آنکھوں دیکھی یادیں
’’کار موڑو اور واپس نکل جاؤ یہ جلوس والے تمہارے والد کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔‘‘
صدر ایوب کے دور حکومت کے آخری دنوں کی بات ہے راولپنڈی کے صدر بازار میں جلوس کے شرکاء گالیوں کے ساتھ ایوب خان کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔ ان کے آگے پولیس گارد تھی اور پیچھے پولیس فورس کے ہمراہ پولیس جیپ تھی جس میں ڈی ایس پی اور علاقہ مجسٹریٹ بیٹھے تھے۔ سب کی رفتار نہایت آہستہ تھی۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ جیپ کے دروازے کی طرف بیٹھا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ ایک موٹرکار کچھ دیر سے جیپ کے برابر بائیں جانب چل رہی ہے۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو کار کی پچھلی سیٹ پر اسے اپنا دوست شوکت ایوب بیٹھا نظر آیا جو اسے مخاطب کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کار کے دروازے کا شیشہ نیچے کر کے پوچھا ''یہ جلوس کیسا ہے۔'' ڈیوٹی مجسٹریٹ نے گھبرا کر بازو گھماتے ہوئے اسے پیچھے مڑ جانے کا اشارہ کیا۔ شوکت ایوب نہ سمجھ سکا تو اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا ''کار موڑو اور واپس نکل جاؤ یہ جلوس والے تمہارے والد کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔''
اسلام آباد ایئرپورٹ جسے ان دنوں چکلالہ ایئرپورٹ کہا جاتا تھا وزیر اعظم کو خوش آمدید کہنے کا منتظر تھا۔ اس کے داخلے کے سب رستوں پر لوگوں کا ہجوم نظریں آسمان کی طرف اٹھائے جہاز کی تلاش میں بیٹھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو چین کے دورے کے بعد واپس آ رہے تھے۔ انتظامیہ' پولیس کے افسر اور جوان چوکس و چوبند کھڑے تھے جب کہ عوام جوش جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے۔ سرخ قالین کے پیچھے کھڑے سرکاری و غیرسرکاری اہم استقبالی لوگ قطار سیدھی کر رہے تھے۔ وی آئی پی لاؤنج میں سینئر وزیر جے اے رحیم کرسی پر بیٹھے ایک کتاب کے مطالعے میں گم تھے۔ ہوائی جہاز کے اترنے کا وقت قریب تھا۔ اس وقت کی سیاست کے دو اہم ستون حفیظ الدین پیرزادہ اور غلام مصطفیٰ کھر لاؤنج میں داخل ہوئے اور جے اے رحیم کے سامنے بالکل قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ خاموشی سے کچھ دیر اسی طرح کھڑے رہے۔ رحیم صاحب نے جب کتاب کا صفحہ پورا پڑھ لیا تو اسے الٹنے کے بعد آہستگی سے نظریں اٹھا کر دونوں وزراء کی طرف سرسری نظر سے دیکھا۔ ان کے سلام کا جواب گردن ہلا کر دیا اور دوبارہ کتاب پر نظریں جما لیں۔ دونوں وزراء استقبالی قطار میں کھڑے ہونے کے لیے لاؤنج میں سے نکل گئے۔ جہاز نے زمین کو چھوا تو ایک افسر نے رحیم صاحب کو اطلاع دی اور وہ بھی کتاب کوٹ کی جیب میں ڈال کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد یہی جے اے رحیم وزیر اعظم بھٹو کے پابندی وقت ملحوظ نہ رکھنے پر ریمارکس دینے اور ایک میٹنگ میں شمولیت کے بغیر کمیٹی روم سے واپس چلے جانے کی سزا کے طور پر پولیس کے جونیئر افسروں کے ٹھڈے اور ڈنڈے کھا کر زخموں کے علاج کے لیے اسپتال میں دیکھے گئے۔ ایک اولین ساتھی قابل ڈپلومیٹ' سینئر وزیر' اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت اور قابل احترام بزرگ کا ایسا انجام ناقابل فراموش ہی نہیں افسوس ناک واقعہ تھا۔
راولپنڈی کے معروف ہوٹل میں بھٹو صاحب کے ایک اے ڈی سی مسٹر راٹھور کا ولیمہ تھا۔ سبھی مہمان آ چکے تھے۔ صرف بھٹو صاحب کا انتظار تھا۔ ہوٹل کے ہال کے ایک کونے میں آٹھ دس اہم مرکزی وزراء دائرہ میں کھڑے گپ شپ کر رہے تھے۔ ان کے درمیان سب کی توجہ کا مرکز شخص نور محمد مغل تھا۔ اسی دوران کاریڈور کی طرف سے بھٹو تشریف لے آئے۔ انھوں نے دائرے میں کھڑے وزراء کی طرف دیکھا۔ سب نے بازو باندھ کر آداب کیا لیکن پہلا جملہ جو انھوں نے ڈانٹ اور محبت کے انداز میں ادا کیا وہ نور محمد کو مخاطب کر کے تھا ''او نورا کیا کر رہے ہو۔'' اور نورا خم کھا کر ''جی سائیں'' کہتا ہوا ایک طرف کو سرک گیا۔ تمام حاضرین کو اندازہ ہو گیا کہ ہال کے اندر سب سے اہم شخصیت کون سی ہے۔
معروف افسانہ نویس شفیق الرحمن کی بیگم گورنمنٹ ویمن کالج راولپنڈی کی وائس پرنسپل تھیں۔ کالج کا ہال خواتین کا پولنگ اسٹیشن تھا۔ میں پولنگ اسٹیشن کا راؤنڈ کر کے عقبی دروازہ سے نکل رہا تھا کہ ادھر سے دو مرد اندر داخل ہوتے دیکھے۔ انھیں روک کر پوچھا ''یہ زنانہ پولنگ اسٹیشن ہے' آپ کہاں اندر گھسے چلے آ رہے ہیں۔'' سیاہ کوٹ والے صاحب بولے ''آپ بھی مرد ہیں اور یہاں موجود ہیں۔'' جواب دیا ''میں تو ڈیوٹی پر ہوں۔'' انھوں نے کہا ''مجھے بھی ڈیوٹی کرنے کی اجازت دیں۔'' اب میں نے انھیں پہچان لیا۔ وہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنے پرائیویٹ سیکریٹری سے مخاطب ہو کر کہا ''میں مطمئن ہوں ڈیوٹی افسر کے بارے میں میرے ریمارکس لکھو۔'' میں نے اصرار کر کے انھیں پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرایا۔
ضمنی انتخابات میں اگر کوئی سرکاری پارٹی سے باہر کا امیدوار جیت جائے تو وہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایسے معجزے البتہ نہ کبھی ہوتے دیکھے نہ شاید ہونے کا امکان ہے۔ گوجرانوالہ میں ہمارے باس چوہدری صاحب کو جب ع م د کو ضمنی انتخاب میں ہر صورت کامیاب کروانے کا حکم ملا تو انھوں نے بھی ہدایات جاری کر دیں کہ یا تو کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی تاریخ سے پہلے دوسرے تمام امیدواروں کو اٹھا لیا جائے یا انھیں اس روز کچہری میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کسی ممکنہ امیدوار کو چھوڑئیے میں کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے دن اپنی سرکاری گاڑی کی بجائے اے ڈی سی (جی) انڈر ٹریننگ کرنل (ر) محمد اصغر کی کار میں ڈیوٹی پر کچہری پہنچا تو تھانیدار نے ہمیں ناکے پر روک لیا۔ بلامقابلہ کامیابی کے اگلے روز ایم این اے ع م د صاحب سفید شلوار قمیص اور سیاہ واسکٹ پہنے اپنے سپورٹروں کے ہمراہ مجسٹریٹوں کی حاضری چیک کرنے کچہری کے برآمدوں میں گھومتے پائے گئے۔ کرنل محمد اصغر جو ازاں بعد کمشنر اور سیکریٹری بھی بن گئے تھے میرے کمرے میں آئے اور بتایا کہ ہمارا بلامقابلہ ممبر اسمبلی ابھی ابھی ان کی حاضری چیک کرنے آیا تھا۔
اسلام آباد ایئرپورٹ جسے ان دنوں چکلالہ ایئرپورٹ کہا جاتا تھا وزیر اعظم کو خوش آمدید کہنے کا منتظر تھا۔ اس کے داخلے کے سب رستوں پر لوگوں کا ہجوم نظریں آسمان کی طرف اٹھائے جہاز کی تلاش میں بیٹھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو چین کے دورے کے بعد واپس آ رہے تھے۔ انتظامیہ' پولیس کے افسر اور جوان چوکس و چوبند کھڑے تھے جب کہ عوام جوش جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے۔ سرخ قالین کے پیچھے کھڑے سرکاری و غیرسرکاری اہم استقبالی لوگ قطار سیدھی کر رہے تھے۔ وی آئی پی لاؤنج میں سینئر وزیر جے اے رحیم کرسی پر بیٹھے ایک کتاب کے مطالعے میں گم تھے۔ ہوائی جہاز کے اترنے کا وقت قریب تھا۔ اس وقت کی سیاست کے دو اہم ستون حفیظ الدین پیرزادہ اور غلام مصطفیٰ کھر لاؤنج میں داخل ہوئے اور جے اے رحیم کے سامنے بالکل قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ خاموشی سے کچھ دیر اسی طرح کھڑے رہے۔ رحیم صاحب نے جب کتاب کا صفحہ پورا پڑھ لیا تو اسے الٹنے کے بعد آہستگی سے نظریں اٹھا کر دونوں وزراء کی طرف سرسری نظر سے دیکھا۔ ان کے سلام کا جواب گردن ہلا کر دیا اور دوبارہ کتاب پر نظریں جما لیں۔ دونوں وزراء استقبالی قطار میں کھڑے ہونے کے لیے لاؤنج میں سے نکل گئے۔ جہاز نے زمین کو چھوا تو ایک افسر نے رحیم صاحب کو اطلاع دی اور وہ بھی کتاب کوٹ کی جیب میں ڈال کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد یہی جے اے رحیم وزیر اعظم بھٹو کے پابندی وقت ملحوظ نہ رکھنے پر ریمارکس دینے اور ایک میٹنگ میں شمولیت کے بغیر کمیٹی روم سے واپس چلے جانے کی سزا کے طور پر پولیس کے جونیئر افسروں کے ٹھڈے اور ڈنڈے کھا کر زخموں کے علاج کے لیے اسپتال میں دیکھے گئے۔ ایک اولین ساتھی قابل ڈپلومیٹ' سینئر وزیر' اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت اور قابل احترام بزرگ کا ایسا انجام ناقابل فراموش ہی نہیں افسوس ناک واقعہ تھا۔
راولپنڈی کے معروف ہوٹل میں بھٹو صاحب کے ایک اے ڈی سی مسٹر راٹھور کا ولیمہ تھا۔ سبھی مہمان آ چکے تھے۔ صرف بھٹو صاحب کا انتظار تھا۔ ہوٹل کے ہال کے ایک کونے میں آٹھ دس اہم مرکزی وزراء دائرہ میں کھڑے گپ شپ کر رہے تھے۔ ان کے درمیان سب کی توجہ کا مرکز شخص نور محمد مغل تھا۔ اسی دوران کاریڈور کی طرف سے بھٹو تشریف لے آئے۔ انھوں نے دائرے میں کھڑے وزراء کی طرف دیکھا۔ سب نے بازو باندھ کر آداب کیا لیکن پہلا جملہ جو انھوں نے ڈانٹ اور محبت کے انداز میں ادا کیا وہ نور محمد کو مخاطب کر کے تھا ''او نورا کیا کر رہے ہو۔'' اور نورا خم کھا کر ''جی سائیں'' کہتا ہوا ایک طرف کو سرک گیا۔ تمام حاضرین کو اندازہ ہو گیا کہ ہال کے اندر سب سے اہم شخصیت کون سی ہے۔
معروف افسانہ نویس شفیق الرحمن کی بیگم گورنمنٹ ویمن کالج راولپنڈی کی وائس پرنسپل تھیں۔ کالج کا ہال خواتین کا پولنگ اسٹیشن تھا۔ میں پولنگ اسٹیشن کا راؤنڈ کر کے عقبی دروازہ سے نکل رہا تھا کہ ادھر سے دو مرد اندر داخل ہوتے دیکھے۔ انھیں روک کر پوچھا ''یہ زنانہ پولنگ اسٹیشن ہے' آپ کہاں اندر گھسے چلے آ رہے ہیں۔'' سیاہ کوٹ والے صاحب بولے ''آپ بھی مرد ہیں اور یہاں موجود ہیں۔'' جواب دیا ''میں تو ڈیوٹی پر ہوں۔'' انھوں نے کہا ''مجھے بھی ڈیوٹی کرنے کی اجازت دیں۔'' اب میں نے انھیں پہچان لیا۔ وہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنے پرائیویٹ سیکریٹری سے مخاطب ہو کر کہا ''میں مطمئن ہوں ڈیوٹی افسر کے بارے میں میرے ریمارکس لکھو۔'' میں نے اصرار کر کے انھیں پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرایا۔
ضمنی انتخابات میں اگر کوئی سرکاری پارٹی سے باہر کا امیدوار جیت جائے تو وہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایسے معجزے البتہ نہ کبھی ہوتے دیکھے نہ شاید ہونے کا امکان ہے۔ گوجرانوالہ میں ہمارے باس چوہدری صاحب کو جب ع م د کو ضمنی انتخاب میں ہر صورت کامیاب کروانے کا حکم ملا تو انھوں نے بھی ہدایات جاری کر دیں کہ یا تو کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی تاریخ سے پہلے دوسرے تمام امیدواروں کو اٹھا لیا جائے یا انھیں اس روز کچہری میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کسی ممکنہ امیدوار کو چھوڑئیے میں کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے دن اپنی سرکاری گاڑی کی بجائے اے ڈی سی (جی) انڈر ٹریننگ کرنل (ر) محمد اصغر کی کار میں ڈیوٹی پر کچہری پہنچا تو تھانیدار نے ہمیں ناکے پر روک لیا۔ بلامقابلہ کامیابی کے اگلے روز ایم این اے ع م د صاحب سفید شلوار قمیص اور سیاہ واسکٹ پہنے اپنے سپورٹروں کے ہمراہ مجسٹریٹوں کی حاضری چیک کرنے کچہری کے برآمدوں میں گھومتے پائے گئے۔ کرنل محمد اصغر جو ازاں بعد کمشنر اور سیکریٹری بھی بن گئے تھے میرے کمرے میں آئے اور بتایا کہ ہمارا بلامقابلہ ممبر اسمبلی ابھی ابھی ان کی حاضری چیک کرنے آیا تھا۔