’’تین ہفتے کا بچہ برتاؤ محسوس کرنے لگتا ہے‘‘
چھوٹے بہن بھائی کی پیدایش پر بڑے بچے کا انحرافی کردار، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بچوں کو نازک کلیوں اور شگفتہ پھولوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔۔۔ ان کی معصوم ادائیں اور باتیں ہر ایک کو متاثر کرتی ہیں۔
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اسی لیے کم سنی سے ہی ان کے رویوں اور افعال پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ کسی بھی غلط سمت کو نکلتے قدم کی فوراً روک کی جاتی ہے، کہ مستقبل میں کسی بگاڑ یا ناپسندیدہ عادت کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔
بچوں کا باہمی میل جول اور گفتگو ان کی عادت واطوار اور مزاج کا پتا دیتی ہے۔ آج کل بہت کم عمری میں ہی بچے ذرایع ابلاغ سے متعارف ہو جاتے ہیں اور ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ کا دائرہ اثر پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑوں اور والدین کی ایک بہت بڑی تعداد نہایت آسانی سے بچوں کے بگاڑ اور تشدد کا ذمہ دار ذرایع ابلاغ کو قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے، لیکن بہت سے ایک، ڈیڑھ اور دو سال کے بچے ایسے بھی ہیں، جو ابھی ان چیزوں سے آشنا بھی نہیں ہوتے، مگر ان میں تشدد کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بالخصوص جب ان ایک دو سال کے بچوں کے بعد جب کسی چھوٹے بہن، بھائی کی ولادت ہوتی ہے، تب ان میں اس انحراف اور بغاوت کا عنصر زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ بچوں کے اس رویے کے حوالے سے مختلف ماہرین عمرانیات ونفسیات نے مندرجہ ذیل وجوہات کی نشان دہی کی۔
٭ماں اور بچے کا طرز زندگی
ماں کا طرز زندگی، غذا اور مزاج بھی بچے کے ان رویوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح اقبال کے مطابق، ماں کا جنک فوڈ استعمال کرنا بچے پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کے بچوں کو وضع وضع کے چپس اور فرنچ فرائز بہت زیادہ مرغوب ہیں، جو ان کے مزاج میں جارحیت کا باعث ہیں۔ ڈاکٹر صابر خان بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ چھوٹے بچوں میں تشدد کا عنصر موروثی طور پر آتا ہے۔ جن بچوں کی پیدایش سے قبل ماں نفسیاتی طور پر کسی دبائو یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہو، تو ایسے بچوں میں جینیاتی طور پر ایسے رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔
٭پہلوٹھی کا بچہ
بچوں کے پُرتشدد رویے کی ایک وجہ ہماری معاشرتی روایات بھی ہیں۔ جامعہ کراچی کی صدر شعبۂ عمرانیات ڈاکٹر ثوبیہ ناز کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں خاندان اور کنبے کے بڑے بچوں کے بہت زیادہ ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے بعد میں وہ خود کو حاصل توجہ اور محبت میں حصہ داری تسلیم نہیں کر پاتے۔ بعض اوقات براہ راست انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اہمیت اب پہلی جیسی نہیں رہی اور اس کی وجہ اس کا چھوٹا بہن یا بھائی ہے۔ لہٰذا وہ اسے حریف خیال کرنے لگتے ہیں۔ کھلونوں وغیرہ پر اپنی ملکیت کے لیے سختی اور ضد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی چڑچڑے ہو کر تشدد کرنے لگتے ہیں اور ڈانٹ سے اس میں مزید شدت آتی ہے۔
٭بچہ بلا کا حساس ہوتا ہے
دو، تین سال تک کی عمر کے بچوں کی موجودگی کو بہت سے معاملات میں ناسمجھ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح اقبال کہتی ہیں کہ، پیدایش کے تین ہفتے کے اندر بچہ اپنے ساتھ کیے جانے والا برتائو اور ماحول محسوس کرنے لگتا ہے، جب کہ والدین اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ بچے کو ٹھیک سے گود میں نہیں لیتے یا ملازمین کے حوالے کر دیتے ہیں، جو گود میں اسے خود سے الگ کر کے اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس عمل سے بچے میں تحفظ کا احساس کمزور ہو سکتا ہے۔
وہ قوت گویائی نہیں رکھتا، لیکن رویوں کا ادراک کر رہا ہوتا ہے۔ رونے پر توجہ حاصل کرنا، گیلے کپڑے بدلوانے میں دیر بھی اسے بخوبی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرے بچے کی پیدایش پر اس کی ضروریات پوری ہونے میں وقت لگتا ہے۔ خود کو نظرانداز کیے جانے کا یہ احساس اسے بے چین کر کے کسی بھی جذباتی اظہار کی وجہ بن جاتا ہے۔ نومولود کے سامنے اونچی آواز میں بولنا، کسی پر غصہ کرنا یا برا بھلا کہنا، ریڈیو، ٹی وی کی اونچی آواز، یہ سب صوتی آلودگی (Noice Polotion) کا باعث ہوتا ہے، جو اس کے مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
٭توجہ کا حصول
دوسرے کی توجہ حاصل کرنا انسان کو ایک طرح کی مسرت فراہم کرتا ہے، یہ عادت بچپن میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ثوبیہ کے مطابق بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی ایسے انحرافی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ پہلے اس کے امی ابو دوسروں سے اس کا ہی تذکرہ کرتے تھے، اب اس کی جگہ چھوٹے بہن بھائی کا ذکر ہونے لگا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح انہیں بھی توجہ ملے۔ بعض اوقات اس نفسیاتی کیفیت کے زیر اثر بچوں کو بخار بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بھی توجہ حاصل کرنے کی ذہنی کیفیت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
٭عدم مساوات
عدم مساوات عام فرد کو ہی بے چین نہیں کرتی، بلکہ یہ بچوں کو بھی ردعمل پرمجبور کرتی ہے۔ ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر صابر خان کہتے ہیں کہ دیگر جان داروں کی طرح انسان کی جبلت میں بھی ''یہ میرا، یہ تمہارا'' والا طرز عمل پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات والدین کی تقسیم ہوتی توجہ بھی بچے کو اس احساس میں مبتلا کرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ان میں موازنے سے گریز کریں۔ دوسرے بچوں کی پیدایش کے بعد مساوات پر بھرپور توجہ دینا چاہیے۔ دونوں بچوں کو ایک وقت میں ایک جیسی چیز لا کر دیں، جس سے ان کے اندر برابری کا احساس پیدا ہو۔
٭بچے کو بھرپور وقت دیں
مصروفیت کی بنا پر ہر ایک کو وقت کی تنگی کی شکایت ہے، اس کی زد میں ماں اور بچے کا رشتہ بھی آیا ہے۔ عمرانیات کے استاد پروفیسر مہدی حسن زیدی کہتے ہیں کہ متوسط اور امیر طبقے کے بچوں کے جارحانہ مزاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے، لیکن یہ زیادہ تر شہری معاشرے کا مسئلہ ہے۔ غریب اور دیہاتی خاندانوں میں تو اہل خانہ کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے، اور اس کے اردگرد بہت سارے افراد کا جمگٹھا رہتا ہے۔ شہری معاشرے کے بچے کے ساتھ تنہائی کا مسئلہ ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے ساتھ بچہ بن کر اسے بھرپور وقت دیں۔ بقول ڈاکٹر فرح اقبال کے کہ بچے والدین کی 24 گھنٹے کی ذمہ داری ہیں۔ اس لیے انہیں جزوی نہیں، مکمل وقت دیجیے۔
٭غیر مشروط محبت
ڈاکٹرفرح اقبال والدین کی جانب سے بچے کو غیر مشروط محبت کے نکتے پر زور دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے سے اپنی محبت کو کسی کام سے مشروط ہرگز نہ کریں کہ تم یہ کروگے، تب ہی تمہیں پیار کیا جائے گا۔ اگر وہ کبھی کوئی غلطی کرے، تو اس کی سرزنش صرف اسی کام کی ہونی چاہیے۔ اسے یہ باور کرائیں کہ وہ اچھا بچہ ہے، لیکن اس نے یہ غلط کام کیا ہے اور اسے یہ آیندہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کریں کہ ایک غلطی کی وجہ سے اس کے سارے اچھے کاموں کو بھی بھول جائیں اور اسے احساس ہونے لگے کہ وہ واقعی گندہ بچہ ہے۔
٭ڈانٹ ڈپٹ سے گریز
اس امر پر تمام ماہرین نفسیات اور عمرانیات کا اتفاق ہے کہ دوسرے بچے کی پیدایش کے بعد بڑے بچے کے رویوں کو بہت تحمل سے برداشت کیا جائے اور ڈانٹا نہ جائے۔ دونوں کو یک ساں چیز لاکر دیں، ساتھ ہی اسے چیزیں بانٹنا سکھائیں۔ والدین کو اپنے عمومی رویوں، غذا اور طرز حیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اتنے چھوٹے بچے کے بگاڑ پر والدین اتنی آسانی سے کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ڈاکٹر ثوبیہ ناز کہتی ہیں کہ کسی بچے کو اپنے گھر میں بہن بھائی کی حیثیت سے قبول کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اس کے لیے اگر اسے دوسرے بچے کی پیدایش سے پہلے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیں، تو یہ بہتر ہو سکتا ہے۔
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اسی لیے کم سنی سے ہی ان کے رویوں اور افعال پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ کسی بھی غلط سمت کو نکلتے قدم کی فوراً روک کی جاتی ہے، کہ مستقبل میں کسی بگاڑ یا ناپسندیدہ عادت کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔
بچوں کا باہمی میل جول اور گفتگو ان کی عادت واطوار اور مزاج کا پتا دیتی ہے۔ آج کل بہت کم عمری میں ہی بچے ذرایع ابلاغ سے متعارف ہو جاتے ہیں اور ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ کا دائرہ اثر پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑوں اور والدین کی ایک بہت بڑی تعداد نہایت آسانی سے بچوں کے بگاڑ اور تشدد کا ذمہ دار ذرایع ابلاغ کو قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے، لیکن بہت سے ایک، ڈیڑھ اور دو سال کے بچے ایسے بھی ہیں، جو ابھی ان چیزوں سے آشنا بھی نہیں ہوتے، مگر ان میں تشدد کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بالخصوص جب ان ایک دو سال کے بچوں کے بعد جب کسی چھوٹے بہن، بھائی کی ولادت ہوتی ہے، تب ان میں اس انحراف اور بغاوت کا عنصر زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ بچوں کے اس رویے کے حوالے سے مختلف ماہرین عمرانیات ونفسیات نے مندرجہ ذیل وجوہات کی نشان دہی کی۔
٭ماں اور بچے کا طرز زندگی
ماں کا طرز زندگی، غذا اور مزاج بھی بچے کے ان رویوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح اقبال کے مطابق، ماں کا جنک فوڈ استعمال کرنا بچے پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کے بچوں کو وضع وضع کے چپس اور فرنچ فرائز بہت زیادہ مرغوب ہیں، جو ان کے مزاج میں جارحیت کا باعث ہیں۔ ڈاکٹر صابر خان بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ چھوٹے بچوں میں تشدد کا عنصر موروثی طور پر آتا ہے۔ جن بچوں کی پیدایش سے قبل ماں نفسیاتی طور پر کسی دبائو یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہو، تو ایسے بچوں میں جینیاتی طور پر ایسے رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔
٭پہلوٹھی کا بچہ
بچوں کے پُرتشدد رویے کی ایک وجہ ہماری معاشرتی روایات بھی ہیں۔ جامعہ کراچی کی صدر شعبۂ عمرانیات ڈاکٹر ثوبیہ ناز کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں خاندان اور کنبے کے بڑے بچوں کے بہت زیادہ ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے بعد میں وہ خود کو حاصل توجہ اور محبت میں حصہ داری تسلیم نہیں کر پاتے۔ بعض اوقات براہ راست انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اہمیت اب پہلی جیسی نہیں رہی اور اس کی وجہ اس کا چھوٹا بہن یا بھائی ہے۔ لہٰذا وہ اسے حریف خیال کرنے لگتے ہیں۔ کھلونوں وغیرہ پر اپنی ملکیت کے لیے سختی اور ضد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی چڑچڑے ہو کر تشدد کرنے لگتے ہیں اور ڈانٹ سے اس میں مزید شدت آتی ہے۔
٭بچہ بلا کا حساس ہوتا ہے
دو، تین سال تک کی عمر کے بچوں کی موجودگی کو بہت سے معاملات میں ناسمجھ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح اقبال کہتی ہیں کہ، پیدایش کے تین ہفتے کے اندر بچہ اپنے ساتھ کیے جانے والا برتائو اور ماحول محسوس کرنے لگتا ہے، جب کہ والدین اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ بچے کو ٹھیک سے گود میں نہیں لیتے یا ملازمین کے حوالے کر دیتے ہیں، جو گود میں اسے خود سے الگ کر کے اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس عمل سے بچے میں تحفظ کا احساس کمزور ہو سکتا ہے۔
وہ قوت گویائی نہیں رکھتا، لیکن رویوں کا ادراک کر رہا ہوتا ہے۔ رونے پر توجہ حاصل کرنا، گیلے کپڑے بدلوانے میں دیر بھی اسے بخوبی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرے بچے کی پیدایش پر اس کی ضروریات پوری ہونے میں وقت لگتا ہے۔ خود کو نظرانداز کیے جانے کا یہ احساس اسے بے چین کر کے کسی بھی جذباتی اظہار کی وجہ بن جاتا ہے۔ نومولود کے سامنے اونچی آواز میں بولنا، کسی پر غصہ کرنا یا برا بھلا کہنا، ریڈیو، ٹی وی کی اونچی آواز، یہ سب صوتی آلودگی (Noice Polotion) کا باعث ہوتا ہے، جو اس کے مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
٭توجہ کا حصول
دوسرے کی توجہ حاصل کرنا انسان کو ایک طرح کی مسرت فراہم کرتا ہے، یہ عادت بچپن میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ثوبیہ کے مطابق بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی ایسے انحرافی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ پہلے اس کے امی ابو دوسروں سے اس کا ہی تذکرہ کرتے تھے، اب اس کی جگہ چھوٹے بہن بھائی کا ذکر ہونے لگا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح انہیں بھی توجہ ملے۔ بعض اوقات اس نفسیاتی کیفیت کے زیر اثر بچوں کو بخار بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بھی توجہ حاصل کرنے کی ذہنی کیفیت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
٭عدم مساوات
عدم مساوات عام فرد کو ہی بے چین نہیں کرتی، بلکہ یہ بچوں کو بھی ردعمل پرمجبور کرتی ہے۔ ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر صابر خان کہتے ہیں کہ دیگر جان داروں کی طرح انسان کی جبلت میں بھی ''یہ میرا، یہ تمہارا'' والا طرز عمل پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات والدین کی تقسیم ہوتی توجہ بھی بچے کو اس احساس میں مبتلا کرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ان میں موازنے سے گریز کریں۔ دوسرے بچوں کی پیدایش کے بعد مساوات پر بھرپور توجہ دینا چاہیے۔ دونوں بچوں کو ایک وقت میں ایک جیسی چیز لا کر دیں، جس سے ان کے اندر برابری کا احساس پیدا ہو۔
٭بچے کو بھرپور وقت دیں
مصروفیت کی بنا پر ہر ایک کو وقت کی تنگی کی شکایت ہے، اس کی زد میں ماں اور بچے کا رشتہ بھی آیا ہے۔ عمرانیات کے استاد پروفیسر مہدی حسن زیدی کہتے ہیں کہ متوسط اور امیر طبقے کے بچوں کے جارحانہ مزاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے، لیکن یہ زیادہ تر شہری معاشرے کا مسئلہ ہے۔ غریب اور دیہاتی خاندانوں میں تو اہل خانہ کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے، اور اس کے اردگرد بہت سارے افراد کا جمگٹھا رہتا ہے۔ شہری معاشرے کے بچے کے ساتھ تنہائی کا مسئلہ ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے ساتھ بچہ بن کر اسے بھرپور وقت دیں۔ بقول ڈاکٹر فرح اقبال کے کہ بچے والدین کی 24 گھنٹے کی ذمہ داری ہیں۔ اس لیے انہیں جزوی نہیں، مکمل وقت دیجیے۔
٭غیر مشروط محبت
ڈاکٹرفرح اقبال والدین کی جانب سے بچے کو غیر مشروط محبت کے نکتے پر زور دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے سے اپنی محبت کو کسی کام سے مشروط ہرگز نہ کریں کہ تم یہ کروگے، تب ہی تمہیں پیار کیا جائے گا۔ اگر وہ کبھی کوئی غلطی کرے، تو اس کی سرزنش صرف اسی کام کی ہونی چاہیے۔ اسے یہ باور کرائیں کہ وہ اچھا بچہ ہے، لیکن اس نے یہ غلط کام کیا ہے اور اسے یہ آیندہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کریں کہ ایک غلطی کی وجہ سے اس کے سارے اچھے کاموں کو بھی بھول جائیں اور اسے احساس ہونے لگے کہ وہ واقعی گندہ بچہ ہے۔
٭ڈانٹ ڈپٹ سے گریز
اس امر پر تمام ماہرین نفسیات اور عمرانیات کا اتفاق ہے کہ دوسرے بچے کی پیدایش کے بعد بڑے بچے کے رویوں کو بہت تحمل سے برداشت کیا جائے اور ڈانٹا نہ جائے۔ دونوں کو یک ساں چیز لاکر دیں، ساتھ ہی اسے چیزیں بانٹنا سکھائیں۔ والدین کو اپنے عمومی رویوں، غذا اور طرز حیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اتنے چھوٹے بچے کے بگاڑ پر والدین اتنی آسانی سے کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ڈاکٹر ثوبیہ ناز کہتی ہیں کہ کسی بچے کو اپنے گھر میں بہن بھائی کی حیثیت سے قبول کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اس کے لیے اگر اسے دوسرے بچے کی پیدایش سے پہلے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیں، تو یہ بہتر ہو سکتا ہے۔