شہد کا چھتہ اور چور
جب گھر کا گھر چوروں سے بھرا ہوا ہو، ملکہ چور ہو جائے، نکھٹو ڈاکو ہو جائیں تو بیچاری مکھیاں کر کیا سکتی ہیں
شہد کی مکھیوں اور چھتے کے بارے میں آج کل کون نہیں جانتا کہ یہ ہوبہو ایک ریاست کی طرح ہوتا ہے، اس میں ایک ملکہ ہوتی ہے جسے رانی بھی کہتے ہیں، یہی مادر ملکہ بھی ہوتی ہے۔
عربی میں اسے ''بعسوب '' کہتے ہیں، اس کے بعد نکھٹو ہوتے ہیں جو ملکہ کے نر ہوتے ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ وزیر، مشیر اور خصوصی وغیرہ، کچھ معمار ہوتے ہیں جو شہد کے لیے چھتہ بناتے ہیں اور بچوں کے لیے گھر تعمیر کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ مکھیاں جو نہ نر ہوتی ہیں نہ مادہ یعنی ہیوں میں نہ شیوں میں، ان کو کارکن مکھیاں کہتے ہیں جس طرح ملکوں میں ''عوام کالانعام'' ہوتے ہیں۔
پرانے ہندوستان میں یہ تقیسم انسانوں میں کھشتری، ویش اور شودرکے نام سے ہوا کرتی تھی، برہمنوں کا چوتھا طبقہ بہت بعد میں پیدا ہوا ہے، جب کتاب اور تلوار، محل اور مندر اور تاج اور دستار میں ساجھے داری ہوگئی، پاکستان کو بھی ایک شہیدکی مکھیوں کاچھتہ سمجھ لیں تو سب کچھ مکھیوں کے چھتے جیسا ہے لیکن ''شہد'' کی تقسیم یا شہد خوری میں تھوڑا سا نہیں، بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔
کارکن مکھیاں صبح منہ اندھیرے نکل جاتی ہیں، دوردور تک جاتی ہیں، مختلف پھولوں، پودوں اور درختوں سے رس لاتی ہیں، اس مہم میں اکثر کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو کر مر جاتی ہیں، بادوباراں یا انسان وحیوان کی زد میں آکر تلف ہو جاتی ہیں، کہیں کہیں بھنوروں اور زنبوروں کا بھی شکار ہو جاتی ہیں، ہر روز جو کارکن مکھیاں چھتے سے نکلتی ہیں، وہ کبھی پوری واپس نہیں آتیں، دس بیس ان میں شہید ہو ہی جاتی ہیں لیکن ہر حال میں چھتے کی ضروریات برابر پوری کرتی رہتی ہیں، جب خانے یا گھر بن جاتے ہیں اور ایک حصے میں شہد اسٹور کر لیا جاتا ہے تو ملکہ مکھی یا مادر ملکہ اڑان بھرتی ہے.
نکھٹو یا نر بھی ساتھ اڑتے ہیں اور ہوا ہی ہوا میں ملکہ سے جفت ہو جاتے ہیں، پھر ملکہ واپس چھتے میں آتی ہے، اس کے لیے کارکن مکھیوں نے خاص طور پر ایک خوراک تیار کی ہوتی ہے جسے انسانوں نے ''کوئین جیلی'' کا نام دیا ہوا ہے، اس کے قوی اور طاقتور ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بعض ممالک میں اس کوئین جیلی کو بھی نکال لیاجاتا ہے اور نہایت ہی گراں قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے، اندازاً ایک گرام اصلی کوئین جیلی کی قیمت ہزار روپے کے لگ بھگ ہوتی ہے، مادر ملکہ یہ کوئین جیلی کھاتی ہے جس طرح ہمارے ہاں صدر یا وزیراعظم یا بادشاہ کے محل پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔
ایک فرد کے ساتھ ہزاروں افراد دوسرے بھی ہڑپتے رہتے ہیں، کچھ عرصے بعد مادر ملکہ انڈے دینے پر آتی ہے اور تیار سوراخوں یا گھروں میں ایک ایک انڈا دیتی چلی جاتی ہے، ان انڈوں سے جب بچے اور لاروے نکلتے ہیں، انھیں بھی پالا پوسا جاتا ہے، یوں مکھیوں کی ایک اور نسل تیار ہو جاتی ہے جو اپنا الگ چھتہ بنانے کے لیے ہر طرح سے پوری ہوتی ہے، مطلوبہ تعداد میں کارکن، نکھٹو اور ملکہ پر مشتمل یہ ایک الگ چھتہ، ریاست یا یونٹ ہوتا ہے بشرطیکہ اس دنیا کے تباہ کار اعظم انسان کے ہاتھوں سے بچ جائے۔
کیونکہ یہ جو شہد وہ جمع کرتی ہیں، اپنے گھرانے اور آیندہ نسل کی بقاکے لیے کرتی ہیں اور اگر ان کا یہ گھر خوراک کے ذخیرے اور رہنے والوں سمیت برباد ہو جائے تو دونوں نسلیں سردیوں اور خزاں میں مر جاتی ہیں، وہ تو اچھا ہے کہ اب انسانوں کو پتہ چل گیا ہے کہ چھتہ توڑنے سے وہ کیا قیامت برپا کرتے ہیں، اس لیے اب کچھ مکھیوں کو پال کر یہ احتیاط کرتا ہے کہ دوسرے جانوروں کے دودھ کی طرح آدھا شہد ان مکھیوں کی بقا کے لیے بھی چھوڑ دے لیکن ہمارا اصل موضوع یہ نہیں۔
ہم ایک اورچھتے کا ذکر کرتے ہیں جس کی کارکن مکھیاں دن رات موت سے کھیل کھیل کر چھتے کو شہد سے بھرتی ہے لیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ چھتے میں تو ایک ''بوند'' شہد بھی نہیں ہے۔ آج تک کوئی بھی یہ پتہ نہیں لگا پایا کہ اس بدنصیب چھتے کا شہد جاتا کہاں ہے؟ زمین کھا جاتی ہے، آسمان کھینچ کر نگل جاتا ہے یا ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اوراس راز کا پتہ اس لیے نہیں لگایا جا سکا ہے کہ ہرکسی کو معلوم ہے کہ شہد کہاں جاتا ہے؟
جب گھر کا گھر چوروں سے بھرا ہوا ہو، ملکہ چور ہو جائے، نکھٹو ڈاکو ہو جائیں تو بیچاری مکھیاں کر کیا سکتی ہیں کہ ان کو تو صرف ''لانے'' کا کام آتا ہے، اگر پچاسی فیصد بھی ہوں تو کیا؟ کہ ان کے اندر سے باقی سب کچھ نکالا جا چکا ہے، صرف جسم ہے، دو پر ہیں اور بنگ بنگ، بے مقصد بنگ بنگ کرنا اور لانا پھر لانا اور پھر لانا۔
چلیے بات کو ایک دیوانے کی بڑبڑاہٹ یا ایک کارکن مکھی کی بنگ بنگ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستان بھی ایک شہد کی مکھیوں کا چھتہ لگتا ہے لیکن شہد کاچھتہ نہیں بھی ہے کیونکہ اس کے شہد کے چھتے میں لاگا چور... کارکن مکھیاں اپنی ملکہ کے لیے جو یہ ملک ہے، جان گسل محنت کر کے شہد لاتی ہیں لیکن چوروں کا ٹولہ اس ملکہ( ریاست پاکستان) کا شہد نہ جانے کہاں لے جارہا ہے۔
عربی میں اسے ''بعسوب '' کہتے ہیں، اس کے بعد نکھٹو ہوتے ہیں جو ملکہ کے نر ہوتے ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ وزیر، مشیر اور خصوصی وغیرہ، کچھ معمار ہوتے ہیں جو شہد کے لیے چھتہ بناتے ہیں اور بچوں کے لیے گھر تعمیر کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ مکھیاں جو نہ نر ہوتی ہیں نہ مادہ یعنی ہیوں میں نہ شیوں میں، ان کو کارکن مکھیاں کہتے ہیں جس طرح ملکوں میں ''عوام کالانعام'' ہوتے ہیں۔
پرانے ہندوستان میں یہ تقیسم انسانوں میں کھشتری، ویش اور شودرکے نام سے ہوا کرتی تھی، برہمنوں کا چوتھا طبقہ بہت بعد میں پیدا ہوا ہے، جب کتاب اور تلوار، محل اور مندر اور تاج اور دستار میں ساجھے داری ہوگئی، پاکستان کو بھی ایک شہیدکی مکھیوں کاچھتہ سمجھ لیں تو سب کچھ مکھیوں کے چھتے جیسا ہے لیکن ''شہد'' کی تقسیم یا شہد خوری میں تھوڑا سا نہیں، بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔
کارکن مکھیاں صبح منہ اندھیرے نکل جاتی ہیں، دوردور تک جاتی ہیں، مختلف پھولوں، پودوں اور درختوں سے رس لاتی ہیں، اس مہم میں اکثر کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو کر مر جاتی ہیں، بادوباراں یا انسان وحیوان کی زد میں آکر تلف ہو جاتی ہیں، کہیں کہیں بھنوروں اور زنبوروں کا بھی شکار ہو جاتی ہیں، ہر روز جو کارکن مکھیاں چھتے سے نکلتی ہیں، وہ کبھی پوری واپس نہیں آتیں، دس بیس ان میں شہید ہو ہی جاتی ہیں لیکن ہر حال میں چھتے کی ضروریات برابر پوری کرتی رہتی ہیں، جب خانے یا گھر بن جاتے ہیں اور ایک حصے میں شہد اسٹور کر لیا جاتا ہے تو ملکہ مکھی یا مادر ملکہ اڑان بھرتی ہے.
نکھٹو یا نر بھی ساتھ اڑتے ہیں اور ہوا ہی ہوا میں ملکہ سے جفت ہو جاتے ہیں، پھر ملکہ واپس چھتے میں آتی ہے، اس کے لیے کارکن مکھیوں نے خاص طور پر ایک خوراک تیار کی ہوتی ہے جسے انسانوں نے ''کوئین جیلی'' کا نام دیا ہوا ہے، اس کے قوی اور طاقتور ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بعض ممالک میں اس کوئین جیلی کو بھی نکال لیاجاتا ہے اور نہایت ہی گراں قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے، اندازاً ایک گرام اصلی کوئین جیلی کی قیمت ہزار روپے کے لگ بھگ ہوتی ہے، مادر ملکہ یہ کوئین جیلی کھاتی ہے جس طرح ہمارے ہاں صدر یا وزیراعظم یا بادشاہ کے محل پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔
ایک فرد کے ساتھ ہزاروں افراد دوسرے بھی ہڑپتے رہتے ہیں، کچھ عرصے بعد مادر ملکہ انڈے دینے پر آتی ہے اور تیار سوراخوں یا گھروں میں ایک ایک انڈا دیتی چلی جاتی ہے، ان انڈوں سے جب بچے اور لاروے نکلتے ہیں، انھیں بھی پالا پوسا جاتا ہے، یوں مکھیوں کی ایک اور نسل تیار ہو جاتی ہے جو اپنا الگ چھتہ بنانے کے لیے ہر طرح سے پوری ہوتی ہے، مطلوبہ تعداد میں کارکن، نکھٹو اور ملکہ پر مشتمل یہ ایک الگ چھتہ، ریاست یا یونٹ ہوتا ہے بشرطیکہ اس دنیا کے تباہ کار اعظم انسان کے ہاتھوں سے بچ جائے۔
کیونکہ یہ جو شہد وہ جمع کرتی ہیں، اپنے گھرانے اور آیندہ نسل کی بقاکے لیے کرتی ہیں اور اگر ان کا یہ گھر خوراک کے ذخیرے اور رہنے والوں سمیت برباد ہو جائے تو دونوں نسلیں سردیوں اور خزاں میں مر جاتی ہیں، وہ تو اچھا ہے کہ اب انسانوں کو پتہ چل گیا ہے کہ چھتہ توڑنے سے وہ کیا قیامت برپا کرتے ہیں، اس لیے اب کچھ مکھیوں کو پال کر یہ احتیاط کرتا ہے کہ دوسرے جانوروں کے دودھ کی طرح آدھا شہد ان مکھیوں کی بقا کے لیے بھی چھوڑ دے لیکن ہمارا اصل موضوع یہ نہیں۔
ہم ایک اورچھتے کا ذکر کرتے ہیں جس کی کارکن مکھیاں دن رات موت سے کھیل کھیل کر چھتے کو شہد سے بھرتی ہے لیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ چھتے میں تو ایک ''بوند'' شہد بھی نہیں ہے۔ آج تک کوئی بھی یہ پتہ نہیں لگا پایا کہ اس بدنصیب چھتے کا شہد جاتا کہاں ہے؟ زمین کھا جاتی ہے، آسمان کھینچ کر نگل جاتا ہے یا ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اوراس راز کا پتہ اس لیے نہیں لگایا جا سکا ہے کہ ہرکسی کو معلوم ہے کہ شہد کہاں جاتا ہے؟
جب گھر کا گھر چوروں سے بھرا ہوا ہو، ملکہ چور ہو جائے، نکھٹو ڈاکو ہو جائیں تو بیچاری مکھیاں کر کیا سکتی ہیں کہ ان کو تو صرف ''لانے'' کا کام آتا ہے، اگر پچاسی فیصد بھی ہوں تو کیا؟ کہ ان کے اندر سے باقی سب کچھ نکالا جا چکا ہے، صرف جسم ہے، دو پر ہیں اور بنگ بنگ، بے مقصد بنگ بنگ کرنا اور لانا پھر لانا اور پھر لانا۔
چلیے بات کو ایک دیوانے کی بڑبڑاہٹ یا ایک کارکن مکھی کی بنگ بنگ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستان بھی ایک شہد کی مکھیوں کا چھتہ لگتا ہے لیکن شہد کاچھتہ نہیں بھی ہے کیونکہ اس کے شہد کے چھتے میں لاگا چور... کارکن مکھیاں اپنی ملکہ کے لیے جو یہ ملک ہے، جان گسل محنت کر کے شہد لاتی ہیں لیکن چوروں کا ٹولہ اس ملکہ( ریاست پاکستان) کا شہد نہ جانے کہاں لے جارہا ہے۔