پختون قومی تحریک کو درپیش مسائل
پختون قوم کو درپیش آج کی قومی مسائل اور 1930اور 1980کی دہائیوں کے مسائل میں بہت زیادہ فرق ہے
پچھلے کالم میں ہم نے موجودہ عالمی صورت حال کے تناظر میں روایتی پختون قومی تحریک اور اس کی ناکامیوں کا ایک عمومی جائزہ لیا تھا، اب اس تحریک کے مستقبل پر بات ہوگی۔
اس تحریک میں کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً،کیا ایک قوم پرست پارٹی کے کمزور یا ختم ہونے کے ساتھ ہی پختون قومی تحریک کا خاتمہ بھی ہو جائے گا؟کیا پختون قومی تحریک کسی مخصوص خاندان یا لیڈر کی مرہون منت ہوتی ہے؟ یا پختون قوم کو درپیش مسائل اور قومی استحصال پر استوار ہے؟
کیا پاکستان میں قوم پرستی کے پرانے تصورات اور نعرے اپنی اہمیت کھو رہے ہیں؟ جس کی وجہ سے روایتی قوم پرست سیاست کی دعویدار قیادت بحران کا شکار ہے اور ان کا وجود خطرے سے دو چار ہے؟
پاکستان کے اندر مختلف حصوں میں تقسیم پختون ابھی تک ایک متحدہ صوبے سے محروم کیوں ہیں؟کیا پختون روایتی قومی تحریک کی قیادت نئے دور کی سیاسی اور عالمی تقاضوں سے بے خبر ہے یا پھر اس نئی صورت حال کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے؟ پاکستان کے اندر پختون قومی تحریک میں سب سے بنیادی سوال' افغانستان کے ساتھ تعلق کا ہے۔
ڈیورنڈلائن نے پختون قومی تحریک کے نظریہ سازوں اور علمبرداروںکو عجیب مخمصے میں مبتلا کردیاہے'یہ مسئلہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی طرح ہے جو نہ اگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے'اس کے متعلق واضح بیانیہ اور پالیسی پاکستان میں پختون قومی تحریک کے لیے لازمی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ہزاروں سال قبل آرین قبائل کوہ ہندوکش کی گھاٹیوں اور تراہیوں سے نکل کر موجودہ دور کے ایران 'افغانستان 'ہندوستان اور یورپ کی طرف پھیل رہے تھے تو اس وقت ان میںکی قومی شناخت یا نظریہ نہیں تھا، موجودہ افغانستان کے علاقوں میں آباد ہونے والے آرین قبائل نے ابھی پختون قبائل کی قومی شناخت اختیار نہیں کی تھی اور نہ ہی افغانستان نام کا کوئی ملک وجود رکھتا تھا۔
اس دور میں موجودہ افغانستان کی وادیوں اور میدانوں میں رہنے والے قبائل کو ہمیشہ نامساعد حالات کا سامنا رہا ہے۔ پختون قوم کے آباء واجداد کی اکثریت خانہ بدوش چرواہے تھے جو بھیڑ بکریاں اور دیگر پالتوں مویشی پالتے تھے۔
ان میں سے کچھ قبائل نے ان علاقوں میں مستقل آبادیاں قائم کرلیں جن میں موسم بہتر، دریاؤں اور چشموں کی فراوانی کی وجہ سے ہریالی تھی ، ایسے دیہات اور شہر سائز میں چھوٹے تھے اور یہ روسی اور منگولیائی برف زاروں،اورجنوبی چین کے بلند پہاڑی علاقوں سے آنے والے غارت گروں کے لیے آسان ٹارگٹ تھے۔
اس کے علاوہ موجود افغانستان جنوبی ایشیا اور مشرق وسط تک جانے کا دروازہ تھا،اسی طرح ساسانی حکمران ہوں یا بابل و نینوا کے حکمران ان کے لیے کاکیشیا اور وسط ایشیا کا دروازہ تھا۔اس وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے لیے میدان جنگ تھا۔
بیرونی حملہ آوروں کی غارت گری اور لوٹ مار نے یہاں کے قبائل کی نفسیات و عادات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، ان میں محنت و مشقت اور ہر قسم کے دشمنوں سے لڑنے کی قدرتی صلاحیتیں پیدا کیں۔چونکہ ہر دور میںپختون قوم کو دشمنوں اور استحصال کا سامنا رہا ہے۔
اس وجہ سے یہاں ہمیشہ ''قومی تحفظ کی تحریک'' کسی نہ کسی شکل میںموجود رہی ہے 'قوم پرستی اور قومی تحفظ کا احساس دنیا کے ہر قوم میں ہوتا ہے لیکن پختونوں میں اپنے جغرافیائی اور اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے یہ احساس ہمیشہ زیادہ رہا اور غالباً سب سے زیادہ بیرونی حملہ آوروں کا سامنا بھی پختون قوم کو رہا، یہ خطہ کئی بار اجاڑا اور تباہ کیا گیا، ماڈرن قوم پرستی تو سرمایہ دارانہ نظام میں قومی ریاستوں کی شکل میں آئی لیکن قبائلی قوم پرستی ہر دور میں رہی ہے۔
یونانی تاریخ دان ہیرو ڈو ٹس نے لکھا ہے کہ یونان سے لے کر ہندوستان تک سکندر اعظم نے 27 ریاستوں کے حکمرانوں کو شکست دی' راجہ پورس کے سوا باقی ہر شکست خوردہ حکمران نے ان کو بطور فاتح ہار پہنائے لیکن غور(افغانستان) کے پہاڑوں میں رہنے والے قبائل نے ان کا مقابلہ کیا اور اپنے گوریلاحملوں نے اس کی فوج کو کافی پریشان کیا تھا ۔
ا یرانی بالادستی کے خلاف پختونوں کی مزاحمت کے ہیرو اور پہلے حکمران میروس ہوتک تھے اور پختونوں کی پہلی ریاست احمد شاہ ابدالی نے قائم کی۔ مغلوں اور انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف لڑنے والے ہزاروں پختون بھی قو م پرست تھے۔
پختونوں اورخصوصاً یوسف زئیوں اور بعد میں محمد زئیوں نے مغل سردار الغ بیگ سے بغاوت کی تو یہ بھی قوم پرستی تھی، ہلمند کی بہادر بیٹی ملالہ 'ایمل خان مہمند 'دریا خان آفریدی اور عجب خان آفریدی کی جدوجہد بھی مختلف حالات اور تاریخی تناظر میں قوم پرستی تھی ۔
پیر روخان کی مغل حکمرانوں اور ان کے پروردہ پیروں کے خلاف یا خوشحال خان خٹک کی مغلوں کے خلاف جدوجہد بھی قوم پرستی کی مثالیں ہیں' پنچ تار (ضلع بونیر)کے فتح خان ان کے فرزندمقرب خان اور ان کے ساتھیوں کی سکھوں اور بعد میں انگریزوں کے خلاف لڑائی بھی قوم پرستی تھی 'کاکاجی صنوبر حسین 'حاجی صاحب ترنگزئی 'ہڈے ملا صاحب' عمرا خان جندول اور فقیر ایپی کی سامراج دشمن قومی تحریکیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پختونوں کی معلوم سیکڑوں سال کی تاریخ میں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قومی تحریک موجود رہی ہے' اسی طرح انگریزی سامراج کے خلاف جنگ کے دوران خدائی خدمتگار تحریک نے قومی تحریک کا کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک قومی حقوق کی تحریک باچا خان اور ولی خان کی قیادت میں فعال کردار ادا کرتی رہی حالانکہ ان تمام تحریکوں کے حاصلات پختون قوم کی خواہشات سے بہت کم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قومی حقوق کی تحریک کا ٹریڈ مارک کسی ایک خاندان کو مل جائے، ہر وہ شخص جو قومی حقوق کی بات کرتا ہے، وہ قوم پرست کہلانے کا حقدار ہے'قیام پاکستان کے بعد قومی تحریک کی شکل اور ماہیت تبدیل ہو گئی لیکن بدقسمتی سے روایتی قوم پرست اس کا ادراک نہ کر سکے۔
قیام پاکستان سے قبل دو دفعہ صوبہ سرحد میں خدائی خدمت گار تحریک کی حکومت بنی 'دونوں دفعہ باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب خدائی خدمت گاروں کے کندھوں پر سوار ہوکر اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے لیکن جب ون یونٹ کے نام پر مغربی پاکستان میں چھوٹی قومیتوں کی شناخت اور حقوق غصب کیے گئے تو ڈاکٹر خان صاحب ری پبلکن پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرکے اس ون یونٹ انتظامیہ کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور باچا خان پانچ سال کے لیے ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں جیل چلے گئے 'توکیا ہم ڈاکٹر خان صاحب کو اس لیے قوم پرست کہیں گے کہ وہ باچا خان کے بڑے بھائی تھے۔
قوم پرستی کا جذبہ باچاخان کے ساتھ رشتے کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹھوس معروضی حالات میں قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کو کہتے ہیں۔باچا خان اور ولی خان نے اپنے دور میں قومی تحریک کاپرچم بلند کیا اور کامیابی سے تحریک کو چلایا حالانکہ اس دوران بھی پختون قوم کو درپیش مسائل حل نہ ہوسکے۔
اس کی وجوہات تحریک کی غلط پالیسیاں ہو سکتی ہیں لیکن ان شخصیات اور ان کے ساتھیوں کے خلوص پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قوم پرستی کی سیاست کا ٹریڈ مارک کسی مخصوص خاندان کے نام رجسٹرڈ ہو چکا ہے' ہر پختون قوم پرست ہو سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ وہ پختون قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کرے اور ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔
پختون قوم کو درپیش آج کی قومی مسائل اور 1930اور 1980کی دہائیوں کے مسائل میں بہت زیادہ فرق ہے 'اس کے لیے نئے ویژن اور'' قومی تحریک کے جدید نقطہ نظر یا نیو نیشلزم '' اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اجارہ داری کسی بھی شعبے میں اچھے نتائج نہیں دیتی ۔آج کی صورت حال اور نوآبادیاتی دور کی صورت حال اور مسائل میں کافی فرق ہے۔
اس وقت غلامی تھی اور آج ایک آزاد ملک میں حقوق کا مسئلہ ہے' آج گلوبلائزیشن اور ملٹی پولر دنیا کا دور ہے اور ہماری سر زمین کئی قسم کے نئے مسائل سے دو چار ہے، اس لیے ان مسائل کا ادراک رکھنے والی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والی قیادت اور پارٹی ہی صحیح معنوں میں قوم پرست کہلانے کی مستحق ہوگی۔
اس تحریک میں کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً،کیا ایک قوم پرست پارٹی کے کمزور یا ختم ہونے کے ساتھ ہی پختون قومی تحریک کا خاتمہ بھی ہو جائے گا؟کیا پختون قومی تحریک کسی مخصوص خاندان یا لیڈر کی مرہون منت ہوتی ہے؟ یا پختون قوم کو درپیش مسائل اور قومی استحصال پر استوار ہے؟
کیا پاکستان میں قوم پرستی کے پرانے تصورات اور نعرے اپنی اہمیت کھو رہے ہیں؟ جس کی وجہ سے روایتی قوم پرست سیاست کی دعویدار قیادت بحران کا شکار ہے اور ان کا وجود خطرے سے دو چار ہے؟
پاکستان کے اندر مختلف حصوں میں تقسیم پختون ابھی تک ایک متحدہ صوبے سے محروم کیوں ہیں؟کیا پختون روایتی قومی تحریک کی قیادت نئے دور کی سیاسی اور عالمی تقاضوں سے بے خبر ہے یا پھر اس نئی صورت حال کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے؟ پاکستان کے اندر پختون قومی تحریک میں سب سے بنیادی سوال' افغانستان کے ساتھ تعلق کا ہے۔
ڈیورنڈلائن نے پختون قومی تحریک کے نظریہ سازوں اور علمبرداروںکو عجیب مخمصے میں مبتلا کردیاہے'یہ مسئلہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی طرح ہے جو نہ اگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے'اس کے متعلق واضح بیانیہ اور پالیسی پاکستان میں پختون قومی تحریک کے لیے لازمی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ہزاروں سال قبل آرین قبائل کوہ ہندوکش کی گھاٹیوں اور تراہیوں سے نکل کر موجودہ دور کے ایران 'افغانستان 'ہندوستان اور یورپ کی طرف پھیل رہے تھے تو اس وقت ان میںکی قومی شناخت یا نظریہ نہیں تھا، موجودہ افغانستان کے علاقوں میں آباد ہونے والے آرین قبائل نے ابھی پختون قبائل کی قومی شناخت اختیار نہیں کی تھی اور نہ ہی افغانستان نام کا کوئی ملک وجود رکھتا تھا۔
اس دور میں موجودہ افغانستان کی وادیوں اور میدانوں میں رہنے والے قبائل کو ہمیشہ نامساعد حالات کا سامنا رہا ہے۔ پختون قوم کے آباء واجداد کی اکثریت خانہ بدوش چرواہے تھے جو بھیڑ بکریاں اور دیگر پالتوں مویشی پالتے تھے۔
ان میں سے کچھ قبائل نے ان علاقوں میں مستقل آبادیاں قائم کرلیں جن میں موسم بہتر، دریاؤں اور چشموں کی فراوانی کی وجہ سے ہریالی تھی ، ایسے دیہات اور شہر سائز میں چھوٹے تھے اور یہ روسی اور منگولیائی برف زاروں،اورجنوبی چین کے بلند پہاڑی علاقوں سے آنے والے غارت گروں کے لیے آسان ٹارگٹ تھے۔
اس کے علاوہ موجود افغانستان جنوبی ایشیا اور مشرق وسط تک جانے کا دروازہ تھا،اسی طرح ساسانی حکمران ہوں یا بابل و نینوا کے حکمران ان کے لیے کاکیشیا اور وسط ایشیا کا دروازہ تھا۔اس وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے لیے میدان جنگ تھا۔
بیرونی حملہ آوروں کی غارت گری اور لوٹ مار نے یہاں کے قبائل کی نفسیات و عادات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، ان میں محنت و مشقت اور ہر قسم کے دشمنوں سے لڑنے کی قدرتی صلاحیتیں پیدا کیں۔چونکہ ہر دور میںپختون قوم کو دشمنوں اور استحصال کا سامنا رہا ہے۔
اس وجہ سے یہاں ہمیشہ ''قومی تحفظ کی تحریک'' کسی نہ کسی شکل میںموجود رہی ہے 'قوم پرستی اور قومی تحفظ کا احساس دنیا کے ہر قوم میں ہوتا ہے لیکن پختونوں میں اپنے جغرافیائی اور اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے یہ احساس ہمیشہ زیادہ رہا اور غالباً سب سے زیادہ بیرونی حملہ آوروں کا سامنا بھی پختون قوم کو رہا، یہ خطہ کئی بار اجاڑا اور تباہ کیا گیا، ماڈرن قوم پرستی تو سرمایہ دارانہ نظام میں قومی ریاستوں کی شکل میں آئی لیکن قبائلی قوم پرستی ہر دور میں رہی ہے۔
یونانی تاریخ دان ہیرو ڈو ٹس نے لکھا ہے کہ یونان سے لے کر ہندوستان تک سکندر اعظم نے 27 ریاستوں کے حکمرانوں کو شکست دی' راجہ پورس کے سوا باقی ہر شکست خوردہ حکمران نے ان کو بطور فاتح ہار پہنائے لیکن غور(افغانستان) کے پہاڑوں میں رہنے والے قبائل نے ان کا مقابلہ کیا اور اپنے گوریلاحملوں نے اس کی فوج کو کافی پریشان کیا تھا ۔
ا یرانی بالادستی کے خلاف پختونوں کی مزاحمت کے ہیرو اور پہلے حکمران میروس ہوتک تھے اور پختونوں کی پہلی ریاست احمد شاہ ابدالی نے قائم کی۔ مغلوں اور انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف لڑنے والے ہزاروں پختون بھی قو م پرست تھے۔
پختونوں اورخصوصاً یوسف زئیوں اور بعد میں محمد زئیوں نے مغل سردار الغ بیگ سے بغاوت کی تو یہ بھی قوم پرستی تھی، ہلمند کی بہادر بیٹی ملالہ 'ایمل خان مہمند 'دریا خان آفریدی اور عجب خان آفریدی کی جدوجہد بھی مختلف حالات اور تاریخی تناظر میں قوم پرستی تھی ۔
پیر روخان کی مغل حکمرانوں اور ان کے پروردہ پیروں کے خلاف یا خوشحال خان خٹک کی مغلوں کے خلاف جدوجہد بھی قوم پرستی کی مثالیں ہیں' پنچ تار (ضلع بونیر)کے فتح خان ان کے فرزندمقرب خان اور ان کے ساتھیوں کی سکھوں اور بعد میں انگریزوں کے خلاف لڑائی بھی قوم پرستی تھی 'کاکاجی صنوبر حسین 'حاجی صاحب ترنگزئی 'ہڈے ملا صاحب' عمرا خان جندول اور فقیر ایپی کی سامراج دشمن قومی تحریکیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پختونوں کی معلوم سیکڑوں سال کی تاریخ میں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قومی تحریک موجود رہی ہے' اسی طرح انگریزی سامراج کے خلاف جنگ کے دوران خدائی خدمتگار تحریک نے قومی تحریک کا کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک قومی حقوق کی تحریک باچا خان اور ولی خان کی قیادت میں فعال کردار ادا کرتی رہی حالانکہ ان تمام تحریکوں کے حاصلات پختون قوم کی خواہشات سے بہت کم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قومی حقوق کی تحریک کا ٹریڈ مارک کسی ایک خاندان کو مل جائے، ہر وہ شخص جو قومی حقوق کی بات کرتا ہے، وہ قوم پرست کہلانے کا حقدار ہے'قیام پاکستان کے بعد قومی تحریک کی شکل اور ماہیت تبدیل ہو گئی لیکن بدقسمتی سے روایتی قوم پرست اس کا ادراک نہ کر سکے۔
قیام پاکستان سے قبل دو دفعہ صوبہ سرحد میں خدائی خدمت گار تحریک کی حکومت بنی 'دونوں دفعہ باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب خدائی خدمت گاروں کے کندھوں پر سوار ہوکر اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے لیکن جب ون یونٹ کے نام پر مغربی پاکستان میں چھوٹی قومیتوں کی شناخت اور حقوق غصب کیے گئے تو ڈاکٹر خان صاحب ری پبلکن پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرکے اس ون یونٹ انتظامیہ کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور باچا خان پانچ سال کے لیے ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں جیل چلے گئے 'توکیا ہم ڈاکٹر خان صاحب کو اس لیے قوم پرست کہیں گے کہ وہ باچا خان کے بڑے بھائی تھے۔
قوم پرستی کا جذبہ باچاخان کے ساتھ رشتے کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹھوس معروضی حالات میں قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کو کہتے ہیں۔باچا خان اور ولی خان نے اپنے دور میں قومی تحریک کاپرچم بلند کیا اور کامیابی سے تحریک کو چلایا حالانکہ اس دوران بھی پختون قوم کو درپیش مسائل حل نہ ہوسکے۔
اس کی وجوہات تحریک کی غلط پالیسیاں ہو سکتی ہیں لیکن ان شخصیات اور ان کے ساتھیوں کے خلوص پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قوم پرستی کی سیاست کا ٹریڈ مارک کسی مخصوص خاندان کے نام رجسٹرڈ ہو چکا ہے' ہر پختون قوم پرست ہو سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ وہ پختون قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کرے اور ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔
پختون قوم کو درپیش آج کی قومی مسائل اور 1930اور 1980کی دہائیوں کے مسائل میں بہت زیادہ فرق ہے 'اس کے لیے نئے ویژن اور'' قومی تحریک کے جدید نقطہ نظر یا نیو نیشلزم '' اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اجارہ داری کسی بھی شعبے میں اچھے نتائج نہیں دیتی ۔آج کی صورت حال اور نوآبادیاتی دور کی صورت حال اور مسائل میں کافی فرق ہے۔
اس وقت غلامی تھی اور آج ایک آزاد ملک میں حقوق کا مسئلہ ہے' آج گلوبلائزیشن اور ملٹی پولر دنیا کا دور ہے اور ہماری سر زمین کئی قسم کے نئے مسائل سے دو چار ہے، اس لیے ان مسائل کا ادراک رکھنے والی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والی قیادت اور پارٹی ہی صحیح معنوں میں قوم پرست کہلانے کی مستحق ہوگی۔