آخری نتیجہ
حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے اسے خیالوں کے رنگوں سے بدلا نہیں جاسکتا
قوم کے رہنما جب ملت کے مسائل کا حل ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو انھیں زمینی حقائق، ماضی کے تجربات، مستقبل کے خطرات اور ملک و قوم کی امکانی امیدوں و توقعات کا کماحقہ ادراک ہونا چاہیے۔
حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے اسے خیالوں کے رنگوں سے بدلا نہیں جاسکتا۔ اسباب کی اس دنیا میں صرف حقیقت کو بدلنے ہی سے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ایک ایسا سماج جہاں امتیاز اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو درجات اور مناصب ملتے ہیں وہاں ہم مراعات اور تحفظات کے عنوان پر بحث کر رہے ہیں۔
ایک ایسا نظام جہاں علمی و اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر قوموں کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں ہم احتجاج اور مطالبات کے پوسٹر دیواروں پر چسپاں کرکے کامیابی کے خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں۔
ایک ایسا زمانہ جہاں عالمی ذہن نے سیاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے وہاں ہم عوام کا ذہن بدلے بغیر ہی بیلٹ باکس کے ذریعے اسلامی نظام برآمد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسی آبادی جہاں اختلاف اور شکایت کے گہرے مادی اسباب موجود ہیں، وہاں لفظی جوشیلی تقریروں اور رٹے رٹائے روایتی بیانات کے ذریعے حالات کو درست سمت میں لانے کے دعوے اور وعدے کر رہے ہوں، ایک ایسا معاشرہ جہاں ہم تعلیم، معاشی ترقی، اقتصادی استحکام، انصاف کی فراہمی، باہمی اتحاد و اخوت غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہر لحاظ سے اپنے ہم عصروں میں سب سے پیچھے ہیں وہاں ہم جلسوں، سیمیناروں اور مذاکروں میں سینے چوڑے کرکے ملک کی قسمت بدلنے کے کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایک ایسا ماحول جہاں ہمارے پاس خود اپنے تحفظ کی طاقت نہیں ہے وہاں ہم حریف پر قابو پانے اور اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے دعوے کر رہے ہیں۔
اس قسم کی بے سر و پا باتیں سن سن کر عوام الناس سخت مشکل اور شش و پنج میں ہیں کہ وہ کہاں جائیں، کس کی بات پر اعتبار کریں، کس پر یقین کریں، کس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تاکہ ان کا بھروسہ قائم رہے۔
آج ہم سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ملک کو آج بھی تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ معیشت سے لے کر سیاست تک ملک کے دو اہم ترین شعبے اور ان سے جڑے ادارے اور افراد سب کی کارکردگی کے آگے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ ملک ''ڈی فالٹ'' کی طرف جا رہا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، ڈالر کی عدم دستیابی زبان زد عام ہے۔ سرمایہ کار، تاجر، صنعت کار ہر شعبے کے لوگ متفکر ہیں کہ ان کا اور معیشت کا مستقبل کیا ہوگا، اگر ملک ڈیفالٹ کر گیا تو ان کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔
کیوں کہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط کی تکمیل کے بغیر قرض کی اگلی قسط جاری کرنے پر تیار نہیں۔ باوجود اس کے کہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اس کی تمام شرائط پوری کرنے کو تیار ہیں۔
عالمی ادارے کی طرف سے کوئی واضح دو ٹوک جواب سامنے نہیں آیا۔ دیرینہ دوست چین نے بھی آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی مشکلات کا احساس کرے اور اس کے ساتھ مالی تعاون میں سنجیدہ طرز عمل اختیار کرے۔ المیہ یہ ہے کہ جب تک آئی ایم ایف کی قسط جاری نہیں ہوگی دوست ممالک بھی پاکستان کو مالی تعاون فراہم کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔
شہباز حکومت مسلسل یہ دعوے کر رہی ہے کہ اگرچہ معیشت مشکل صورت حال میں گھر گئی ہے لیکن ہم جلد حالات پر قابو پالیں گے، ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور معیشت جلد مستحکم ہو جائے گی، لیکن ایسا ہوگا کیسے؟
اس حوالے سے شہباز حکومت کے پاس کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ معیشت کی بحالی و استحکام کی ساری امیدیں اور توقعات دوست ممالک کی مالی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول سے وابستہ ہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے وزیر اعظم ٹیکسوں میں اضافے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی آئی ایم ایف کو جو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔
کیا حکمرانوں نے یہ سوچا کہ ان اشیا کی قیمتیں بڑھانے سے قرض تو مل جائے گا لیکن عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ گرانی و مہنگائی اور بے روزگاری و غربت کا جو طوفان آئے گا اس سے کیسے نمٹا جائے گا؟ آج حالت یہ ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا خریدنے کے قابل نہیں۔ آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر اس میں اضافہ ہو رہا ہے، آلو، پیاز، ٹماٹر، گوشت، دودھ، دالیں غرض اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں برق رفتاری سے ہونے والا اضافہ عوام کی زندگی اجیرن کر رہا ہے اور شہباز حکومت بیرونی دنیا کے آگے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بجا طور پر معیشت کو بھی جھٹکے لگے جس سے اربوں ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے اس حوالے سے چار روز پیش تر جنیوا میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران عالمی برادری نے اپنے دست تعاون کو بڑھاتے ہوئے تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے جو ابھی صرف اعلان ہے، لیکن امید کے دیے ضرور روشن ہوئے ہیں۔
جملہ امدادی رقم پاکستان کو ملنے سے معیشت کو کچھ سہارا ملے گا لیکن لازم ہے کہ اس رقم کو سیلاب زدگان پر ہی خرچ کیا جائے وہ آج جس مشکل صورت حال میں زندگی گزار رہے ہیں وہ قابل رحم ہے۔ ان سب کی بحالی ازبس ضروری ہے۔
جہاں تک سیاسی بحران کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم کی حکومت اور واحد اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان نئے الیکشن کے حوالے سے رسہ کشی جاری ہے۔ پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کرکے نئی سیاسی جماعت بنانے تک ایک کشمکش جاری ہے۔
عمران خان کی نااہلی اور نواز شریف کی واپسی سے لے کر ٹیکنوکریٹ کی حکومت بنانے تک ایک نیا کھیل کھیلنے کے تانے بانے بننے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ نہیں معلوم کہ معاشی و سیاسی محاذ پر جنگ کا ''آخری نتیجہ'' کیا ہوگا۔ کیا ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے گا؟ کیا وطن میں 2023 میں سیاسی استحکام آ جائے گا؟
حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے اسے خیالوں کے رنگوں سے بدلا نہیں جاسکتا۔ اسباب کی اس دنیا میں صرف حقیقت کو بدلنے ہی سے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ایک ایسا سماج جہاں امتیاز اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو درجات اور مناصب ملتے ہیں وہاں ہم مراعات اور تحفظات کے عنوان پر بحث کر رہے ہیں۔
ایک ایسا نظام جہاں علمی و اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر قوموں کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں ہم احتجاج اور مطالبات کے پوسٹر دیواروں پر چسپاں کرکے کامیابی کے خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں۔
ایک ایسا زمانہ جہاں عالمی ذہن نے سیاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے وہاں ہم عوام کا ذہن بدلے بغیر ہی بیلٹ باکس کے ذریعے اسلامی نظام برآمد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسی آبادی جہاں اختلاف اور شکایت کے گہرے مادی اسباب موجود ہیں، وہاں لفظی جوشیلی تقریروں اور رٹے رٹائے روایتی بیانات کے ذریعے حالات کو درست سمت میں لانے کے دعوے اور وعدے کر رہے ہوں، ایک ایسا معاشرہ جہاں ہم تعلیم، معاشی ترقی، اقتصادی استحکام، انصاف کی فراہمی، باہمی اتحاد و اخوت غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہر لحاظ سے اپنے ہم عصروں میں سب سے پیچھے ہیں وہاں ہم جلسوں، سیمیناروں اور مذاکروں میں سینے چوڑے کرکے ملک کی قسمت بدلنے کے کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایک ایسا ماحول جہاں ہمارے پاس خود اپنے تحفظ کی طاقت نہیں ہے وہاں ہم حریف پر قابو پانے اور اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے دعوے کر رہے ہیں۔
اس قسم کی بے سر و پا باتیں سن سن کر عوام الناس سخت مشکل اور شش و پنج میں ہیں کہ وہ کہاں جائیں، کس کی بات پر اعتبار کریں، کس پر یقین کریں، کس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تاکہ ان کا بھروسہ قائم رہے۔
آج ہم سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ملک کو آج بھی تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ معیشت سے لے کر سیاست تک ملک کے دو اہم ترین شعبے اور ان سے جڑے ادارے اور افراد سب کی کارکردگی کے آگے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ ملک ''ڈی فالٹ'' کی طرف جا رہا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، ڈالر کی عدم دستیابی زبان زد عام ہے۔ سرمایہ کار، تاجر، صنعت کار ہر شعبے کے لوگ متفکر ہیں کہ ان کا اور معیشت کا مستقبل کیا ہوگا، اگر ملک ڈیفالٹ کر گیا تو ان کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔
کیوں کہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط کی تکمیل کے بغیر قرض کی اگلی قسط جاری کرنے پر تیار نہیں۔ باوجود اس کے کہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اس کی تمام شرائط پوری کرنے کو تیار ہیں۔
عالمی ادارے کی طرف سے کوئی واضح دو ٹوک جواب سامنے نہیں آیا۔ دیرینہ دوست چین نے بھی آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی مشکلات کا احساس کرے اور اس کے ساتھ مالی تعاون میں سنجیدہ طرز عمل اختیار کرے۔ المیہ یہ ہے کہ جب تک آئی ایم ایف کی قسط جاری نہیں ہوگی دوست ممالک بھی پاکستان کو مالی تعاون فراہم کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔
شہباز حکومت مسلسل یہ دعوے کر رہی ہے کہ اگرچہ معیشت مشکل صورت حال میں گھر گئی ہے لیکن ہم جلد حالات پر قابو پالیں گے، ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور معیشت جلد مستحکم ہو جائے گی، لیکن ایسا ہوگا کیسے؟
اس حوالے سے شہباز حکومت کے پاس کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ معیشت کی بحالی و استحکام کی ساری امیدیں اور توقعات دوست ممالک کی مالی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول سے وابستہ ہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے وزیر اعظم ٹیکسوں میں اضافے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی آئی ایم ایف کو جو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔
کیا حکمرانوں نے یہ سوچا کہ ان اشیا کی قیمتیں بڑھانے سے قرض تو مل جائے گا لیکن عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ گرانی و مہنگائی اور بے روزگاری و غربت کا جو طوفان آئے گا اس سے کیسے نمٹا جائے گا؟ آج حالت یہ ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا خریدنے کے قابل نہیں۔ آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر اس میں اضافہ ہو رہا ہے، آلو، پیاز، ٹماٹر، گوشت، دودھ، دالیں غرض اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں برق رفتاری سے ہونے والا اضافہ عوام کی زندگی اجیرن کر رہا ہے اور شہباز حکومت بیرونی دنیا کے آگے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بجا طور پر معیشت کو بھی جھٹکے لگے جس سے اربوں ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے اس حوالے سے چار روز پیش تر جنیوا میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران عالمی برادری نے اپنے دست تعاون کو بڑھاتے ہوئے تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے جو ابھی صرف اعلان ہے، لیکن امید کے دیے ضرور روشن ہوئے ہیں۔
جملہ امدادی رقم پاکستان کو ملنے سے معیشت کو کچھ سہارا ملے گا لیکن لازم ہے کہ اس رقم کو سیلاب زدگان پر ہی خرچ کیا جائے وہ آج جس مشکل صورت حال میں زندگی گزار رہے ہیں وہ قابل رحم ہے۔ ان سب کی بحالی ازبس ضروری ہے۔
جہاں تک سیاسی بحران کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم کی حکومت اور واحد اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان نئے الیکشن کے حوالے سے رسہ کشی جاری ہے۔ پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کرکے نئی سیاسی جماعت بنانے تک ایک کشمکش جاری ہے۔
عمران خان کی نااہلی اور نواز شریف کی واپسی سے لے کر ٹیکنوکریٹ کی حکومت بنانے تک ایک نیا کھیل کھیلنے کے تانے بانے بننے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ نہیں معلوم کہ معاشی و سیاسی محاذ پر جنگ کا ''آخری نتیجہ'' کیا ہوگا۔ کیا ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے گا؟ کیا وطن میں 2023 میں سیاسی استحکام آ جائے گا؟