بلدیاتی الیکشن
کراچی و حیدرآباد ڈویژنوں سمیت سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات آخر ہو ہی گئے
کراچی و حیدرآباد ڈویژنوں سمیت سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات آخر ہو ہی گئے جن کی ایک بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم پاکستان جس میں کراچی کے دو سابق بلدیاتی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور سید مصطفی کمال اپنے حامیوں کے ساتھ واپس آچکے ہیں۔
نئے الیکشن کے انعقاد سے صرف ساڑھے 8 گھنٹے قبل بلدیاتی انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کر کے بائیکاٹ کیا ، جس کی وجہ سے کراچی میں خاص کر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا جو پچیس سے تیس فیصد بتایاگیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ضلع کورنگی جس کی ڈی ایم سی کی سربراہی پہلے بھی ایم کیو ایم کے پاس تھی۔کورنگی جب ضلع نہیں بنا تھا تو تب بھی کورنگی و لانڈھی ٹاؤنز میں ایم کیو ایم کے ہی ناظمین منتخب ہوئے تھے اور ضلع کورنگی جو ایم کیو ایم کا گڑھ ہے وہاں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر شہریوں کی عدم دلچسپی کے باعث ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا اور کورنگی کے ایک پولنگ اسٹیشن پر تین بجے کے بعد بھی ووٹرزکی قطار دکھائی نہیں دی اور ضلع کورنگی میں بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹا رہا۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری جو اس روز کراچی میں تھے انھوں نے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ پر کہا کہ آخری روز الیکشن کا بائیکاٹ عوام کے مفاد میں نہیں تھا اور اتوار کی تعطیل ہونے کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کا ٹرن آؤٹ کم رہا۔
ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن پر الزام لگاکر بلدیاتی انتخابات کا 15جنوری کو شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد بائیکاٹ کا جو اعلان کیا اس کا ذمے دار بھی ان کے مطابق الیکشن کمیشن ہی تھا یا اس میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی کسی منصوبہ بندی کا بھی دخل تھا یا نہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے ایک روز قبل چیف الیکشن کمیشن کی صدارت میں ہونے والے الیکشن کمیشن سندھ نے حکومت کی ایک اور درخواست مسترد کردی تھی۔
سندھ حکومت بھی بعض وجوہات کے باعث الیکشن کا التوا چاہتی تھی اور اس نے دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا ہی ایک نوٹیفیکیشن واپس لے لیا تھا اور کہا تھا کہ الیکشن ہونے کا نوٹیفیکیشن نکالنے کا اختیار ہمارا تھا جس میں الیکشن کمیشن مداخلت نہیں کرسکتا تھا مگر اس نے ہماری درخواست پر الیکشن ملتوی نہیں کیا اور اس کے حکم پر سندھ حکومت کو مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے پر مجبور ہونا پڑا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایم کیو ایم کی تمام درخواستیں مسترد کردی تھیں اور ایم کیو ایم کے اعتراض کو تسلیم نہیں کیا تھا جو حلقہ بندیوں سے متعلق تھا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں تجزیہ کار فیصل حسین کا کہنا تھا کہ یہ جذباتی بات ہے کہ بلدیاتی الیکشن ہونے چاہئیں اور عوام کو الیکشن کے ذریعے بنیادی حقوق ملنے چاہیے جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ حلقہ بندیاں ہی غلط کی گئیں۔
سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار کا بھی ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینئر اسٹیج میں کہنا تھا کہ کراچی میں غلط حلقہ بندیاں کرکے نا انصافی کی گئی ہے۔
الیکشن سے قبل ہی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ، ان میں ایم کیو ایم کی اکثریتی علاقوں میں وہاں بہت بڑی آبادی اور بہت زیادہ ووٹرز پر ایک حلقہ بنایا گیا جب کہ ہمارے مخالفین کے حلقے بہت کم آبادی اور کم ووٹرز والے ہیں یہ لیول پلیئنگ فیلڈ تو نہیں ہوا۔ مجھے سیاسی طور پر اس میں دیوالیہ پن نظر آتا ہے۔
سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے خلاف ہر جگہ گئے مگر انصاف نہیں ملا۔ ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول کا مصطفی کمال اور فاروق ستار کی موجودگی میں رات گئے کہنا تھا کہ سب گواہ ہیں کہ ہم 15دسمبر شروع ہونے تک کوشش کرتے رہے۔ ہم عدالتوں اور الیکشن کمیشن تک گئے۔
انتخابات غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں، حلقہ بندیاں درست ہوں۔ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھیں، ہماری نشان دہی کے باوجود حلقہ بندیاں تبدیل نہیں کی نہ ووٹر لسٹ میں تبدیلیکی گئی اور الیکشن کمیشن سندھ حکومت ڈٹا رہا کہ الیکشن 15جنوری کو ہی ہوں گے۔ اس لیے ہمیں رات گئے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہم اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔
وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کیے مگر کراچی میں نہیں کیے۔
مصطفی کمال نے کہاکہ الیکشن میں حصہ لینا غلط حلقہ بندیاں تسلیم کرنا ہے جسے ہم نہیں مانتے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کراچی میں شہری علاقوں کی یوسی نوے ہزار ووٹرز اور وسیع علاقوں پٍرٍ اور دیہی علاقوں کی یوسی 30 ہزار ووٹروں اور کم علاقے پر بنائی گئی ہے جو غیر منصفانہ اور کراچی کی ستر یوسیز کم کی گئی ہے جب کہ حکومت ہر یوسی کو یکساں رقم دے گی جس سے شہری مسائل حل نہیں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے متنازعہ حلقہ بندیوں پر الیکشن کرادیے جس میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے حصہ نہیں لیا اور مقابلہ ایم کیو ایم مخالف جماعتوں کے درمیان رہا اور ایم کیو ایم نے کہا کہ عوام کی اکثریت نے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات کو مسترد کردیا ہے جس کا ثبوت بہت کم ٹرن آؤٹ تھا۔
حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ دیگر پارٹیوں کو اعتراض تھا اور سندھ حکومت نے وہ نوٹیفیکیشن واپس بھی لیا مگر یہ بھی ثابت ہے کہ متنازعہ حلقہ بندیوں اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا بھرپور فائدہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے کافی عرصے سے اپنی بلدیاتی انتخابات مہم شروع کی ہوئی تھی جس کے کراچی میں 3 بار بلدیاتی سربراہ رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے بھی طویل عرصہ سے اس بارکراچی میں اپنا میئر لانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور دعویٰ پی ٹی آئی نے بھی کیا تھا جو تیسرے نمبر پر رہی مگر بہت کم ٹرن آؤٹ سے بڑا نقصان شہری آبادی کو ہوا جو گھروں سے نہیں نکلی اور کراچی کا حقیقی مینڈیٹ حکومت منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
نئے الیکشن کے انعقاد سے صرف ساڑھے 8 گھنٹے قبل بلدیاتی انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کر کے بائیکاٹ کیا ، جس کی وجہ سے کراچی میں خاص کر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا جو پچیس سے تیس فیصد بتایاگیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ضلع کورنگی جس کی ڈی ایم سی کی سربراہی پہلے بھی ایم کیو ایم کے پاس تھی۔کورنگی جب ضلع نہیں بنا تھا تو تب بھی کورنگی و لانڈھی ٹاؤنز میں ایم کیو ایم کے ہی ناظمین منتخب ہوئے تھے اور ضلع کورنگی جو ایم کیو ایم کا گڑھ ہے وہاں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر شہریوں کی عدم دلچسپی کے باعث ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا اور کورنگی کے ایک پولنگ اسٹیشن پر تین بجے کے بعد بھی ووٹرزکی قطار دکھائی نہیں دی اور ضلع کورنگی میں بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹا رہا۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری جو اس روز کراچی میں تھے انھوں نے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ پر کہا کہ آخری روز الیکشن کا بائیکاٹ عوام کے مفاد میں نہیں تھا اور اتوار کی تعطیل ہونے کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کا ٹرن آؤٹ کم رہا۔
ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن پر الزام لگاکر بلدیاتی انتخابات کا 15جنوری کو شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد بائیکاٹ کا جو اعلان کیا اس کا ذمے دار بھی ان کے مطابق الیکشن کمیشن ہی تھا یا اس میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی کسی منصوبہ بندی کا بھی دخل تھا یا نہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے ایک روز قبل چیف الیکشن کمیشن کی صدارت میں ہونے والے الیکشن کمیشن سندھ نے حکومت کی ایک اور درخواست مسترد کردی تھی۔
سندھ حکومت بھی بعض وجوہات کے باعث الیکشن کا التوا چاہتی تھی اور اس نے دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا ہی ایک نوٹیفیکیشن واپس لے لیا تھا اور کہا تھا کہ الیکشن ہونے کا نوٹیفیکیشن نکالنے کا اختیار ہمارا تھا جس میں الیکشن کمیشن مداخلت نہیں کرسکتا تھا مگر اس نے ہماری درخواست پر الیکشن ملتوی نہیں کیا اور اس کے حکم پر سندھ حکومت کو مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے پر مجبور ہونا پڑا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایم کیو ایم کی تمام درخواستیں مسترد کردی تھیں اور ایم کیو ایم کے اعتراض کو تسلیم نہیں کیا تھا جو حلقہ بندیوں سے متعلق تھا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں تجزیہ کار فیصل حسین کا کہنا تھا کہ یہ جذباتی بات ہے کہ بلدیاتی الیکشن ہونے چاہئیں اور عوام کو الیکشن کے ذریعے بنیادی حقوق ملنے چاہیے جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ حلقہ بندیاں ہی غلط کی گئیں۔
سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار کا بھی ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینئر اسٹیج میں کہنا تھا کہ کراچی میں غلط حلقہ بندیاں کرکے نا انصافی کی گئی ہے۔
الیکشن سے قبل ہی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ، ان میں ایم کیو ایم کی اکثریتی علاقوں میں وہاں بہت بڑی آبادی اور بہت زیادہ ووٹرز پر ایک حلقہ بنایا گیا جب کہ ہمارے مخالفین کے حلقے بہت کم آبادی اور کم ووٹرز والے ہیں یہ لیول پلیئنگ فیلڈ تو نہیں ہوا۔ مجھے سیاسی طور پر اس میں دیوالیہ پن نظر آتا ہے۔
سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے خلاف ہر جگہ گئے مگر انصاف نہیں ملا۔ ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول کا مصطفی کمال اور فاروق ستار کی موجودگی میں رات گئے کہنا تھا کہ سب گواہ ہیں کہ ہم 15دسمبر شروع ہونے تک کوشش کرتے رہے۔ ہم عدالتوں اور الیکشن کمیشن تک گئے۔
انتخابات غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں، حلقہ بندیاں درست ہوں۔ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھیں، ہماری نشان دہی کے باوجود حلقہ بندیاں تبدیل نہیں کی نہ ووٹر لسٹ میں تبدیلیکی گئی اور الیکشن کمیشن سندھ حکومت ڈٹا رہا کہ الیکشن 15جنوری کو ہی ہوں گے۔ اس لیے ہمیں رات گئے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہم اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔
وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کیے مگر کراچی میں نہیں کیے۔
مصطفی کمال نے کہاکہ الیکشن میں حصہ لینا غلط حلقہ بندیاں تسلیم کرنا ہے جسے ہم نہیں مانتے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کراچی میں شہری علاقوں کی یوسی نوے ہزار ووٹرز اور وسیع علاقوں پٍرٍ اور دیہی علاقوں کی یوسی 30 ہزار ووٹروں اور کم علاقے پر بنائی گئی ہے جو غیر منصفانہ اور کراچی کی ستر یوسیز کم کی گئی ہے جب کہ حکومت ہر یوسی کو یکساں رقم دے گی جس سے شہری مسائل حل نہیں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے متنازعہ حلقہ بندیوں پر الیکشن کرادیے جس میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے حصہ نہیں لیا اور مقابلہ ایم کیو ایم مخالف جماعتوں کے درمیان رہا اور ایم کیو ایم نے کہا کہ عوام کی اکثریت نے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات کو مسترد کردیا ہے جس کا ثبوت بہت کم ٹرن آؤٹ تھا۔
حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ دیگر پارٹیوں کو اعتراض تھا اور سندھ حکومت نے وہ نوٹیفیکیشن واپس بھی لیا مگر یہ بھی ثابت ہے کہ متنازعہ حلقہ بندیوں اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا بھرپور فائدہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے کافی عرصے سے اپنی بلدیاتی انتخابات مہم شروع کی ہوئی تھی جس کے کراچی میں 3 بار بلدیاتی سربراہ رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے بھی طویل عرصہ سے اس بارکراچی میں اپنا میئر لانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور دعویٰ پی ٹی آئی نے بھی کیا تھا جو تیسرے نمبر پر رہی مگر بہت کم ٹرن آؤٹ سے بڑا نقصان شہری آبادی کو ہوا جو گھروں سے نہیں نکلی اور کراچی کا حقیقی مینڈیٹ حکومت منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔