بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال
سراج الدین قاضی کی دو کتابیں
تدریس سے وابستہ افراد تقریر کے تو ماہر ہوتے اور اچھی گفتگو کا ہُنر جانتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ لفظوں کو کاغذ پر سجانے میں بھی مہارت رکھتے ہوں، تاہم ایسے اساتذہ کی بھی کمی نہیں جو گفتار کے ساتھ تحریر کے میدان کے بھی شاہ سوار ہیں۔
سراج الدین قاضی ایک ایسے ہی مدرس ہیں۔ وہ طویل عرصے تک بہ حیثیت استاد ذہنوں کی آبیاری اور سینوں میں علم کی شمعیں روشن کرتے رہے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی زندگی میں بہتری لانے اور ان کے حقوق کے لیے بھی سرگرداں رہے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (سپلا) کے منچ سے بھرپور کردار ادا کیا اور اس تنظیم کی صدارت کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
''آپ/جاب بیتی'' کے دل چسپ عنوان کے تحت شایع ہونے والی ان کی خود نوشت ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے نشیب وفراز کی کہانی سناتی اور ایک استاد کے روزوشب کا احوال ہمارے سامنے لاتی ہے۔
اگرچہ ''فہرست مضامین'' کی سُرخی تلے سراج الدین قاضی کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی ذات سے جُڑے افراد اور واقعات کو الگ الگ عنوان دیے گئے ہیں، لیکن کتاب مضامین، ابواب اور سُرخیوں میں تقسیم ہونے کے بجائے پوری روانی سے ان کی داستان سُناتی چلی جاتی ہے۔
جن مدارج، شخصیات اور واقعات پر عنوانات قائم کیے گئے ہیں وہ فہرست میں دیے گئے نمبر کے صفحے پر آپ کو مل جاتے ہیں۔
سراج الدین قاضی نے 18فروری 1943کو بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر اودے پور میں آنکھ کھولی، اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نئی مملکت میں آبسا۔ اگرچہ تقسیم کے وقت وہ کم سن تھے، تاہم ان کی یادداشت اور بزرگوں سے سنی روایات کی مدد سے ہم غیرمنقسم ہندوستان کے سیاسی وسماجی حالات سے نومولود پاکستان کی ابتدائی صورت حال تک بہت سے حقائق جان پاتے ہیں۔
ان کی کہانی جب شعبۂ تعلیم کے کوچے میں داخل ہوتی ہے تو وہ اس شعبے کا قصہ بھی بن جاتی ہے۔ یہ دل چسپ کتاب ہمیں بہت سی شخصیات، واقعات اور حقائق سے روشناس کرتی ہے۔ 202 صفحات پر پھیلی اس کتاب کو اعزاز پبلی کیشنز، R-77-A رضوان سوسائٹی، مین یونیورسٹی روڈ، کراچی نے شایع کیا ہے اور کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
سراج الدین قاضی کی دوسری زیرتبصرہ کتاب ہے ''مکاتیبِ مولانا ابوالکلام آزاد پر ایک نظر۔'' مولانا ابوالکلام آزاد کی عبقری اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہی اس کتاب کی طرف توجہ مبذول کرادینے کے لیے کافی ہے۔
مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔ وہ نہ صرف بہ طور سیاست داں، صحافی، انشاء پرداز، عالم، مفسر اور مدبر اپنی ولولوں سے بھری زندگی میں اپنی عظمت کا سکہ بٹھائے رہے بلکہ آج ان کی وفات کو ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی شخصیت اور افکار برصغیر پاک وہند کے علمی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں زیربحث رہتے ہیں۔
انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ غلام ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے اور قیدوبند میں گزارا۔ اس اسیری کے ہندوستان اور مولانا کی سیاسی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے، تاہم اس قید کے طفیل ''غبارخاطر'' کی صورت میں علم وخرد اور دل پذیر نثر کا ایک خزانہ ہمارے ہاتھ آگیا۔ خطوط کا یہ مجموعہ عشروں سے پڑھنے والوں کو حیرت اور مسرت وانبساط سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
قلعہ احمد نگر میں 1942تا 1945 قید کے دوران لکھے گئے یہ خطوط دل کش اسلوب، تاریخ، سیاست، شعرادب، موسیقی، مذہب، فلسفہ اور سائنس کے نکات اور جزیات سے مالامال ہیں۔ سراج الدین قاضی نے ان مکاتیب کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی اور شخصیت کی پرتیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔
یوں انھوں نے ہمیں ان خطوط کے آئینے میں مکاتیب نگار کی زندگی اور صفات کے عکس دکھائے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ مولانا آزاد جیسی علمی شخصیت کے کتنے ہی علوم کو چھوکر گزرتے اور تہہ داری لیے ان خطوط کا تجزیہ اور اس روشنی میں مولانا کی شخصیت کا ادراک کرنا ایک محنت طلب فریضہ تھا، جسے سراج الدین قاضی نے بہ خوبی ادا کیا ہے۔
یہ کتاب خاص طور پر مولانا آزاد سے محبت کرنے اور ان کی شخصیت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ 158صفحات پر مشتمل اس کتاب کو بھی اعزاز پبلی کیشن نے شایع کیا ہے، جس کی قیمت 300 روپے ہے۔
ریت سمادھی
مصنفہ: گیتانجلی شری، ترجمہ: انور سِن رائے
ناشر: فہد محمد برائے عکس، لاہور، صفحات: 511، قیمت: 1500روپے
انوکھے اسلوب میں لکھا گیا یہ ناول بھارت کی ادیب گیتانجلی شری کی تخلیق ہے، ہندی میں لکھے گئے اس ناول کے انگریزی ترجمے ''Tomb of sand'' کو 2022 کا بُکر پرائز دیا گیا ہے، جسے ہمارے وطن کے نام ور ادیب اور صحافی انور سن رائے نے اردو کا چولا پہنایا ہے۔
بُکرپرائز حاصل کرنے والے کسی بھی ہندوستانی زبان کے اس پہلے ناول کی خالق گیتاانجلی شری بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر مین پوری سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے اب تک پانچ ناول اور متعدد افسانے سامنے آچکے ہیں، جس کے ساتھ ان کی دیگر تصانیف بھی شایع ہوئی ہیں۔ آٹھ سال کی طویل ذہنی مشقت کے بعد ناول کی صورت پانے والا ''ریت سمادھی'' بڑھاپا جیتی ایک اَسّی سالہ عورت کی کہانی ہے۔
ایک ایسی کتھا جس کے انگ انگ سے کہانیاں پھوٹ رہی ہیں اور جس میں سانس لیتے زندگی کرتے انسانوں کے ساتھ جانور اور بے جان اشیاء بھی جیتے جاگتے کردار کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جن میں سے کچھ کا تذکرہ مصنفہ نے کیا ہے،''اس کہانی میں یہ سبھی کردار ہیں، چیونٹی، ہاتھی، رحم دلی، دروازہ، ماں، چھڑی، گٹھری، بڑے، بیٹی، ریبوک جو بہو پہنتی تھی، اور باقی اور، جن کا ذکر آگے چل کر تبھی ہوگا جب ہوگا۔'' یہاں تک کہ دھوپ بھی ایک کردار کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
ناول کا آغاز ''کہانی خود کو بیان کرے گی'' کی سطر سے ہوتا ہے، اور پھر واقعی کہیں چلبلی، کہیں اداس ہوتی اور کبھی شاعر، کبھی فلسفی کا روپ دھارتی کہانی بڑی روانی سے خود کو بیان کرتی چلی جاتی ہے، لیکن اس روانی میں اتنے بل ہیں کہ چند لفظوں اور ایک سطر سے بھی سرسری گزر جانا قاری کو الجھا سکتا ہے۔
یعنی جس طرح عورت کو پورا مرد درکار ہوتا ہے اسی طرح یہ ناول قاری کی ساری کی ساری توجہ طلب کرتا ہے۔ اس کہانی کا محور ''ماں'' ہے، لیکن اس سے جُڑا ہر کردار جب سامنے آتا ہے تو وہی مرکز نگاہ بن جاتا ہے۔ ناول میں انسانی تعلقات، باہمی رشتوں، اور انسان اور زندگی اور فرد سے کائنات کے تعلق کی کہانی ایک گھر اور کنبے کے اندھیرے اجالے میں لپیٹ کر بڑی چابک دستی سے بیان کی گئی ہے۔
''ریت سمادھی'' کی پڑھنے والے کو خود سے جوڑے رکھنے والی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس کا اہم ترین پہلو وہ اچھوتا بیانیہ اور انوکھی زبان ہے جو اس ناول کو منفرد کردیتی ہے۔ بقول انورسن رائے،''گیتانجلی شری کا ناول اپنے اُسلوب اور لسانی ساخت کے اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا کیوں کہ یہ اردو کی لسانی تشکیل کی نثری تجسیم کرتا ہے۔'' فکشن کے پرستاروں، خصوصاً زبان کے تجربوں سے لطف اندوز ہونے والوں کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔
کتاب پر قیمت درج نہیں، جو سہواً ہوا ہے، انورسن رائے صاحب نے معلوم کرنے پر بتایا کہ کتاب کی قیمت پندرہ سو روپے ہے۔
تدریس سے وابستہ افراد تقریر کے تو ماہر ہوتے اور اچھی گفتگو کا ہُنر جانتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ لفظوں کو کاغذ پر سجانے میں بھی مہارت رکھتے ہوں، تاہم ایسے اساتذہ کی بھی کمی نہیں جو گفتار کے ساتھ تحریر کے میدان کے بھی شاہ سوار ہیں۔
سراج الدین قاضی ایک ایسے ہی مدرس ہیں۔ وہ طویل عرصے تک بہ حیثیت استاد ذہنوں کی آبیاری اور سینوں میں علم کی شمعیں روشن کرتے رہے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی زندگی میں بہتری لانے اور ان کے حقوق کے لیے بھی سرگرداں رہے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (سپلا) کے منچ سے بھرپور کردار ادا کیا اور اس تنظیم کی صدارت کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
''آپ/جاب بیتی'' کے دل چسپ عنوان کے تحت شایع ہونے والی ان کی خود نوشت ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے نشیب وفراز کی کہانی سناتی اور ایک استاد کے روزوشب کا احوال ہمارے سامنے لاتی ہے۔
اگرچہ ''فہرست مضامین'' کی سُرخی تلے سراج الدین قاضی کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی ذات سے جُڑے افراد اور واقعات کو الگ الگ عنوان دیے گئے ہیں، لیکن کتاب مضامین، ابواب اور سُرخیوں میں تقسیم ہونے کے بجائے پوری روانی سے ان کی داستان سُناتی چلی جاتی ہے۔
جن مدارج، شخصیات اور واقعات پر عنوانات قائم کیے گئے ہیں وہ فہرست میں دیے گئے نمبر کے صفحے پر آپ کو مل جاتے ہیں۔
سراج الدین قاضی نے 18فروری 1943کو بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر اودے پور میں آنکھ کھولی، اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نئی مملکت میں آبسا۔ اگرچہ تقسیم کے وقت وہ کم سن تھے، تاہم ان کی یادداشت اور بزرگوں سے سنی روایات کی مدد سے ہم غیرمنقسم ہندوستان کے سیاسی وسماجی حالات سے نومولود پاکستان کی ابتدائی صورت حال تک بہت سے حقائق جان پاتے ہیں۔
ان کی کہانی جب شعبۂ تعلیم کے کوچے میں داخل ہوتی ہے تو وہ اس شعبے کا قصہ بھی بن جاتی ہے۔ یہ دل چسپ کتاب ہمیں بہت سی شخصیات، واقعات اور حقائق سے روشناس کرتی ہے۔ 202 صفحات پر پھیلی اس کتاب کو اعزاز پبلی کیشنز، R-77-A رضوان سوسائٹی، مین یونیورسٹی روڈ، کراچی نے شایع کیا ہے اور کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
سراج الدین قاضی کی دوسری زیرتبصرہ کتاب ہے ''مکاتیبِ مولانا ابوالکلام آزاد پر ایک نظر۔'' مولانا ابوالکلام آزاد کی عبقری اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہی اس کتاب کی طرف توجہ مبذول کرادینے کے لیے کافی ہے۔
مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔ وہ نہ صرف بہ طور سیاست داں، صحافی، انشاء پرداز، عالم، مفسر اور مدبر اپنی ولولوں سے بھری زندگی میں اپنی عظمت کا سکہ بٹھائے رہے بلکہ آج ان کی وفات کو ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی شخصیت اور افکار برصغیر پاک وہند کے علمی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں زیربحث رہتے ہیں۔
انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ غلام ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے اور قیدوبند میں گزارا۔ اس اسیری کے ہندوستان اور مولانا کی سیاسی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے، تاہم اس قید کے طفیل ''غبارخاطر'' کی صورت میں علم وخرد اور دل پذیر نثر کا ایک خزانہ ہمارے ہاتھ آگیا۔ خطوط کا یہ مجموعہ عشروں سے پڑھنے والوں کو حیرت اور مسرت وانبساط سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
قلعہ احمد نگر میں 1942تا 1945 قید کے دوران لکھے گئے یہ خطوط دل کش اسلوب، تاریخ، سیاست، شعرادب، موسیقی، مذہب، فلسفہ اور سائنس کے نکات اور جزیات سے مالامال ہیں۔ سراج الدین قاضی نے ان مکاتیب کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی اور شخصیت کی پرتیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔
یوں انھوں نے ہمیں ان خطوط کے آئینے میں مکاتیب نگار کی زندگی اور صفات کے عکس دکھائے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ مولانا آزاد جیسی علمی شخصیت کے کتنے ہی علوم کو چھوکر گزرتے اور تہہ داری لیے ان خطوط کا تجزیہ اور اس روشنی میں مولانا کی شخصیت کا ادراک کرنا ایک محنت طلب فریضہ تھا، جسے سراج الدین قاضی نے بہ خوبی ادا کیا ہے۔
یہ کتاب خاص طور پر مولانا آزاد سے محبت کرنے اور ان کی شخصیت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ 158صفحات پر مشتمل اس کتاب کو بھی اعزاز پبلی کیشن نے شایع کیا ہے، جس کی قیمت 300 روپے ہے۔
ریت سمادھی
مصنفہ: گیتانجلی شری، ترجمہ: انور سِن رائے
ناشر: فہد محمد برائے عکس، لاہور، صفحات: 511، قیمت: 1500روپے
انوکھے اسلوب میں لکھا گیا یہ ناول بھارت کی ادیب گیتانجلی شری کی تخلیق ہے، ہندی میں لکھے گئے اس ناول کے انگریزی ترجمے ''Tomb of sand'' کو 2022 کا بُکر پرائز دیا گیا ہے، جسے ہمارے وطن کے نام ور ادیب اور صحافی انور سن رائے نے اردو کا چولا پہنایا ہے۔
بُکرپرائز حاصل کرنے والے کسی بھی ہندوستانی زبان کے اس پہلے ناول کی خالق گیتاانجلی شری بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر مین پوری سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے اب تک پانچ ناول اور متعدد افسانے سامنے آچکے ہیں، جس کے ساتھ ان کی دیگر تصانیف بھی شایع ہوئی ہیں۔ آٹھ سال کی طویل ذہنی مشقت کے بعد ناول کی صورت پانے والا ''ریت سمادھی'' بڑھاپا جیتی ایک اَسّی سالہ عورت کی کہانی ہے۔
ایک ایسی کتھا جس کے انگ انگ سے کہانیاں پھوٹ رہی ہیں اور جس میں سانس لیتے زندگی کرتے انسانوں کے ساتھ جانور اور بے جان اشیاء بھی جیتے جاگتے کردار کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جن میں سے کچھ کا تذکرہ مصنفہ نے کیا ہے،''اس کہانی میں یہ سبھی کردار ہیں، چیونٹی، ہاتھی، رحم دلی، دروازہ، ماں، چھڑی، گٹھری، بڑے، بیٹی، ریبوک جو بہو پہنتی تھی، اور باقی اور، جن کا ذکر آگے چل کر تبھی ہوگا جب ہوگا۔'' یہاں تک کہ دھوپ بھی ایک کردار کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
ناول کا آغاز ''کہانی خود کو بیان کرے گی'' کی سطر سے ہوتا ہے، اور پھر واقعی کہیں چلبلی، کہیں اداس ہوتی اور کبھی شاعر، کبھی فلسفی کا روپ دھارتی کہانی بڑی روانی سے خود کو بیان کرتی چلی جاتی ہے، لیکن اس روانی میں اتنے بل ہیں کہ چند لفظوں اور ایک سطر سے بھی سرسری گزر جانا قاری کو الجھا سکتا ہے۔
یعنی جس طرح عورت کو پورا مرد درکار ہوتا ہے اسی طرح یہ ناول قاری کی ساری کی ساری توجہ طلب کرتا ہے۔ اس کہانی کا محور ''ماں'' ہے، لیکن اس سے جُڑا ہر کردار جب سامنے آتا ہے تو وہی مرکز نگاہ بن جاتا ہے۔ ناول میں انسانی تعلقات، باہمی رشتوں، اور انسان اور زندگی اور فرد سے کائنات کے تعلق کی کہانی ایک گھر اور کنبے کے اندھیرے اجالے میں لپیٹ کر بڑی چابک دستی سے بیان کی گئی ہے۔
''ریت سمادھی'' کی پڑھنے والے کو خود سے جوڑے رکھنے والی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس کا اہم ترین پہلو وہ اچھوتا بیانیہ اور انوکھی زبان ہے جو اس ناول کو منفرد کردیتی ہے۔ بقول انورسن رائے،''گیتانجلی شری کا ناول اپنے اُسلوب اور لسانی ساخت کے اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا کیوں کہ یہ اردو کی لسانی تشکیل کی نثری تجسیم کرتا ہے۔'' فکشن کے پرستاروں، خصوصاً زبان کے تجربوں سے لطف اندوز ہونے والوں کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔
کتاب پر قیمت درج نہیں، جو سہواً ہوا ہے، انورسن رائے صاحب نے معلوم کرنے پر بتایا کہ کتاب کی قیمت پندرہ سو روپے ہے۔