قومی مسائل کا حل غیر معمولی اقدامات
ہمارے ریاستی وحکومتی سطح پر فیصلہ ساز کو اپنی موجودہ روش چھوڑنی ہوگی
پاکستان کے سیاسی ، سماجی، انتظامی، قانونی، آئینی اور معاشی معاملات پر نظر ڈالیں تو قومی سطح پر ایک فکر مندی کا پہلو غالب ہے۔
اہل دانش یا سنجیدہ افراد کے بقول حالات کی سنگینی کا تقاضہ ہے کہ ہمیں روائتی تبدیلیوں، سوچ او رفکر سے باہر نکل کر کوئی متبادل راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ جمہوریت بنیادی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دیتی ہے۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا گیا۔ یہ ناکامی کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم مجموعی طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یہ وقت محض کسی پر الزام لگانے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ایک متبادل سوچ اور فکر کے ساتھ قومی ترقی کے روڈ میپ پر متفق ہونا او راس پر عملی طور پر عملدرآمد کے نظام کو یقینی بنانا ہے ۔
ہماری اجتماعی سوچ اور فکر مسائل کے حل کی طرف ہونی چاہیے نہ کہ ہم پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن کر اپنی قومی مشکلات میں اضافہ کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔
سیاسی اورمعاشی استحکام کی جنگ کسی بھی صورت میں محض جذباتیت، خوشنما نعروں یا مصنوعی اقدامات کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ ہمیں ٹھوس بنیادوں پر اپنا قومی ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے۔ ایسا ایجنڈا جو کم ازکم پندرہ یا بیس برس تک ہو اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی سے جڑے معاملات کا حل بھی تلاش کرسکیں او رلوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بھی پیدا کرسکیں۔
ہماری حکمرانی کا نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ایسا نظام جو ایک مخصوص طبقہ کی بالادستی یا طاقت پر یقین رکھتا ہے جب کہ عام اور محروم طبقہ خود کو اس نظام میں کمزور محسوس کرتا ہے۔
طبقاتی بنیادوں پر سیاسی ، قانونی اورمعاشی نظام کی تشکیل یا اس کو مضبوط بنانے کا عمل لوگوں میں تیزی سے ریاست اور ملک کے بارے میں لاتعلقی کے عمل کو مضبوط بنارہا ہے۔سیاسی جماعتوں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کے پاس کوئی ایسا روڈ میپ نہیں جو ہمیں اپنے مسائل کے حل میں امیدکے پہلو کو قائم کرسکے۔
سیاسی او رمذہبی بنیاد پر موجود تقسیم یا معاشی بنیادو ں پر تقسیم کا پہلو مجموعی طور پر قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔جب کہ ان حالات میں جب ہمیں آگے بڑھنے یا معاملات سے نمٹنے کے لیے '' غیر معمولی اقدامات '' درکار ہیں تو حکمران طبقہ روائتی طرز کی سیاست او رحکمت عملیوں کے ساتھ معاملات کو اور زیادہ خراب کررہا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ریاست، حکومت او رطاقت ور طبقات اور عام لوگوں کے درمیان ترجیحات کا بنیادی ٹکراو ہے۔ یہ ٹکراؤ ہمیں مزید الجھا رہا ہے او رہم معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھتے جارہے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا نظام اس حد تک غیر منصفانہ ہے کہ اس میں سے سوائے استحصال کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک طرف ہم قومی مسائل کے حل میں انتظامی اورمالی اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہیں اور عدم مرکزیت پر مبنی نظام کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی خطرہ کی بنیاد پر '' خود مختار اور مستحکم مقامی حکومت '' ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہم اس نظام کے مقابلے میں متبادل نظام بنانے اور کمپنیوں یا اتھارٹیوں کی بنیاد پر مقامی حکمرانی کے نظام کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ تجربہ بار بار ناکام ہو رہا ہے مگر ہم سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ بیوروکریسی ، پولیس، ایف بی آر ، عدالتی نظام یا سیاسی ومعاشی نظام میں اصلاحات کو اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنانے کے خلاف ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی اصلاحات کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔لیکن اول ہم اصلاحات کے مخالف ہیں اسے ہم اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
دوئم اگر ہمیں کسی سیاسی یا عالمی مجبوری کی بنیاد پر کچھ اصلاحات کرنا بھی پڑیں تو ہماری سوچ اور فکر عارضی ہوتی ہے اور ہم اس پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ہمارا انتظامی نظام اور ڈھانچہ بہت بھاری ہے۔
ہم بنیادی طور پر اپنی اصلاح کے لیے اپنا داخلی پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تیار نہیں او رنہ ہی اپنی عادات او رطرز حکمرانی کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم سارا بوجھ عام او رکمزور آدمی پر ڈال کر اپنی ذاتی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
یہ جو ہمارے موجودہ حالات کی سنگینی ہیں جو ہمیں سخت گیر فیصلے ، کڑوی گولیاں کھانے ، طاقت ور طبقات پر کمزور کے مقابلے میں زیادہ بوجھ ڈالنے پر مجبور کررہی ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔اب وقت ہے کہ ہمیں عالمی امداوں کا بھی سیاسی اور معاشی سطح کا آڈٹ کرنا چاہیے کہ یہ خطیر رقم کس پر خرچ کی گئی ہے۔
تعلیم او رصحت کے معاملات میں نج کاری یا پبلک سیکٹر کے مقابلے میں نجی شعبوں کو کھلی چھٹی دینے کا عمل لوگوں کو بنیادی حق اور ضرورتوں سے بھی محروم کررہا ہے۔مسئلہ محض سیاست کا نہیں بلکہ ریاستی نظام کا ہے۔ ایسا نظام جو انسانوں پر کم سرمایہ کاری کرتا ہو وہ کبھی ترقی نہیں کرتا۔ ہم داخلی ، علاقائی او رخارجی سطح پر تنازعات کی سیاست یا فیصلوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ علاقائی ممالک جن میں ا بھارت او رافغانستان بھی شامل ہے۔
ان سے تعلقات کی بہتری کے بغیر معاشی ترقی کا عمل بھی سوالیہ نشان ہے۔ہمیں ایک بڑی سرجری کے ساتھ ایک بڑے سیاسی اور معاشی روڈ میپ کی ضرورت ہے۔ ایسا روڈ میپ جو لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی بھی رکھتا ہو اور ہماری ترجیحات میں سیاسی لچک سمیت خو دکو دنیا کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت بھی ہو۔
ہمارے ریاستی وحکومتی سطح پر فیصلہ ساز کو اپنی موجودہ روش چھوڑنی ہوگی یا ان پر قومی سطح سے ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اپنا طرز عمل تبدیل کریں۔
صرف دوسروں پر انحصار کرکے ہم زندہ تو رہ سکتے ہیں مگر قومی خود مختاری او رقومی سطح پر آزاد فیصلوں کی سیاست میں ہم بہت پیچھے کھڑے ہوںگے ۔
اہل دانش یا سنجیدہ افراد کے بقول حالات کی سنگینی کا تقاضہ ہے کہ ہمیں روائتی تبدیلیوں، سوچ او رفکر سے باہر نکل کر کوئی متبادل راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ جمہوریت بنیادی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دیتی ہے۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا گیا۔ یہ ناکامی کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم مجموعی طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یہ وقت محض کسی پر الزام لگانے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ایک متبادل سوچ اور فکر کے ساتھ قومی ترقی کے روڈ میپ پر متفق ہونا او راس پر عملی طور پر عملدرآمد کے نظام کو یقینی بنانا ہے ۔
ہماری اجتماعی سوچ اور فکر مسائل کے حل کی طرف ہونی چاہیے نہ کہ ہم پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن کر اپنی قومی مشکلات میں اضافہ کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔
سیاسی اورمعاشی استحکام کی جنگ کسی بھی صورت میں محض جذباتیت، خوشنما نعروں یا مصنوعی اقدامات کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ ہمیں ٹھوس بنیادوں پر اپنا قومی ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے۔ ایسا ایجنڈا جو کم ازکم پندرہ یا بیس برس تک ہو اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی سے جڑے معاملات کا حل بھی تلاش کرسکیں او رلوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بھی پیدا کرسکیں۔
ہماری حکمرانی کا نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ایسا نظام جو ایک مخصوص طبقہ کی بالادستی یا طاقت پر یقین رکھتا ہے جب کہ عام اور محروم طبقہ خود کو اس نظام میں کمزور محسوس کرتا ہے۔
طبقاتی بنیادوں پر سیاسی ، قانونی اورمعاشی نظام کی تشکیل یا اس کو مضبوط بنانے کا عمل لوگوں میں تیزی سے ریاست اور ملک کے بارے میں لاتعلقی کے عمل کو مضبوط بنارہا ہے۔سیاسی جماعتوں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کے پاس کوئی ایسا روڈ میپ نہیں جو ہمیں اپنے مسائل کے حل میں امیدکے پہلو کو قائم کرسکے۔
سیاسی او رمذہبی بنیاد پر موجود تقسیم یا معاشی بنیادو ں پر تقسیم کا پہلو مجموعی طور پر قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔جب کہ ان حالات میں جب ہمیں آگے بڑھنے یا معاملات سے نمٹنے کے لیے '' غیر معمولی اقدامات '' درکار ہیں تو حکمران طبقہ روائتی طرز کی سیاست او رحکمت عملیوں کے ساتھ معاملات کو اور زیادہ خراب کررہا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ریاست، حکومت او رطاقت ور طبقات اور عام لوگوں کے درمیان ترجیحات کا بنیادی ٹکراو ہے۔ یہ ٹکراؤ ہمیں مزید الجھا رہا ہے او رہم معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھتے جارہے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا نظام اس حد تک غیر منصفانہ ہے کہ اس میں سے سوائے استحصال کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک طرف ہم قومی مسائل کے حل میں انتظامی اورمالی اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہیں اور عدم مرکزیت پر مبنی نظام کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی خطرہ کی بنیاد پر '' خود مختار اور مستحکم مقامی حکومت '' ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہم اس نظام کے مقابلے میں متبادل نظام بنانے اور کمپنیوں یا اتھارٹیوں کی بنیاد پر مقامی حکمرانی کے نظام کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ تجربہ بار بار ناکام ہو رہا ہے مگر ہم سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ بیوروکریسی ، پولیس، ایف بی آر ، عدالتی نظام یا سیاسی ومعاشی نظام میں اصلاحات کو اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنانے کے خلاف ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی اصلاحات کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔لیکن اول ہم اصلاحات کے مخالف ہیں اسے ہم اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
دوئم اگر ہمیں کسی سیاسی یا عالمی مجبوری کی بنیاد پر کچھ اصلاحات کرنا بھی پڑیں تو ہماری سوچ اور فکر عارضی ہوتی ہے اور ہم اس پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ہمارا انتظامی نظام اور ڈھانچہ بہت بھاری ہے۔
ہم بنیادی طور پر اپنی اصلاح کے لیے اپنا داخلی پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تیار نہیں او رنہ ہی اپنی عادات او رطرز حکمرانی کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم سارا بوجھ عام او رکمزور آدمی پر ڈال کر اپنی ذاتی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
یہ جو ہمارے موجودہ حالات کی سنگینی ہیں جو ہمیں سخت گیر فیصلے ، کڑوی گولیاں کھانے ، طاقت ور طبقات پر کمزور کے مقابلے میں زیادہ بوجھ ڈالنے پر مجبور کررہی ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔اب وقت ہے کہ ہمیں عالمی امداوں کا بھی سیاسی اور معاشی سطح کا آڈٹ کرنا چاہیے کہ یہ خطیر رقم کس پر خرچ کی گئی ہے۔
تعلیم او رصحت کے معاملات میں نج کاری یا پبلک سیکٹر کے مقابلے میں نجی شعبوں کو کھلی چھٹی دینے کا عمل لوگوں کو بنیادی حق اور ضرورتوں سے بھی محروم کررہا ہے۔مسئلہ محض سیاست کا نہیں بلکہ ریاستی نظام کا ہے۔ ایسا نظام جو انسانوں پر کم سرمایہ کاری کرتا ہو وہ کبھی ترقی نہیں کرتا۔ ہم داخلی ، علاقائی او رخارجی سطح پر تنازعات کی سیاست یا فیصلوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ علاقائی ممالک جن میں ا بھارت او رافغانستان بھی شامل ہے۔
ان سے تعلقات کی بہتری کے بغیر معاشی ترقی کا عمل بھی سوالیہ نشان ہے۔ہمیں ایک بڑی سرجری کے ساتھ ایک بڑے سیاسی اور معاشی روڈ میپ کی ضرورت ہے۔ ایسا روڈ میپ جو لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی بھی رکھتا ہو اور ہماری ترجیحات میں سیاسی لچک سمیت خو دکو دنیا کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت بھی ہو۔
ہمارے ریاستی وحکومتی سطح پر فیصلہ ساز کو اپنی موجودہ روش چھوڑنی ہوگی یا ان پر قومی سطح سے ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اپنا طرز عمل تبدیل کریں۔
صرف دوسروں پر انحصار کرکے ہم زندہ تو رہ سکتے ہیں مگر قومی خود مختاری او رقومی سطح پر آزاد فیصلوں کی سیاست میں ہم بہت پیچھے کھڑے ہوںگے ۔