عالمی امداد اور شفافیت

پاکستان میں کئی فلاحی تنظیمیں ایسی ہیں جوکہ سستے داموں مکانات تعمیرکر رہی ہیں اور متاثرہ افراد کے حوالے کر رہی ہیں

حساب کتاب چیک کیا جا رہا تھا، کچھ لکھا جا رہا تھا، کچھ دیکھا جا رہا تھا ، کچھ پڑھا جا رہا تھا۔ ایک ایک دینار و درھم کا حساب ، ایک ایک پائی کا حساب چیک کر ہی رہے تھے کہ قدموں کی آہٹ آئی، دیکھا تو مدتوں بعد ایک دوست کی آمد ہوئی۔

استقبال کے لیے کھڑے ہونا چاہتے تھے کہ اچانک یہ کیا ہوا؟ جھکتے ہوئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے چراغ کو ذرا قریب لائے اور پھونک مار کر بجھا دیا۔ مہمان سے بڑے پرتپاک طریقے سے ملے۔ مہمان بھی حیرت زدہ نہ تھا۔ اس کی پیشانی پر کوئی شکن بھی نہ تھی۔ دونوں مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے۔

بڑی گرم جوشی سے ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کر رہے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ امیرالمومنین جب سلطنت اسلامیہ کے خزانے، وہاں کے آمدن و خرچ کہاں کہاں ،کیسے کیسے کتنی کتنی رقم خرچ کی گئی۔

ایک ایک پائی جو خرچ کی گئی اس کی شفافیت، بالکل صحیح صحیح طور پر خرچ کرنے اور آمدن کے حساب کتاب کو سرکاری خزانے سے خریدی گئی چراغ اور تیل کی روشنی میں حساب کتاب چیک کر رہے تھے کہ اب مہمان کی آمد اس سے ملاقات اور اس میں کچھ وقت صرف کرنے کی خاطر بیت المال کی طرف سے فراہم کردہ اس چراغ سے ذاتی فائدہ اٹھانا خلیفۃالمسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز کو گوارا نہ تھا۔ جب ہی تو آپ تمام اخراجات میں شفافیت لا سکتے تھے۔

ان کے ڈھائی سالہ دور میں ایک ایک پیسہ شفاف طریقے سے خرچ ہوا ، تب کہیں جا کر ان کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں ہی وہ لوگ جو پہلے زکوٰۃ کے حق دار تھے اب صاحب زکوٰۃ بن گئے، اب زکوٰۃ ادا کرنے والے بن گئے۔

کسی ریاست کی فلاحی کامیابی اسی میں ہے کہ ایک ایک پائی شفاف طریقے سے خرچ کی جائے اور یہی یاد دہانی کرانی ہے۔ جنیوا میں عالمی برادری نے پاکستان کو 10 ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا تو پاکستان نے یقین دلایا کہ امداد کے استعمال میں شفافیت لائی جائے گی اور پاکستان آ کر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ شفافیت پر یقین رکھتے ہیں۔

حال ہی میں جنیوا کانفرنس ہوئی اس کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ 9.7 ارب ڈالر امداد کا اعلان دینا حکومت پر اعتماد کا ثبوت ہے۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ یہ امداد عالمی برادری کی جانب سے حکومت پر اعتماد کا ثبوت ہے لیکن اب سب سے مشکل ترین مرحلہ وزیر اعظم کو ملک میں درپیش ہوگا۔ اس سے قبل کئی مواقع پر پاکستان کو امداد دی گئی۔ امدادی سامان دیے گئے۔


2005 کے زلزلے کے بعد کس طرح امدادی اشیا کہاں کہاں بکتی رہیں اور کن کن گوداموں سے برآمد بھی ہوتی رہی ہیں اور خرچ کرنے والے بااختیار افراد کس طرح اقربا پروری کے ذریعے اپنے ذاتی فوائد کی خاطر کس طرح ان امداد کو انتہائی غیر شفاف طریقے سے خرچ کرتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان اور عوام کو مشکلات کی دلدل سے نکالیں گے اس امانت کو دیانت داری، شفافیت اور تھرڈ پارٹی آڈٹ سے حق داروں تک پہنچائیں گے۔ انھوں نے تمام عالمی پارٹنرز، بالخصوص سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ مہربان بھائی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔

امداد کے سلسلے میں دوست ملک چین برادر ملک ترکیہ، عظیم برادر ملک یو اے ای اور قطر کی قیادت کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ اس سلسلے میں اسلامی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یوس ایس ایڈ، یورپی یونین کے ممالک جاپان اور دیگر عالمی اداروں اور ملکوں نے پاکستان کی امداد کے اعلانات کیے۔

اس امداد کے سلسلے میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے صوبے کی مشاورت سے ہنگامی بنیادوں پر 4 آر ایف کی جامع دستاویز تیار کی جس کی وجہ سے یہ رقوم پاکستان کو ملنا ممکن ہو سکا۔

یقینا یہ وزارت خارجہ کی بھی کامیابی ہے ، لیکن ان امداد کے ملنے کے بعد پاکستانی حکام کے لیے یہ بڑی آزمائش ہوگی کہ کس طرح ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے ہر وہ شخص جس کا اس سیلاب میں نقصان ہوا ہے اسے انصاف کے یقینی طریقوں کے ذریعے امداد پہنچے؟ اور وہ ظاہر بھی ہو کیونکہ ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کے بارے میں بتایا گیا کہ سیلاب سے ان لوگوں کا نقصان ہوا ہے۔

اب بھی بیشتر علاقوں میں پانی بدستور موجود ہے، مکانات گرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کئی فلاحی تنظیمیں ایسی ہیں جوکہ سستے داموں مکانات تعمیرکر رہی ہیں اور متاثرہ افراد کے حوالے کر رہی ہیں ، کیونکہ یہ کام نجی فلاحی ادارے اپنی انتہائی محدود رقم کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اس لیے ان مکانوں کی تعداد چند ہزار سے زائد بالکل نہیں ہے ، جب کہ ان متاثرین کے لیے لاکھوں مکانات تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ جو کام مزید اہم ہے وہ یہ کہ سائنسی بنیادوں پر ایسا بندوبست کرنا بھی لازمی ہے کہ آیندہ اس قسم کی آفات سے نقصان عظیم نہ ہو۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں سیلاب زلزلوں سے تباہی آتی ہے۔

موجودہ سائنسی دور میں ان قدرتی آفات سے بچنے کے لیے حکومتوں نے طریقے تلاش کر لیے ہیں، لیکن پاکستان ہر چند سال کے بعد سیلاب سے متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔
Load Next Story