ملکی معاشی ترقی کا خواب
عوام کو یہی امید اور توقع ہے کہ ہم ہر شعبے میں ترقی اور خودکفالت حاصل کرنے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں
وزیر اعظم شہباز شریف نے دبئی کے '' العربیہ '' ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور انتخابات مقررہ وقت پر ہوں۔
پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز خلیجی ممالک کی مدد کے بغیر حل نہیں ہوسکتے تھے، ہم اس امداد کو تجارت ، سرمایہ کاری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور یہاں معاشی بہتری آئے ، یہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جن مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار دوران انٹرویو کیا، وہ صائب ہیں۔ بلاشبہ قوم کی یہ دلی خواہش اور آرزو بھی ہے کہ ہم اپنی محنت ، ہمت ، بہترین منصوبہ بندی اور وسائل سے بھرپور استفادہ کر کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوں اور اپنے روایتی '' کشکول گدائی '' کو توڑ کر اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لا کر جلد خود کفالت کی منزل حاصل کریں جو خود داری اور خود مختاری کی ہمیشہ سے ہی ضامن ہوتی ہے۔
اس وقت سیاسی بحران مزید گہرا ہو رہا ہے جو وفاقی حکومت کی ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جاری کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، جب کہ قوم یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ نہ جانے کب ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ختم کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔
بظاہر ہمارے سیاستدان ویسے تو ہر دم جمہوریت، جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن عملاً ان کا ہر قدم اور ہر سوچ آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
ملکی معیشت مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے ، اہم شعبے بشمول زراعت ، صنعت ، تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیاتی تبدیلی بُری طرح متاثر ہوئے، ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی، شرح نمو میں کمی، قرضوں کے حجم میں اضافہ، ڈالر بے قابو، شرح سود کا گراف اوپر برآمدات کا گراف نیچے اور گردشی قرضوں کا گراف مسلسل اوپر کی طرح رواں دواں رہا۔
ترسیلات زر میں مسلسل کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی سے مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب عالمی بینک نے کہا ہے کہ سال 2023-24 میں بھی پاکستان کی معیشت سنگین چیلنجوں کا سامنا کرتی رہے گی اور معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد تخمینہ کے برعکس 2.3 فیصد رہے گی۔
اس وقت پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیاسی عدم استحکام کا بیک وقت سامنا ہے جس کے باعث موجودہ مالی سال میں معاشی ترقی کا ہدف مس ہو کر 2 فیصد تک محدود رہے گا۔
عالمی بینک کی جانب سے جاری کی گئی گلوبل اکنامک پراسپکٹس رپورٹ 2023 میں بتایا گیا ہے کہ اجناس کی قیمتوں میں بھاری اضافے نے پاکستان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو غذائی عدم تحفظ کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
حالیہ سیلاب کے سبب پاکستانی معیشت کو جی ڈی پی کے 4.8 فیصد کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کمی کا شکار ہیں جس نے پاکستان کی ریاستی مالیاتی ضمانتوں کے فریم ورک کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
موجودہ مالی سال کے جولائی تا دسمبر کے 6 ماہ کے دوران پاکستانی روپیہ کی قدر میں14فیصد کمی ہوئی ہے جس کے سبب پاکستان کے غیر ملکی بانڈز کے رسک پریمیم میں15فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ملک میں مہنگائی کی شرح 1970کے بعد بلند ترین سطح24.5 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد معاشی بحالی میں وقت لگے گا جس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔
عالمی معیشت کے چیلنجز پاکستانی معیشت کی بحالی کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہوں گے، حالیہ سیلاب نے پاکستان کے 75فیصد رقبہ اور15فیصد آبادی کو بری طرح متاثر کیا۔
معاشی انفرا اسٹرکچر کو نقصان ہوا جس کی بحالی کے لیے پاکستان کو16ارب ڈالر کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی۔ 95لاکھ کے قریب مزید افراد سیلاب کے باعث فصلوں کو ہونے والی تباہی کے سبب خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بھی پاکستانی معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عوامی قوت خرید میں نمایاں کمی کے باعث بڑی تعداد میں آبادی معیاری خوراک سے محروم ہو گئی ہے۔
درآمدی ایندھن کی درآمد کے لیے پیسہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے، بیرونی قرض کی ادائیگیاں بھی پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں عالمی سطح پر بھی شرح نمو سست رہنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ بلند مہنگائی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور روس یو کرین جنگ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی شرح نمو رواں برس 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے ، یہ جون میں تخمینہ لگائی گئی رفتار سے تقریباً نصف ہے جو 3 عشروں کے قریب کم ترین شرح نمو ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نازک معاشی صورت حال میں اگر مزید منفی پیش رفت ہوتی ہے تو عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی۔ گو وسیع پیمانے پر سست روی اورکمزور شرح نمو اب تک کساد بازاری کی علامت نہیں لیکن اگر مالیاتی حالات سخت ہوتے ہیں تو قرضوں کے مزید بحران کا خدشہ ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ کے اہم نقاط معاشی مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں ، موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ ملک میں نئی سرمایہ کاری لانے کے لیے قابلِ عمل پالیسیاں ترتیب دے، غیرملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹرکو مضبوط کریں اور ترقی دیں۔
رواں برس کے دوران توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھر کے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں اور ملک سے بے روزگاری ، مہنگائی ، کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے متحدہ کوششیں ہوں۔
توانائی اور آبپاشی کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے اتفاق رائے سے نئے نئے ڈیم تعمیر ہوں ، زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی ہو اور بنجر، بے آباد زمینوں کو زیرِ کاشت لانے کے لیے قابلِ عمل اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان کے ہر شہری کو سستا انصاف ملے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔
عوام بجا طور پر اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنانے اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے قوم کا ہر فرد اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔ خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو بے روزگاری کے عذاب سے نکال کر ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے جامع اور قابلِ عمل پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔
اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ '' غذائی خودکفالت'' سے ملک کے عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہم عرصہ دراز سے غذائی بحران کا شکار ہیں۔
سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور عدم توجہی کی وجہ سے '' زراعت اور کاشتکار'' دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہماری زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار اور فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے اسی وجہ سے ہماری زرعی شعبے کی درآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں برس کے دوران عوام کو یہی امید اور توقع ہے کہ ہم ہر شعبے میں ترقی اور خودکفالت حاصل کرنے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں، اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے مزید قرضے حاصل کرنے سے اجتناب کیا جائے بلکہ موجودہ قرضوں کا حجم کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہونگے۔
ملک کے ہر شعبے سے مالی اور انتظامی کمزوریوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ فضول خرچی کا بھی سدباب کیا جائے۔ عوام کو بھی فضول خرچی ترک کرکے بچت کی عادت اپنانی ہوگی۔ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے جہاں فرقہ واریت، علاقائی تعصب، منافرت، انتشار، کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے وہاں سیاسی استحکام ، قومی یک جہتی اور جذبہ تعمیر وطن کی بھی بے حد اہمیت ہے۔
ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کریں، آج اگر ہم سچے دل سے عہد کرلیں کہ ہم سب اپنی اپنی سابقہ کوتاہیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا ازالہ کریں گے اور ذاتی مفادات کے حصول کی عادت ترک کر دیں گے تو ملکی معیشت مشکلات کے بھنور سے نکل آئے گی۔
پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز خلیجی ممالک کی مدد کے بغیر حل نہیں ہوسکتے تھے، ہم اس امداد کو تجارت ، سرمایہ کاری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور یہاں معاشی بہتری آئے ، یہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جن مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار دوران انٹرویو کیا، وہ صائب ہیں۔ بلاشبہ قوم کی یہ دلی خواہش اور آرزو بھی ہے کہ ہم اپنی محنت ، ہمت ، بہترین منصوبہ بندی اور وسائل سے بھرپور استفادہ کر کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوں اور اپنے روایتی '' کشکول گدائی '' کو توڑ کر اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لا کر جلد خود کفالت کی منزل حاصل کریں جو خود داری اور خود مختاری کی ہمیشہ سے ہی ضامن ہوتی ہے۔
اس وقت سیاسی بحران مزید گہرا ہو رہا ہے جو وفاقی حکومت کی ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جاری کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، جب کہ قوم یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ نہ جانے کب ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ختم کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔
بظاہر ہمارے سیاستدان ویسے تو ہر دم جمہوریت، جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن عملاً ان کا ہر قدم اور ہر سوچ آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
ملکی معیشت مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے ، اہم شعبے بشمول زراعت ، صنعت ، تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیاتی تبدیلی بُری طرح متاثر ہوئے، ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی، شرح نمو میں کمی، قرضوں کے حجم میں اضافہ، ڈالر بے قابو، شرح سود کا گراف اوپر برآمدات کا گراف نیچے اور گردشی قرضوں کا گراف مسلسل اوپر کی طرح رواں دواں رہا۔
ترسیلات زر میں مسلسل کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی سے مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب عالمی بینک نے کہا ہے کہ سال 2023-24 میں بھی پاکستان کی معیشت سنگین چیلنجوں کا سامنا کرتی رہے گی اور معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد تخمینہ کے برعکس 2.3 فیصد رہے گی۔
اس وقت پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیاسی عدم استحکام کا بیک وقت سامنا ہے جس کے باعث موجودہ مالی سال میں معاشی ترقی کا ہدف مس ہو کر 2 فیصد تک محدود رہے گا۔
عالمی بینک کی جانب سے جاری کی گئی گلوبل اکنامک پراسپکٹس رپورٹ 2023 میں بتایا گیا ہے کہ اجناس کی قیمتوں میں بھاری اضافے نے پاکستان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو غذائی عدم تحفظ کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
حالیہ سیلاب کے سبب پاکستانی معیشت کو جی ڈی پی کے 4.8 فیصد کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کمی کا شکار ہیں جس نے پاکستان کی ریاستی مالیاتی ضمانتوں کے فریم ورک کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
موجودہ مالی سال کے جولائی تا دسمبر کے 6 ماہ کے دوران پاکستانی روپیہ کی قدر میں14فیصد کمی ہوئی ہے جس کے سبب پاکستان کے غیر ملکی بانڈز کے رسک پریمیم میں15فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ملک میں مہنگائی کی شرح 1970کے بعد بلند ترین سطح24.5 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد معاشی بحالی میں وقت لگے گا جس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔
عالمی معیشت کے چیلنجز پاکستانی معیشت کی بحالی کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہوں گے، حالیہ سیلاب نے پاکستان کے 75فیصد رقبہ اور15فیصد آبادی کو بری طرح متاثر کیا۔
معاشی انفرا اسٹرکچر کو نقصان ہوا جس کی بحالی کے لیے پاکستان کو16ارب ڈالر کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی۔ 95لاکھ کے قریب مزید افراد سیلاب کے باعث فصلوں کو ہونے والی تباہی کے سبب خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بھی پاکستانی معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عوامی قوت خرید میں نمایاں کمی کے باعث بڑی تعداد میں آبادی معیاری خوراک سے محروم ہو گئی ہے۔
درآمدی ایندھن کی درآمد کے لیے پیسہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے، بیرونی قرض کی ادائیگیاں بھی پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں عالمی سطح پر بھی شرح نمو سست رہنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ بلند مہنگائی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور روس یو کرین جنگ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی شرح نمو رواں برس 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے ، یہ جون میں تخمینہ لگائی گئی رفتار سے تقریباً نصف ہے جو 3 عشروں کے قریب کم ترین شرح نمو ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نازک معاشی صورت حال میں اگر مزید منفی پیش رفت ہوتی ہے تو عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی۔ گو وسیع پیمانے پر سست روی اورکمزور شرح نمو اب تک کساد بازاری کی علامت نہیں لیکن اگر مالیاتی حالات سخت ہوتے ہیں تو قرضوں کے مزید بحران کا خدشہ ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ کے اہم نقاط معاشی مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں ، موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ ملک میں نئی سرمایہ کاری لانے کے لیے قابلِ عمل پالیسیاں ترتیب دے، غیرملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹرکو مضبوط کریں اور ترقی دیں۔
رواں برس کے دوران توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھر کے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں اور ملک سے بے روزگاری ، مہنگائی ، کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے متحدہ کوششیں ہوں۔
توانائی اور آبپاشی کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے اتفاق رائے سے نئے نئے ڈیم تعمیر ہوں ، زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی ہو اور بنجر، بے آباد زمینوں کو زیرِ کاشت لانے کے لیے قابلِ عمل اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان کے ہر شہری کو سستا انصاف ملے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔
عوام بجا طور پر اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنانے اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے قوم کا ہر فرد اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔ خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو بے روزگاری کے عذاب سے نکال کر ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے جامع اور قابلِ عمل پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔
اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ '' غذائی خودکفالت'' سے ملک کے عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہم عرصہ دراز سے غذائی بحران کا شکار ہیں۔
سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور عدم توجہی کی وجہ سے '' زراعت اور کاشتکار'' دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہماری زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار اور فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے اسی وجہ سے ہماری زرعی شعبے کی درآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں برس کے دوران عوام کو یہی امید اور توقع ہے کہ ہم ہر شعبے میں ترقی اور خودکفالت حاصل کرنے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں، اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے مزید قرضے حاصل کرنے سے اجتناب کیا جائے بلکہ موجودہ قرضوں کا حجم کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہونگے۔
ملک کے ہر شعبے سے مالی اور انتظامی کمزوریوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ فضول خرچی کا بھی سدباب کیا جائے۔ عوام کو بھی فضول خرچی ترک کرکے بچت کی عادت اپنانی ہوگی۔ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے جہاں فرقہ واریت، علاقائی تعصب، منافرت، انتشار، کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے وہاں سیاسی استحکام ، قومی یک جہتی اور جذبہ تعمیر وطن کی بھی بے حد اہمیت ہے۔
ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کریں، آج اگر ہم سچے دل سے عہد کرلیں کہ ہم سب اپنی اپنی سابقہ کوتاہیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا ازالہ کریں گے اور ذاتی مفادات کے حصول کی عادت ترک کر دیں گے تو ملکی معیشت مشکلات کے بھنور سے نکل آئے گی۔