کوچۂ سخن
غزل
دل سے دنیا نکال کر مرے دوست
پھر تو مجھ سے سوال کر مرے دوست
دیکھ میری جبیں پہ لب رکھ دے
میری سانسیں بحال کر مرے دوست
عین ممکن ہے کام آ جاؤں
رکھ لے مجھ کو سنبھال کر مرے دوست
ایک درویش ہنستا جاتا ہے
اپنا کاسہ اچھال کر مرے دوست
دل کے مفتی سے لا کوئی فتویٰ
ہجر مجھ پر حلال کر مرے دوست
(طارق جاوید۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
صحرا کا سفر طے کبھی پیدل نہیں ہوتا
وہ دشت مگر آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا
ترتیب سے رکھی ہے ہر اک یاد تمہاری
یہ شانہ کسی بوجھ سے اب شل نہیں ہوتا
اک فلسفہ ایسا کہ سمجھنا نہیں ممکن
ایک ایسا معمہ جو کبھی حل نہیں ہوتا
اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک
اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا
وہ ہجر بھی کیا ہجر جو لمحوں کے لئے ہو
وہ درد بھی کیسا جو مسلسل نہیں ہوتا
یہ کارِ محبت ہے یہاں داد نہ شہرت
اس کھیل میں محنت کا کوئی پھل نہیں ہوتا
(مستحسن جامی ۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
آنکھوں سے اشک اس طرح بہتا دکھائی دے
جو دیکھے اسکو صورتِ دریا دکھائی دے
منظر سے ہٹ رہا ہے کہ سب کو رہے تلاش
وہ چھپ رہا ہے تاکہ زیادہ دکھائی دے
لشکر فرار ہونے کا سوچے اور ایسے میں
سالار تیغ تھام کے آتا دکھائی دے
اَن دیکھی منزلوں کے مسافر تو ہم بھی ہیں
یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے
تُو بول تاکہ مجھ کو سنائی پڑے جہاں
تُو دیکھ تاکہ مجھ کو زمانہ دکھائی دے
(سید عون عباس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
آخرش یار یار ہوتے ہیں
زندگی کا قرار ہوتے ہیں
دیکھ کر تجھ کو تیرے دیوانے
مثلِ باغ و بہار ہوتے ہیں
پہلے کرتے تھے لوگ تیروں سے
اب تو لفظوں سے وار ہوتے ہیں
کون ہوتا ہے اس حویلی میں
تیرے گریہ گزار ہوتے ہیں
ٹال دیتے ہیں دکھ دعاؤں سے
لوگ ایسے ہزار ہوتے ہیں
تم جو ہوتے ہو دور آنکھوں سے
ہم بڑے بے قرار ہوتے ہیں
عین فطرت کا یہ تقاضا ہے
پھول کے ساتھ خار ہوتے ہیں
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
ایک دن میری محبت رائیگاں ہو جائے گی
ہر گھڑی مجھ پر قیامت سی گراں ہوجائے گی
وصل کی راحت کی مستی میں یہ اندازہ نہ تھا
ہجر سے یہ زندگی نذرِ خزاں ہوجائے گی
پھینک دو ہاتھوں سے پتھر، یارجینے دو ہمیں
ورنہ بستی سے محبت بے نشاں ہوجائے گی
باپ کے گھر آسماں سر پر اٹھا رکھتی تھی وہ
کیا ستم ہے اب وہ لڑکی بے زباں ہوجائے گی
عشق سے کوئی نہیں ہے واسطہ، گر میں کہوں
تُو بتا پھر کیا یہ دنیا مہرباں ہوجائے گی؟
جو تری یادوں میں رہ کر پہلے ہوتی تھی غزل
اب ترے پہلو میں رہ کر بھی کہاں ہوجائے گی
(مبشر آخوندی۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
دستِ قدرت کا ہنر تیرے سوا کوئی نہیں
کارخانہ ہے جدھر تیرے سوا کوئی نہیں
یہ جو مرتے ہیں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
اے خدا عرش پہ گر تیرے سوا کوئی نہیں
آج کی شب مجھے درکار ہے لوگوں کا ہجوم
اور غم یہ ہے اِدھر تیرے سوا کوئی نہیں
باغ میں تجھ کو کوئی دیکھ نہیں پائے گا
پھول بن بن کے نکھر، تیرے سوا کوئی نہیں
لوگ مانا ہے کہ ہیں آٹھ ارب دھرتی پر
میری دنیا میں مگر تیرے سوا کوئی نہیں
(شہزاد مہدی۔ گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
جیسے کہ تہوار بدلتے رہتے ہیں
یوں تیرے اطوار بدلتے رہتے ہیں
سب اپنا کردار نبھانے آتے ہیں
ہاں لیکن کردار بدلتے رہتے ہیں
دنیا میں کردار سلامت رہتا ہے
تھیٹر کے فنکار بدلتے رہتے ہیں
حیرت ہے ناں دوسرے لوگوں کی خاطر
ہم خود کو بیکار بدلتے رہتے ہیں
ایسے سر کب دار کی زینت بنتے ہیں
جو اکثر دستار بدلتے رہتے ہیں
فتح یاب نہیں ہوتے ایسے بزدل
جو اپنی تلوار بدلتے رہتے ہیں
دولت چیز ہی ایسی ہے جس کی خاطر
لوگ اپنا معیار بدلتے رہتے ہیں
اک جیسے اشعار اذیت ہوتے ہیں
سوچوں کا راہوار بدلتے رہتے ہیں
ہم بہلول کی صحبت میں رہنے والے
اپنا کاروبار بدلتے رہتے ہیں
(ظفر اقبال عدم۔ کروڑ لعل عیسن)
۔۔۔
غزل
مجھ سے جو کوسوں دور مرے ہم سفر گئے
دنیا سے سیر ہو کے ہی وہ چاند پر گئے
جو کچھ بنایا مال وہ کمرے میں چھوڑ کر
منزل نہ پائی اور زمیں میں اتر گئے
ویسے تو ہر غریب کے حامی تھے سارے لوگ
سر پر کھڑی تھی موت وہ سائے سے ڈر گئے
مانا ہمارے دیس میں قاضی تو ہیں مگر
بتلاؤ ننھی لاش سے کیسے گزر گئے
ہم کو بھی اپنے پیار پہ اندھا یقین تھا
پھر بھی ہم ایسے لوگ محبت میں مر گئے
(سبطین عباس سبطین ۔ روڈو سلطان)
۔۔۔
غزل
حوصلہ کیا توڑ سکتے مجھ سے عاشق کا جنوں
میری رگ رگ میں بسا ہے درد کا قاتل فسوں
آرزو کا بوجھ مجھ سے اٹھ نہ پائے گا کبھی
عاشقوں کو کیا لگن ہے زندگی میں ہو سکوں
بادلوں کی کش مکش میں چاند کا وہ روٹھنا
روشنی کا حال کیا تھا، بارشوں سے کیا کہوں
ہائے میری زندگی کا ایسا دن بھی آئے گا
سرنگوں وہ ہو کے بولیں، ان کی زلفوں میں رہوں
اہل دل سے جانیے تو، اس گھڑی کے وصل کو
دل لگا کے پوچھتے ہیں دل کا اب میں کیا کروں
زندہ کر کے خود ہمیں وہ مارتے بھی آپ ہیں
ہائے ایسے دلربا کی شان میں اب کیا لکھوں
بے سبب جھگڑے کریں اور آپ ہی ناراض ہوں
تم بتاؤ کیا کروں میں کس سے اب شکوہ کروں
(گوہر اعوان۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
اپنے زخموں کو زباں اپنی بناؤں کیسے
فاصلہ درد کا اب اور گھٹاؤں کیسے
اپنا دشمن ہوں میں سارے ہی جہاں سے بڑھ کر
زندگی اب میں تجھے خود سے بچاؤں کیسے
جاں کی بازی تو دل و جاں سے لگا رکھی ہے
رسمِ الفت کو بتا اور نبھاؤں کیسے
اک اشارے سے مرے پاس چلا آتا تھا
اب صدا دے کے اُسے پاس بلاؤں کیسے
جن کے سینوں میں بھرا ہو گا فقط بغض و عناد
ایسے لوگوں سے بھلا دل کو لگاؤں کیسے
تُو نے رستے میں اٹھا رکھی ہے دیوارِ انا
آنا چاہوں بھی ترے پاس تو آؤں کیسے
خشک آنکھوں میں اتر کر ملے گا کیا اے شہابؔ
دل ہے صد پارہ، تجھے اُس میں بساؤں کیسے
( شہاب اللہ شہاب ۔منڈا، دیر لوئر،خیبر پختون خوا)
۔۔۔
غزل
وجودِ صبر پہ آوارگی بناؤں گا
میں بے بسی کی بھی اک زندگی بناؤں گا
عدو کے ہاتھ میں خنجر بناؤں گا پہلے
پھر اس کی آنکھوں میں شرمندگی بناؤں گا
لہو سے کھینچ کے نقشہ دیارِ مقتل کا
میں عاشقوں کے لیے آگہی بناؤں گا
سجا کے ریشمی کپڑے کو چاند تاروں سے
پھر اس پہ تیری سیہ چشمگی بناؤں گا
(فراز احمد ۔گڑھ مہاراجہ)
۔۔۔
غزل
کبھی مجھ کو صنم تنہا نہ کرنا
محبت میں کہیں ایسا نہ کرنا
محبت ہے مجھے تم سے، جہاں میں
سوا میرے کبھی سوچا نہ کرنا
زمانہ ساتھ تو دیتا نہیں ہے
کوئی مشکل کہیں پیدا نہ کرنا
محبت تو کبھی بکتی نہیں ہے
کہیں اس کا صنم سودا نہ کرنا
وفا کرنا ہمیشہ تم قسم ہے
زمانے میں کبھی رسوا نہ کرنا
مری باتیں تمھارے حق میں ہوں گی
مری باتوں کا تم غصہ نہ کرنا
تمھارا ساتھ دوں گا زندگی بھر
کوئی وعدہ کبھی کچا نہ کرنا
( احمد مسعود قریشی۔ ملتان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی