انار

خوش ذائقہ، صحت بخش اور خوب صورت پھل

خوش ذائقہ، صحت بخش اور خوب صورت پھل ۔ فوٹو : فائل

انار کا شمار خوش ذائقہ اور دل کش پھلوں میں کیا جاتا ہے۔

اس کی ساخت گول اور سائز لیموں کے پھل سے چکوترے کے سائز کے برابر ہوتا ہے۔ یہ پھل اپنے ذائقے میں کھٹا میٹھا اور رس دار ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا سخت اور موٹی جلد والا ہوتا ہے۔ یہ اندر سے سرخ گلابی بیجوں سے بھرا ہوتا ہے۔

ماہرین نباتات کے مطابق ایک انار میں دو سو 200 سے لے کر چودہ سو 1400 تک دانے یا بیج پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان بیجوں کو کچا، بطور سلاد، پکوانوں میں، اناردانے کی صورت میں اور چٹنی میں ڈال کر استعمال کیا جاتا ہے۔

انار مشرق وسطی اور براعظم ایشیا میں کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے پودے جھاڑی نما ہوتے ہیں جن کی لمبائی 5 سے 10 فٹ یعنی 16 سے 33 فٹ اونچائی تک ہوسکتی ہے۔ انار کے پودوں کو سولہویں کے آخر میں ہسپانوی امریکا اور 1779ء میں ہسپانوی آبادکاروں نے اسے کیلفورنیا میں متعارف کروایا تھا۔

یہ پھل عام طور پر جنوبی کُرّے میں مارچ سے مئی تک اور ستمبر سے فروری تک کھانے کو ملتا ہے۔ انار کی ایک سے زیادہ کانٹے دار شاخیں ہوتی ہیں۔

اس کے پودے طویل عرصے تک پھل دیتے ہیں۔ فرانس میں کچھ پودوں کی عمر دو سو 200 سال تک شمار کی گئی ہے۔ انار کی کاشت جنوبی ایشیا اور بحیرۂ روم کے علاقے میں کئی ہزار سال سے ہوتی ہوئی آرہی ہے۔

اس کی تاریخ پانچویں صدی قبل از مسیح سے ملتی ہے، کیوںکہ انار بہت پہلے پھل دار درختوں میں سے ایک ہے جس کی طبی خصوصیات کو ہزاروں سال سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

انار کا جوس طویل عرصے سے یورپ اور مشرق وسطی میں مشروب کے طور پر مشہور ہے۔ اب امریکا یورپ اور کینیڈا میں بھی بطور مشروب اس کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ ایک عام اوسط انار کا وزن 282 گرام تک ہوتا ہے۔

اقسام: یوں تو انار کی 500 اقسام ہیں، البتہ قابل کاشت تقریباً 20 اقسام ہیں جن کی رنگت سائز اور حجم مختلف ہے۔ انار زیادہ تر سرخ، گلابی، سبز، پیلے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ چند مشہور اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔

اینجل ریڈ: اس قسم کے پودے تقریباً دس فٹ اونچے اور دس فٹ چوڑے ہوتے ہیں۔ دیگر اقسام کے مقابلے میں ان کی اونچائی 20 یا 30 فٹ زیادہ ہوتی ہے۔

اس پودے کو سرخ نارنجی رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ کٹائی کے موسم کے بعد ستمبر کے شروع میں یہ پھول گر جاتے ہیں۔ بیج کافی نرم اور رس دار ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ روایتی انار کے مقابلے میں ہلکا اور کم تیزابیت والا ہوتا ہے۔

پرپل ہارٹ:یہ انار کی ایسی قسم ہے جسے اگنے کے لیے کافی جگہ درکار ہوتی ہے۔ اس کی اونچائی 16سے 20 فٹ کے درمیان ہوتی ہے۔

موسم گرما میں پھول جھرمٹوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ پھل کا ذائقہ میٹھا اور تیزابی ہوتا ہے۔ یہ جوس بنانے کے لیے بہترین پھل ہے۔یہ قسم موسم خزاں میں پھل دیتی ہے۔

ریڈ سلک: یہ ایسی قسم ہے جسے چھوٹے باغات اور صحن میں اگایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے پودے آٹھ فٹ اونچائی تک ہوتے ہیں۔

یہ قسم چھوٹی جگہوں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اس کی دیکھ بھال میں بہت کم محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کے پودے چھوٹے سائز کے باوجود بھی اعلی پیداوار کے حامل درخت ہیں۔ ریڈ سلک یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کالج آف ایگریکلچرل اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا۔

ریڈ سلک کے پودے چھوٹی عمر میں پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عموماً پودے 1یا 2 سال کے دوران پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ قسم زیادہ تر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دست یاب ہوتی ہے۔ یہ پھل حیرت انگیز طور پر سرخ ہوتا ہے اور ذائقے میں سرخ بیر سے مشابہت رکھتا ہے۔

ڈیورف: اس قسم کے پودے اپنی قدوقامت میں چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کے پھل اور پھولوں کے بڑے ہونے کی توقع نہیں ہو سکتی۔

موسم گرما میں پھول نارنجی سرخ رنگ کے کھلتے ہیں۔ جب پھل پک جاتے ہیں تو صرف پھل بھی چھوٹے نارنجی کی طرح نظر آتے ہیں۔ یہ بونے انار کھانے کے قابل ہوتے ہیں اور ان کا ذائقہ تیزابی ہوتا ہے۔

آریانا: یہ انار کی بہترین قسم ہے۔ اس قسم کے درخت ستمبر سے اکتوبر کے وسط درمیانے سائز کا پھل دیتے ہیں۔ پکے اناروں میں عام طور پر چمک دار سرخ رنگ کے چھلکے ہوتے ہیں۔

بیج اندر سے نرم اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ اسے تازہ کھانے کے علاوہ اس کا جوس بھی بہترین ہے۔ اس قسم کو ایک مشہور روسی نباتات ڈاکٹر گریگوری لیون نے دریافت کیا تھا۔

گراناڈا: گراناڈا کا مطلب ہسپانوی میں ''انار'' ہے۔ اس کے پھول گہرے سرخ ہوتے ہیں اور پھل بھی گہرے سرخ رنگ کے ہوتے ہیں۔

ان کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک ماہ قبل پک جاتے ہیں۔ ان کا ذائقہ قدرے کم کھٹا ہوتا ہے۔ اس کی کاشت ستمبر میں ہوتی ہے۔ عموماً درختوں کی اونچائی 7 سے 33 فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔

پرفینیکا: کچھ لوگوں کے نزدیک اس قسم کو ''روسی انار'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پختگی کے وقت درخت کی اونچائی دس فٹ تک ہوتی ہے۔ عموماً درخت چھوٹی عمر میں پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پھل پہلے یا دوسرے سال تک شروع ہو جاتا ہے۔

اکثر اس کے پھل کو خوب صورت رنگ، چھوٹے اور نرم بیجوں کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے دانے رس دار، متوازی اور کھٹا میٹھا ذائقہ برقرار رکھتے ہیں۔

ساکوٹران: ساکوٹران یمن سے تعلق رکھتا ہے، جس سے انار کا جدِامجد سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ تھلگ پودا جزوی طور پر مقبول نہیں ہے، کیوںکہ یہ صرف ایک مقررہ جگہ پر رہتا ہے جب کہ اس کے دوسرے بہن بھائی پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ پختگی کے وقت ان کی اونچائی 8 سے 15 فٹ تک ہوتی ہے۔

اس پودے کو موسم سرما سے اگلی گرمی تک پھول کھلتے اور پھل لگتے ہیں۔ پکنے پر پھل پیلے سبز یا بھورے سرخ ہوجاتے ہیں۔ یہ پودا پانچ یا چھے سال بعد پھل دینا شروع کرتا ہے۔ اس کے بیج کڑوے ہوتے ہیں اور منہ میں برا ذائقہ چھوڑتے ہیں۔

اس کا پھل طبی لحاظ سے زیادہ موزوں ہے، کیوںکہ اس کے چھلکے کو کھانسی اور زخموں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی لکڑی سے چھوٹے اوزار بنائے جاتے ہیں۔

ایور سویٹ: پختگی پر پودوں کی اونچائی آٹھ سے بارہ فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ پودے گھر یلو باغ میں اگانے کے لیے موزوں ہیں۔

انہیں ٹھنڈی آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم زیادہ تر بیجوں کے بغیر ہوتی ہے۔ عموماً پودے پہلے سال میں ہی پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔

پھل کی رنگت سرخی مائل گلابی ہوتی ہے۔ عموماً پھل اگست اور اکتوبر کے درمیان کٹائی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ قدرتی طور پر ذائقہ میٹھا اور اس میں ہلکی کھٹاس ہوتی ہے۔

ونڈر فل: یہ پھل ریاست ہائے متحدہ کی سب سے مشہور قسم ہے۔یہ ایسی قسم ہے جو امریکا کی منڈیوں کی 95 فی صد طلب پوری کرتی ہے۔ یہ زیادہ تر گروسری اسٹورز پر دست یاب ہوتی ہے۔ یہ پودا سورج سے محبت کرتا اور خشک سالی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پختگی پر پودے عموماً آٹھ سے بارہ فٹ اونچے ہوتے ہیں۔

اس قسم کے پودے کو پہلے سال تک باقاعدگی سے پانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر پھل اور پھول موسم بہار اور گرما میں کھلتے ہیں۔ پھل اکثر 6 یا 7 ماہ بعد کٹائی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ پھل رنگت میں سرخ ذائقے میں کھٹا میٹھا اور رس دار ہوتا ہے۔


مجموعی پیداوار: انار کی مجموعی پیداوار میں چین اور انڈیا سرفہرست ہیں، جب کہ دیگر ممالک میں ایران، ترکی، افغانستان، یو ایس اے، عراق، پاکستان، سائریا، اسپین، مصر، بنگلادیش، برما اور سعودی عرب ہیں۔ انار کی مجموعی سالانہ پیداوار دس لاکھ میٹرک ٹن ہے۔

جس میں انڈیا صرف پانچ لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کا حصہ مہیا کرتا ہے جس میں پانچ ہزار میٹرک ٹن ایکسپورٹ شامل ہے۔ اسپین میں انار کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں 75 ہزار سالانہ پیداوار ایکسپورٹ کردی جاتی ہے۔ 2019 میں چلی، مصر، اسرائیل بھارت اور ترکی نے یورپی منڈیوں تک انار کی سپلائی کی۔ چین 2019 میں سپلائی میں خودکفیل تھا۔ جنوبی افریقہ بنیادی طور پر اسرائیل سے انار درآمد کرتا ہے۔

فائٹو کیمیکل مرکبات:انار میں مندرجہ ذیل فائٹو کیمیکل کمپاؤنڈ پائے جاتے ہیں۔

Punicalagin, Ellagic acid, Gallic acid, P.coumaric acid, Methyl gallate, Corilagin, Punic acid, Brevifolin, Myrtillin, Catechins, Quercetin

غذائی حقائق:سو گرام انار میں یو ایس ڈی اے ( USDA ) کے مطابق اس کی غذائی مقدار مندرجہ ذیل ہے:

پانی : 78 گرام ،توانائی: 346 کلوریز، کاربوہائیڈریٹس: 18.7 گرام ، شکر: 13.67 گرام ، غذائی ریشہ : 4 گرام ، فیٹ: 1.17 گرام، پروٹین 1.67 گرام ، وٹامنز / مقدار/ روزانہ ضرورت ، تھایا مین بی ون 0.067 ملی گرام 6% ، رائبو فلیون بی ٹو 0.053 ملی گرام 4% ، نیاسین بی تھری 0.293 ملی گرام 2% ، پینٹوتھینک ایسڈ بی فائیو 0.377 ملی گرام 8% ، وٹامن بی سکس 0.075 ملی گرام 6%، فولیٹ بی نائن 38 مائیکرو گرام 10 % ، چولین 7.6 ملی گرام 2% ، وٹامن سی 0.6 ملی گرام 4% ، وٹامن کے 14.4 ملی گرام 16% ، وٹامن ای 0.6 ملی گرام 4% ، معدنیات / مقدار / روزانہ ضرورت ، کیلشیم 10 ملی گرام 1% ، آئرن 0.3 ملی گرام 2%، مگنیشیم 12 ملی گرام 3% ، میگنیز 0.119 ملی گرام 6% ، فاسفورس 36 ملی گرام 5%، پوٹاشیم 236 ملی گرام 5% ، سوڈیم 3ملی گرام 0% ، زنک 0.35 ملی گرام 4%

طبی فوائد:غذائی اجزاء سے بھرپور: مجموعی طور پر انار میں پانی، کیلوریز، فائبر، وٹامنز اور معدنیات موجود ہیں۔ اس میں چکنائی کی بھی کچھ مقدار موجود ہے۔

دل کے امراض سے تحفظ: انار پولی فینولک مرکبات سے بھر پور پھل ہے۔ اس کا عرق شریانوں میں آکسیڈیٹو تناؤ اور سوزش کم کرتا ہے۔ باقاعدہ انار کھانے سے بڑھا ہوا بلڈپریشر نارمل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ انار ایتھرو اسکلروسس، شریانوں کی تنگی اور سختی دور کر کے دل کے دورے اور فالج کے اٹیک سے بچاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو روزانہ پانچ دن تک ایک کپ یعنی 220 ملی انار کا جوس دیا گیا جس نے سینے کی درد، جلن اور شدت کو نمایاں طور پر کم کر دیا۔ شریانوں میں چربی اور کولیسٹرول کا جمع ہونا دل کی بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔

انار کا رس کم کثافت والے لیپوٹین کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خراب کولیسٹرول جو شریانوں کو بند کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ کثافت والے لیپو ٹین پروٹین والے کولیسٹرول کو بڑھا سکتا ہے۔

کینسر سے بچاؤ:تحقیق سے اس بات کا پتا چلا ہے کہ انار کے پھل، جوس اور تیل میں موجود دفاعی مرکبات کینسر کے سیلز کو ختم کرنے اور اس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دراصل انار ان خصوصیت کا حامل ہے کہ یہ پھیپھڑوں، چھاتی، پراسٹیٹ، جلد اور بڑی آنت کے کینسر میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ انار پراسٹیٹ کینسر کو ٹھیک کرنے کی قدرتی استعداد رکھتا ہے۔

اینٹی آکسیڈنٹ سے بھرپور: اینٹی اوکسیڈنٹ ایسے دفاعی مرکبات ہیں جو جسم کو آزاد ریڈیکل کے نقصان سے بچاتے ہیں۔ آزاد ریڈیکل تو ہمیشہ سے جسم میں موجود ہوتے ہیں لیکن جب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تب یہ نقصان دہ اور کئی دائمی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

انار اینٹی اوکسیڈنٹ اور پولی فینولک مرکبات سے بھرپور پھل ہے۔ بلاشبہہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل ہونے والے اینٹی اوکسیڈنٹ مجموعی صحت کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔

گردوں کی صحت:گردوں کا شمار اعضائے رئیسہ میں کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گردوں کی کارکردگی متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ انار گردوں کی بے شمار بیماریوں میں مفید ہے۔ اس کا عرق گردوں میں بننے والی پتھریاں کو ختم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن کی عمریں 18 سے 70 سال کے درمیان ہیں۔ انہیں 90 دن یعنی تین مہینے تک لگاتار ایک ہزار ملی گرام کا عرق روزانہ کی بنیاد پر پینا چاہیے جس سے پتھری بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ مجموعی طور پر انار میں موجود دفاعی مرکبات گردوں کی صحت کی بحالی اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

اینٹی مائکروبیل خصوصیات:انار میں موجود دفاعی مرکبات اینٹی مائکروبیل جراثیموں سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہر قسم کے بکٹیریا، فنگس، اور خمیر سے بچا سکتے ہیں۔

ورزش کی عادت اور برداشت: انار میں موجود پولی فینولک ورزش کی عادت اور قوت برداشت بڑھاتے ہیں۔

انار کا باقاعدہ استعمال کم زوری اور تھکاوٹ کو دور کرکے جسم کو توانائی بخشتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگر روزانہ دوڑنے سے پہلے ایک گرام انار کا جوس پی لیا جائے تو تھکاوٹ کے 12 فی صد چانس کم ہوجاتے ہیں، جب کہ دوسری طرف ورزش کی برداشت اور پٹھوں کی بحالی دونوں کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔

دماغی صحت کے لیے:انار میں موجود Ellagitannis اینٹی اوکسیڈنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے سوزش، اوکسیڈیٹو تناؤ کم کرتے ہیں۔

انار کا باقاعدہ استعمال الزائمر اور پارکسنز جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی بدولت اکسیڈیٹو تناؤ کم ہوکر دماغی خلیوں کی بقا بڑھ جاتی ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس: ایسے مریض جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ روزانہ انار کا جوس پییں تو انسولین کے خلاف مزاحمت میں بہتری آجاتی ہے۔ انار ذیابیطس کے بغیر لوگوں کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

نظام ہاضمہ کی بہتری کے لیے: پرانی اور نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ہاضمہ کی صحت جس کا تعلق آنتوں کے بیکٹیریا سے ہوتا ہے، اس میں انار اہم کردار ادا کرتا ہے، کیوںکہ انار میں سوزش دور کرنے اور اینٹی کینسر اجزاء پائے جاتے ہیں جو آنتوں کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔

اس میں بڑی حد تک ایلیجک ایسڈ شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس میں موجود فائبر جو ہاضمے میں اچھے بیکٹیریا اور پروبائیوٹیکس کے لیے ایندھن کا کام دیتا ہے۔ پری بائیوٹکس ان بیکٹیریا کو بننے اور صحت مند آنتوں کے مائیکرو بیوم کی مدد کرتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر: انار کھانے کے کوئی ایسے مضر اثرات تو نہیں ہیں جن کی بدولت کہا جائے کہ انار صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس امر کے باوجود کچھ لوگوں کو احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں چند وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جن کی بدولت انار کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

* کچھ لوگوں کو انار کھانے سے الرجی ہو سکتی ہے۔ خارش، سوجن، ناک کا بہنا اور سانس لینے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اپنے ہیلتھ کیئر یا معالج سے پہلے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

* انار کی جڑ، تنا اور چھلکا مجموعی طور پر غیرمحفوظ اور غیرصحت مند ہوتا ہے کیوںکہ اس کے چھلکے میں زہر موجود ہوتا ہے جس کے کھانے سے بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔

* جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے انہیں چاہیے کہ انار کھانے سے پرہیز کریں۔ * سرجری سے کم از کم دو ہفتے پہلے انار کھانا بند کر دینا چاہیے۔

* ہائی بلڈ پریشر کی دوائیں انار کے ساتھ تعامل کرتی ہیں، لہٰذا انار کھانے سے مریض کا بلڈ پریشر بہت کم ہو سکتا ہے۔

* ڈائریا اور حمل کے دوران انار کا استعمال اپنے ہیلتھ کیئر سے پوچھ کر کریں۔

* چوںکہ انار میں دفاعی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو ادویات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں، لہٰذا اگر مریض کینسر یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہے تو اسے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔
Load Next Story