متحدہ ایک بار پھر ’’متحد‘‘
جتنی زیادتی اور مظالم کراچی کی اس جماعت نے برداشت کیے ہیں، اتنے کسی اور سیاسی تنظیم نے نہیں کیے
پاکستان کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ کراچی میں 11 جون 1978 کی شام کچھ نوجوان، مہاجر طلبا کے ساتھ تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کی روک تھام کےلیے سوچ بچار کررہے تھے۔ اسی بیٹھک میں فیصلہ ہوتا ہے کہ اس وقت ایک ایسی طلبا تنظیم کی اشد ضرورت ہے جو مہاجر طلبا کی نمائندہ تنظیم ہو۔ تو پھر بس اختر رضوی اور رئیس امروہوی کی تربیت و افکار سے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا۔
آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو پاکستان کی دوسری تمام طلبا تنظیموں پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ دوسری طلبا تنظیموں کی طرح کسی سیاسی جماعت کی کوکھ سے وجود میں نہیں آئی بلکہ خود اس طلبا تنظیم کے اندر سے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت نے جنم لیا، جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور بعد میں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔
چالیس سال پہلے بننے والی ایک سیاسی جماعت، متحدہ قومی موومنٹ تقریباً تین دہائیوں تک کراچی کی نمائندہ اکثریتی جماعت رہی جو متوسط طبقے کی جماعت بن کر ابھری تھی۔ ان چالیس برسوں میں کراچی والوں نے کیا کھویا؟ کیا پایا؟ یہ تو ہر کراچی والا جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم 11 مرتبہ الیکشن جیت کر، 6 مرتبہ وفاقی وزیر، چھ مرتبہ صوبائی کابینہ کا حصہ بنی اور 14 سال گورنر شپ لے کر دوسری بار گورنر شپ پر ہونے کے باوجود بھی کراچی والوں کو وہ حقوق دلانے میں کامیاب نہ ہوسکی، جس مقصد کےلیے ایم کیو ایم معرض وجود میں آئی تھی۔
ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم 1991 میں پہلی بار اُس وقت دھڑے بندی اور اندرونی بحران کا شکار ہوئی جب ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے پارٹی کے دو مرکزی رہنماؤں آفاق احمد اور عامر خان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ جبکہ دوسرا سنگین بحران اگست 2013 میں سامنے آیا جب پارٹی کے مقبول ترین رہنما و کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال پارٹی چھوڑ کر دبئی روانہ ہوگئے اور اکتوبر میں پارٹی کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے رہنما انیس قائم خانی بھی مصطفیٰ کمال سے جا ملے۔
تیسری بار ایم کیو ایم ایسی بکھری کہ انہیں اپنے قائد و بانی کو ہی چھوڑنا پڑا۔ 22 اگست 2016 کو بانیٔ متحدہ کی ایک متنازع تقریر کے بعد پارٹی میں ایسا بھونچال آیا کہ اس کے بعد سے ایم کیو ایم سنبھل ہی نہ سکی اور موجودہ رہنماؤں کو بھی مجبوراً اپنے ہی قائد سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ جس کے بعد سے ایم کیو ایم اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہیں رکھ سکی اور دھڑوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
22 اگست 2016 کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت پر پارٹی میں متعدد رہنماؤں کو اعتراض تھا اور یہ اختلاف اس وقت شدت اختیار کرگیا جب فاروق ستار نے سینیٹ ٹکٹ کےلیے کامران ٹیسوری کے نام پر اصرار کیا اور مخالفت میں سرفہرست عامر خان تھے۔ فروری 2018 کی بات ہے، جب عام انتخابات سے قبل سینیٹ انتخابات ہونے والے تھے، اس وقت دیگر جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بھی سینیٹ کے الیکشن میں امیدواروں کو حتمی شکل دیے جانے کےلیے طویل اجلاس اور مشاورت ہوئی۔ اس دوران ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ کے انتخابات میں پارٹی امیدوار کے طور پر ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کا نام پیش کیا، جس پر کمیٹی کے دیگر اراکین کی جانب سے کھل کر اعتراضات سامنے آئے اور انہیں ٹکٹ نہ دیے جانے کا مشورہ دیا گیا لیکن ڈاکٹر فاروق ستار اپنے موقف پر ڈٹ گئے اور کامران ٹیسوری کو ہر صورت سینیٹر بنانے پر زور دیتے رہے۔ نتیجہ ایم کیو ایم کی سینیٹ انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ ایم کیو ایم صرف ڈاکٹر فروغ نسیم کو سینیٹر منتخب کراسکی اور باقی چاروں امیدوار ہار گئے۔
اس کے بعد سے عامر خان اور فاروق ستار میں اختلافات شدت اختیار کرگئے اور 5 فروری 2018 کو رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے فیصلے پر ڈاکٹر فاروق ستار اور کامران ٹیسوری کو پارٹی سے ہی علیحدہ کردیا تھا۔ اس کے بعد فاروق ستار نے ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنالی جس کا نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
ستمبر 2022 میں وہ اہم موڑ آیا جب ایم کیو ایم پاکستان نے دوبارہ کامران ٹیسوری کو بطور ڈپٹی کنوینر پارٹی میں شامل کرلیا اور کچھ دن بعد ہی کامران ٹیسوری کو سندھ کے گورنر کےلیے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ جس پر عامر خان کو اعتراض تھا اور یہی وجہ بنی کہ عامر خان کے اختلافات کم نہ ہوسکے۔ کامران ٹیسوری کو گورنر نامزد کیے جانے اور کراچی کی ایڈمنسٹریٹر شپ لینے کےلیے بھی وہ راضی نہیں تھے، اس لیے وہ خاموشی سے دبئی میں جاکر بیٹھ گئے۔
کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر ایم کیو ایم سے جڑے تمام دھڑوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم میں انضمام کےلیے مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقاتیں کیں۔ ماضی میں جو کردار نائن زیرو ادا کیا کرتا تھا اب وہ گورنر ہاؤس سندھ نے ادا کیا۔ گورنر ہاؤس کو پارٹی دھڑوں میں رابطوں اور ملاقاتوں کا مرکز بنایا گیا، جہاں تمام فریق بغیر اعتراض کے آرہے تھے اور اس کا نتیجہ گیارہ جنوری کو الیکشن کمیشن سندھ کے افس کے باہر احتجاجی مظاہرے میں دیکھنے کو ملا، جب مہاجروں کی تمام جماعتوں نے نہ صرف اس میں بھرپور شرکت کی بلکہ جوش و ولولے سے تقاریر بھی کیں اور پھر وہ دن آہی گیا جس کےلیے کامران ٹیسوری گورنر شپ ملنے کے بعد سے متحرک تھے، بروز جمعرات 12 جنوری 2023 کی سہ پہر ایم کیو ایم کے تین دھڑے آپس میں ضم ہوگئے اور سب نے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایک نام اور ایک جھنڈے کے سائے تلے کام کرنے کا عہد کیا اور دوبارہ ایک ساتھ سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا۔
ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد ایم کیو ایم نے گورنر سندھ اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے پے در پے ملاقاتیں کیں اور سوائے تسلیوں کے کچھ حاصل نہیں ہوا اور آخرکار بلدیاتی الیکشن سے ایک رات قبل ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، جس سے کراچی میں ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی والی پوزیشن پر آگئی۔ اب جبکہ انتخابات ہوچکے ہیں گو کہ ٹرن آؤٹ بہت کم رہا مگر پھر بھی کوئی تو میئر آئے گا مگر اس تمام صورتحال پر ایم کیو ایم کچھ نہیں کرسکے گی۔
کراچی والوں میں اس انضمام کے حوالے سے ملاجلا رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ غیر سیاسی اردو بولنے والے ہیں جو اس تمام پیش رفت کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں کم از کم اردو بولنے والے سیاستدان ایک پلیٹ فارم پر تو متحد ہوگئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح سب رہنما ایک ہوگئے ہیں تو اس میں متعدد سینئر رہنما جو نظر نہیں آرہے، جیسے حیدر عباس رضوی اور دوسرے رہنما وغیرہ، ان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف وہ ناقدین بھی ہیں جو اس انضمام کو مفاد کی سیاست قرار دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی گھرانہ یا جماعت بغیر سربراہ کے تادیر نہیں چل سکتی، ان سب کے اوپر بھی کوئی ہونا چاہیے جو ان سب کو کنٹرول کرسکے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جتنی زیادتی اور مظالم کراچی کی اس جماعت نے برداشت کیے ہیں، اتنے کسی اور سیاسی تنظیم نے نہیں کیے۔ 1992 کے آپریشن کے بعد سے آج تک ایم کیو ایم کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس وقت موجودہ ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ کراچی میں موسم سرد اور سیاست کا ماحول گرم رہا۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یکجا ہونے کے بعد بھی جب تک ایم کیو ایم لندن کا آشیرباد نہیں ملتا، اکٹھے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس نئی ایم کیو ایم میں یہ شرائط شامل ہیں کہ رابطہ کمیٹی ختم کی جائے گی، ماضی کی طرح کوئی تنظیمی سیکٹر، یونٹ انچارج نہیں ہوں گے، نہ ہی خدمت خلق فاؤنڈیشن کو ماضی کی طرح چندہ جمع کرنے کی اجازت ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ایم کیو ایم کا انضمام کتنے دن چل پاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو پاکستان کی دوسری تمام طلبا تنظیموں پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ دوسری طلبا تنظیموں کی طرح کسی سیاسی جماعت کی کوکھ سے وجود میں نہیں آئی بلکہ خود اس طلبا تنظیم کے اندر سے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت نے جنم لیا، جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور بعد میں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔
چالیس سال پہلے بننے والی ایک سیاسی جماعت، متحدہ قومی موومنٹ تقریباً تین دہائیوں تک کراچی کی نمائندہ اکثریتی جماعت رہی جو متوسط طبقے کی جماعت بن کر ابھری تھی۔ ان چالیس برسوں میں کراچی والوں نے کیا کھویا؟ کیا پایا؟ یہ تو ہر کراچی والا جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم 11 مرتبہ الیکشن جیت کر، 6 مرتبہ وفاقی وزیر، چھ مرتبہ صوبائی کابینہ کا حصہ بنی اور 14 سال گورنر شپ لے کر دوسری بار گورنر شپ پر ہونے کے باوجود بھی کراچی والوں کو وہ حقوق دلانے میں کامیاب نہ ہوسکی، جس مقصد کےلیے ایم کیو ایم معرض وجود میں آئی تھی۔
ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم 1991 میں پہلی بار اُس وقت دھڑے بندی اور اندرونی بحران کا شکار ہوئی جب ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے پارٹی کے دو مرکزی رہنماؤں آفاق احمد اور عامر خان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ جبکہ دوسرا سنگین بحران اگست 2013 میں سامنے آیا جب پارٹی کے مقبول ترین رہنما و کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال پارٹی چھوڑ کر دبئی روانہ ہوگئے اور اکتوبر میں پارٹی کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے رہنما انیس قائم خانی بھی مصطفیٰ کمال سے جا ملے۔
تیسری بار ایم کیو ایم ایسی بکھری کہ انہیں اپنے قائد و بانی کو ہی چھوڑنا پڑا۔ 22 اگست 2016 کو بانیٔ متحدہ کی ایک متنازع تقریر کے بعد پارٹی میں ایسا بھونچال آیا کہ اس کے بعد سے ایم کیو ایم سنبھل ہی نہ سکی اور موجودہ رہنماؤں کو بھی مجبوراً اپنے ہی قائد سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ جس کے بعد سے ایم کیو ایم اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہیں رکھ سکی اور دھڑوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
22 اگست 2016 کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت پر پارٹی میں متعدد رہنماؤں کو اعتراض تھا اور یہ اختلاف اس وقت شدت اختیار کرگیا جب فاروق ستار نے سینیٹ ٹکٹ کےلیے کامران ٹیسوری کے نام پر اصرار کیا اور مخالفت میں سرفہرست عامر خان تھے۔ فروری 2018 کی بات ہے، جب عام انتخابات سے قبل سینیٹ انتخابات ہونے والے تھے، اس وقت دیگر جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بھی سینیٹ کے الیکشن میں امیدواروں کو حتمی شکل دیے جانے کےلیے طویل اجلاس اور مشاورت ہوئی۔ اس دوران ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ کے انتخابات میں پارٹی امیدوار کے طور پر ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کا نام پیش کیا، جس پر کمیٹی کے دیگر اراکین کی جانب سے کھل کر اعتراضات سامنے آئے اور انہیں ٹکٹ نہ دیے جانے کا مشورہ دیا گیا لیکن ڈاکٹر فاروق ستار اپنے موقف پر ڈٹ گئے اور کامران ٹیسوری کو ہر صورت سینیٹر بنانے پر زور دیتے رہے۔ نتیجہ ایم کیو ایم کی سینیٹ انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ ایم کیو ایم صرف ڈاکٹر فروغ نسیم کو سینیٹر منتخب کراسکی اور باقی چاروں امیدوار ہار گئے۔
اس کے بعد سے عامر خان اور فاروق ستار میں اختلافات شدت اختیار کرگئے اور 5 فروری 2018 کو رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے فیصلے پر ڈاکٹر فاروق ستار اور کامران ٹیسوری کو پارٹی سے ہی علیحدہ کردیا تھا۔ اس کے بعد فاروق ستار نے ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنالی جس کا نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
ستمبر 2022 میں وہ اہم موڑ آیا جب ایم کیو ایم پاکستان نے دوبارہ کامران ٹیسوری کو بطور ڈپٹی کنوینر پارٹی میں شامل کرلیا اور کچھ دن بعد ہی کامران ٹیسوری کو سندھ کے گورنر کےلیے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ جس پر عامر خان کو اعتراض تھا اور یہی وجہ بنی کہ عامر خان کے اختلافات کم نہ ہوسکے۔ کامران ٹیسوری کو گورنر نامزد کیے جانے اور کراچی کی ایڈمنسٹریٹر شپ لینے کےلیے بھی وہ راضی نہیں تھے، اس لیے وہ خاموشی سے دبئی میں جاکر بیٹھ گئے۔
کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر ایم کیو ایم سے جڑے تمام دھڑوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم میں انضمام کےلیے مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقاتیں کیں۔ ماضی میں جو کردار نائن زیرو ادا کیا کرتا تھا اب وہ گورنر ہاؤس سندھ نے ادا کیا۔ گورنر ہاؤس کو پارٹی دھڑوں میں رابطوں اور ملاقاتوں کا مرکز بنایا گیا، جہاں تمام فریق بغیر اعتراض کے آرہے تھے اور اس کا نتیجہ گیارہ جنوری کو الیکشن کمیشن سندھ کے افس کے باہر احتجاجی مظاہرے میں دیکھنے کو ملا، جب مہاجروں کی تمام جماعتوں نے نہ صرف اس میں بھرپور شرکت کی بلکہ جوش و ولولے سے تقاریر بھی کیں اور پھر وہ دن آہی گیا جس کےلیے کامران ٹیسوری گورنر شپ ملنے کے بعد سے متحرک تھے، بروز جمعرات 12 جنوری 2023 کی سہ پہر ایم کیو ایم کے تین دھڑے آپس میں ضم ہوگئے اور سب نے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایک نام اور ایک جھنڈے کے سائے تلے کام کرنے کا عہد کیا اور دوبارہ ایک ساتھ سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا۔
ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد ایم کیو ایم نے گورنر سندھ اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے پے در پے ملاقاتیں کیں اور سوائے تسلیوں کے کچھ حاصل نہیں ہوا اور آخرکار بلدیاتی الیکشن سے ایک رات قبل ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، جس سے کراچی میں ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی والی پوزیشن پر آگئی۔ اب جبکہ انتخابات ہوچکے ہیں گو کہ ٹرن آؤٹ بہت کم رہا مگر پھر بھی کوئی تو میئر آئے گا مگر اس تمام صورتحال پر ایم کیو ایم کچھ نہیں کرسکے گی۔
کراچی والوں میں اس انضمام کے حوالے سے ملاجلا رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ غیر سیاسی اردو بولنے والے ہیں جو اس تمام پیش رفت کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں کم از کم اردو بولنے والے سیاستدان ایک پلیٹ فارم پر تو متحد ہوگئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح سب رہنما ایک ہوگئے ہیں تو اس میں متعدد سینئر رہنما جو نظر نہیں آرہے، جیسے حیدر عباس رضوی اور دوسرے رہنما وغیرہ، ان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف وہ ناقدین بھی ہیں جو اس انضمام کو مفاد کی سیاست قرار دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی گھرانہ یا جماعت بغیر سربراہ کے تادیر نہیں چل سکتی، ان سب کے اوپر بھی کوئی ہونا چاہیے جو ان سب کو کنٹرول کرسکے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جتنی زیادتی اور مظالم کراچی کی اس جماعت نے برداشت کیے ہیں، اتنے کسی اور سیاسی تنظیم نے نہیں کیے۔ 1992 کے آپریشن کے بعد سے آج تک ایم کیو ایم کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس وقت موجودہ ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ کراچی میں موسم سرد اور سیاست کا ماحول گرم رہا۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یکجا ہونے کے بعد بھی جب تک ایم کیو ایم لندن کا آشیرباد نہیں ملتا، اکٹھے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس نئی ایم کیو ایم میں یہ شرائط شامل ہیں کہ رابطہ کمیٹی ختم کی جائے گی، ماضی کی طرح کوئی تنظیمی سیکٹر، یونٹ انچارج نہیں ہوں گے، نہ ہی خدمت خلق فاؤنڈیشن کو ماضی کی طرح چندہ جمع کرنے کی اجازت ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ایم کیو ایم کا انضمام کتنے دن چل پاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔