بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
بڑے سوالوں کے مختصر جواب
مصنف: اسٹیفن ہاکنگ، ترجمہ: محمد احسن ، قیمت:600 روپے، صفحات: 220
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، سیکنڈ فلور ٹیمپل روڈ، لاہور(03009482775)
اسٹیفن ہاکنگ سائنس کی دنیا کا ایسا نام ہے جس نے ایسے سائنسی نظریات پیش کئے جس سے نئی جہتوں کا تعین ہوا ۔ خدا کا وجود، کائنات کیسے بنی ، انسان کہاں سے آیا؟ اور ایسے ہی دیگر سوالات ہمیشہ انسانی دماغ کو چبھتے رہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیح تلاش کرتا رہتا ہے ۔
اسٹیفن ہاکنگ نے ان سوالات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا تو ان کے نظریات نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔ البرٹ آئن سائن اور نیوٹن کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے ۔
انھوں نے اپنی معذوری کو سدراہ نہ ہونے دیا اور فلکیات کی سائنس کو اتنا آگے بڑھا دیا کہ آنے والی نسلوں کے لئے نئے راستے کھل گئے ۔
اسٹیفن ہاکنگ کو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا ، لوگ ان سے ان سوالوں کے جوابات جاننا چاہتے تھے جو صدیوں سے جواب طلب تھے ، اسٹیفن اپنی معذوری کی وجہ سے چونکہ کمپیوٹر کے ذریعے جواب دیتے تھے اس لیے ان کا ہر جواب ان کے کمپیوٹر اور دیگر ذاتی ٹیکنالوجی آلات میں موجود تھا ۔
کبھی وہ جواب یونہی چند سطروں پر مشتمل ہوتا تھا ، کبھی تقریر کی صورت ، کبھی انٹرویو کی صورت اور کبھی مختلف نوعیت کے مضامین کی صورت ہوتا تھا ، زیر تبصرہ کتاب اسی قیمتی مواد سے تخلیق ہوئی ہے جو ان کی زندگی میں تو شائع نہ ہو سکی تاہم ان کے بعد ان کے رفقاء نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے جیسے جسم کے اندر روح بھی ہے مگر اسے عقلی دلائل سے ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ جن حواس خمسہ سے تحقیق کرنے کا رواج ہے اس میں روح کو پرکھنا تقریباً ناممکن ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ روح تو انسانی جسم میں موجود ہے مگر حواس خمسہ سے اسے دیکھا یا سمجھا نہیں جا سکتا، کیونکہ روح کو روح سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
اسی سائنسی طریقہ استدلال کی وجہ سے اسٹیفن صرف جسم کی بات کرتے ہیں ۔ کائنات پر غور و فکر کے لئے انتہائی مفید کتاب ہے، اس لئے اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اچھی گزر گئی
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:4000 روپے، صفحات:560
ناشر: بک ہوم مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
اپنی زندگی کے پرت دوسروں کے سامنے کھول کر رکھ دینا کوئی آسان کام نہیں ، اسی لئے اکثر لکھاری اس طرف نہیں آتے ، بہتوں نے تو آپ بیتی کو ناول کی شکل دیدی تاکہ پردہ بھی رہے اور دل کی بات بھی ہو جائے ۔
آپ بیتی سے جہاں ادیب اپنی زندگی دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہیں اس سے نئی نسل کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ آپ بیتی میں بیان کئے گئے تجربات دوسروں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں ۔
ممتاز ادیب و صحافی الطاف حسن قریشی کہتے ہیں '' اچھی گزر گئی '' ایک ایسے مرد خود آگاہ کی آپ بیتی ہے جس نے دشت غربت میں آنکھ کھولی اور وہ سرد اور گرم تھپیڑے کھاتا، بل کھاتے راستوں سے گزرتا ہوا، ایک ایسے بلند مقام تک آ پہنچا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
یہ آپ بیتی زندگی سے معمور، جیتی جاگتی ، مسکراتی اور احساس کی تپش کے ساتھ ایک ایسی دلچسپی کا رنگ اختیار کر گئی ہے جسے شروع کرنے کے بعد چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ ایک خوبصورت اور جاں افروز منظر کے اندر سے ایک نیا حیرت کدہ تخلیق ہوتا ہے۔
واقعات کی بوقلمونی ، کرداروں کا تنوع اور ملکی حالات کے تاریخی پرتو سے یہ آپ بیتی ایک شخص سے ماورا ایک عہد کی جگ بیتی محسوس ہوتی ہے ۔'' معروف ادیب امجد اسلام امجد کہتے ہیں '' محمد سعید جاوید کی اس کتاب کا غالب حصہ ان کے بچپن اور لڑکپن کے واقعات ، یادوں اور یادداشتوں پر مبنی ہے انھوں نے اس حوالے سے بہت سے کرداروں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔
ان میں سے بیشتر اس خوب صورتی اور فن کاری سے لکھے گئے ہیں کہ کئی کردار آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔'' مصنف کا انداز بیان بہت دلچسپ اور شستہ ہے وہ چھوٹی چھوٹی جزیات کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو ایسا محسوس ہو گا کہ یہ تو گویا ان کے ساتھ بیتا ہے ۔ کتاب کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
آئین کا مقدمہ
مصنف : سعید آسی، قیمت : 2500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101
زیر نظر کتاب پاکستانی صحافت کے نامور مجاہد جناب سعید آسی کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔ مصنف ایک طویل عرصہ تک عدالتوں میں رپورٹنگ کرتے رہے، اس لئے انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا ، سنا ، محسوس کیا ، وہ انھیں آئین کا مقدمہ لڑنے کے لئے ابھارتا رہا ۔ ' حرف اول ' کے عنوان سے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں :
''جنھیں آئین و قانون کی پاسداری و عمل داری کے ذریعے جمہوری نظام کو چلانا ، سنبھالنا اور مستحکم بنانا چاہیے وہ آج آئین شکنی کی نادر مثالیں قائم کر رہے ہیں۔
آئین کے تحت قائم ریاستی اداروں کی بھد اڑا رہے ہیں... مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ آج کا غتر بود کلچر ہمیں پتھر کے زمانے کی جانب واپس تو نہیں لے جا رہا۔ اسی سوچ نے مجھے '' آئین کا مقدمہ'' آپ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا ہے... یہی آئین پاکستان کا مقدمہ ہے کہ اس کی حفاظت کے ذمہ داروں کے ہاتھوں اس کی کیوں درگت بن رہی ہے اور اب اس وطن عزیز کو آئین و قانون کی عمل داری کے راستے پر واپس لایا بھی جا سکے گا یا نہیں۔''
ان حالات میں ایک عام پاکستانی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی ، ایک ایسا شخص جو ایک طویل عرصہ سے اس سارے بنتے بگڑتے کھیل کو بہ نظر غائر دیکھ رہا ہو، اس کے اضطراب کا کیا عالم ہوگا ! ظاہر ہے کہ وہ بدترین آئین شکنی کے نتائج و عواقب سے بھی بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
اگر ایسا شخص خوف زدہ ہو جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کس قدر سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
جناب سعید آسی تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کے بیٹے ہیں، اس لئے وہ نظریہ پاکستان کے محافظوں کے ہراول دستے میں شامل ہوئے اور پھر کبھی اس سے الگ نہیں ہوئے۔
وہ آج بھی اس محاذ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے اپنے کالموں میں جو کچھ لکھا ، وہ پاکستان کی حالیہ سیاسی اور آئینی تاریخ کی ایک اہم ترین گواہی ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے ایک ایسی نسل تیار ہوگی جو آئین کی پوری جرات و دلیری سے حفاظت کرے گی۔ اسی کی وطن عزیز کو ضرورت ہے۔ ' قلم فائونڈیشن ' نے کتاب کو اس کے شایان شان ، نہایت اہتمام سے شائع کیا۔
قصہ چار نسلوں کا
مصنف : قیصرہ شفقت، قیمت : 700 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
یہ ایک ایسی پٹھان خاتون کی خودنوشت ہے، جن کے آبائو اجداد صدیوں پہلے شمالی افغانستان کے دور افتادہ سرسبز پہاڑوں سے نیچے اترے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں آبسے۔ مصنفہ پہلے ' آرمی پبلک سکول ' اور پھر ' او پی ایف ' سکول میں پڑھاتی رہیں۔
ان کی یہ منفرد خود نوشت پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی عام سی خاتون نہیں ہیں۔کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اچانک گمان ہوتا ہے جیسے ہم کلاسیک ادب کی کوئی چیز پڑھ رہے ہیں، اس تناظر میں وہ کہیں قرۃ العین حیدر لگتی ہیں ،کہیں امرتا پریتم اور کہیں عصمت چغتائی۔ یہ کتاب آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔کہیں ناول اور کہیں سفرنامہ ۔ آپ کو اس میں شخصی خاکے بھی پڑھنے کو ملیں گے اور کتب پر تبصرے بھی۔
کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ شوخ طبیعتوں کے حامل ایک خاندان کا حصہ ہیں، ایک کونے میں بیٹھے سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، اس خاندان کے افراد کی اٹکھیلیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔
مصنفہ نے جس انداز میں یہ ساری باتیں لکھیں، ہر کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ ایک عمومی خیال ہے کہ ہر بات ہر کسی کو بتانے والی نہیں ہوتی لیکن مصنفہ نے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ اپنے بزرگوں کا شوخ تذکرہ کیا۔
اپنے آپ کا مذاق اڑایا ، اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کا بھی۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کچھ ایسی شوخ باتیں یہاں نقل کروں لیکن مجھے بھی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس لئے آپ سے التماس ہے کہ چار نسلوں کا یہ منفرد قصہ خود ہی پڑھ لیں۔
مصنفہ نے بالکل درست لکھا :'' جب آپ عمر کے خاص دور میں تنہا اپنے کمرے میں بیٹھے ہر ایک لمحے کو جینا چاہتے ہوں ، چھونا چاہتے ہوں تو یادداشتیں یوں صفحات پر منتقل ہوتی ہیں۔
مجھے زندگی جہاں سے یاد آتی رہتی ہے، میں لکھتی رہتی ہوں۔ تسلسل کی کمی یوں بھی نہ لگے گی کہ ہر گزرے اور موجودہ لمحات کو میں آپس میں بُن لیتی ہوں۔ لمحہ لمحہ جوڑ کر یوں لگا جیسے چڑیا ماں تنکا تنکا چن کر گھونسلا بناتی ہے۔''
کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ مصنفہ پاکستانی سیاست اور انسانی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں، انقلاب فرانس ، روس و چین کے سرخ انقلابات سے بھی خوب واقف ہیں۔
حالانکہ کم ہی خواتین ایسے انقلابات سے کچھ لینا دینا رکھتی ہیں۔ اسی طرح وہ اردو ادب بلکہ عالمی ادب کی بھی رسیا ہیں۔ اس تناظر میں آپ ایک رنگا رنگی سے لطف اندوز ہوں گے۔ یہ کتاب پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر گزارنے والے ہر بزرگ سے کہوں کہ محترمہ قیصرہ شفقت کی راہ پر
چلیں، ان کی طرح لکھیں اور نئی نسل تک اپنے فکری اثاثے منتقل کریں۔
عقیدت کے پھول (حمدیہ ونعتیہ کلام)
شاعر: شکیل فاروقی، ناشر: نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
صفحات:85، قیمت: 600 روپے
اللہ رب العزت کی حمد وثناء اور رسول مقبول ﷺ کی مدح اور آپؐ سے اظہارِِعشق نثر کی صورت میں ہو یا شعر کی، بہت بڑی سعادت ہے۔
یوں تو اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو رب کی شان میں حمد اور نبیٔ مکرم ﷺ کی نعت کہہ کر اپنی عزت نہ بڑھائی ہو، جن میں غیرمسلم اہل سخن بھی شامل ہیں، لیکن بہت سے ایسے خوش نصیب ہیں جنھوں نے تواتر سے اور بڑی تعداد میں گل ہائے عقیدت پیش کیے جو مجموعوں کی شکل میں اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔
بزرگ شاعر شکیل فاروقی بھی ان خوش نصیبوں میں شامل اور عشق خدا ورسولؐ کے پاکیزہ جذبات کو اشعار میں ڈھالنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
ان کی حمدوں اور نعتوں کا مجموعہ ''عقیدت کے پھول'' کا ہر مصرعہ اس روشنی سے دمک رہا ہے جو ان کی آنکھوں میں تو بجھ چکی ہے لیکن دل کو پوری طرح تاباں کیے ہوئے ہے۔
شکیل فاروقی کالم نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ان کے کالم روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے کی زینت بنتے ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی سخن آرائی کی ہے اور ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ''شیڈوز'' کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔
''عقیدت کے پھول'' میں شامل حمدوں اور نعتوں کی بابت کتاب میں شامل اپنے مضمون میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں،''ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساسِ ندامت، حبِ نبوی علیٰ صاحبہالصلوٰۃ والسلام کی تپش، بھٹکے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو اور اتباعِ نبوی ﷺ کی ترغیب شامل ہے۔ شکیل صاحب کی نعتیہ شاعری پر اردو کلاسیکی شعری بوطیقا کا پرتو ہے۔
انھوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات واحساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔'' معروف نعت گو شاعر جناب صبیح رحمانی فرماتے ہیں،''شکیل فاروقی کی نعتوں میں یہ پیغام بڑے اعتماد سے جلوہ گر ہے کہ نامِ محمدؐ اور پیامِ محمدؐ سے پیوستگی ہی واحد ذریعۂ فلاح ونجات ہے۔''
یہ دو آراء ہی اس خوب صورت مجموعے اور شکیل فاروقی صاحب کے حمدیہ ونعتیہ کلام کی خصوصیات کا تعارف کرانے کے لیے کافی ہیں۔ کتاب کا سرورق دل کش اور طباعت عمدہ ہے۔ امید ہے یہ کتاب حمدونعت کے اردو مجموعوں میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔
عاشق مست جلالی
مصنف : محمد اظہار الحق، قیمت : 1195 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، رابطہ : 03215440882
مصنف گریڈ بائیس کے اعلیٰ سرکاری افسر تھے، جب ریٹائر ہوئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے گریڈ والے اس افسر سے ملنے، جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ اعلیٰ ترین افسر ہوکر بھی افسر نہ تھا ، بس ! ایک عام ، سادہ سا دیہاتی۔ جناب محمد اظہار الحق دیہاتی کے طور پر پیدا ہوئے اور پھر ساری عمر پینڈو رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ اب بھی پینڈو کے پینڈو ہی ہیں۔
ضلع اٹک کے جس گھرانے میں پیدا ہوئے ، وہاں ماحول علمی و ادبی تھا ، دادا علاقے کے معروف عالم دین ۔ والد اردو ، فارسی کے شاعر اور انہی دونوں زبانوں میں متعدد کتابوں کے مصنف ۔ اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے محمد اظہار الحق نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ، پھر ایم اے عربی بھی کیا۔
اردو ، انگریزی ، فارسی کے بعد افغان ازبکوں سے ازبک زبان بھی سیکھی۔ موخرالذکر دونوں زبانیں انھیں وسطی ایشیا کے علمی و ادبی دوروں میں خوب کام آئیں ۔
محمد اظہار الحق کی پہلی پہچان تلخی بھرے شاعر کی ہے ۔ چالیس برس قبل ( 1982ء ) میں پہلا شعری مجموعہ ' دیوار آب ' شائع ہوا۔ اس پر انھیں ' آدم جی ایوارڈ ' ملا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ' غدر' ، تیسرا ' پری زاد' ، چوتھا ' پانی پہ بچھا تخت '۔ پانچواں مجموعہ بھی عنقریب شائع ہوگا۔ جدید غزل کے رجحان ساز شاعر ہیں۔
تیس برس قبل (1992ء میں ) کالم نگاری شروع کی۔ انگریزی اور اردو زبانوں میں کالم شائع ہوتے رہے۔ اردو میں کالم نگاری اب بھی جاری ہے۔کالموں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں: ' تلخ نوائی ' اور ' میری وفات '۔
محمد اظہار الحق اپنے بارے میں کہتے ہیں :'' زندگی نے اس فقیر کو بہت کچھ دیا۔گائوں کے پس منظر کے ساتھ شہر کی زندگی بھی دیکھی! مغربی پاکستان کا ہو کر مشرقی پاکستان کو بھی اچھی طرح دیکھا اور سمجھا۔ درسگاہ میں دو زانو بیٹھ کر فقہ اور فارسی کے اسباق پڑھے اور اندرون ملک یونیورسٹیوں اور بیرون ملک جدید ترین اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔
اعلیٰ ترین سرکاری ملازمت کو بھی اندر باہر سے دیکھا ۔ شاعروں اور ادیبوں کو بھی قریب سے دیکھا۔ ملک کے شہروں، قصبوں اور قریوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے پسندیدہ مقامات پر گیا۔''
مندرجہ بالا تعارفی سطور سے محمد اظہار الحق کی جو شبیہہ ابھرتی ہے، وہ زیر نظر کتاب میں پوری باریکی اور تفصیل سے نظر آتی ہے۔
قاری ان کی خوبصورت نثر پڑھ کر جھومتا ہی رہ جاتا ہے۔ خوبصورت شعر کہنے والے کی نثر بھی بہ درجہ کمال خوبصورت ہے۔
نثرپاروں کے اس مجموعہ کے آٹھ ابواب ہیں۔ یہاں انھوں جو نثر پارے لکھے، ان سے مصنف کی اپنی زندگی کا احوال معلوم ہوتا ہے یعنی ایک خود نوشت کا مزہ ملتا ہے۔
بعض تحاریر ان کے سیر و سفر کی جھلکیاں ہیں، ایک باب میں شخصی خاکے ہیں، دیگر ابواب میں سماجی مسائل پر بات کرتے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ تلخ نوا ہوتے ہیں ۔ 'عاشق مست جلالی ' کے عنوان سے آپ کو ایسی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی جو بچھڑے زمانوں اور آنے والے وقتوں کی بیک وقت نقیب ہیں۔
مصنف: اسٹیفن ہاکنگ، ترجمہ: محمد احسن ، قیمت:600 روپے، صفحات: 220
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، سیکنڈ فلور ٹیمپل روڈ، لاہور(03009482775)
اسٹیفن ہاکنگ سائنس کی دنیا کا ایسا نام ہے جس نے ایسے سائنسی نظریات پیش کئے جس سے نئی جہتوں کا تعین ہوا ۔ خدا کا وجود، کائنات کیسے بنی ، انسان کہاں سے آیا؟ اور ایسے ہی دیگر سوالات ہمیشہ انسانی دماغ کو چبھتے رہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیح تلاش کرتا رہتا ہے ۔
اسٹیفن ہاکنگ نے ان سوالات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا تو ان کے نظریات نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔ البرٹ آئن سائن اور نیوٹن کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے ۔
انھوں نے اپنی معذوری کو سدراہ نہ ہونے دیا اور فلکیات کی سائنس کو اتنا آگے بڑھا دیا کہ آنے والی نسلوں کے لئے نئے راستے کھل گئے ۔
اسٹیفن ہاکنگ کو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا ، لوگ ان سے ان سوالوں کے جوابات جاننا چاہتے تھے جو صدیوں سے جواب طلب تھے ، اسٹیفن اپنی معذوری کی وجہ سے چونکہ کمپیوٹر کے ذریعے جواب دیتے تھے اس لیے ان کا ہر جواب ان کے کمپیوٹر اور دیگر ذاتی ٹیکنالوجی آلات میں موجود تھا ۔
کبھی وہ جواب یونہی چند سطروں پر مشتمل ہوتا تھا ، کبھی تقریر کی صورت ، کبھی انٹرویو کی صورت اور کبھی مختلف نوعیت کے مضامین کی صورت ہوتا تھا ، زیر تبصرہ کتاب اسی قیمتی مواد سے تخلیق ہوئی ہے جو ان کی زندگی میں تو شائع نہ ہو سکی تاہم ان کے بعد ان کے رفقاء نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے جیسے جسم کے اندر روح بھی ہے مگر اسے عقلی دلائل سے ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ جن حواس خمسہ سے تحقیق کرنے کا رواج ہے اس میں روح کو پرکھنا تقریباً ناممکن ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ روح تو انسانی جسم میں موجود ہے مگر حواس خمسہ سے اسے دیکھا یا سمجھا نہیں جا سکتا، کیونکہ روح کو روح سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
اسی سائنسی طریقہ استدلال کی وجہ سے اسٹیفن صرف جسم کی بات کرتے ہیں ۔ کائنات پر غور و فکر کے لئے انتہائی مفید کتاب ہے، اس لئے اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اچھی گزر گئی
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:4000 روپے، صفحات:560
ناشر: بک ہوم مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
اپنی زندگی کے پرت دوسروں کے سامنے کھول کر رکھ دینا کوئی آسان کام نہیں ، اسی لئے اکثر لکھاری اس طرف نہیں آتے ، بہتوں نے تو آپ بیتی کو ناول کی شکل دیدی تاکہ پردہ بھی رہے اور دل کی بات بھی ہو جائے ۔
آپ بیتی سے جہاں ادیب اپنی زندگی دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہیں اس سے نئی نسل کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ آپ بیتی میں بیان کئے گئے تجربات دوسروں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں ۔
ممتاز ادیب و صحافی الطاف حسن قریشی کہتے ہیں '' اچھی گزر گئی '' ایک ایسے مرد خود آگاہ کی آپ بیتی ہے جس نے دشت غربت میں آنکھ کھولی اور وہ سرد اور گرم تھپیڑے کھاتا، بل کھاتے راستوں سے گزرتا ہوا، ایک ایسے بلند مقام تک آ پہنچا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
یہ آپ بیتی زندگی سے معمور، جیتی جاگتی ، مسکراتی اور احساس کی تپش کے ساتھ ایک ایسی دلچسپی کا رنگ اختیار کر گئی ہے جسے شروع کرنے کے بعد چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ ایک خوبصورت اور جاں افروز منظر کے اندر سے ایک نیا حیرت کدہ تخلیق ہوتا ہے۔
واقعات کی بوقلمونی ، کرداروں کا تنوع اور ملکی حالات کے تاریخی پرتو سے یہ آپ بیتی ایک شخص سے ماورا ایک عہد کی جگ بیتی محسوس ہوتی ہے ۔'' معروف ادیب امجد اسلام امجد کہتے ہیں '' محمد سعید جاوید کی اس کتاب کا غالب حصہ ان کے بچپن اور لڑکپن کے واقعات ، یادوں اور یادداشتوں پر مبنی ہے انھوں نے اس حوالے سے بہت سے کرداروں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔
ان میں سے بیشتر اس خوب صورتی اور فن کاری سے لکھے گئے ہیں کہ کئی کردار آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔'' مصنف کا انداز بیان بہت دلچسپ اور شستہ ہے وہ چھوٹی چھوٹی جزیات کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو ایسا محسوس ہو گا کہ یہ تو گویا ان کے ساتھ بیتا ہے ۔ کتاب کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
آئین کا مقدمہ
مصنف : سعید آسی، قیمت : 2500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101
زیر نظر کتاب پاکستانی صحافت کے نامور مجاہد جناب سعید آسی کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔ مصنف ایک طویل عرصہ تک عدالتوں میں رپورٹنگ کرتے رہے، اس لئے انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا ، سنا ، محسوس کیا ، وہ انھیں آئین کا مقدمہ لڑنے کے لئے ابھارتا رہا ۔ ' حرف اول ' کے عنوان سے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں :
''جنھیں آئین و قانون کی پاسداری و عمل داری کے ذریعے جمہوری نظام کو چلانا ، سنبھالنا اور مستحکم بنانا چاہیے وہ آج آئین شکنی کی نادر مثالیں قائم کر رہے ہیں۔
آئین کے تحت قائم ریاستی اداروں کی بھد اڑا رہے ہیں... مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ آج کا غتر بود کلچر ہمیں پتھر کے زمانے کی جانب واپس تو نہیں لے جا رہا۔ اسی سوچ نے مجھے '' آئین کا مقدمہ'' آپ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا ہے... یہی آئین پاکستان کا مقدمہ ہے کہ اس کی حفاظت کے ذمہ داروں کے ہاتھوں اس کی کیوں درگت بن رہی ہے اور اب اس وطن عزیز کو آئین و قانون کی عمل داری کے راستے پر واپس لایا بھی جا سکے گا یا نہیں۔''
ان حالات میں ایک عام پاکستانی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی ، ایک ایسا شخص جو ایک طویل عرصہ سے اس سارے بنتے بگڑتے کھیل کو بہ نظر غائر دیکھ رہا ہو، اس کے اضطراب کا کیا عالم ہوگا ! ظاہر ہے کہ وہ بدترین آئین شکنی کے نتائج و عواقب سے بھی بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
اگر ایسا شخص خوف زدہ ہو جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کس قدر سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
جناب سعید آسی تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کے بیٹے ہیں، اس لئے وہ نظریہ پاکستان کے محافظوں کے ہراول دستے میں شامل ہوئے اور پھر کبھی اس سے الگ نہیں ہوئے۔
وہ آج بھی اس محاذ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے اپنے کالموں میں جو کچھ لکھا ، وہ پاکستان کی حالیہ سیاسی اور آئینی تاریخ کی ایک اہم ترین گواہی ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے ایک ایسی نسل تیار ہوگی جو آئین کی پوری جرات و دلیری سے حفاظت کرے گی۔ اسی کی وطن عزیز کو ضرورت ہے۔ ' قلم فائونڈیشن ' نے کتاب کو اس کے شایان شان ، نہایت اہتمام سے شائع کیا۔
قصہ چار نسلوں کا
مصنف : قیصرہ شفقت، قیمت : 700 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
یہ ایک ایسی پٹھان خاتون کی خودنوشت ہے، جن کے آبائو اجداد صدیوں پہلے شمالی افغانستان کے دور افتادہ سرسبز پہاڑوں سے نیچے اترے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں آبسے۔ مصنفہ پہلے ' آرمی پبلک سکول ' اور پھر ' او پی ایف ' سکول میں پڑھاتی رہیں۔
ان کی یہ منفرد خود نوشت پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی عام سی خاتون نہیں ہیں۔کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اچانک گمان ہوتا ہے جیسے ہم کلاسیک ادب کی کوئی چیز پڑھ رہے ہیں، اس تناظر میں وہ کہیں قرۃ العین حیدر لگتی ہیں ،کہیں امرتا پریتم اور کہیں عصمت چغتائی۔ یہ کتاب آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔کہیں ناول اور کہیں سفرنامہ ۔ آپ کو اس میں شخصی خاکے بھی پڑھنے کو ملیں گے اور کتب پر تبصرے بھی۔
کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ شوخ طبیعتوں کے حامل ایک خاندان کا حصہ ہیں، ایک کونے میں بیٹھے سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، اس خاندان کے افراد کی اٹکھیلیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔
مصنفہ نے جس انداز میں یہ ساری باتیں لکھیں، ہر کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ ایک عمومی خیال ہے کہ ہر بات ہر کسی کو بتانے والی نہیں ہوتی لیکن مصنفہ نے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ اپنے بزرگوں کا شوخ تذکرہ کیا۔
اپنے آپ کا مذاق اڑایا ، اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کا بھی۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کچھ ایسی شوخ باتیں یہاں نقل کروں لیکن مجھے بھی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس لئے آپ سے التماس ہے کہ چار نسلوں کا یہ منفرد قصہ خود ہی پڑھ لیں۔
مصنفہ نے بالکل درست لکھا :'' جب آپ عمر کے خاص دور میں تنہا اپنے کمرے میں بیٹھے ہر ایک لمحے کو جینا چاہتے ہوں ، چھونا چاہتے ہوں تو یادداشتیں یوں صفحات پر منتقل ہوتی ہیں۔
مجھے زندگی جہاں سے یاد آتی رہتی ہے، میں لکھتی رہتی ہوں۔ تسلسل کی کمی یوں بھی نہ لگے گی کہ ہر گزرے اور موجودہ لمحات کو میں آپس میں بُن لیتی ہوں۔ لمحہ لمحہ جوڑ کر یوں لگا جیسے چڑیا ماں تنکا تنکا چن کر گھونسلا بناتی ہے۔''
کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ مصنفہ پاکستانی سیاست اور انسانی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں، انقلاب فرانس ، روس و چین کے سرخ انقلابات سے بھی خوب واقف ہیں۔
حالانکہ کم ہی خواتین ایسے انقلابات سے کچھ لینا دینا رکھتی ہیں۔ اسی طرح وہ اردو ادب بلکہ عالمی ادب کی بھی رسیا ہیں۔ اس تناظر میں آپ ایک رنگا رنگی سے لطف اندوز ہوں گے۔ یہ کتاب پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر گزارنے والے ہر بزرگ سے کہوں کہ محترمہ قیصرہ شفقت کی راہ پر
چلیں، ان کی طرح لکھیں اور نئی نسل تک اپنے فکری اثاثے منتقل کریں۔
عقیدت کے پھول (حمدیہ ونعتیہ کلام)
شاعر: شکیل فاروقی، ناشر: نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
صفحات:85، قیمت: 600 روپے
اللہ رب العزت کی حمد وثناء اور رسول مقبول ﷺ کی مدح اور آپؐ سے اظہارِِعشق نثر کی صورت میں ہو یا شعر کی، بہت بڑی سعادت ہے۔
یوں تو اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو رب کی شان میں حمد اور نبیٔ مکرم ﷺ کی نعت کہہ کر اپنی عزت نہ بڑھائی ہو، جن میں غیرمسلم اہل سخن بھی شامل ہیں، لیکن بہت سے ایسے خوش نصیب ہیں جنھوں نے تواتر سے اور بڑی تعداد میں گل ہائے عقیدت پیش کیے جو مجموعوں کی شکل میں اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔
بزرگ شاعر شکیل فاروقی بھی ان خوش نصیبوں میں شامل اور عشق خدا ورسولؐ کے پاکیزہ جذبات کو اشعار میں ڈھالنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
ان کی حمدوں اور نعتوں کا مجموعہ ''عقیدت کے پھول'' کا ہر مصرعہ اس روشنی سے دمک رہا ہے جو ان کی آنکھوں میں تو بجھ چکی ہے لیکن دل کو پوری طرح تاباں کیے ہوئے ہے۔
شکیل فاروقی کالم نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ان کے کالم روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے کی زینت بنتے ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی سخن آرائی کی ہے اور ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ''شیڈوز'' کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔
''عقیدت کے پھول'' میں شامل حمدوں اور نعتوں کی بابت کتاب میں شامل اپنے مضمون میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں،''ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساسِ ندامت، حبِ نبوی علیٰ صاحبہالصلوٰۃ والسلام کی تپش، بھٹکے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو اور اتباعِ نبوی ﷺ کی ترغیب شامل ہے۔ شکیل صاحب کی نعتیہ شاعری پر اردو کلاسیکی شعری بوطیقا کا پرتو ہے۔
انھوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات واحساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔'' معروف نعت گو شاعر جناب صبیح رحمانی فرماتے ہیں،''شکیل فاروقی کی نعتوں میں یہ پیغام بڑے اعتماد سے جلوہ گر ہے کہ نامِ محمدؐ اور پیامِ محمدؐ سے پیوستگی ہی واحد ذریعۂ فلاح ونجات ہے۔''
یہ دو آراء ہی اس خوب صورت مجموعے اور شکیل فاروقی صاحب کے حمدیہ ونعتیہ کلام کی خصوصیات کا تعارف کرانے کے لیے کافی ہیں۔ کتاب کا سرورق دل کش اور طباعت عمدہ ہے۔ امید ہے یہ کتاب حمدونعت کے اردو مجموعوں میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔
عاشق مست جلالی
مصنف : محمد اظہار الحق، قیمت : 1195 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، رابطہ : 03215440882
مصنف گریڈ بائیس کے اعلیٰ سرکاری افسر تھے، جب ریٹائر ہوئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے گریڈ والے اس افسر سے ملنے، جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ اعلیٰ ترین افسر ہوکر بھی افسر نہ تھا ، بس ! ایک عام ، سادہ سا دیہاتی۔ جناب محمد اظہار الحق دیہاتی کے طور پر پیدا ہوئے اور پھر ساری عمر پینڈو رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ اب بھی پینڈو کے پینڈو ہی ہیں۔
ضلع اٹک کے جس گھرانے میں پیدا ہوئے ، وہاں ماحول علمی و ادبی تھا ، دادا علاقے کے معروف عالم دین ۔ والد اردو ، فارسی کے شاعر اور انہی دونوں زبانوں میں متعدد کتابوں کے مصنف ۔ اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے محمد اظہار الحق نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ، پھر ایم اے عربی بھی کیا۔
اردو ، انگریزی ، فارسی کے بعد افغان ازبکوں سے ازبک زبان بھی سیکھی۔ موخرالذکر دونوں زبانیں انھیں وسطی ایشیا کے علمی و ادبی دوروں میں خوب کام آئیں ۔
محمد اظہار الحق کی پہلی پہچان تلخی بھرے شاعر کی ہے ۔ چالیس برس قبل ( 1982ء ) میں پہلا شعری مجموعہ ' دیوار آب ' شائع ہوا۔ اس پر انھیں ' آدم جی ایوارڈ ' ملا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ' غدر' ، تیسرا ' پری زاد' ، چوتھا ' پانی پہ بچھا تخت '۔ پانچواں مجموعہ بھی عنقریب شائع ہوگا۔ جدید غزل کے رجحان ساز شاعر ہیں۔
تیس برس قبل (1992ء میں ) کالم نگاری شروع کی۔ انگریزی اور اردو زبانوں میں کالم شائع ہوتے رہے۔ اردو میں کالم نگاری اب بھی جاری ہے۔کالموں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں: ' تلخ نوائی ' اور ' میری وفات '۔
محمد اظہار الحق اپنے بارے میں کہتے ہیں :'' زندگی نے اس فقیر کو بہت کچھ دیا۔گائوں کے پس منظر کے ساتھ شہر کی زندگی بھی دیکھی! مغربی پاکستان کا ہو کر مشرقی پاکستان کو بھی اچھی طرح دیکھا اور سمجھا۔ درسگاہ میں دو زانو بیٹھ کر فقہ اور فارسی کے اسباق پڑھے اور اندرون ملک یونیورسٹیوں اور بیرون ملک جدید ترین اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔
اعلیٰ ترین سرکاری ملازمت کو بھی اندر باہر سے دیکھا ۔ شاعروں اور ادیبوں کو بھی قریب سے دیکھا۔ ملک کے شہروں، قصبوں اور قریوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے پسندیدہ مقامات پر گیا۔''
مندرجہ بالا تعارفی سطور سے محمد اظہار الحق کی جو شبیہہ ابھرتی ہے، وہ زیر نظر کتاب میں پوری باریکی اور تفصیل سے نظر آتی ہے۔
قاری ان کی خوبصورت نثر پڑھ کر جھومتا ہی رہ جاتا ہے۔ خوبصورت شعر کہنے والے کی نثر بھی بہ درجہ کمال خوبصورت ہے۔
نثرپاروں کے اس مجموعہ کے آٹھ ابواب ہیں۔ یہاں انھوں جو نثر پارے لکھے، ان سے مصنف کی اپنی زندگی کا احوال معلوم ہوتا ہے یعنی ایک خود نوشت کا مزہ ملتا ہے۔
بعض تحاریر ان کے سیر و سفر کی جھلکیاں ہیں، ایک باب میں شخصی خاکے ہیں، دیگر ابواب میں سماجی مسائل پر بات کرتے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ تلخ نوا ہوتے ہیں ۔ 'عاشق مست جلالی ' کے عنوان سے آپ کو ایسی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی جو بچھڑے زمانوں اور آنے والے وقتوں کی بیک وقت نقیب ہیں۔