عمران خان کی اصل منزل
عمران خان کو پاکستان کے عوام نے ہمیشہ سر پر بٹھایا جب وہ کھیل کے میدان میں تھے
بظاہر تو یہ ایک گروہ کی جیت اور دوسرے کی ہار ہے لیکن ایسا سمجھنا ایک پیچیدہ معاملے کی آسان تفہیم ہو گی۔ ایسی تفہیم پر اصرار کو بلی کے سامنے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے جیسا سمجھنا چاہیے۔
یہ صرف پنجاب اسمبلی اور اس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ بھی نہیں۔ عام حالات میں سیاسی اونچ نیچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش جن حالات میں ہو رہی ہے، ان کا براہ راست تعلق پاکستان کی بقا اور سلامتی کے ساتھ جڑ گیا ہے۔
عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پلے بوائے رہے ہیں۔ قدیم مشرقی معاشروں میں جن کی جڑیں گہرے مذہبی اثرات کے ساتھ اپنی روایت سے منسلک ہوتی ہیں، ایسے سماج میں پلے بوائے بن جانا اور پلے بوائے بن کر اس پر فخر کرنا عیب ہے لیکن یہ بھی اسی قسم کے یعنی پاکستانی معاشرے کا امتیاز ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی سابقہ زندگی سے منھ موڑ کر اپنی معاشرتی اقدار کو اختیار کر لے تو اسے گلے سے لگا لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ہمارے عمران خان ہیں۔
عمران خان کو پاکستان کے عوام نے ہمیشہ سر پر بٹھایا جب وہ کھیل کے میدان میں تھے تب بھی اور جب انھوں نے اپنے کھیل کی فتوحات کی بنیاد پر سیاست میں قدم رکھا تب بھی لیکن یہ بدقسمتی تھی کہ میدان سیاست اور بعد ازاں اقتدار کے ایوان میں سیاہ و سفید کا مالک بن جائے کے باوجود وہ اپنے پلے بوائے کے مزاج سے خود کو اوپر اٹھا کر ایک حکمران اور مدبر کے کردار میں ڈھالنے میں ناکام رہے۔
پلے بوائے کو تتلی سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کی وابستگی مستقل نہیں ہوتی ہے، وہ یہاں وہاں منھ مارنے کے بعد اپنی عمر عزیز کے سات آٹھ دن مکمل کر کے بعد منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ہی عمران خان کا بھی تھا۔
عمران خان جنرل باجوہ، ثاقب نثار اور آر ٹی ایس کی جادو گری کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آ تو گئے لیکن یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انھیں کیا کرنا ہے، یہ سمجھنے کی کوشش انھوں نے کبھی نہ کی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد قرضے کی ایک قسط کی ادائیگی تھی لیکن ان کی اور ان کے وزیر خزانہ کو اس کی کبھی کوئی پروا رہی۔بار بار توجہ دلانے کے باوجود جب عمران حکومت نے سنجیدگی اختیار نہ کی تو جنرل باجوہ حرکت میں آئے اور انھوں نے یہاں وہاں رابطے کر کے کچھ پیسوں کا بندو بست کیا۔ یوں پاکستان ایک بہت بڑے بحران سے بچ پایا ورنہ صورت ابتدا میں ہی حال خطرناک ہو جاتی۔
اس قسم کی لا پروائی کوئی ایک آدھ بار ہو جاتی تو بھی قابل معافی ہوتا۔ عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار کے دوران یہی طرز عمل برقرار رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی حالات مسلسل بگڑتے چلے گئے۔
یہ اقتصادی بگاڑ ہی تھا جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ معیشت کے استحکام کے ضمن میں یہ درست حکمت عملی ہوتی اگر وہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ پروگرام مکمل کرتی لیکن عمران خان پروگرام پوراتو کیا کرتے، سیاسی چیلنج سامنے آتے ہی انھوں نے معاہدہ توڑ کر پاکستان کو ایک نئی دلدل میں پھنسا دیا۔
معیشت کے ضمن میں ان کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا تو دوسری طرف ان کی افغان پالیسی بھی ایک معمہ تھی۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ طاقت پکڑنے کے بعد عمران حکومت نے سرحدیں کھول دیں جس کے نتیجے ایسے مسلح گروہوں کے غول کے غول پاکستان میں داخل ہو گئے جو مسلح بھی تھے اور پاکستان کے آئین اور قانون نہیں مانتے تھے۔
ان گروہوں میں ٹی ٹی پی کے علاوہ جس خطرناک عنصر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی، وہ داعش تھی۔ ان مسلح گروہوں نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی پر پرزے پھیلائے جس کے نتیجے میں امن تہہ و بالا ہو گیا۔
بد امنی کی یہی لہر تھی جو اس وقت شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ عمران حکومت کے زمانے میں صورت حال انتہائی گمبھیر ہو چکی تھی۔ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اقتصادی طور پر دیوالیہ پاکستان میں جہاں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہوں، وہاں عالمی قوتیں مداخلت کر دیں۔ ایسی مداخلت کے اثرات ہمیشہ تکلیف دہ اور خطرناک ہوتے ہیں۔
اگر ایسی مداخلت ہو جاتی تو پاکستان کو فوری طور پر دو نقصانات ہوتے۔ پاکستان کے دفاعی اثاثے اس کی تحویل سے نکل جاتے اور دوسرے ہمارے آئین کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ جاتا۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے بارے میں عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستان کو مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھنے والے ہمارے دوستوں کا اعتماد بحال ہوا۔ سعودی عرب اور امارات کی طرف سے پاکستان کو اقتصادی صورت حال کو مستحکم کرنے کی فراخ دلانہ کوششیں اور جنیوا میں کامیابیاں اس کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ جریدے اکنامسٹ نے ایک بار لکھا تھا کہ پاکستانی معیشت کے سب سے بڑے دشمن عمران خان ہیں جیسے ہی معیشت میں استحکام کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں، وہ کوئی دھماکا کر کے اس کا راستہ روک دیتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے۔
جیسے ہی ہمارے دوست ممالک نے ہماری معیشت کے استحکام کے لیے سنجیدہ سرگرمی شروع کی، انھوں نے پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی کی تحلیل کی جانب قدم اٹھا دیا تا کہ عام انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔ عام حالات میں انتخابات کا انعقاد ہمیشہ خوش آئند ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں انتخابات کے نتائج 1970 ء کے انتخابات جیسے ہو سکتے ہیں جن میں ملک ٹوٹ گیا تھا۔ اگر اس وقت ہم انتخابات کی طرف بڑھتے ہیں تو پاکستان کی امداد کرنے والے اور سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند اپنا سرمایہ سمیٹ کر واپس پلٹ جائیں گے۔
اس کے بعد عمران حکومت کے دور میں پاکستان میں داخل کیے مسلح جتھوں کی دہشت گردی کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔ خدا نخواستہ ایسا ہو جاتا ہے تو پھر غیر ملکی مداخلت کی راہ کوئی روک نہیں سکے گا۔ اس قسم کی مداخلت کے نقصانات کیا ہوں گے۔
یہ ذکر ہو چکا۔ کیا عمران خان ان نقصانات سے واقف نہیں؟ یہ سوال یوں اہم ہو جاتا کہ وہ حکومت میں تھے تو ان کے اقدامات ان خدشات ہی کو یقینی بنا رہے تھے۔ اب وہ اپوزیشن میں ہیں تو ان کا طرز عمل اسی خطرے کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ کہیں عمرا ن خان کی حقیقی منزل یہی تو نہیں۔
یہ صرف پنجاب اسمبلی اور اس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ بھی نہیں۔ عام حالات میں سیاسی اونچ نیچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش جن حالات میں ہو رہی ہے، ان کا براہ راست تعلق پاکستان کی بقا اور سلامتی کے ساتھ جڑ گیا ہے۔
عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پلے بوائے رہے ہیں۔ قدیم مشرقی معاشروں میں جن کی جڑیں گہرے مذہبی اثرات کے ساتھ اپنی روایت سے منسلک ہوتی ہیں، ایسے سماج میں پلے بوائے بن جانا اور پلے بوائے بن کر اس پر فخر کرنا عیب ہے لیکن یہ بھی اسی قسم کے یعنی پاکستانی معاشرے کا امتیاز ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی سابقہ زندگی سے منھ موڑ کر اپنی معاشرتی اقدار کو اختیار کر لے تو اسے گلے سے لگا لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ہمارے عمران خان ہیں۔
عمران خان کو پاکستان کے عوام نے ہمیشہ سر پر بٹھایا جب وہ کھیل کے میدان میں تھے تب بھی اور جب انھوں نے اپنے کھیل کی فتوحات کی بنیاد پر سیاست میں قدم رکھا تب بھی لیکن یہ بدقسمتی تھی کہ میدان سیاست اور بعد ازاں اقتدار کے ایوان میں سیاہ و سفید کا مالک بن جائے کے باوجود وہ اپنے پلے بوائے کے مزاج سے خود کو اوپر اٹھا کر ایک حکمران اور مدبر کے کردار میں ڈھالنے میں ناکام رہے۔
پلے بوائے کو تتلی سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کی وابستگی مستقل نہیں ہوتی ہے، وہ یہاں وہاں منھ مارنے کے بعد اپنی عمر عزیز کے سات آٹھ دن مکمل کر کے بعد منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ہی عمران خان کا بھی تھا۔
عمران خان جنرل باجوہ، ثاقب نثار اور آر ٹی ایس کی جادو گری کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آ تو گئے لیکن یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انھیں کیا کرنا ہے، یہ سمجھنے کی کوشش انھوں نے کبھی نہ کی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد قرضے کی ایک قسط کی ادائیگی تھی لیکن ان کی اور ان کے وزیر خزانہ کو اس کی کبھی کوئی پروا رہی۔بار بار توجہ دلانے کے باوجود جب عمران حکومت نے سنجیدگی اختیار نہ کی تو جنرل باجوہ حرکت میں آئے اور انھوں نے یہاں وہاں رابطے کر کے کچھ پیسوں کا بندو بست کیا۔ یوں پاکستان ایک بہت بڑے بحران سے بچ پایا ورنہ صورت ابتدا میں ہی حال خطرناک ہو جاتی۔
اس قسم کی لا پروائی کوئی ایک آدھ بار ہو جاتی تو بھی قابل معافی ہوتا۔ عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار کے دوران یہی طرز عمل برقرار رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی حالات مسلسل بگڑتے چلے گئے۔
یہ اقتصادی بگاڑ ہی تھا جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ معیشت کے استحکام کے ضمن میں یہ درست حکمت عملی ہوتی اگر وہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ پروگرام مکمل کرتی لیکن عمران خان پروگرام پوراتو کیا کرتے، سیاسی چیلنج سامنے آتے ہی انھوں نے معاہدہ توڑ کر پاکستان کو ایک نئی دلدل میں پھنسا دیا۔
معیشت کے ضمن میں ان کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا تو دوسری طرف ان کی افغان پالیسی بھی ایک معمہ تھی۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ طاقت پکڑنے کے بعد عمران حکومت نے سرحدیں کھول دیں جس کے نتیجے ایسے مسلح گروہوں کے غول کے غول پاکستان میں داخل ہو گئے جو مسلح بھی تھے اور پاکستان کے آئین اور قانون نہیں مانتے تھے۔
ان گروہوں میں ٹی ٹی پی کے علاوہ جس خطرناک عنصر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی، وہ داعش تھی۔ ان مسلح گروہوں نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی پر پرزے پھیلائے جس کے نتیجے میں امن تہہ و بالا ہو گیا۔
بد امنی کی یہی لہر تھی جو اس وقت شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ عمران حکومت کے زمانے میں صورت حال انتہائی گمبھیر ہو چکی تھی۔ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اقتصادی طور پر دیوالیہ پاکستان میں جہاں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہوں، وہاں عالمی قوتیں مداخلت کر دیں۔ ایسی مداخلت کے اثرات ہمیشہ تکلیف دہ اور خطرناک ہوتے ہیں۔
اگر ایسی مداخلت ہو جاتی تو پاکستان کو فوری طور پر دو نقصانات ہوتے۔ پاکستان کے دفاعی اثاثے اس کی تحویل سے نکل جاتے اور دوسرے ہمارے آئین کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ جاتا۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے بارے میں عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستان کو مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھنے والے ہمارے دوستوں کا اعتماد بحال ہوا۔ سعودی عرب اور امارات کی طرف سے پاکستان کو اقتصادی صورت حال کو مستحکم کرنے کی فراخ دلانہ کوششیں اور جنیوا میں کامیابیاں اس کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ جریدے اکنامسٹ نے ایک بار لکھا تھا کہ پاکستانی معیشت کے سب سے بڑے دشمن عمران خان ہیں جیسے ہی معیشت میں استحکام کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں، وہ کوئی دھماکا کر کے اس کا راستہ روک دیتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے۔
جیسے ہی ہمارے دوست ممالک نے ہماری معیشت کے استحکام کے لیے سنجیدہ سرگرمی شروع کی، انھوں نے پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی کی تحلیل کی جانب قدم اٹھا دیا تا کہ عام انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔ عام حالات میں انتخابات کا انعقاد ہمیشہ خوش آئند ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں انتخابات کے نتائج 1970 ء کے انتخابات جیسے ہو سکتے ہیں جن میں ملک ٹوٹ گیا تھا۔ اگر اس وقت ہم انتخابات کی طرف بڑھتے ہیں تو پاکستان کی امداد کرنے والے اور سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند اپنا سرمایہ سمیٹ کر واپس پلٹ جائیں گے۔
اس کے بعد عمران حکومت کے دور میں پاکستان میں داخل کیے مسلح جتھوں کی دہشت گردی کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔ خدا نخواستہ ایسا ہو جاتا ہے تو پھر غیر ملکی مداخلت کی راہ کوئی روک نہیں سکے گا۔ اس قسم کی مداخلت کے نقصانات کیا ہوں گے۔
یہ ذکر ہو چکا۔ کیا عمران خان ان نقصانات سے واقف نہیں؟ یہ سوال یوں اہم ہو جاتا کہ وہ حکومت میں تھے تو ان کے اقدامات ان خدشات ہی کو یقینی بنا رہے تھے۔ اب وہ اپوزیشن میں ہیں تو ان کا طرز عمل اسی خطرے کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ کہیں عمرا ن خان کی حقیقی منزل یہی تو نہیں۔