ووٹ لازمی دیجیے

بلدیاتی انتخابات میں اپنی تمام تر سیاسی وابستگیاں ایک طرف رکھتے ہوئے باکردار امیدوار کا انتخاب کیجیے

ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا درست استعمال آپ پر قرض ہے۔ (فوٹو: فائل)

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ بالآخر آج وہ بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں جن کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے گئے، سیکیورٹی خدشات کا بہانہ بنایا گیا، سیاسی چالبازیوں سے کام لیا گیا لیکن کوئی بھی عذر کام نہ آیا اور بالآخر آج وہ دن آہی گیا جب عوام اپنے درمیان موجود عوامی نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔

ان بلدیاتی انتخابات سے پہلے عوام کے ساتھ عجب چومکھی لڑی گئی۔ کبھی کچھ پارٹیوں نے انتخابات میں حائل رکاوٹوں کا رونا رویا، تو کسی نے تحفظات کا اظہار کرکے بائیکاٹ کی دھمکی دی، کوئی نیم دلی سے رضامند بھی تھا تو گریز کا رویہ بھی جاری رہا۔ کوئی پارٹی ان سب سے بے پروا اپنی انتخابی مہم چلانے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں مصروف رہی تاکہ اگر انتخابات ہوں تو کم از کم اپنی کاوشیں ہی سامنے رکھ سکیں۔ سیاسی جوڑتوڑ تو بہرحال ہر الیکشن کا حصہ ہے لیکن چند روز قبل تک ایک دوسرے کے ''پکے دشمن'' بنے رہنے والے بھی جب مفادات کےلیے ایک ہوگئے تو عوام کو یقین ہوگیا کہ سیاست صرف عوام کے جذبات سے کھیلنے کا نام ہے۔

کل تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک چیستان بنا ہوا تھا، عوام کو آخر تک شش و پنج میں مبتلا رکھا گیا کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔ انتخابات کی منسوخی کا یہ ابہام اتنا شدید ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ووٹ ڈالنے گھروں سے نہیں نکل رہے۔ اس ابہام کو خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ، سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے رویے نے تقویت پہنچائی۔ پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی خبریں، بعد ازاں سندھ حکومت کا عذرِ لنگ اور انتخابات کے التوا کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا بار بار انتخابات لازمی کروانے کا کمزور موقف عوام کے ادھیڑبن کا باعث بنا رہا۔

بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کے ابہام کو تقویت اس وقت ملی جب جمعہ کو رات گئے سندھ حکومت نے اچانک کراچی، حیدرآباد اور دادو میں انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے التوا کا فیصلہ کیا، یہاں تک کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے 15 جنوری کو ہی الیکشن کروانے پر زور دیا۔


کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات کے دوران دہشت گردی کے خدشات بھی عوام کو مضطرب کررہے ہیں۔ قابل افسوس امر ہے کہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، کوئی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروانا چاہتا۔ حالانکہ بلدیاتی نظام پوری دنیا میں عوامی سطح کے مسائل حل کرنے کےلیے صائب تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری حکومتیں اور سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام سے گریز کا رویہ اس لیے اپناتی ہیں کیونکہ ان جماعتوں کی تمام تر سیاست ہی ان عوامی مسائل پر قائم ہوتی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں امیدوار انتخابات سے قبل ہی بلامقابلہ جیت گئے۔ اور شاید انتخابات ہونے یا نہ ہونے سے متعلق جو ابہام پھیلایا گیا ہے اس کی وجہ سے آج کا ٹرن آؤٹ بھی تاریخی طور پر کم رہے، بشرطیکہ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کے ووٹ بھی کوئی ''بھوت'' نہ ڈال آئے۔

بہرحال اب جبکہ بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں تو یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے لازمی جائیں۔ یہ ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا درست استعمال آپ پر قرض ہے۔ حکومتوں، سیاسی جماعتوں سے لاکھ ناامیدی سہی لیکن اپنے حلقے سے انتخاب لڑنے والے اس شخص کو منتخب کیجیے جس کا دامن سب سے زیادہ اُجلا ہو، جس کا کردار سب سے صاف ہو۔ ان بلدیاتی انتخابات میں اپنی تمام تر سیاسی وابستگیاں ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے علاقے کے اس فرد کا انتخاب کیجیے، جسے آپ بخوبی جانتے ہوں اور جو چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو لیکن کرپشن اور الزامات سے اس کا دامن داغدار نہ ہو۔ دعا ہے کہ یہ انتخابات پُرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوجائیں اور ایک عوامی بلدیاتی نظام قائم ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story