35 استعفوں کی منظوری اور خواجہ سعد رفیق فارمولہ
تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپس جا کر مرکزی حکومت گرانے کا سارا منصوبہ زمین بوس ہو گیا ہے
اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 35مزید استعفے منظور کر لیے ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی تقریباً ساری مرکزی قیادت شامل ہے۔
اس طرح تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپس جا کر مرکزی حکومت گرانے کا سارا منصوبہ زمین بوس ہو گیا ہے۔
اب اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی چلی بھی جاتی ہے اور اگر فرض کرلیں کہ شہباز شریف اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہیں بھی ہوتے تب بھی وزیر اعظم کے دوبارہ انتخاب میں شہباز شریف ہی وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن پھر بھی سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
استعفوں کی منظوری صرف اور صرف تحریک انصاف کے خلاف ایک سیاسی چال ہے جس میں ان کو یہ سمجھانا ہے کہ سیاسی بساط پر چال کھیلنے کا حق صرف ان کا ہی نہیں ہے بلکہ دوسرا فریق بھی ان کے خلاف سیاسی چال کھیلنے کا حق رکھتا ہے۔ اس لیے وہ جو بھی حکمت عملی بنائیں مخالف فریق کا سیاسی چال کھیلنے کا حق سامنے رکھیں۔
استعفے اسپیکر کے پاس موجود ہیں۔ وہ جب چاہیں منظور کر سکتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا تو پہلے صحافیوں سے بات کرنے کے بجائے انھیں اسپیکر کی ٹیبل سے اپنے استعفے واپس لینے چاہیے تھے۔
اب بھی اگر ان کا واپسی کو کوئی پروگرام ہے تو پہلے باقی ماندہ استعفے واپس لے لیں۔ ورنہ پی ڈی ایم کی حکومت انھیں اب بار بار سرپرائز دینے کے موڈ میں لگ رہی ہے۔
اب شاید کسی کو ان کی واپسی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کی قومی اسمبلی میں واپسی میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ بلکہ یہ خیال ہے کہ انھیں قومی اسمبلی سے دور ہی رکھا جائے۔
تحرک انصاف کے استعفوں کی منظوری کے پیچھے پی ڈی ایم کا ایک گیم پلان ہے۔ میں نے بطور صحافی جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق استعفوں کی منظوری کا گیم پلان خواجہ سعد رفیق نے پیش کیا ہے۔ اور ان کے اس گیم پلان کو پی ڈٖی ایم کی قیادت نے بخوشی قبول کیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کے سیاسی گیم پلان کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت کے استعفے قبول کیے جائیں۔ لیکن ملک میں ضمنی انتخابات کا سیاسی درجہ حرارت بھی کم رکھا جائے تا کہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار نہ کی جائے۔
اس لیے تحریک انصاف کے جتنے بھی استعفیٰ قبول کیے جائیں ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم حصہ نہ لے۔ اکیلی تحریک انصاف کو دوبارہ ان سیٹوں پر انتخابات لڑنے دیا جائے۔ اگر عمران خان خود ہی اکیلے بغیر کسی مقابلے کے دوبارہ ان سیٹوں پر انتخابات لڑتے ہیں تو اکیلے اپنے آپ سے ہی لڑ رہے ہوں گے۔ پی ڈی ایم یا کسی سیاسی جماعت کا کوئی امیدوار ان کے مقابلے میں نہیں ہوگا۔
ویسے بھی اگر عمران خان خود ہی دوبارہ جیت بھی جاتے ہیں تب بھی یہ سیٹیں قومی اسمبلی میں خالی ہی رہیں گی۔ اگر وہ اپنے امیدوار کھڑے کرتے ہیں تب بھی ایسا لگے گا کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں گے۔
اس لیے گیم پلان صرف یہ نہیں ہے کہ استعفیٰ منظور کیے جائیں بلکہ یہ بھی کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بھی کم رکھا جائے اور ضمنی انتخابات کو مقابلہ نہ بنایا جائے۔ اس طرح قومی اسمبلی آسانی سے اپنی مدت پوری کر سکے گی اور عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا گیم پلان ناکام ہو جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق کا یہ سیاسی گیم پلان سب نے قبول کر لیا ہے۔ اس لیے اب جو استعفے قبول کیے گئے ہیں ۔ ویسے تو استعفوں کی منظوری کے فوری بعد مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر دیا ہے کہ اب پی ڈی ایم ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات نہیں لڑے گی حالانکہ خواجہ سعد رفیق کے گیم پلان کے مطابق اس کا اعلان کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ساٹھ دن میں جب شیڈول آتا تو یہ بھی ایک سرپرائز ہی ہوتا۔لیکن پی ڈی ایم کی قیادت اس منصوبے سے اتنی خوش تھی کہ اس کا اگلا حصہ راز نہیں رکھ سکی۔ جو رکھا جاتا تو مزید بہتر ہو سکتا تھا۔
عمران خان اب اگر 33سیٹوں پر خود الیکشن لڑتے ہیں تو بھی پی ڈی ایم کی لاٹری ہے۔ یہ سیٹیں خالی رہیں گی۔ اگر وہ امیدوار کھڑے کرتے ہیں تو بھی یہ ضمنی انتخابات ملک میں عام انتخابات کا نہ تو ماحول پیدا کر سکیں گے اور نہ ہی پی ڈی ایم کو کوئی سیاسی نقصان ہوگا۔ یہ ضمنی انتخابات عمران خان کے لیے بھی ایک گناہ بے لذت بن کر رہ جائیں گے۔
ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگا۔ اور وہ اکیلے ہی زور لگا رہے ہونگے جو سیاسی طور پر کوئی درست نہیں لگے گا۔ اگر مہم چلائیں گے تو بھی کس کے خلاف۔ اگر نہیں چلائیں گے تو کیا ہوگا۔ اس لیے اس بار استعفوں کی منظوری کے پیچھے ایک مربوط سیاسی حکمت عملی موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مزید استعفے منظور کیے جائیں گے۔ یہ بھی اب تحریک انصاف کے لیے سرپرائز ہی ہے۔ اگر وہ اسپیکر کی ٹیبل سے استعفیٰ واپس نہیں لیتے تو مجھے لگتا ہے کہ کچھ وقفے کے بعد یعنی ایک دو ماہ کے بعد دوباہ کچھ استعفے قبول کیے جا سکتے ہیں۔
کوشش یہ ہوگی کہ ان سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے بعد پھر ضمنی انتخابات ہی کا کھیل شروع کر دیا جائے۔ ا س طرح عمران خان کو ایک یک طرفہ ضمنی انتخابات کے کھیل میں الجھائے رکھا جائے اور اپنی حکومت کی مدت پوری کی جائے۔
ویسے بھی اب عمران خان کے پاس صوبائی حکومتیں نہیں ہیں۔ ضمنی انتخابات کی مہم کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر اور سرکاری وسائل بھی نہیں ہونگے۔ پہلے صوبائی حکومتیں ان کی مہم میں بہت مدد گار ثابت رہی ہیں جو مدد اب حاصل نہیں ہوگی۔
اگر عمران خان ملک کو عام انتخابات کی طرف لیجانے میں ناکام ہوتے ہیں۔ اور بات صرف پنجاب اور کے پی میں انتخابات تک محدود رہ جاتی ہے تو یہ عمران خان کی جیت نہیں بلکہ ایک ناکامی بن جائے گی۔ تھوڑی دیر میں سب کو احساس ہونے لگے گا کہ عمران خان نے جلد بازی میں اسمبلیاں توڑ کر سیاسی خود کشی کر لی ہے۔
مجھے ابھی نہیں لگتا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جلد ہو سکیں۔ نگران حکومتیں بن جائیں گی تو دوسرا کھیل شروع ہوگا۔ کب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے جائیں ۔ اگر کہیں یہ طے ہوگیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی عام انتخابات کے ساتھ ہی ہونگے تو پھر عمران خان کو احساس ہوگا کہ ان سے بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگئی ہے۔
وہ ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کے کنٹرول میں پورا پاکستان آجائے گا اور عمران خان کے کنٹرول سے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی حکومتیں اپنے ہاتھ سے توڑ دیں اور خود ہی اپنا نقصان کر لیا۔ پی ڈی ایم نے ان کو واپس لانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن جب انھوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا طے کر لیا تو خواجہ سعد رفیق فارمولہ حرکت میں آگیا۔
ویسے خواجہ سعد رفیق آجکل سیاست سے کافی بد دل نظر آرہے ہیں۔ ان کی ایسی گفتگو بھی سامنے آئی ہے کہ میں انتخابی سیاست چھوڑنا چاہتا ہوں۔
میری ان سے کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مجھے ان کی ناامیدی کی کوئی خاص وجوہات کا علم نہیں۔ اس لیے ابھی اس پر نہیں لکھنا چاہتا۔ وہ ایک مکمل سیاسی انسان ہیں۔ سیاست نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ الیکشن ان کی زندگی ہے۔ الیکشن نہیں لڑیں گے تو ان کی زندگی بے رنگ ہو جائے گی۔
اس طرح تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپس جا کر مرکزی حکومت گرانے کا سارا منصوبہ زمین بوس ہو گیا ہے۔
اب اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی چلی بھی جاتی ہے اور اگر فرض کرلیں کہ شہباز شریف اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہیں بھی ہوتے تب بھی وزیر اعظم کے دوبارہ انتخاب میں شہباز شریف ہی وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن پھر بھی سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
استعفوں کی منظوری صرف اور صرف تحریک انصاف کے خلاف ایک سیاسی چال ہے جس میں ان کو یہ سمجھانا ہے کہ سیاسی بساط پر چال کھیلنے کا حق صرف ان کا ہی نہیں ہے بلکہ دوسرا فریق بھی ان کے خلاف سیاسی چال کھیلنے کا حق رکھتا ہے۔ اس لیے وہ جو بھی حکمت عملی بنائیں مخالف فریق کا سیاسی چال کھیلنے کا حق سامنے رکھیں۔
استعفے اسپیکر کے پاس موجود ہیں۔ وہ جب چاہیں منظور کر سکتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا تو پہلے صحافیوں سے بات کرنے کے بجائے انھیں اسپیکر کی ٹیبل سے اپنے استعفے واپس لینے چاہیے تھے۔
اب بھی اگر ان کا واپسی کو کوئی پروگرام ہے تو پہلے باقی ماندہ استعفے واپس لے لیں۔ ورنہ پی ڈی ایم کی حکومت انھیں اب بار بار سرپرائز دینے کے موڈ میں لگ رہی ہے۔
اب شاید کسی کو ان کی واپسی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کی قومی اسمبلی میں واپسی میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ بلکہ یہ خیال ہے کہ انھیں قومی اسمبلی سے دور ہی رکھا جائے۔
تحرک انصاف کے استعفوں کی منظوری کے پیچھے پی ڈی ایم کا ایک گیم پلان ہے۔ میں نے بطور صحافی جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق استعفوں کی منظوری کا گیم پلان خواجہ سعد رفیق نے پیش کیا ہے۔ اور ان کے اس گیم پلان کو پی ڈٖی ایم کی قیادت نے بخوشی قبول کیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کے سیاسی گیم پلان کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت کے استعفے قبول کیے جائیں۔ لیکن ملک میں ضمنی انتخابات کا سیاسی درجہ حرارت بھی کم رکھا جائے تا کہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار نہ کی جائے۔
اس لیے تحریک انصاف کے جتنے بھی استعفیٰ قبول کیے جائیں ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم حصہ نہ لے۔ اکیلی تحریک انصاف کو دوبارہ ان سیٹوں پر انتخابات لڑنے دیا جائے۔ اگر عمران خان خود ہی اکیلے بغیر کسی مقابلے کے دوبارہ ان سیٹوں پر انتخابات لڑتے ہیں تو اکیلے اپنے آپ سے ہی لڑ رہے ہوں گے۔ پی ڈی ایم یا کسی سیاسی جماعت کا کوئی امیدوار ان کے مقابلے میں نہیں ہوگا۔
ویسے بھی اگر عمران خان خود ہی دوبارہ جیت بھی جاتے ہیں تب بھی یہ سیٹیں قومی اسمبلی میں خالی ہی رہیں گی۔ اگر وہ اپنے امیدوار کھڑے کرتے ہیں تب بھی ایسا لگے گا کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں گے۔
اس لیے گیم پلان صرف یہ نہیں ہے کہ استعفیٰ منظور کیے جائیں بلکہ یہ بھی کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بھی کم رکھا جائے اور ضمنی انتخابات کو مقابلہ نہ بنایا جائے۔ اس طرح قومی اسمبلی آسانی سے اپنی مدت پوری کر سکے گی اور عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا گیم پلان ناکام ہو جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق کا یہ سیاسی گیم پلان سب نے قبول کر لیا ہے۔ اس لیے اب جو استعفے قبول کیے گئے ہیں ۔ ویسے تو استعفوں کی منظوری کے فوری بعد مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر دیا ہے کہ اب پی ڈی ایم ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات نہیں لڑے گی حالانکہ خواجہ سعد رفیق کے گیم پلان کے مطابق اس کا اعلان کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ساٹھ دن میں جب شیڈول آتا تو یہ بھی ایک سرپرائز ہی ہوتا۔لیکن پی ڈی ایم کی قیادت اس منصوبے سے اتنی خوش تھی کہ اس کا اگلا حصہ راز نہیں رکھ سکی۔ جو رکھا جاتا تو مزید بہتر ہو سکتا تھا۔
عمران خان اب اگر 33سیٹوں پر خود الیکشن لڑتے ہیں تو بھی پی ڈی ایم کی لاٹری ہے۔ یہ سیٹیں خالی رہیں گی۔ اگر وہ امیدوار کھڑے کرتے ہیں تو بھی یہ ضمنی انتخابات ملک میں عام انتخابات کا نہ تو ماحول پیدا کر سکیں گے اور نہ ہی پی ڈی ایم کو کوئی سیاسی نقصان ہوگا۔ یہ ضمنی انتخابات عمران خان کے لیے بھی ایک گناہ بے لذت بن کر رہ جائیں گے۔
ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگا۔ اور وہ اکیلے ہی زور لگا رہے ہونگے جو سیاسی طور پر کوئی درست نہیں لگے گا۔ اگر مہم چلائیں گے تو بھی کس کے خلاف۔ اگر نہیں چلائیں گے تو کیا ہوگا۔ اس لیے اس بار استعفوں کی منظوری کے پیچھے ایک مربوط سیاسی حکمت عملی موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مزید استعفے منظور کیے جائیں گے۔ یہ بھی اب تحریک انصاف کے لیے سرپرائز ہی ہے۔ اگر وہ اسپیکر کی ٹیبل سے استعفیٰ واپس نہیں لیتے تو مجھے لگتا ہے کہ کچھ وقفے کے بعد یعنی ایک دو ماہ کے بعد دوباہ کچھ استعفے قبول کیے جا سکتے ہیں۔
کوشش یہ ہوگی کہ ان سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے بعد پھر ضمنی انتخابات ہی کا کھیل شروع کر دیا جائے۔ ا س طرح عمران خان کو ایک یک طرفہ ضمنی انتخابات کے کھیل میں الجھائے رکھا جائے اور اپنی حکومت کی مدت پوری کی جائے۔
ویسے بھی اب عمران خان کے پاس صوبائی حکومتیں نہیں ہیں۔ ضمنی انتخابات کی مہم کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر اور سرکاری وسائل بھی نہیں ہونگے۔ پہلے صوبائی حکومتیں ان کی مہم میں بہت مدد گار ثابت رہی ہیں جو مدد اب حاصل نہیں ہوگی۔
اگر عمران خان ملک کو عام انتخابات کی طرف لیجانے میں ناکام ہوتے ہیں۔ اور بات صرف پنجاب اور کے پی میں انتخابات تک محدود رہ جاتی ہے تو یہ عمران خان کی جیت نہیں بلکہ ایک ناکامی بن جائے گی۔ تھوڑی دیر میں سب کو احساس ہونے لگے گا کہ عمران خان نے جلد بازی میں اسمبلیاں توڑ کر سیاسی خود کشی کر لی ہے۔
مجھے ابھی نہیں لگتا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جلد ہو سکیں۔ نگران حکومتیں بن جائیں گی تو دوسرا کھیل شروع ہوگا۔ کب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے جائیں ۔ اگر کہیں یہ طے ہوگیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی عام انتخابات کے ساتھ ہی ہونگے تو پھر عمران خان کو احساس ہوگا کہ ان سے بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگئی ہے۔
وہ ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کے کنٹرول میں پورا پاکستان آجائے گا اور عمران خان کے کنٹرول سے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی حکومتیں اپنے ہاتھ سے توڑ دیں اور خود ہی اپنا نقصان کر لیا۔ پی ڈی ایم نے ان کو واپس لانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن جب انھوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا طے کر لیا تو خواجہ سعد رفیق فارمولہ حرکت میں آگیا۔
ویسے خواجہ سعد رفیق آجکل سیاست سے کافی بد دل نظر آرہے ہیں۔ ان کی ایسی گفتگو بھی سامنے آئی ہے کہ میں انتخابی سیاست چھوڑنا چاہتا ہوں۔
میری ان سے کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مجھے ان کی ناامیدی کی کوئی خاص وجوہات کا علم نہیں۔ اس لیے ابھی اس پر نہیں لکھنا چاہتا۔ وہ ایک مکمل سیاسی انسان ہیں۔ سیاست نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ الیکشن ان کی زندگی ہے۔ الیکشن نہیں لڑیں گے تو ان کی زندگی بے رنگ ہو جائے گی۔