بے نظیر کے نام پر ہی شفافیت ہو جائے

اس پروگرام کی موجودہ سربراہ شازیہ مری کی ذمے داری ہے کہ شفافیت کی پہلے سے بہتر مثال قائم ہو،تب تو کوئی بات ہے

پاکستان میں اب تک سرکاری سطح پر سماجی بہبود کے جو منصوبے شروع کیے گئے، ان میں عالمی بینک کے غربت میں کمی کے منصوبے کی مدد سے دو ہزار نو دس سے جاری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔( عمران حکومت نے اس کا نام بدل کے احساس پروگرام رکھ دیا تھا مگر موجودہ دور میں اس کا اوریجنل نام بحال کر دیا گیا ہے )

اس پروگرام کے تحت ابتدا میں پچپن لاکھ نادار ترین خاندانوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کی نقد مدد ملنی شروع ہوئی جو اب بڑھتے بڑھتے ستتر لاکھ نادار ترین خاندانوں کے لیے سات ہزار روپے ماہانہ ہو چکی ہے ۔

اس اسکیم کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو خصوصی گرانٹس ملتی ہیں اور نادار ترین طبقات کے سماجی ، معاشی ، تعلیمی اور صحت کے معیار پر غربت کے پنجے ڈھیلے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس پروگرام کے سبب غربت کا خاتمہ تو شاید کبھی نہ ہو پائے البتہ جن خاندانوں کی کمر زمین سے لگی ہوئی ہے، انھیں ہر ماہ ایک اضافی معاشی سانس ضرور میسر آ جاتی ہے۔گویا کچھ نہ ملنے سے کچھ ملنا بہتر ہے۔

اس تناظر میں جب خرد برد کی خبریں آتی ہیں تو دل کمینے کو دھچکا تو نہیں لگتا البتہ دکھ ضرور ہوتا ہے۔مثلاً گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بے نظیر پروگرام کی انیس سو بیس اکیس کی آڈٹ رپورٹ زیرِ بحث آئی۔

اس رپورٹ کے مطابق زیرِ بحث مالی سال میں اس پروگرام کے نام پر جاری ہونے والی بھاری رقومات میں سے انیس ارب روپے ایک لاکھ تینتالیس ہزار غیر مستحق اعلیٰ و ادنی سرکاری اہلکاروں نے آپس میں ہی بانٹ لیے۔بے نظیر پروگرام کے سیکریٹری یوسف خان نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ان ملازمین میں گریڈ سترہ یا اس سے اوپر کے ڈھائی ہزار افسر بھی شامل ہیں۔یہ افسر اپنے زیرِ کفالت افراد یا دیگر رشتے داروں کو انتہائی غریب ڈکلیئر کر کے ان کے نام پر رقوم نکلواتے رہے۔

زیرِ بحث سال کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق دو سو دو ملین روپے کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان نے پروگرام کے زمہ دار عہدیداروں سے یہ بھی پوچھا کہ کن ضوابط کے تحت سیلاب زدگان کے نام پر اربوں روپے کیش کی شکل میں تقسیم کے لیے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے حوالے کیے جاتے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ کیسے ہوتی ہے؟

کمیٹی کو اس بابت کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ چنانچہ کمیٹی نے ان اہل کاروں کو اگلی سماعت پر بلایا ہے اور آڈٹ رپورٹ میں نشان زد بدعنوانیوں کی چھان بین کے لیے نیب ، ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل کے نمایندوں پر مشتمل جو مشترکہ جے آئی ٹی گزشتہ حکومت نے بنائی تھی، اس کی رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

غریبوں کے نام پر جاری سب سے بڑے قومی فلاحی منصوبے میں بڑے پیمانے پر خرد برد کی خبریں گزشتہ نو برس سے آ رہی ہیں۔میڈیا میں وقتی واویلا بھی ہوتا ہے۔

چھان بین اور شفافیت کے اعلانات بھی سامنے آتے ہیں لیکن یار لوگ پھر کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔

جون دو ہزار چودہ میں ایف آئی اے نے بے نظیر پروگرام میں تین اعشاریہ آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا سراغ لگایا اور پیسے کی خردبرد ، گاڑیوں کی بے قاعدہ خریداری اور ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اشتہاری مہمات کے ٹھیکے دان کرنے ، مارکیٹ ریٹ سے زائد رقومات کی ادائیگی اور غیر قانونی تقرریوں کے ضمن میں بیس سے زائد مقدمات درج کیے۔


سب سے زیادہ کرپشن سیلاب زدگان کے نام پر فنڈز کی تقسیم میں دیکھنے میں آئی اور ڈھائی ارب روپے سے زائد کی ادائیگی ایسے لوگوں کو کی گئی جو سیلاب سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔

جنوری دو ہزار اکیس میں وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ گریڈ ایک سے بائیس تک کے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین نے انتہائی غریب طبقات کی مدد کے لیے مختص پروگرام کو بہتی گنگا سمجھ کے خود بھی ہاتھ دھوئے اور رشتے داروں کے بھی دھلوائے۔

اس فہرست میں گریڈ سترہ سے بائیس تک کے دو ہزار سینتیس اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں جن کے مقدمات ایف آئی اے کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔اس سے قبل عمران خان کے احساس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ ریکارڈ سے آٹھ لاکھ بیس ہزار ایک سو پینسٹھ غیر مستحق افراد کے نام خارج کیے جا رہے ہیں اور مستحقین کی فہرست پر سالانہ نظرِ ثانی ہو گی۔

جون دو ہزار اکیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بے نظیر پروگرام کی پہلی سربراہ فرزانہ راجہ کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کیے۔

ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنے اور قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا۔یہ مقدمہ نیب نے اشتہاری مد میں بھاری خروبرد کے الزامات میں دائر کیا تھا۔ایک اشتہاری کمپنی کو بنا ٹینڈر یکمشت ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کا کنٹریکٹ دیا گیا نیز جعلی بلوں پر بھاری ادائیگی کی گئی۔ایک ملزم سابق چیئرپرسن کے خلاف سلطانی گواہ بن گیا۔

کیا ان ہزاروں غیر مستحقین یا ان میں سے کچھ لوگوں سے رقم نکلوائی گئی ؟ جن کے ناموں کی نیب ، ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل کے نمایندے پر مشتمل جے آئی ٹی نے نشاندہی کی یا جن کے خلاف اس بابت مقدمات قائم ہوئے ؟ گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے متعلقہ عہدیداروں کی ڈانٹ ڈپٹ سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارے میں کوئی خاص عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام عالمی بینک کے غربت میں کمی کے پروگرام کی مدد سے جاری ہے۔لہٰذا اس میں شفافیت کی خاطر ایک خودکار احتسابی میکنزم قائم کرنا عالمی سطح پر اچھی شہرت کے لیے نہائیت اہم ہے۔

ایسا کوئی بھی منصوبہ جس میں ارب ہا روپے کی نقد رقومات کی ترسیل و وصولی ہوتی ہو اس میں مکمل شفافیت کی توقع رکھنا غیر حقیقی امید ہو گی۔ جہاں مٹھائی ہو وہاں مکھیاں تو آتی ہیں۔خود مجھے ہر ہفتے دو ہفتے میں کسی نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتا رہتا ہے کہ مبارک ہو آپ کے بے نظیر پروگرام سے پچیس ہزار روپے نکل آئے ہیں۔انھیں حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں۔

یا پھر یہ شکایات کہ چونکہ زیادہ تر رجسٹرڈ افراد بالخصوص خواتین ناخواندہ ہیں لہٰذا بینک کا عملہ یا آس پاس منڈلاتے لوگ ان نادار لوگوں کو ملنے والے کیش سے کچھ رقم خود بھی اینٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یا ہر سروے میں اپنے اپنوں کے نام بھی شامل کرانے کی کوشش ہوتی ہے۔

اگرچہ ایسی شکایات کے اندراج کے لیے ہیلپ لائن بھی موجود ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اس ہیلپ لائن سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا یا فائدہ اٹھانے کے بارے میں لاعلمی آڑے آتی ہے۔

گزشتہ ہفتے سے ستتر ملین مستحقین کو سات ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے پچپن ارب روپے کی پہلی قسط تقسیم کرنے کا نئے سال کا پہلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔اس پروگرام کی موجودہ سربراہ شازیہ مری کی ذمے داری ہے کہ شفافیت کی پہلے سے بہتر مثال قائم ہو،تب تو کوئی بات ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story