خود کُشی نہیں بالکل بھی نہیں
نئی نسل کو مشکلات سے نمٹنے کے گُر سکھانا بہت ضروری ہیں
ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرتے ہیں یا کم ہی مدد کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ وہ کون سے موضوعات ہیں جن کے بارے میں نوجوانوں کو زیادہ بات کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔۔۔ ؟
نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نئی نسل کو مشکلات سے نمٹنے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے طریقے، تکلیف دہ تجربات سے باہر نکالنے اور معاشی و معاشرتی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گر سکھانا بہت ضروری ہیں۔
پاکستان کے دیہی و پس ماندہ علاقوں میں بیس سے چالیس سال کی شادی شدہ خواتین میں خودکشی کے رحجانات زیادہ ہیں اس کی اصل وجہ غربت، بے روزگاری، ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں۔ جن جوان عورتوں کے مرد حضرات روزگار کمانے کی خاطر تین چار سال کے قریب گھر سے باہر ہوتے ہیں۔
جس کی وجہ سے گھر میں ان خواتین پر دباؤ ہوتا ہے اور یہ خواتین گھریلو پریشانیوں اور معاشرے کے رسوم و رواج کی بندشوں کی وجہ سے ذہنی کھچاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، جو ان کو اس انتہائی اقدام کی طرف لے جاتا ہے۔
والدین اور بچوں کے درمیان موجودہ جنریشن گیپ کو کم کرنے کے لیے آگاہی سیشنز کا انعقاد کرنے، اسکولوں کالجوں میں ماہرین کے ذریعے آگاہی پروگرام اور مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو خود کشی کے مسئلے کا ادراک کرنا چاہیے۔ بہ حیثیت باپ، ماں، ساس سسر، بہن، بھائی اور شوہر بیوی کسی بھی انسان کو اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک سروے کے مطابق خود کشی کرنے والی خواتین میں اکثریت شادی شدہ نوجوان خواتین کی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے سسرالیوں کا رویہ ایسے انتہائی اقدام کا باعث بنتا ہے۔ کبھی نند، دیور یا ساس کے ناروا سلوک سے تنگ آکر نوجوان نوبیاہتا دلہن موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ تو کہیں بیوی کی ناجائز فرمائشوں ، بے روزگاری سے عاجز ہو کر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان خود کو سولی پر لٹکا لیتا ہے۔
جب بھی بچی یا بچہ غصے میں آکر خودکشی کی دھمکی دیتا ہے تو ایسی حالت میں اس دھمکی کو دھمکی برائے دھمکی کے طور پر ہرگز نہیں لینا چاہییے بل کہ معمولی دھمکی کو بھی سنجیدہ لینا چاہیے اور خصوصاً امتحانات کے دنوں میں والدین کو اپنے حساس مزاج کے بچوں اور بچیوں کی طرف زیادہ فکرمند رہنا چاہیے۔
پاکستان کے روایتی دستور، خاندانی اونچ نیچ، مہنگائی، بے روزگاری اور بے بسی کا احساس بڑھنے کی وجہ سے لوگوں میں جینے کی امنگ کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے رحجان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر افراد غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو کر اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ اکثر عورتیں گھریلو تشدد سے تنگ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔
رواں سال 2022 میں خودکشی کرنے والے افراد میں سے اکثریت یعنی 82 فی صد کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ 58 فی صد خواتین نے اپنی جان لی جن میں 55 فی صد شادی شدہ تھیں۔ مجموعی طور پر 36 فی صد متاثرہ افراد نے دریائے چترال میں ڈوب کر اپنی جانیں لے لیں جن میں اکثریت یعنی 77 فی صد خواتین شامل ہیں۔
28 فی صد متاثرہ افراد نے خود کو گولی سے اڑا دیا جن میں85 فی صد شرح لڑکوں کی ہے۔ مرنے والوں میں سے باقی نے زہر کھا کر یا پھر گلے میں پھندا ڈال کر خود کو ہلاک کیا۔
''سوشل میڈیا بہ مقابلہ حقیقت'' سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا اثر انسان کی ذہنی صحت پر ہو سکتا ہے۔
یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ وقت ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم تنہائی محسوس کر سکتے ہیں اور اداسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا انسان کے اصل احساسات کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔
اس تحقیق کی مصنف ملیساہنٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا عام طور پر معمول سے کم استعمال آپ کو تنہائی اور ڈپریشن میں کمی کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ نتائج اور اثرات بطور خاص ان لوگوں کے بارے میں بتائے گئے جو اس تحقیق کا حصہ بنے اور بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار تھے۔
لیکن سوشل میڈیا خطرناک بھی ہو سکتا ہے! مشی گن یونی ورسٹی میں علم نفسیات کے پروفیسر اوسکر یبارا کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو ہوتا ہے وہ کم ہی اصل زندگی کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ ہم اس میں مدد نہیں کر سکتے لیکن موازنہ کر سکتے ہیں۔
تنہائی (Loneliness) کے بارے میں اپنی نوعیت کے پہلے سروے کے مطابق 16سے 24 برس کی عمر کے نوجوان تنہائی محسوس کرتے ہیں۔
مردوں کے لیے تنہائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ جب تنہائی بیماری کی حد تک بڑھ جائے تو یہ جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ آپ کے رویے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بہت سی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رونے کے عمل سے ناصرف انسان ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے ہم دردی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں اور سماجی تعلقات میں مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات چپک گئی ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے۔ برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 18سے24 برس کی عمر کے لڑکے یہ سوچتے ہیں کہ رونا مردانگی کی کمی کا عکاس ہے۔
آسٹریلیا میں خودکشی کو روکنے اور ایسے رجحانات رکھنے والوں کی مدد کرنے کے لیے امدادی ادارے، لائف لائن کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ''کولمن اوڈرسکول'' کہتے ہیں کہ ہم لڑکوں کو بہت چھوٹی عمر سے سکھاتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنا کم زوری کی علامت ہے۔ جب کہ ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک فی صد بیروزگاری بڑھنے سے خودکشی کی شرح میں اعشاریہ سات نو فی صد اضافہ ہوتا ہے۔
جو بندہ خودکشی کر لے اس کے لیے کیا سزا ہے۔۔۔ ؟ اور کیا وہ جنّت میں جاسکتا ہے، اس کا یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے؟ اور خودکشی کی آخرت میں سزا کیا ہے۔۔۔؟
ہر انسان کی روح اﷲ تعالی کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا، اس وجہ سے خودکشی کرنا اﷲ تعالی کی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اسلام میں حرام ہے اور یہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔
خودکشی کرنے والے کی سزا کے بارے میں مذکور ہے ایسے شخص کو اس طرح سزا دی جائے گی جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہوگا، جیسے کہ مذکورہ بالا حدیثِ شریف میں خودکشی کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایا اور قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم کی آگ میں زہر ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہمیشہ پیتا رہے گا، اور جس نے کس لوہے کے ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور ہمیشہ وہ اسے جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔''
لہذا اب اگر کوئی شخص خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تب تو ہمیشہ اس کی یہ سزا ہوگی، اور اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کو مباح سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے کہ اﷲ تعالی اس کو اپنے فضل سے جب چاہے معاف کر کے جنّت میں داخل کر دے۔
عام مثل مشہور ہے کہ جہاں چار برتن ہوں گے وہ کھڑکیں گے ضرور۔ دو انسانوں کے درمیان مکمل، صد فی صد ذہنی ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔ یہ عمومی سی بات ہے کہ ہر شخص کی سوچ، مقاصد، نظری و ضابطۂ حیات، زندگی برتنے اور اسے گزارنے کے اصول مختلف ہوتے ہیں۔
ایک ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے یا ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد کے مزاجوں میں کتنی ہم آہنگی کیوں نہ موجود ہو، لیکن کبھی نہ کبھی کوئی ایسی بات ضرور وجود میں آ جاتی ہے جس میں کسی ایک کی اختلافی رائے موجود ہو۔
ایسی نازک و حساس صورت میں مخالف فریق کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہر شخص کو مکمل طور پر اظہار رائے کا حق ہونا چاہیے۔ معاشرے کو اجتماعی اور ہمیں انفرادی طور پر اپنی غلطیوں پر نظرِثانی کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں، خامیوں کا اعتراف کرنے اور انہیں سدھارنے میں کوئی جھجھک یا عار محسوس نہیں ہونی چاہیے۔
یہی عظیم انسانوں کا شیوہ ہے۔ بعض والدین اپنے اختلاف و جھگڑوں میں بلاوجہ اپنی اولاد کو گھسیٹتے ہیں، انہیں اپنے سرد و ترش رویوں سے زچ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اکثر گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے کان میں باپ یا ددھیال کے خلاف زہر اگل رہی ہیں یا والد صاحب موقع ملتے ہی اولاد کو اس کی ماں یا ننھیال کے خلاف بھڑکانے سے باز نہیں رہتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آپ کس کا خون زہر آلود کر رہے ہیں؟ آپ تو لڑ بھڑ کے پھر مفاہمت کر لیں گے مگر اس جنگ میں آپ کے بچے تنہا رہ کر اپنی جان کی بازی ہار جائیں گے۔
لڑائی جھگڑے، تنازعات و اختلافات کس گھر میں نہیں ہوتے لیکن کام یاب وہی لوگ ہیں جو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکالتے بل کہ گھر کی چار دیواری میں ہی ہر اٹھنے والے جھگڑے کو دفن کردیتے ہیں۔ گھریلو معاملات خراب ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کو بولنے کا موقع دینا چاہیے۔
مثبت سوچ اور مناسب و بروقت الفاظ کا درست چناؤ بڑی سی بڑی ٹینشن اور مسئلے کو چٹکیوں میں حل کرنے میں بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ حالات کے دباؤ میں آکر اپنی جان لینے کے بہ جائے اپنی پریشانیوں کے خاتمے کے لیے خالق حقیقی اﷲ رب العالمین سے مدد طلب کریں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل دریافت کریں۔ اپنے دل دماغ اور روح کو تر و تازہ رکھنے کی کوشش کریں اور خودکشی جیسے قبیح فعل سے کوسوں دور رہیں۔
نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور نئی نسل کو مشکلات سے نمٹنے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے طریقے، تکلیف دہ تجربات سے باہر نکالنے اور معاشی و معاشرتی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گر سکھانا بہت ضروری ہیں۔
پاکستان کے دیہی و پس ماندہ علاقوں میں بیس سے چالیس سال کی شادی شدہ خواتین میں خودکشی کے رحجانات زیادہ ہیں اس کی اصل وجہ غربت، بے روزگاری، ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں۔ جن جوان عورتوں کے مرد حضرات روزگار کمانے کی خاطر تین چار سال کے قریب گھر سے باہر ہوتے ہیں۔
جس کی وجہ سے گھر میں ان خواتین پر دباؤ ہوتا ہے اور یہ خواتین گھریلو پریشانیوں اور معاشرے کے رسوم و رواج کی بندشوں کی وجہ سے ذہنی کھچاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، جو ان کو اس انتہائی اقدام کی طرف لے جاتا ہے۔
والدین اور بچوں کے درمیان موجودہ جنریشن گیپ کو کم کرنے کے لیے آگاہی سیشنز کا انعقاد کرنے، اسکولوں کالجوں میں ماہرین کے ذریعے آگاہی پروگرام اور مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو خود کشی کے مسئلے کا ادراک کرنا چاہیے۔ بہ حیثیت باپ، ماں، ساس سسر، بہن، بھائی اور شوہر بیوی کسی بھی انسان کو اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک سروے کے مطابق خود کشی کرنے والی خواتین میں اکثریت شادی شدہ نوجوان خواتین کی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے سسرالیوں کا رویہ ایسے انتہائی اقدام کا باعث بنتا ہے۔ کبھی نند، دیور یا ساس کے ناروا سلوک سے تنگ آکر نوجوان نوبیاہتا دلہن موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ تو کہیں بیوی کی ناجائز فرمائشوں ، بے روزگاری سے عاجز ہو کر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان خود کو سولی پر لٹکا لیتا ہے۔
جب بھی بچی یا بچہ غصے میں آکر خودکشی کی دھمکی دیتا ہے تو ایسی حالت میں اس دھمکی کو دھمکی برائے دھمکی کے طور پر ہرگز نہیں لینا چاہییے بل کہ معمولی دھمکی کو بھی سنجیدہ لینا چاہیے اور خصوصاً امتحانات کے دنوں میں والدین کو اپنے حساس مزاج کے بچوں اور بچیوں کی طرف زیادہ فکرمند رہنا چاہیے۔
پاکستان کے روایتی دستور، خاندانی اونچ نیچ، مہنگائی، بے روزگاری اور بے بسی کا احساس بڑھنے کی وجہ سے لوگوں میں جینے کی امنگ کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے رحجان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر افراد غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو کر اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ اکثر عورتیں گھریلو تشدد سے تنگ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔
رواں سال 2022 میں خودکشی کرنے والے افراد میں سے اکثریت یعنی 82 فی صد کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ 58 فی صد خواتین نے اپنی جان لی جن میں 55 فی صد شادی شدہ تھیں۔ مجموعی طور پر 36 فی صد متاثرہ افراد نے دریائے چترال میں ڈوب کر اپنی جانیں لے لیں جن میں اکثریت یعنی 77 فی صد خواتین شامل ہیں۔
28 فی صد متاثرہ افراد نے خود کو گولی سے اڑا دیا جن میں85 فی صد شرح لڑکوں کی ہے۔ مرنے والوں میں سے باقی نے زہر کھا کر یا پھر گلے میں پھندا ڈال کر خود کو ہلاک کیا۔
''سوشل میڈیا بہ مقابلہ حقیقت'' سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا اثر انسان کی ذہنی صحت پر ہو سکتا ہے۔
یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ وقت ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم تنہائی محسوس کر سکتے ہیں اور اداسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا انسان کے اصل احساسات کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔
اس تحقیق کی مصنف ملیساہنٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا عام طور پر معمول سے کم استعمال آپ کو تنہائی اور ڈپریشن میں کمی کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ نتائج اور اثرات بطور خاص ان لوگوں کے بارے میں بتائے گئے جو اس تحقیق کا حصہ بنے اور بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار تھے۔
لیکن سوشل میڈیا خطرناک بھی ہو سکتا ہے! مشی گن یونی ورسٹی میں علم نفسیات کے پروفیسر اوسکر یبارا کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو ہوتا ہے وہ کم ہی اصل زندگی کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ ہم اس میں مدد نہیں کر سکتے لیکن موازنہ کر سکتے ہیں۔
تنہائی (Loneliness) کے بارے میں اپنی نوعیت کے پہلے سروے کے مطابق 16سے 24 برس کی عمر کے نوجوان تنہائی محسوس کرتے ہیں۔
مردوں کے لیے تنہائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ جب تنہائی بیماری کی حد تک بڑھ جائے تو یہ جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ آپ کے رویے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بہت سی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رونے کے عمل سے ناصرف انسان ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے ہم دردی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں اور سماجی تعلقات میں مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات چپک گئی ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے۔ برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 18سے24 برس کی عمر کے لڑکے یہ سوچتے ہیں کہ رونا مردانگی کی کمی کا عکاس ہے۔
آسٹریلیا میں خودکشی کو روکنے اور ایسے رجحانات رکھنے والوں کی مدد کرنے کے لیے امدادی ادارے، لائف لائن کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ''کولمن اوڈرسکول'' کہتے ہیں کہ ہم لڑکوں کو بہت چھوٹی عمر سے سکھاتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنا کم زوری کی علامت ہے۔ جب کہ ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک فی صد بیروزگاری بڑھنے سے خودکشی کی شرح میں اعشاریہ سات نو فی صد اضافہ ہوتا ہے۔
جو بندہ خودکشی کر لے اس کے لیے کیا سزا ہے۔۔۔ ؟ اور کیا وہ جنّت میں جاسکتا ہے، اس کا یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے؟ اور خودکشی کی آخرت میں سزا کیا ہے۔۔۔؟
ہر انسان کی روح اﷲ تعالی کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا، اس وجہ سے خودکشی کرنا اﷲ تعالی کی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اسلام میں حرام ہے اور یہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔
خودکشی کرنے والے کی سزا کے بارے میں مذکور ہے ایسے شخص کو اس طرح سزا دی جائے گی جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہوگا، جیسے کہ مذکورہ بالا حدیثِ شریف میں خودکشی کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایا اور قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم کی آگ میں زہر ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہمیشہ پیتا رہے گا، اور جس نے کس لوہے کے ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور ہمیشہ وہ اسے جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔''
لہذا اب اگر کوئی شخص خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تب تو ہمیشہ اس کی یہ سزا ہوگی، اور اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کو مباح سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے کہ اﷲ تعالی اس کو اپنے فضل سے جب چاہے معاف کر کے جنّت میں داخل کر دے۔
عام مثل مشہور ہے کہ جہاں چار برتن ہوں گے وہ کھڑکیں گے ضرور۔ دو انسانوں کے درمیان مکمل، صد فی صد ذہنی ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔ یہ عمومی سی بات ہے کہ ہر شخص کی سوچ، مقاصد، نظری و ضابطۂ حیات، زندگی برتنے اور اسے گزارنے کے اصول مختلف ہوتے ہیں۔
ایک ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے یا ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد کے مزاجوں میں کتنی ہم آہنگی کیوں نہ موجود ہو، لیکن کبھی نہ کبھی کوئی ایسی بات ضرور وجود میں آ جاتی ہے جس میں کسی ایک کی اختلافی رائے موجود ہو۔
ایسی نازک و حساس صورت میں مخالف فریق کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہر شخص کو مکمل طور پر اظہار رائے کا حق ہونا چاہیے۔ معاشرے کو اجتماعی اور ہمیں انفرادی طور پر اپنی غلطیوں پر نظرِثانی کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں، خامیوں کا اعتراف کرنے اور انہیں سدھارنے میں کوئی جھجھک یا عار محسوس نہیں ہونی چاہیے۔
یہی عظیم انسانوں کا شیوہ ہے۔ بعض والدین اپنے اختلاف و جھگڑوں میں بلاوجہ اپنی اولاد کو گھسیٹتے ہیں، انہیں اپنے سرد و ترش رویوں سے زچ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اکثر گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے کان میں باپ یا ددھیال کے خلاف زہر اگل رہی ہیں یا والد صاحب موقع ملتے ہی اولاد کو اس کی ماں یا ننھیال کے خلاف بھڑکانے سے باز نہیں رہتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آپ کس کا خون زہر آلود کر رہے ہیں؟ آپ تو لڑ بھڑ کے پھر مفاہمت کر لیں گے مگر اس جنگ میں آپ کے بچے تنہا رہ کر اپنی جان کی بازی ہار جائیں گے۔
لڑائی جھگڑے، تنازعات و اختلافات کس گھر میں نہیں ہوتے لیکن کام یاب وہی لوگ ہیں جو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکالتے بل کہ گھر کی چار دیواری میں ہی ہر اٹھنے والے جھگڑے کو دفن کردیتے ہیں۔ گھریلو معاملات خراب ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کو بولنے کا موقع دینا چاہیے۔
مثبت سوچ اور مناسب و بروقت الفاظ کا درست چناؤ بڑی سی بڑی ٹینشن اور مسئلے کو چٹکیوں میں حل کرنے میں بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ حالات کے دباؤ میں آکر اپنی جان لینے کے بہ جائے اپنی پریشانیوں کے خاتمے کے لیے خالق حقیقی اﷲ رب العالمین سے مدد طلب کریں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل دریافت کریں۔ اپنے دل دماغ اور روح کو تر و تازہ رکھنے کی کوشش کریں اور خودکشی جیسے قبیح فعل سے کوسوں دور رہیں۔