بلدیاتی نظام کو موثر اور با اختیار بنایا جائے
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام کو غیر موثر کیا گیا ہے
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری معاشرے کی جان اور پہچان ہوتے ہیں ، یہ وہ فورم ہے جس کے ذریعے عوام کو ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے کا موقع ملتا ہے۔
مسلسل چار بار منسوخی کے بعد بالآخر گزشتہ روز سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کراچی ، حیدرآباد سمیت دیگر اضلاع میں منعقد ہوئے۔
انتخابی عمل کے دوران امن و امان کی مجموعی صورتحال اطمینان بخش اور پر امن رہی اور عوام نے انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو بار بار ختم کیا گیا جس کی وجہ سے ان کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل نہ ہوسکے۔
اب امید ہے کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ترقیاتی کام ہوں گے، عوام کے مسئلے مقامی سطح پر حل ہوں گے، شہروں اور دیہاتوں کی بہتری اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کو بلدیاتی سہولیات میسر آئیں گی۔
انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے ، تاحال مکمل نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، البتہ اصل مقابلہ پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان دیکھنے میں آیا ہے ، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے حلقہ بندیوں پر اعتراضات دور نہ کیے جانے پر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔
اسی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ کا بلدیاتی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنا اس کی سیاسی مجبور بن چکی تھی ، اگر متحدہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیتی تو پارٹی پوزیشن کچھ اور ہوتی جب کہ ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح بھی کہیں زیادہ ہوتی۔
حکومت سندھ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو کراچی اور حیدرآباد سمیت دیگر اضلاع میں انتخابات میں تاخیر کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کی تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
الیکشن ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے جس میں عوام اپنے نمایندوں اور حکمرانوں کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت اور انتخابی عمل بھی مہذب معاشرے کی علامت ہے۔
سندھ کے عوام عجیب مخمصے میں پھنسے ہوئے تھے ، عوام بلدیاتی الیکشن کی امید لگائے بیٹھے تھے جب کہ صوبائی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ بلدیاتی الیکشن ان کے لیے رسک ہے، دوسرا بیورو کریسی بلدیاتی نظام کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتی ہے جب کہ پچھتر برسوں میں عوام نے ان سب کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں والا سلوک کیا گیا ہے۔ سندھ میں مسلسل چار بار مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی ہوا ، اسی صورتحال کی عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے کہ
جو آنا چاہو ہزار رستے نہ آنا چاہو تو عذر لاکھوں
مزاج برہم، طویل رستہ، برستی بارش، خراب موسم
کراچی ملک کا معاشی حب ہے لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں سے کوئی منتخب بلدیاتی حکومت یہاں موجود نہیں تھی بلکہ سیاسی ایڈمنسٹرز سے کام چلایا جارہا تھا۔
گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں کے بعد کراچی ماضی کی طرح ایک بار پھر ڈوب گیا تھا، اگر شہر کی سماجی فضا کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ شہری کراچی کی اس ابتر حالت سے تنگ آچکے ہیں اور اب کسی حقیقی بہتری کی تمنا رکھتے ہیں۔
ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی مقامی حکومت کو کتنے وسائل اور اختیارات ملیں گے اور کیا وہ کم وسائل میں کوئی کام کرسکیں گے تو ہماری رائے میں وسائل کا رونا ایک عذر لنگ ہے، اب مستقبل پر نظر رکھ کر نئے میئر کو کراچی کے لیے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں جمہوریت کی کمزور کارکردگی کا سب سے بڑا سبب بلدیاتی اداروں کی بے وقعتی ہے، بلدیاتی اداروں کو خود مختاری نہیں دی گئی ، آمریتوں میں تو پھر بھی بلدیاتی اداروں کے پاس خاصے اختیارات اور وسائل رہے لیکن جمہوری ادوار میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو کم کیا گیا۔
جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اداروں میں بلدیاتی ادارے خاصے فعال رہے، اس کے برعکس منتخب جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام اور انھیں مطلوبہ اہمیت دینے سے ہمیشہ احتراز کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ مردم شماری کے بعد کراچی کے سیاسی گروپوں کی جانب سے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم کرکے لکھنے کی شکایت کی گئی تھی اور اس بنیاد پر حلقہ بندیوں اور ووٹرز لسٹوں کو بوگس قرار دے کر دوبارہ مردم شماری کرانے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک بھر کے عوام کا مفاد سب سے پہلے پاکستان اور پھر کراچی سے وابستہ ہے۔ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر ہے۔
کراچی کی آبادی کا درست اندراج ہونا ہی سب کے مفاد میں ہے۔ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری ہونا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں موثر بلدیاتی نظام ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا ضامن ہے اور جن ممالک میں عوام کے مسائل میں انقلابی کمی آئی ہے وہاں بلدیاتی نظام انتہائی بااختیار اور موثر ہے۔ بلدیاتی نمایندوں کو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام کو غیر موثر کیا گیا ہے اور قانون سازی کرکے تمام تر وسائل و اختیارات صوبائی حکومتوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور غیر موثر بلدیاتی نظام کے تحت بھی انتخابات کے بروقت انعقاد سے راہ فرار اختیار کی جاتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے کہ بلدیاتی نمایندوں کو مکمل طور پر بے اختیار و غیر موثر بناکر تمام اختیارات و وسائل اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دیے جائیں۔
ملک بھر میں بلدیاتی نظام کو موثر اور بااختیار بنائے بغیر عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرکے موثر بلدیاتی نظام رائج کیا جائے اور ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جائے۔
ایسا قانون ملک بھر کے لیے بنایا جائے کہ خدانخواستہ جنگی صورتحال میں بھی ہر صورت بلدیاتی انتخابات بروقت منعقد ہونے چاہئیں۔
بلدیاتی نظام کا ہر جمہوری دور میں گلا گھونٹا گیا اور فوجی ادوار میں بلدیاتی نظام کو موثر ترین طریقے سے رائج کیا گیا جس کے باعث عوام کے مسائل حل ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ضلعی حکومتوں کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا، بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات و وسائل فراہم کیے گئے جس کے باعث ضلع، تحصیل اور یونین کونسلز کی سطح پر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم اس قدر کامیاب تھا کہ کئی اراکین قومی اسمبلی نے اپنے عہدوں سے استعفے دے کر ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کی۔
ارباب اختیار کو چاہیے کہ عوام کے مسائل کی فکر کریں اور باہمی ضد و انا کو چھوڑ کر ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے مل بیٹھیں۔ تمام ضروری اقدامات پر متفقہ قانون سازی کریں اور انصاف کی بروقت فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے کیونکہ کوئی معاشرہ ناانصافی پر نہیں چل سکتا ورنہ یہی حالات ہوتے ہیں جو اس وقت ہمارے ملک میں بن چکے ہیں۔
بلدیاتی نظام صرف پاکستان کی جمہوریت کے لیے ہی اہم نہیں ، دنیا بھر کی تمام جمہوریتوں نے اس کی اہمیت تسلیم کی ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے مختلف تجربات کے بعد عوامی مسائل کے حل کے لیے فعال بلدیاتی نظام ترتیب دیا ہے ، جس کے ذریعے عوام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نمایندے منتخب کرتے ہیں اور انھی نمایندوں میں سے چیئرمین کونسلر یا میئر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یورپ میں بلدیاتی نظام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن کے میئر کے انتخاب کی اہمیت برطانوی وزیراعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ سمجھی جاتی ہے۔
محمد صادق جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی مخالفت کے باوجود دوسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے،ان کے انتخاب کی وجہ یہی ہے کہ وہ لندن کے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔
انھوں نے لندن میں صفائی کے انتظامات سے لے کر ٹرانسپورٹ کے نظام تک ہر جگہ انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جس کے سبب آج وہ لندن کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان بھی بلدیاتی نظام کی پیداوار ہیں ، وہ 1990 کے عشرے میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور اپنے حسن انتظام کی بدولت استنبول کو دنیا کا بہترین شہر بنا دیا۔
اسی کارکردگی کی بنا پر عوام نے انھیں ترکی کا صدر منتخب کیا۔ انڈونیشیا میں بھی بلدیاتی اداروں سے تربیت یافتہ جوکوویدو سربراہ مملکت کے منصب تک پہنچے۔ انھوں نے 2004 میں بلدیاتی سیاست کا آغاز کیا۔2005 میں وہ سورا کارتا کے میئر منتخب ہوئے۔ اپنے سات سالہ دور اقتدار کے دوران انھوں نے شہر کی حالت بدل دی۔
ترقی یافتہ ممالک آج ہمیں جمہوریت کے استحکام کے جس معراج پر کھڑے نظر آتے ہیں اس میں بنیادی کردار مقامی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا باقاعدگی سے منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی فعالیت اور اس پلیٹ فارم سے لوگوں کے مسائل کا مقامی سطح پر فی الفور حل ہونا ہے۔
مسلسل چار بار منسوخی کے بعد بالآخر گزشتہ روز سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کراچی ، حیدرآباد سمیت دیگر اضلاع میں منعقد ہوئے۔
انتخابی عمل کے دوران امن و امان کی مجموعی صورتحال اطمینان بخش اور پر امن رہی اور عوام نے انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو بار بار ختم کیا گیا جس کی وجہ سے ان کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل نہ ہوسکے۔
اب امید ہے کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ترقیاتی کام ہوں گے، عوام کے مسئلے مقامی سطح پر حل ہوں گے، شہروں اور دیہاتوں کی بہتری اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کو بلدیاتی سہولیات میسر آئیں گی۔
انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے ، تاحال مکمل نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، البتہ اصل مقابلہ پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان دیکھنے میں آیا ہے ، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے حلقہ بندیوں پر اعتراضات دور نہ کیے جانے پر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔
اسی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ کا بلدیاتی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنا اس کی سیاسی مجبور بن چکی تھی ، اگر متحدہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیتی تو پارٹی پوزیشن کچھ اور ہوتی جب کہ ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح بھی کہیں زیادہ ہوتی۔
حکومت سندھ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو کراچی اور حیدرآباد سمیت دیگر اضلاع میں انتخابات میں تاخیر کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کی تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
الیکشن ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے جس میں عوام اپنے نمایندوں اور حکمرانوں کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت اور انتخابی عمل بھی مہذب معاشرے کی علامت ہے۔
سندھ کے عوام عجیب مخمصے میں پھنسے ہوئے تھے ، عوام بلدیاتی الیکشن کی امید لگائے بیٹھے تھے جب کہ صوبائی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ بلدیاتی الیکشن ان کے لیے رسک ہے، دوسرا بیورو کریسی بلدیاتی نظام کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتی ہے جب کہ پچھتر برسوں میں عوام نے ان سب کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں والا سلوک کیا گیا ہے۔ سندھ میں مسلسل چار بار مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی ہوا ، اسی صورتحال کی عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے کہ
جو آنا چاہو ہزار رستے نہ آنا چاہو تو عذر لاکھوں
مزاج برہم، طویل رستہ، برستی بارش، خراب موسم
کراچی ملک کا معاشی حب ہے لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں سے کوئی منتخب بلدیاتی حکومت یہاں موجود نہیں تھی بلکہ سیاسی ایڈمنسٹرز سے کام چلایا جارہا تھا۔
گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں کے بعد کراچی ماضی کی طرح ایک بار پھر ڈوب گیا تھا، اگر شہر کی سماجی فضا کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ شہری کراچی کی اس ابتر حالت سے تنگ آچکے ہیں اور اب کسی حقیقی بہتری کی تمنا رکھتے ہیں۔
ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی مقامی حکومت کو کتنے وسائل اور اختیارات ملیں گے اور کیا وہ کم وسائل میں کوئی کام کرسکیں گے تو ہماری رائے میں وسائل کا رونا ایک عذر لنگ ہے، اب مستقبل پر نظر رکھ کر نئے میئر کو کراچی کے لیے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں جمہوریت کی کمزور کارکردگی کا سب سے بڑا سبب بلدیاتی اداروں کی بے وقعتی ہے، بلدیاتی اداروں کو خود مختاری نہیں دی گئی ، آمریتوں میں تو پھر بھی بلدیاتی اداروں کے پاس خاصے اختیارات اور وسائل رہے لیکن جمہوری ادوار میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو کم کیا گیا۔
جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اداروں میں بلدیاتی ادارے خاصے فعال رہے، اس کے برعکس منتخب جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام اور انھیں مطلوبہ اہمیت دینے سے ہمیشہ احتراز کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ مردم شماری کے بعد کراچی کے سیاسی گروپوں کی جانب سے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم کرکے لکھنے کی شکایت کی گئی تھی اور اس بنیاد پر حلقہ بندیوں اور ووٹرز لسٹوں کو بوگس قرار دے کر دوبارہ مردم شماری کرانے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک بھر کے عوام کا مفاد سب سے پہلے پاکستان اور پھر کراچی سے وابستہ ہے۔ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر ہے۔
کراچی کی آبادی کا درست اندراج ہونا ہی سب کے مفاد میں ہے۔ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری ہونا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں موثر بلدیاتی نظام ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا ضامن ہے اور جن ممالک میں عوام کے مسائل میں انقلابی کمی آئی ہے وہاں بلدیاتی نظام انتہائی بااختیار اور موثر ہے۔ بلدیاتی نمایندوں کو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام کو غیر موثر کیا گیا ہے اور قانون سازی کرکے تمام تر وسائل و اختیارات صوبائی حکومتوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور غیر موثر بلدیاتی نظام کے تحت بھی انتخابات کے بروقت انعقاد سے راہ فرار اختیار کی جاتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے کہ بلدیاتی نمایندوں کو مکمل طور پر بے اختیار و غیر موثر بناکر تمام اختیارات و وسائل اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دیے جائیں۔
ملک بھر میں بلدیاتی نظام کو موثر اور بااختیار بنائے بغیر عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرکے موثر بلدیاتی نظام رائج کیا جائے اور ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جائے۔
ایسا قانون ملک بھر کے لیے بنایا جائے کہ خدانخواستہ جنگی صورتحال میں بھی ہر صورت بلدیاتی انتخابات بروقت منعقد ہونے چاہئیں۔
بلدیاتی نظام کا ہر جمہوری دور میں گلا گھونٹا گیا اور فوجی ادوار میں بلدیاتی نظام کو موثر ترین طریقے سے رائج کیا گیا جس کے باعث عوام کے مسائل حل ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ضلعی حکومتوں کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا، بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات و وسائل فراہم کیے گئے جس کے باعث ضلع، تحصیل اور یونین کونسلز کی سطح پر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم اس قدر کامیاب تھا کہ کئی اراکین قومی اسمبلی نے اپنے عہدوں سے استعفے دے کر ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کی۔
ارباب اختیار کو چاہیے کہ عوام کے مسائل کی فکر کریں اور باہمی ضد و انا کو چھوڑ کر ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے مل بیٹھیں۔ تمام ضروری اقدامات پر متفقہ قانون سازی کریں اور انصاف کی بروقت فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے کیونکہ کوئی معاشرہ ناانصافی پر نہیں چل سکتا ورنہ یہی حالات ہوتے ہیں جو اس وقت ہمارے ملک میں بن چکے ہیں۔
بلدیاتی نظام صرف پاکستان کی جمہوریت کے لیے ہی اہم نہیں ، دنیا بھر کی تمام جمہوریتوں نے اس کی اہمیت تسلیم کی ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے مختلف تجربات کے بعد عوامی مسائل کے حل کے لیے فعال بلدیاتی نظام ترتیب دیا ہے ، جس کے ذریعے عوام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نمایندے منتخب کرتے ہیں اور انھی نمایندوں میں سے چیئرمین کونسلر یا میئر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یورپ میں بلدیاتی نظام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن کے میئر کے انتخاب کی اہمیت برطانوی وزیراعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ سمجھی جاتی ہے۔
محمد صادق جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی مخالفت کے باوجود دوسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے،ان کے انتخاب کی وجہ یہی ہے کہ وہ لندن کے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔
انھوں نے لندن میں صفائی کے انتظامات سے لے کر ٹرانسپورٹ کے نظام تک ہر جگہ انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جس کے سبب آج وہ لندن کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان بھی بلدیاتی نظام کی پیداوار ہیں ، وہ 1990 کے عشرے میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور اپنے حسن انتظام کی بدولت استنبول کو دنیا کا بہترین شہر بنا دیا۔
اسی کارکردگی کی بنا پر عوام نے انھیں ترکی کا صدر منتخب کیا۔ انڈونیشیا میں بھی بلدیاتی اداروں سے تربیت یافتہ جوکوویدو سربراہ مملکت کے منصب تک پہنچے۔ انھوں نے 2004 میں بلدیاتی سیاست کا آغاز کیا۔2005 میں وہ سورا کارتا کے میئر منتخب ہوئے۔ اپنے سات سالہ دور اقتدار کے دوران انھوں نے شہر کی حالت بدل دی۔
ترقی یافتہ ممالک آج ہمیں جمہوریت کے استحکام کے جس معراج پر کھڑے نظر آتے ہیں اس میں بنیادی کردار مقامی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا باقاعدگی سے منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی فعالیت اور اس پلیٹ فارم سے لوگوں کے مسائل کا مقامی سطح پر فی الفور حل ہونا ہے۔