بحران پنجاب اسمبلی
دراصل وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں جو ضیاالحق کے بیانئے پر کھڑی ہے
ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے مگر اس وقت ہمارے وزیر خارجہ اور ان کی کاوشیں اور محنت کام آ ئیں۔ شدید بارشوں اور سیلاب نے بلوچستان اور خصوصا سندھ کے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور یہ دنیا کو ہم سب دکھانے اور منوانے میں کامیاب ہوئے۔
نو، ارب ڈالر سے زیادہ ہمیں امداد دینے کے فائدے ہوئے اور یہ وعدے دنیا کے انتہائی ذمے دار اداروں اور ریاستوں کے سربراہوں نے کیے ہیں،یہ وعدے یقینا عمل میں آئیں گے۔ پاکستان کو سعودی عرب سے اربوں ڈالر کا ایک نیا پیکیج ملے گا ،ایسے ہی کچھ اور ڈالرز کی امداد عرب امارات سے یقینی طور پر بھیجی جائے گی۔
ملک میں سیاسی بحران کی شدت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ، گورنر پنجاب کو یہ مشورہ ارسال کر چکے ہیں کہ وہ اب اسمبلی توڑ دیں۔ اب گورنر کے پاس اس مشورے کو عمل میں لانے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ایک طرف میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے بڑے حصے پر چھائے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خان صاحب بہت پاپولر ہیں اور وہ پنجاب سے دو تہائی اکثریت لے جائیں گے۔
ادھر خان صاحب کے اپنی پارٹی کے باغیوں یہ کہتے ہیں کہ دو ہزار تیرہ میں فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر چند ہزار ووٹ لیے تھے اور اسی حلقے سے دو ہزار اٹھارہ میں ترانوے ہزار ووٹ لیے، اگر اس طرح کی مقبولیت ہے تو پھر خان صاحب کی پارٹی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت لے سکتے ہیں۔
ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں خان صاحب کو اسٹیبلشمنٹ اور کچھ دیگر طاقتوں نے جتوایا تھا ۔جو الیکٹبلز خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہوئے تھے، ان کو پتا تھا کہ خان صاحب کن قوتوں کی نمایندگی کررہے ہیں لہٰذا وہ اقتدار میں لازمی آئیں گے، اس لیے وہ خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔اس کے باوجود انھیں جتوانے کے لیے آرٹی ایس ناکارہ کرنا پڑا۔
رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ جب ٹیمپرنگ کر کے رات کے اندھیرے میں چوہدری پرویز ا لٰہی نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا تو فورا ہی پیغام بھیجا کہ ہم لوگ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں لے آئیں تا کہ وہ یہ بہانہ کرسکیں، چونکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ابھی جاری ہے کہ وہاں عدم اعتماد کا موشن ٹیبل ہوا ہے ،اس لیے دوران اجلاس گورنر کو مشورہ دینا کہ وہ اسمبلی تحلیل کریں، غیر آئینی ہوگا ۔ رانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے ان کی یہ بات نہیں مانی اور صاف صاف کہہ دیا کہ آپ اسمبلی تحلیل کرنے کا یہ شوق ضرور پورا کریں ۔
کیا تحریک انصاف اس وقت کسی بند گلی میں ہے؟ اگر ہم یہ بات مان بھی لیں کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے جارہے ہیں تو کیا خان صاحب کے ساتھ اب الیکٹیبلزہوں گے؟ َ تو کیا اس دفعہ بھی آر ٹی ایس سسٹم خراب کیا جائے گا اور کیا واقعی خان صاحب کی کارکردگی ان چار سالوں میں اتنی بہتر تھی کہ لوگ اب ان کو بہترین کاکردگی کے عوض ووٹ دیں گے؟
ہاں یہ ضرور ہے کہ خان صاحب نے جو رٹ لگائی ہوئی تھی کہ انتخابات کراؤ، اس سے اتحادیوں کی حکومت پریشر میں ضرور آئی اور وہ یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ الیکشن سے گھبراتے نہیں جب کہ اتحادی حکمران جماعت کے لوگ الیکشن سے گھبراتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی مدعا بیا ن کررہے ہیں، خان صاحب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے بعد اپنی آدھی طاقت کھو بیٹھے ہیں، باقی طاقت بھی ان ہی کی میراث ہے وہ جب چاہیں چھین سکتے ہیں۔
لانگ مارچ تک سارا کام ایک اسکرپٹ پرہورہا تھا مگر اب وہ اسکرپٹ بے معنی ہو چکاہے ، الیکٹبلز اب جلد ہی نئی صف بندیاں کرکے پیپلز پارٹی یا پھر نون لیگ میں شامل ہوجائیں گے یا جہا نگیر ترین کی نئی پارٹی میں شمولیت اختیارکریں گے۔ نگران حکومت جو بھی بنے گی وہ خان صاحب کی پسندیدہ نہیں ہوگی۔ آیندہ تین چار دنوں میں پنجاب اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے تووفاقی حکومت کا اثر ورسوخ پنجاب کے نگراں سیٹ اپ پر بھاری ہو جائے گا اور اگر خان صاحب کی مقبولیت مصنوعی ہے تو وہ پردہ بھی چا ک ہو جائے گا۔
لانگ مارچ کے بعد خان صاحب ایک بھی جلسہ نہیں کرپائے ۔ کیا اب وہ اتنے طاقتور جلسے کر پائیں گے جو لانگ مارچ سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ خان صاحب کو معلوم ہے کہ ملک معاشی بحران میں ہے یا یہ سیاسی بحران ہے؟ بلکہ آپ کے جانے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے۔
افغان طالبان کا یہ لبادہ اتر چکا ہے کہ وہ ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں، ادھر خان صاحب اب تحریک طالبان پاکستان کی بھی کھلم کھلا حمایت کرتے نظر آرہے ہیں اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کی بھی یا یوں کہیے کہ خان صاحب جس نظرئیے کی پرچار کررہے ہیں،اس میں پاکستان کا آئین اور جمہوریت دونوں یرغمال ہوجاتے ہیں۔
اب یہ فیصلہ خان صاحب واضح انداز میں کر چکے ہیں اور یہی وہ فالٹ لائن ہے جس پر آج کا پاکستان کھڑا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، خان صاحب اس اسٹبلشمنٹ کا پروجیکٹ ہیں جس کا مخصوص بیانیہ ضیاالحق کے دور میں تیار کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے اس بیانیے میں پیپلز پارٹی کی گنجائش تھی، نہ کسی ماڈریٹ دائیں بازو کی پارٹی جو آئین، جمہوریت اور روشن خیالی کی بات بھی کرتی ہو۔
ہمارے خان صاحب بار بار اسٹبلشمنٹ سے جو یہ کہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور میرے ساتھ کھڑے ہوں، دراصل وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں جو ضیاالحق کے بیانئے پر کھڑی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بعد بڑے بڑے نشیب و فراز آئے لیکن افغان پالیسی کا دفاع جاری رہا، یہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی کا بنیادی اصول رہا ہے لیکن نواز شریف نے بتدریج سے مخصوص بیانئے سے نکلنے کی کوشش کی ، وہ خارجہ اور داخلی پالیسی وہی لے کر چلے جو دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مخصوص سوچ اور اسٹبلشمنٹ کے مخصوص بیانیہ کا ملاپ ہے ، جو مختلف چیز میاں نواز شریف نے کی ،وہ یہ تھی اس مخصوص بیانئے کو جمہوریت کے پلیٹ فارم پر آگے لے کے جانا۔
یہ وہ پوائنٹ تھا جہاں سے نواز شریف کی مخصوص بیانئے کی کٹر حامی اسٹیبلشمنٹ سے دوریاں بڑھ گئیں ،جس کے نتیجے میں وہ بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کی سیاست کے قریب آنے لگے، یوں معاملات مزید بگڑ گئے، اس پوائنٹ پر اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک نئے سیاسی چہرے اور سیاسی جماعتیں کی ضرورت بہت بڑھ گئی۔
یہ پاکستان اس کے ڈیٖفالٹ ہونے کے امکانات کے ساتھ ساتھ شدید معاشی بحران ، افراط زر تیس فیصد کے لگ بھگ، شرح نمو لگ بھگ صفر اور یہ وہ ملک تھا جو گندم اور خوراک میں خود کفیل تھا مگر اب نہیں رہا۔یہ سیاسی بحران پاکستان کے ستر سالہ تاریخ کابدترین بحران ہے ۔ اس سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت دوبارہ آئے اور وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر آباد کریں، ان کے مطالبے کے مطابق پہلے فاٹا بحال کریں ،پھر آہستہ آہستہ کے پی کے، ان کے حوالے کردیں۔ دنیا سے پاکستان کو کاٹ دیں، مخالفین کو ختم کردیں۔
موجودہ حکومت معاشی اعتبارسے اس بحران پر قابو نہیں پا سکی ہے جو بحران خاں صاحب کے دور میں پیدا کیا گیا۔ اب دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اب جو بھی عوامی مینڈیٹ سے آئے حکومت وہ ہی بنائے۔ الیکشن شفاف ہوں، عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے اس کو نہ تسلیم کرنا انیس سو ستر کے حادثے کو دہرانے کے برابر ہے جب ہم نے عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
خان صاحب اس ملک کو ایک بہت بڑے حادثے کے قریب لے کر آئے ہیں، اب کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ کچھ جلدی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے اندر یہ بحران دنیا کی نظریں اپنی طرف متوجہ کرارہا ہے، اس لیے کہ یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے ۔
نو، ارب ڈالر سے زیادہ ہمیں امداد دینے کے فائدے ہوئے اور یہ وعدے دنیا کے انتہائی ذمے دار اداروں اور ریاستوں کے سربراہوں نے کیے ہیں،یہ وعدے یقینا عمل میں آئیں گے۔ پاکستان کو سعودی عرب سے اربوں ڈالر کا ایک نیا پیکیج ملے گا ،ایسے ہی کچھ اور ڈالرز کی امداد عرب امارات سے یقینی طور پر بھیجی جائے گی۔
ملک میں سیاسی بحران کی شدت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ، گورنر پنجاب کو یہ مشورہ ارسال کر چکے ہیں کہ وہ اب اسمبلی توڑ دیں۔ اب گورنر کے پاس اس مشورے کو عمل میں لانے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ایک طرف میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے بڑے حصے پر چھائے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خان صاحب بہت پاپولر ہیں اور وہ پنجاب سے دو تہائی اکثریت لے جائیں گے۔
ادھر خان صاحب کے اپنی پارٹی کے باغیوں یہ کہتے ہیں کہ دو ہزار تیرہ میں فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر چند ہزار ووٹ لیے تھے اور اسی حلقے سے دو ہزار اٹھارہ میں ترانوے ہزار ووٹ لیے، اگر اس طرح کی مقبولیت ہے تو پھر خان صاحب کی پارٹی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت لے سکتے ہیں۔
ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں خان صاحب کو اسٹیبلشمنٹ اور کچھ دیگر طاقتوں نے جتوایا تھا ۔جو الیکٹبلز خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہوئے تھے، ان کو پتا تھا کہ خان صاحب کن قوتوں کی نمایندگی کررہے ہیں لہٰذا وہ اقتدار میں لازمی آئیں گے، اس لیے وہ خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔اس کے باوجود انھیں جتوانے کے لیے آرٹی ایس ناکارہ کرنا پڑا۔
رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ جب ٹیمپرنگ کر کے رات کے اندھیرے میں چوہدری پرویز ا لٰہی نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا تو فورا ہی پیغام بھیجا کہ ہم لوگ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں لے آئیں تا کہ وہ یہ بہانہ کرسکیں، چونکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ابھی جاری ہے کہ وہاں عدم اعتماد کا موشن ٹیبل ہوا ہے ،اس لیے دوران اجلاس گورنر کو مشورہ دینا کہ وہ اسمبلی تحلیل کریں، غیر آئینی ہوگا ۔ رانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے ان کی یہ بات نہیں مانی اور صاف صاف کہہ دیا کہ آپ اسمبلی تحلیل کرنے کا یہ شوق ضرور پورا کریں ۔
کیا تحریک انصاف اس وقت کسی بند گلی میں ہے؟ اگر ہم یہ بات مان بھی لیں کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے جارہے ہیں تو کیا خان صاحب کے ساتھ اب الیکٹیبلزہوں گے؟ َ تو کیا اس دفعہ بھی آر ٹی ایس سسٹم خراب کیا جائے گا اور کیا واقعی خان صاحب کی کارکردگی ان چار سالوں میں اتنی بہتر تھی کہ لوگ اب ان کو بہترین کاکردگی کے عوض ووٹ دیں گے؟
ہاں یہ ضرور ہے کہ خان صاحب نے جو رٹ لگائی ہوئی تھی کہ انتخابات کراؤ، اس سے اتحادیوں کی حکومت پریشر میں ضرور آئی اور وہ یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ الیکشن سے گھبراتے نہیں جب کہ اتحادی حکمران جماعت کے لوگ الیکشن سے گھبراتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی مدعا بیا ن کررہے ہیں، خان صاحب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے بعد اپنی آدھی طاقت کھو بیٹھے ہیں، باقی طاقت بھی ان ہی کی میراث ہے وہ جب چاہیں چھین سکتے ہیں۔
لانگ مارچ تک سارا کام ایک اسکرپٹ پرہورہا تھا مگر اب وہ اسکرپٹ بے معنی ہو چکاہے ، الیکٹبلز اب جلد ہی نئی صف بندیاں کرکے پیپلز پارٹی یا پھر نون لیگ میں شامل ہوجائیں گے یا جہا نگیر ترین کی نئی پارٹی میں شمولیت اختیارکریں گے۔ نگران حکومت جو بھی بنے گی وہ خان صاحب کی پسندیدہ نہیں ہوگی۔ آیندہ تین چار دنوں میں پنجاب اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے تووفاقی حکومت کا اثر ورسوخ پنجاب کے نگراں سیٹ اپ پر بھاری ہو جائے گا اور اگر خان صاحب کی مقبولیت مصنوعی ہے تو وہ پردہ بھی چا ک ہو جائے گا۔
لانگ مارچ کے بعد خان صاحب ایک بھی جلسہ نہیں کرپائے ۔ کیا اب وہ اتنے طاقتور جلسے کر پائیں گے جو لانگ مارچ سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ خان صاحب کو معلوم ہے کہ ملک معاشی بحران میں ہے یا یہ سیاسی بحران ہے؟ بلکہ آپ کے جانے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے۔
افغان طالبان کا یہ لبادہ اتر چکا ہے کہ وہ ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں، ادھر خان صاحب اب تحریک طالبان پاکستان کی بھی کھلم کھلا حمایت کرتے نظر آرہے ہیں اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کی بھی یا یوں کہیے کہ خان صاحب جس نظرئیے کی پرچار کررہے ہیں،اس میں پاکستان کا آئین اور جمہوریت دونوں یرغمال ہوجاتے ہیں۔
اب یہ فیصلہ خان صاحب واضح انداز میں کر چکے ہیں اور یہی وہ فالٹ لائن ہے جس پر آج کا پاکستان کھڑا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، خان صاحب اس اسٹبلشمنٹ کا پروجیکٹ ہیں جس کا مخصوص بیانیہ ضیاالحق کے دور میں تیار کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے اس بیانیے میں پیپلز پارٹی کی گنجائش تھی، نہ کسی ماڈریٹ دائیں بازو کی پارٹی جو آئین، جمہوریت اور روشن خیالی کی بات بھی کرتی ہو۔
ہمارے خان صاحب بار بار اسٹبلشمنٹ سے جو یہ کہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور میرے ساتھ کھڑے ہوں، دراصل وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں جو ضیاالحق کے بیانئے پر کھڑی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بعد بڑے بڑے نشیب و فراز آئے لیکن افغان پالیسی کا دفاع جاری رہا، یہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی کا بنیادی اصول رہا ہے لیکن نواز شریف نے بتدریج سے مخصوص بیانئے سے نکلنے کی کوشش کی ، وہ خارجہ اور داخلی پالیسی وہی لے کر چلے جو دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مخصوص سوچ اور اسٹبلشمنٹ کے مخصوص بیانیہ کا ملاپ ہے ، جو مختلف چیز میاں نواز شریف نے کی ،وہ یہ تھی اس مخصوص بیانئے کو جمہوریت کے پلیٹ فارم پر آگے لے کے جانا۔
یہ وہ پوائنٹ تھا جہاں سے نواز شریف کی مخصوص بیانئے کی کٹر حامی اسٹیبلشمنٹ سے دوریاں بڑھ گئیں ،جس کے نتیجے میں وہ بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کی سیاست کے قریب آنے لگے، یوں معاملات مزید بگڑ گئے، اس پوائنٹ پر اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک نئے سیاسی چہرے اور سیاسی جماعتیں کی ضرورت بہت بڑھ گئی۔
یہ پاکستان اس کے ڈیٖفالٹ ہونے کے امکانات کے ساتھ ساتھ شدید معاشی بحران ، افراط زر تیس فیصد کے لگ بھگ، شرح نمو لگ بھگ صفر اور یہ وہ ملک تھا جو گندم اور خوراک میں خود کفیل تھا مگر اب نہیں رہا۔یہ سیاسی بحران پاکستان کے ستر سالہ تاریخ کابدترین بحران ہے ۔ اس سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت دوبارہ آئے اور وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر آباد کریں، ان کے مطالبے کے مطابق پہلے فاٹا بحال کریں ،پھر آہستہ آہستہ کے پی کے، ان کے حوالے کردیں۔ دنیا سے پاکستان کو کاٹ دیں، مخالفین کو ختم کردیں۔
موجودہ حکومت معاشی اعتبارسے اس بحران پر قابو نہیں پا سکی ہے جو بحران خاں صاحب کے دور میں پیدا کیا گیا۔ اب دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اب جو بھی عوامی مینڈیٹ سے آئے حکومت وہ ہی بنائے۔ الیکشن شفاف ہوں، عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے اس کو نہ تسلیم کرنا انیس سو ستر کے حادثے کو دہرانے کے برابر ہے جب ہم نے عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
خان صاحب اس ملک کو ایک بہت بڑے حادثے کے قریب لے کر آئے ہیں، اب کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ کچھ جلدی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے اندر یہ بحران دنیا کی نظریں اپنی طرف متوجہ کرارہا ہے، اس لیے کہ یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے ۔