوں میں سولر پلیٹوں کی تقسیم کی جارہی ہے۔ 3600 سولر پلیٹوں کو ڈیلیور کیا گیا۔ 10000 مزید ڈیلیور کی جائیں گی۔
300 میگاواٹ کا گوادر کول پاور پلانٹ 2025، جس کی حکومت پاکستان نے منظوری دے دی ہے، اس کےلیے تھر کا کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔ جس کےلیے گوادر کو چائینز کمپنی کا تعاون حاصل رہے گا۔ 500 کے وی اے ٹرانسمیشن لائن (لسبیلہ-جیوانی) تک کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں آبادی کی اکثریت کا بجلی کا مسئلہ مارچ 2023 تک حل ہوجائے گا، کیونکہ گوادر کی بجلی کی استعداد 17 میگاواٹ سے بڑھا کر 217 میگاواٹ کردی جائے گی۔ جبکہ دور دراز علاقوں میں مفت سولر پلانٹس بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔
گوادر کے پانی کے مسائل
گوادر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کے محدود وسائل تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ گوادر میں پانی کی فراہمی کےلیے شینزک ڈیم منصوبے کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، جس کا کام 98 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔ اس ڈیم کی لاگت 11 بلین روپے ہے۔ پانی کی فراہمی کےلیے 2 1. MGD ریورس اوسموسس ڈی سیلینیشن پلانٹ، جو چینی امداد کے ساتھ لگایا گیا ہے، اس کی لاگت 2.23 بلین روپے ہے۔ ایئرپورٹ پر 3 لاکھ گیلن یومیہ ڈی سیلینیشن پلانٹ سے شہر کو یومیہ 6 سے 8 لاکھ گیلن اضافی پانی سپلائی کیا جائے گا۔ 2 ملین گیلن پرانے ڈی سیلینیشن پلانٹ سے 7 سے 8 لاکھ گیلن یومیہ پانی کی سپلائی کی جارہی ہے۔ گوادر کی پانی کی ضرورت اگلے پانچ سال کےلیے پوری ہوچکی ہے اور ٹرانسمیشن لائنیں تقریباً تعمیر ہوچکی ہیں یا گلیوں کی سطح پر بحال ہوچکی ہیں۔ جی او پی صنعتی زون اور بندرگاہ کے مکمل آپریشن کے بعد پانی کی ضرورت پر کام کررہی ہے۔
سڑکوں کا انفرااسٹرکچر
M-8 سیکشن (آواران) جس کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ کو سی پیک کی مشرقی، وسطی اور مغربی صف بندی کے ذریعے شمال کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ سی پیک روٹس کے مشرقی، وسطی اور مغربی الائنمنٹ کے ذریعے گوادر کا شمال کے ساتھ رابطہ ممکن بنایا جائے گا، جس کے ذریعے گوادر تا رتوڈیرو صرف 23 کلومیٹر ہوگا۔
گوادر ایئرپورٹ
گوادر میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے، جس کے مرکزی ٹرمینل کی عمارت کا 4 ہزار 600 ٹن اسٹیل ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق گوادر میں بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر جون 2023 تک مکمل ہوگی، جبکہ ایئرپورٹ پر ٹیسٹ لینڈنگ اور NGIA کو فعال بنایا گیا ہے۔
گوادر میں ماہی گیری کے مسائل اور وسائل کی فراہمی
گوادر کے ماہی گیروں کو 2000 بوٹ انجنوں کی تقسیم دسمبر 2022 میں کی جاچکی ہے۔ دوسری جانب گوادر میں سندھ کے ماہی گیروں کی غیر قانونی ٹرالنگ ایک بڑا تنازع ہے، تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی معاملہ ہے۔ اس لیے PMSA/ پاکستان نیوی کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔ سندھ کے پاس کراچی میں ماہی گیروں کو محدود کرنے کےلیے کوئی ایکٹ موجود نہیں ہے جبکہ بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری کے پاس وسائل محدود ہیں، کیونکہ صوبائی سمندر بہت بڑا ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کو مسئلے کو حل کرنے کےلیے کہا گیا لیکن دو سال سے ملاقات کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔
غیر قانونی ماہی گیری کےلیے Council of Common Interest یا کسی فورم یا کمیٹی میں اس معاملے کو جلد سے جلد حل کرلیا جائے۔
گوادر میں جاری انسانی ترقی کے اقدامات
گوادر کے نوجوانوں کےلیے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ گوادر یونیورسٹی کے قیام کےلیے 500 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے، جس کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب جنوری یا فروری 2023 میں متوقع ہے۔ گوادر یونیورسٹی کو شنگھائی میری ٹائم یونیورسٹی سے منسلک کیا جائے گا۔ اس میں میری ٹائم سینٹر آف ایکسی لینس بھی بھی بنایا جائے گا۔
گوادر کے ماہی گیروں کو چھت فراہم کرنے کےلیے ماہی گیر کالونی کےلیے 200 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے۔
صحت کے شعبے میں پاک چین فرینڈ شپ اسپتال (PCFH) گوادر 70 بستروں کا اسپتال یہاں کام کررہا ہے۔ جبکہ فیز II میں اس اسپتال کو انڈس اسپتال کے حوالے کرکے اضافی 100 بستر بھی مہیا کیے جائیں گے۔
گوادر کی سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال
گوادر میں اس وقت ضرورت سے زیادہ چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں جبکہ سیکیورٹی کےلیے صرف دو مشترکہ چیک پوسٹس ہیں۔
بارڈر مارکیٹس کا قیام
صوبائی حکومت کو سو فیصد فنڈز بارڈر مارکیٹوں کےلیے گبد، مند اور چیڑھی میں مختص کیے گئے ہیں۔ انہیں M-8 کوسٹل ہائی وے سے جوڑا جائے گا۔ حکومت بلوچستان کی ذمے داری ہے کہ بارڈر مارکیٹس کو جلد سے جلد تعمیر کرے، جس کےلیے ان کو مطلوبہ رقم مل چکی ہے۔
ٹیلی کام سروسز کی صورتحال
گوادر کا ایک مسئلہ خراب ٹیلی کام کنیکٹیویٹی کا بھی ہے، جس کےلیے VBox پہلے سے کام کر رہا ہے اور آپٹیکل فائبر جلد ہی مکمل ہوجائے گا۔
گوادر کے جو بنیادی مسائل ہیں ان کو جلد سے جلد حل کیا جانا چاہیے، جس کےلیے بہت ضروری ہے کہ مقامی سیاستدانوں کے درمیان دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 'گوادر کو حق دو' تحریک گوادر کی توانا آواز بن کر سامنے آئی ہے جبکہ مقامی سیاسی حلقوں میں مولانا ہدایت الرحمٰن کی اکثریت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گوادر میں بلدیاتی الیکشن میں حق دو تحریک کی کامیابی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ تاہم مولانا کو بھی اپنےاحتجاج کو پرامن رکھنا ہوگا اور اپنے مطالبات کو آئین اور قانون کے دائرے میں ہی رکھنا ہوگا۔ ساتھ ہی ان کی جانب سے مستقبل میں ریاستی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف بلوچستان حکومت کو بھی تحمل اور برداشت کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنا چاہیے اور عوام کے جائز مطالبات کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ بلوچستان ویسے ہی دہشت گردی اور پاکستان کے امن دشمنوں کےلیے ایک آسان ٹارگٹ ہے اور ایسے میں باہمی چپقلش کا فائدہ ملک دشمن قوتیں اور عسکریت پسند اٹھائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔