فنی تعلیم … معاشی ترقی و استحکام کی ضامن
پاکستان میں فنی تعلیم6فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک اس شرح کو66 فیصدتک لے جا چکے ہیں
PESHAWAR:
ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے، جس کا اندازاہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
بلاشبہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ ''پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے'' لیکن اس کے فروغ کیلئے قابل ذکر پیش رفت نہیں کر پائے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوںنے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
نوجوانوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے حکومتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نجی سیکٹر اپنے تئیں یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے لیکن جب تک حکومت کی شراکت داری اور سرپرستی نجی سیکٹر کے ساتھ نہ ہو، اُس سلسلے کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اس وقت پورے پنجاب میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹس کی تعداد صرف 325 ہے جس میں سرکاری و نجی دونوں طرز کے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے شامل ہیں، ان میں سے 295 پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ صرف نجی ہیں جبکہ دیگر 30 ادارے سرکاری ہیں۔ دیگر صوبوں کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں۔ اس اعداد و شمار سے ارباب اقتدار و اختیار کے فنی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال ان325 تعلیمی اداروں میں ہزاروں طلباء فنی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ لاکھوں یہاں داخلہ لینا چاہتے ہیں لیکن جہاں نجی پولی ٹیکنیک اداروں میں سے اکثر ادارے بھاری فیسیں بٹورنے کے باوجود عملی تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں۔
وہیں اداروں کی کمی اور جن جگہوں پر ادارے موجود ہیں، وہاں وسائل اور داخلے کی حد پوری ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ جو طلباء فنی تعلیم کی جانب رجحان رکھتے ہیں، مذکورہ امر انہیں اپنا تعلیمی سال بچانے کیلئے اپنی فیلڈ تبدیل کرنے کا باعث بھی بنتا ہے، جس سے ان کی ذہنی استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے اور رجحانات تبدیل ہونے سے ان کی صلاحیتوں اور کردار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم داخلوں کی شرح متاثر ہونے کا جائزہ لیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ مذکورہ ٹیکنیکل اداروں میں 2010ء میں رجسٹرڈ طلباء کی تعداد 54 ہزار تھی جبکہ اس وقت تعلیمی اداروں کی تعداد 170 تھی۔ یہ تعد اد 2011ء میں کم ہوکر 44 ہزار، 2012ء میں 42 ہزار رہ گئی جبکہ 2013ء میں 44 ہزار طلباء ان اداروں میں رجسٹرڈہوئے۔
ان اداروں میں متوسط طبقے کے طلباء مختلف ٹیکنیکل کورسز میں تین سالہ ڈپلومہ کرکے باعزت روزگار کے قابل اور خودمختار بن رہے ہیں۔ آپ نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنے والے ایجنٹوں اور خود اخبارات میں بیرون ملک نوکری کیلئے آنے والے اشتہارات بھی دیکھیں تو ہمیں ان میں سب سے زیادہ ٹیکنیکل کے شعبے کی نوکریاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ حالانکہ ہنرمند افرادی قوت کی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے جس سے نوجوان نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی جا کر روزگار کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن آگہی نہ ہونے اور عمومی تعلیم کے اداروں کے مقابل ٹیکنیکل اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہونے کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میںہر سال بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے خواب دیکھنے تک ہی محدود ہیں۔
فنی تعلیم کے موجودہ اداروں کی تعداد نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے، کیونکہ ہر سال سکول اور کالج کی سطح سے نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر روزگار کی تلاش میں نکلتی ہے جن میں سے اکثر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مسترد ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فنی تعلیم سے آگہی، فروغ اور اس جانب رجحان کیلئے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک یا دو ٹیکنیکل کورس لازماً نصاب میں بطور لازمی مضمون شامل کیے جانے چاہئیں تاکہ طلباء کو ڈاکٹر اور انجینئر کے علاوہ بھی کوئی ایسا شعبہ دکھائی دے جو بعد ازاں انہیں معاشی سہارا بھی دے سکے۔
اگر پاکستان میں تعلیمی اور معاشی اجتماعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں 17 سے 23 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے جن میں سے صرف 4 فیصد کالج جاتے جبکہ 96 فیصد اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں، باقی 4 فیصد میں سے 70 فیصد آرٹس اور 30 فیصد سائنس مضامین رکھتے ہیں۔ ڈگری ہولڈرز میں سے 40 فیصد سے زائد بیروزگار ہیں، اور جو برسرِ روزگار ہیں ان کی آمد ن بھی اخراجات کی نسبت لگ بھگ 70 فیصد کم ہے۔ ہمارے 70 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں جن میں سے کم از کم 60 فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان زیادہ تر فنی تعلیم کے کم مدت دورانیے کے کورس کرکے بیرون ممالک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم اس سرمائے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے پاکستان میں ہی ان کیلئے راہیں کھولیں اور مواقع پیدا کریں تو ان کی کم از کم 40 فیصد تعداد یہیں بسیرا کرنے کو ترجیح دے گی۔
اسی طرح دور دراز کے علاقوں میں فنی تعلیم کے فروغ کے اقدامات کرتے ہوئے خواتین، معذور افراد اور چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں کی فنی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتیں اگر صوبے بھر میں بے کار پڑی سرکاری عمارات کو فنی تعلیم کے مراکز کے طور پر استعمال کریں تو اس سے نہ صرف آگہی میں اضافہ ہوگا بلکہ تعلیم و تحقیق کے فروغ کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کے رجحانات میں بھی اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب ٹیکنیکل کورسز کا موجودہ سلیبس بھی تبدیل کرتے ہوئے اسے دور حاضر کی جہتوں اور طلباء کی ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سلیبس موجودہ دور کے مطابق ریوائز کیے جائیں اور ڈپلومہ کورسز جو پاکستان میں 50سال سے زائد عرصہ سے ہورہے ہیں، ان کے استحکام کیلئے ''ٹیکنیکل ٹیکسٹ بک بورڈ'' بنایا جائے جو کورس کی تکنیکی تبدیلیوں کے حوالے سے پیش رفت کرے اور طلباء کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کورسز کو ان کی ذہنی استعداد کار کے مطابق ڈھالنے میں معاون ہو۔ فنی تعلیم کے شعبے کا فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک فعال، آزاد اور خودمختار بورڈ تشکیل دیا جانا چاہئے جو مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہو اور ایک ایسا روڈ میپ وضع کرے جو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کے لئے اقدامات کرے، نیز ایک ایسا ماڈل تیار کیا جائے جس کے تحت پرائیویٹ سیکٹر میں فنی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو سبسڈی اور پرائیویٹ سیکٹر کو مراعات دی جائیں۔ اس مقصد کے لئے مل بیٹھ کر ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے، جس کا اندازاہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
بلاشبہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ ''پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے'' لیکن اس کے فروغ کیلئے قابل ذکر پیش رفت نہیں کر پائے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوںنے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
نوجوانوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے حکومتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نجی سیکٹر اپنے تئیں یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے لیکن جب تک حکومت کی شراکت داری اور سرپرستی نجی سیکٹر کے ساتھ نہ ہو، اُس سلسلے کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اس وقت پورے پنجاب میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹس کی تعداد صرف 325 ہے جس میں سرکاری و نجی دونوں طرز کے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے شامل ہیں، ان میں سے 295 پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ صرف نجی ہیں جبکہ دیگر 30 ادارے سرکاری ہیں۔ دیگر صوبوں کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں۔ اس اعداد و شمار سے ارباب اقتدار و اختیار کے فنی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال ان325 تعلیمی اداروں میں ہزاروں طلباء فنی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ لاکھوں یہاں داخلہ لینا چاہتے ہیں لیکن جہاں نجی پولی ٹیکنیک اداروں میں سے اکثر ادارے بھاری فیسیں بٹورنے کے باوجود عملی تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں۔
وہیں اداروں کی کمی اور جن جگہوں پر ادارے موجود ہیں، وہاں وسائل اور داخلے کی حد پوری ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ جو طلباء فنی تعلیم کی جانب رجحان رکھتے ہیں، مذکورہ امر انہیں اپنا تعلیمی سال بچانے کیلئے اپنی فیلڈ تبدیل کرنے کا باعث بھی بنتا ہے، جس سے ان کی ذہنی استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے اور رجحانات تبدیل ہونے سے ان کی صلاحیتوں اور کردار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم داخلوں کی شرح متاثر ہونے کا جائزہ لیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ مذکورہ ٹیکنیکل اداروں میں 2010ء میں رجسٹرڈ طلباء کی تعداد 54 ہزار تھی جبکہ اس وقت تعلیمی اداروں کی تعداد 170 تھی۔ یہ تعد اد 2011ء میں کم ہوکر 44 ہزار، 2012ء میں 42 ہزار رہ گئی جبکہ 2013ء میں 44 ہزار طلباء ان اداروں میں رجسٹرڈہوئے۔
ان اداروں میں متوسط طبقے کے طلباء مختلف ٹیکنیکل کورسز میں تین سالہ ڈپلومہ کرکے باعزت روزگار کے قابل اور خودمختار بن رہے ہیں۔ آپ نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنے والے ایجنٹوں اور خود اخبارات میں بیرون ملک نوکری کیلئے آنے والے اشتہارات بھی دیکھیں تو ہمیں ان میں سب سے زیادہ ٹیکنیکل کے شعبے کی نوکریاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ حالانکہ ہنرمند افرادی قوت کی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے جس سے نوجوان نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی جا کر روزگار کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن آگہی نہ ہونے اور عمومی تعلیم کے اداروں کے مقابل ٹیکنیکل اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہونے کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میںہر سال بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے خواب دیکھنے تک ہی محدود ہیں۔
فنی تعلیم کے موجودہ اداروں کی تعداد نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے، کیونکہ ہر سال سکول اور کالج کی سطح سے نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر روزگار کی تلاش میں نکلتی ہے جن میں سے اکثر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مسترد ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فنی تعلیم سے آگہی، فروغ اور اس جانب رجحان کیلئے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک یا دو ٹیکنیکل کورس لازماً نصاب میں بطور لازمی مضمون شامل کیے جانے چاہئیں تاکہ طلباء کو ڈاکٹر اور انجینئر کے علاوہ بھی کوئی ایسا شعبہ دکھائی دے جو بعد ازاں انہیں معاشی سہارا بھی دے سکے۔
اگر پاکستان میں تعلیمی اور معاشی اجتماعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں 17 سے 23 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے جن میں سے صرف 4 فیصد کالج جاتے جبکہ 96 فیصد اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں، باقی 4 فیصد میں سے 70 فیصد آرٹس اور 30 فیصد سائنس مضامین رکھتے ہیں۔ ڈگری ہولڈرز میں سے 40 فیصد سے زائد بیروزگار ہیں، اور جو برسرِ روزگار ہیں ان کی آمد ن بھی اخراجات کی نسبت لگ بھگ 70 فیصد کم ہے۔ ہمارے 70 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں جن میں سے کم از کم 60 فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان زیادہ تر فنی تعلیم کے کم مدت دورانیے کے کورس کرکے بیرون ممالک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم اس سرمائے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے پاکستان میں ہی ان کیلئے راہیں کھولیں اور مواقع پیدا کریں تو ان کی کم از کم 40 فیصد تعداد یہیں بسیرا کرنے کو ترجیح دے گی۔
اسی طرح دور دراز کے علاقوں میں فنی تعلیم کے فروغ کے اقدامات کرتے ہوئے خواتین، معذور افراد اور چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں کی فنی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتیں اگر صوبے بھر میں بے کار پڑی سرکاری عمارات کو فنی تعلیم کے مراکز کے طور پر استعمال کریں تو اس سے نہ صرف آگہی میں اضافہ ہوگا بلکہ تعلیم و تحقیق کے فروغ کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کے رجحانات میں بھی اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب ٹیکنیکل کورسز کا موجودہ سلیبس بھی تبدیل کرتے ہوئے اسے دور حاضر کی جہتوں اور طلباء کی ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سلیبس موجودہ دور کے مطابق ریوائز کیے جائیں اور ڈپلومہ کورسز جو پاکستان میں 50سال سے زائد عرصہ سے ہورہے ہیں، ان کے استحکام کیلئے ''ٹیکنیکل ٹیکسٹ بک بورڈ'' بنایا جائے جو کورس کی تکنیکی تبدیلیوں کے حوالے سے پیش رفت کرے اور طلباء کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کورسز کو ان کی ذہنی استعداد کار کے مطابق ڈھالنے میں معاون ہو۔ فنی تعلیم کے شعبے کا فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک فعال، آزاد اور خودمختار بورڈ تشکیل دیا جانا چاہئے جو مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہو اور ایک ایسا روڈ میپ وضع کرے جو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کے لئے اقدامات کرے، نیز ایک ایسا ماڈل تیار کیا جائے جس کے تحت پرائیویٹ سیکٹر میں فنی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو سبسڈی اور پرائیویٹ سیکٹر کو مراعات دی جائیں۔ اس مقصد کے لئے مل بیٹھ کر ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔