2022 سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے کیسا رہا
بیتے برس مختلف ٹیکنالوجیز میں ہونے والی پیش قدمیاں
(اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور)
مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے، ہر گزرتا سال ٹیکنالوجی میں ایک نئی جدت لاتا جا رہا ہے۔ ہماری زندگی ڈیجیٹلائز ہوتی جا رہی ہے، ٹیکنالوجی زندگی کو سہل اور فاصلوں کو کم کر رہی ہے۔
سال دو ہزار بائیس ٹیکنالوجی کی دنیا میں حیران کن رہا۔ بہت سے نئے اسٹارٹ اپس سامنے آئے، بہت سی چیزیں جن کے بارے میں سوچنا محال تھا، ہمیں نظر آئیں، کمپیوٹنگ، باؤ انفارمیٹکس۔ اس سال آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور بدلتی موسمیاتی تبدیلی پر ٹیکنالوجی کیسے اثر انداز ہوئی، آئیے جائزہ لیتے ہیں:
پاس ورڈ کا خاتمہ:
1960 کی دہائی میں ایم آئی ٹی (MIT) کے پروفیسر فرنینڈو کو ربوٹو (Fernando Corboto) ایک نیا سینٹرڈ کمپیوٹر سسٹم بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔انہوں نے بڑے کمپیوٹر سسٹمز پر فائلز کو محفوظ بنانے کے لیے پہلی بار پاس ورڈ کا استعمال کیا۔
وہ کوئی ایسا طریقہ کھوجنا چاہتے تھے جس کے ذریعے لوگ اپنی پرائیویٹ فائلز کو محفوظ کرسکیں اور ان تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ انہوں نے اس کا جو حل نکالا وہ آج ہمارے سامنے پاس ورڈ کی شکل میں موجود ہے۔
پروفیسر کوربوٹو کا پاس ورڈ مختلف طرح کی ایتھینٹیکیشنز یعنی آن لائن مختلف تصدیقی مراحل اور ایپس میں لاگ ان ہونے کے لیے استعمال ہونے لگا، آج یہ طریقہ ہر جگہ رائج ہے۔
پاس ورڈز فطری طور پر غیرمحفوظ ہیں، پاس ورڈ چرایا بھی جا سکتا ہے، اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
بہت سے لوگ اچھے اور محفوظ پاس ورڈز لگانے کے طریقوں سے نابلد ہیں اور کم زور سا پاسورڈ لگاتے ہیں جسے توڑا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ ایک ہی پاس ورڈ کو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں، جو کہ بالکل بھی ایک محفوظ طریقہ نہیں ہے۔
پاس ورڈ مینیجرز جیسے کہ dashlane اور I password آپ کے پاس ورڈ میں موجود کم زور کڑیاں ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پاس ورڈ میں موجود کی ورڈز بدل دیتے ہیں۔
لیکن یہ سب بھی پاس ورڈ سیکیوریٹی کو محفوظ نہیں بناتا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پاس ورڈ کو ختم کرکے کوئی اور متبادل طریقہ ڈھونڈا جائے۔ کچھ کمپنیز جیسے کے octa and duo اور گوگل، پاس ورڈ کے بغیر ایپس میں لاگ ان ہونے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔
آپ نے یہ تجربہ خود بھی کیا ہو گا کہ آپ جب کسی بھی ایپ یا ویب سائٹ پر لاگ ان ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ سے پاس ورڈ کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی ایتھینٹیکیشن ایپ کے ذریعے آنے والے چھے حرفی کوڈ کو درج کریں یا اپنے موبائل پر آنے والے نوٹیفکیشن پر کلک کریں یا اپنی ای میل پر بھیجے گئے لنک کو اوپن کریں۔
ایک پاس ورڈ میں استعمال ہونے والے مختلف ہندسے اور علامات کو یاد رکھنے، یاد دہانی کے لیے اسے کہیں لکھنا یا ڈیٹا بیس میں اسٹور کرنا اب زمانہ ماضی کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ مستقبل میں آپ فائلز کو محفوظ رکھنے اور آن لائن مختلف مراحل کے لیے تصدیق کے نئے طریقے دیکھیں گے۔
پروٹین ان فولڈنگ:
انسانی جسم کے ہر سیل میں اربوں مشینز کام کر رہی ہیں۔ یہ آپ کے خون میں آکسیجن کی ترسیل کا کام کرتی ہیں۔ آپ کی آنکھوں کو روشنی سے آنکھیں چار کرنے میں مدد دیتی ہیں، اور انہی کی مدد سے آپ اپنے مسلز کو حرکت دے پاتے ہیں۔
یہ مشینز پروٹینز ہیں، پروٹینز ہر زندہ جان دار میں ہونے والے مختلف حیاتیاتی عوامل کا حصہ ہوتے ہیں، ہر پروٹین پیچیدہ 3D ڈھانچے پر مشتمل ہوتا ہے جس کی مدد سے یہ پتا چلتا ہے کہ پروٹینز کیسے اپنا کام کرتے ہیں۔
ہم 200 ملین پروٹینز کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم ان میں سے صرف ایک حصے کی 3D شکلیں جانتے ہیں۔ اگر ہم پروٹین کے اندر جھانکیں تو ہمیں (string of beads) موتیوں کی تار نظر آتی ہے جو بیس مختلف قسم کے ایمائنو ایسڈز سے بنی ہوتی ہے۔
ان ایمائنو ایسڈز کے درمیان تعامل پروٹین کو لپیٹ دیتا ہے، اسے پروٹین فولڈنگ کہتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے سائنسدانوں کی ایک ٹیم پروٹین کے اندر ایمائنو ایسڈز کی (string) تار سے اس کی درست ڈھانچے کا اندازہ لگانے پر کام کر رہی ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک آرٹی فیشل سسٹم بنایا گیا جسے الفا فولڈ (Alphafold) کا نام دیا گیا، اسے ہزاروں کی تعداد میں پروٹینز کی ساخت اور ترتیب کو مد نظر رکھ کے تیار کیا گیا ہے۔ پوری دنیا سے اس مشن میں شریک سائنس دانوں نے بڑی محنت سے یہ نقشہ تیار کیا ہے، آج یہ سسٹم پروٹین کے ڈھانچے کی بالکل درست پیش گوئی کرتا ہے۔
اس کی مدد سے ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہم بیماریوں کا جلد پتا لگا سکیں گے اور انہیں جلدی سمجھ سکیں گے۔ اور ان سے لڑنے کے لیے نئی ڈرگز بنا سکیں گے اور پلاسٹک ویسٹ کو ختم کرنے کے لیے اینزائمز کا استعمال کر سکیں گے اور پروٹین کی مدد سے ماحول سے کاربن کے اخراج کو ممکن بنا سکیں گے۔
"ڈیپ مائنڈ" انگلینڈ میں واقع ایک آرٹی فیشل انٹیلی جنس لیب ہے ڈیپ مائنڈ نے ایک سافٹ ویئر بنایا ہے جس کا نام الفا فولڈ 2 ہے۔ یہ سافٹ ویئر پروٹینز کی ہیئت کی پیش گوئی کرنے کے لیے اے آئی ٹیکنیک "ڈیپ لرننگ" کا استعمال کرتا ہے۔
اس سافٹ ویئر کو سائنس داں کینسر، اینٹی باؤٹکس کی مزاحمت اور کووڈ 19 پہ ریسرچ کے لیے استعمال کر سکیں گے۔
اسینتھیٹک ڈیٹا سیٹس:
پچھلے سال ڈیٹا سائنس نائجیریا کے ریسرچز کے علم میں یہ بات آئی کہ کچھ انجنیئرز جن کو کمپیوٹر ویژن الگورتھمز کے لیے ڈیٹا سیٹس کی ضرورت تھی، جو مغربی ملبوسات پر مشتمل تھے، اس ڈیٹا سیٹ میں افریقن ملبوسات شامل نہیں تھے، ٹیم نے اس مسئلے کا حل آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی مدد سے افریقن فیشن کی مصنوعی تصاویر کو جنریٹ کر کے نکالا۔
یہ ایک بالکل نیا ڈیٹا سیٹ تھا۔ ایسے ڈیٹا سیٹس کو اسینتھیٹک ڈیٹا سیٹس کہتے ہیں، جو کمپیوٹر جنریٹڈ ڈیٹا سیٹس ہوتے ہیں جو اپنے اندر وہی خصوصیات سموئے ہوتے ہیں جو اصلی ڈیٹا سیٹ میں موجود ہوتی ہیں۔
ان کمپیوٹر جنریٹڈ ڈیٹا سٹس کو مشین لرننگ ماڈلز کے لیے اس صورت میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں اصل ڈیٹا سیٹس کو استعمال کرنا حساس ہے جیسا کہ میڈیکل ریکارڈز یا کسی کی ذاتی معلومات جس میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں۔
اسینتھیٹک ڈیٹا کا خیال نیا نہیں ہے، اس کی مدد سے بغیر کسی ڈرائیور کے چلنے والی خودکار کاروں کو ورچوئل اسٹریٹس پر ٹرین کیا گیا ہے۔
کچھ کمپنیز جیسے کہ Datagen اور synthesis Ai ڈیجیٹل ہیومن ڈیٹا کو ڈیمانڈ پر مہیا کر رہی ہیں۔ اسینتھیٹک ڈیٹا ایک ایسی انفارمیشن ہے جسے ریئل ورلڈ انفارمیشن کے بجائے مصنوعی طور پر جنریٹ کیا جاتا ہے۔
کمپلیکس ورلڈ میں اے آئی سسٹمز کے کام کرنے کے لیے صورت حال کے مطابق بہت سے ڈیٹا سیٹس کی ضرورت ہوتی ہے، جو دست یاب نہیں ہوتے، اس صورت میں انہیں آرٹی فیشلی جنریٹ کیا جاتا ہے۔
گرڈ بیٹریز:
سولر اور ونڈ پاور کو استعمال کرنے کے لیے ہمیں ایسی ڈیوائسز کی ضرورت ہوتی ہے جو دھوپ اور ہوا نہ ہونے کی صورت میں انرجی اسٹور کر سکیں۔
1970 کی دہائی میں سفارتی تناؤ کی وجہ سے بہت سے ممالک میں تیل کی کمی ہو گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو انرجی اسٹور کرنے کے لالے پڑگئے۔
اس مسئلے کا حل سب سے پہلے ناسا نے نکالا، ناسا ایک ایک ایسی بیٹری بنانا چاہتا تھا جو اضافی انرجی کو بچا سکے جو دوسری صورت میں ضایع ہوجاتی تھی۔
ناسا نے جو بیٹری ایجاد کی اسے فلو بیٹری کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے سائنس دانوں نے بیٹری میں استعمال کرنے کے لیے بہترین کیمیکلز کی تلاش شروع کردی۔
ایک نوجوان مڈ ویسٹرن سائنٹسٹ باب ساوینیل کے ذہن میں آئرن سے بنی فلو بیٹری کے لیے ایک خیال کوندا۔ بیٹری میں استعمال ہونے والے دیگر عناصر جیسے کہ لیتھیم اور ٹائٹینیم جو ہمارے موبائلز اور لیپ ٹاپس بیٹریز میں استعمال ہوتے ہیں، کی نسبت لوہا کرہ ارض میں بکثرت پایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوسرے ایلیمنٹس کی نسبت سستا اور اور ماحول دوست ہے۔
باب اور اس کی ٹیم نے ایک پروٹو ٹائپ بنایا مگر وہ اس کام کے لیے سہی وقت نہیں تھا۔ باب کی بیٹری کو چند تیکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور جوں ہی توانائی کے بحران کا خاتمہ ہوا۔
اس طرح کی ہیوی بیٹریز بنانے میں سائنس دانوں کی دل چسبی باقی نہ رہی۔ اوریگون سے تعلق رکھنے والے دو کیمیکل انجنیئرز کریگ ایونز اور جولیا سانگ نے 2010 میں انرجی کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی محسوس کی۔
ونڈ اور سولر پاور انرجی سستی ہوتی جا رہی تھی اور لوگوں نے انرجی اسٹور کرنے کے لیے ان پر انحصار کرنا شروع کردیا تھا۔
دونوں نے محسوس کیا کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو ری نیو ایبل انرجی کو اسٹور کرنے کے لیے بیٹریز کی ضرورت پڑے گی۔
دونوں نے ESS کے نام سے ایک کمپنی بنائی دونوں نے آئرن فلو بیٹریز بنانے کے لیے حکومت کے پروگرام ARDA-E سے گرانٹ حاصل کی جو کلین انرجی آئڈیاز کو فنڈ کرتا ہے۔ آخر کار سالوں کی ریسرچ کے بعد انہوں نے ایک آئرن فلو بیٹری بنائی ہے، جس میں ایسا کوئی تیکنیکی مسئلہ نہیں ہے، جس کا سامنا باب اور اس کی ٹیم نے کیا تھا۔
ان کا بزنس ایک چھوٹے سے گیراج سے ایک بڑی فیکٹری تک پھیل چکا ہے۔ نیشنل ری نیو ایبل انرجی لیب کے مطابق گرڈ سکیل بیٹریز میں انرجی اسٹور کرنے کی صلاحیت میں اور اضافہ ہوجائے گا۔
آج کل لیتھیم آئرن بیٹریز زیادہ استعمال ہو رہی ہیں، کیوںکہ لیتھیم آئرن سے سستا ہے۔ ای ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ بیٹری اسٹوریج کے پہلے چار گھنٹوں کے بعد ان کی بیٹری لیتھیم بیٹری سے سستی ہوجاتی ہے۔ بیٹری اسٹوریج کے ابتدائی چار گھنٹوں کے بعد سے بارہ گھنٹوں تک بیٹری کی کارکردگی لیتھیم بیٹری کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ہے۔
انرجی اسٹوریج کے بزنس میں مقابلہ بڑھ رہا ہے۔ ایک اسٹارٹ اپ Form energy نے فولاد اور ہوا کی مدد سے ایک ایسی بیٹری بنائی ہے جو سو گھنٹوں تک انرجی اسٹور کرسکتی ہے۔
یہاں تک کہ باب ساوینیل جنہوں نے توانائی کے بحران کے دوران اصل آئرن بیٹری پر کام کیا تھا، انہوں نے بھی دوبارہ میدان سنبھال لیا ہے۔
انہوں نے ایک ایسی آئرن فلو بیٹری بنائی ہے جس میں انرجی اسٹوریج کو ہمیشہ کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے۔ فوسل فیولز سے بچنے کے لیے ہمیں آنے والے وقت میں بہت سی دیگر انرجی اسٹوریج ٹیکنالوجیز پر منتقل ہونا پڑے گا۔
کاربن جذب کرنے والی فیکٹری:
کلائم ورکس آئس لینڈ میں شروع ہونے والا ایک اسٹارٹ اپ ہے جس نے کاربکس کے ساتھ مل کر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا ایک پلانٹ بنایا ہے۔
پلانٹس چار یونٹس پر مشتمل ہے، ہر یونٹ دو دھاتی باکسز سے مل کر بنا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو براہ راست فضا سے جذب کرتے ہیں۔ بڑے پنکھوں سے ہوا فلٹر ہو کے اندر آتی ہے جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پانی کے ساتھ ملایا جاتا ہے پھر اسے زیر زمین بھیجا جاتا ہے۔ جہاں یہ بسالٹ راک کے ساتھ تعامل کرتا ہے اور پتھر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پورا پلانٹ کاربن فری الیکٹریسٹی پر چلتا ہے۔
4000 ٹنز بہت زیادہ نہیں ہیں، اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کی دنیا کو ممکنہ طور پر ماحول سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے، تاکہ گلوبل وارمنگ کو روکا جا سکے۔
براہ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے طریقۂ کار کا شمار ان چند جدید ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے جن کی مدد سے گلوبل وارمنگ میں کمی لائی جا رہی ہے۔
فوسل فیولز کے بے جا استعمال اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہیٹ کی شدت میں اضافہ، جنگلات میں آگ اور سمندری سطح بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی کرائسز کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق یہ پلانٹ ایک سال میں 4000 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا فضا سے خاتمہ کرے گا جو 800 کاروں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے۔
مل کنگ بانڈز جو ایک انرجی اسٹریٹجیسٹ ہیں ان کے مطابق کرۂ ارض کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے سولر، ونڈ ٹربائنز اور گرین ہائیڈروجن جسے اور بہت سے طریقے ہیں اور کرۂ ارض کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کا یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اس لیے دنیا میں اس طرز کے صرف پندرہ پلانٹس موجود ہیں۔
مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے، ہر گزرتا سال ٹیکنالوجی میں ایک نئی جدت لاتا جا رہا ہے۔ ہماری زندگی ڈیجیٹلائز ہوتی جا رہی ہے، ٹیکنالوجی زندگی کو سہل اور فاصلوں کو کم کر رہی ہے۔
سال دو ہزار بائیس ٹیکنالوجی کی دنیا میں حیران کن رہا۔ بہت سے نئے اسٹارٹ اپس سامنے آئے، بہت سی چیزیں جن کے بارے میں سوچنا محال تھا، ہمیں نظر آئیں، کمپیوٹنگ، باؤ انفارمیٹکس۔ اس سال آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور بدلتی موسمیاتی تبدیلی پر ٹیکنالوجی کیسے اثر انداز ہوئی، آئیے جائزہ لیتے ہیں:
پاس ورڈ کا خاتمہ:
1960 کی دہائی میں ایم آئی ٹی (MIT) کے پروفیسر فرنینڈو کو ربوٹو (Fernando Corboto) ایک نیا سینٹرڈ کمپیوٹر سسٹم بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔انہوں نے بڑے کمپیوٹر سسٹمز پر فائلز کو محفوظ بنانے کے لیے پہلی بار پاس ورڈ کا استعمال کیا۔
وہ کوئی ایسا طریقہ کھوجنا چاہتے تھے جس کے ذریعے لوگ اپنی پرائیویٹ فائلز کو محفوظ کرسکیں اور ان تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ انہوں نے اس کا جو حل نکالا وہ آج ہمارے سامنے پاس ورڈ کی شکل میں موجود ہے۔
پروفیسر کوربوٹو کا پاس ورڈ مختلف طرح کی ایتھینٹیکیشنز یعنی آن لائن مختلف تصدیقی مراحل اور ایپس میں لاگ ان ہونے کے لیے استعمال ہونے لگا، آج یہ طریقہ ہر جگہ رائج ہے۔
پاس ورڈز فطری طور پر غیرمحفوظ ہیں، پاس ورڈ چرایا بھی جا سکتا ہے، اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
بہت سے لوگ اچھے اور محفوظ پاس ورڈز لگانے کے طریقوں سے نابلد ہیں اور کم زور سا پاسورڈ لگاتے ہیں جسے توڑا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ ایک ہی پاس ورڈ کو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں، جو کہ بالکل بھی ایک محفوظ طریقہ نہیں ہے۔
پاس ورڈ مینیجرز جیسے کہ dashlane اور I password آپ کے پاس ورڈ میں موجود کم زور کڑیاں ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پاس ورڈ میں موجود کی ورڈز بدل دیتے ہیں۔
لیکن یہ سب بھی پاس ورڈ سیکیوریٹی کو محفوظ نہیں بناتا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پاس ورڈ کو ختم کرکے کوئی اور متبادل طریقہ ڈھونڈا جائے۔ کچھ کمپنیز جیسے کے octa and duo اور گوگل، پاس ورڈ کے بغیر ایپس میں لاگ ان ہونے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔
آپ نے یہ تجربہ خود بھی کیا ہو گا کہ آپ جب کسی بھی ایپ یا ویب سائٹ پر لاگ ان ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ سے پاس ورڈ کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی ایتھینٹیکیشن ایپ کے ذریعے آنے والے چھے حرفی کوڈ کو درج کریں یا اپنے موبائل پر آنے والے نوٹیفکیشن پر کلک کریں یا اپنی ای میل پر بھیجے گئے لنک کو اوپن کریں۔
ایک پاس ورڈ میں استعمال ہونے والے مختلف ہندسے اور علامات کو یاد رکھنے، یاد دہانی کے لیے اسے کہیں لکھنا یا ڈیٹا بیس میں اسٹور کرنا اب زمانہ ماضی کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ مستقبل میں آپ فائلز کو محفوظ رکھنے اور آن لائن مختلف مراحل کے لیے تصدیق کے نئے طریقے دیکھیں گے۔
پروٹین ان فولڈنگ:
انسانی جسم کے ہر سیل میں اربوں مشینز کام کر رہی ہیں۔ یہ آپ کے خون میں آکسیجن کی ترسیل کا کام کرتی ہیں۔ آپ کی آنکھوں کو روشنی سے آنکھیں چار کرنے میں مدد دیتی ہیں، اور انہی کی مدد سے آپ اپنے مسلز کو حرکت دے پاتے ہیں۔
یہ مشینز پروٹینز ہیں، پروٹینز ہر زندہ جان دار میں ہونے والے مختلف حیاتیاتی عوامل کا حصہ ہوتے ہیں، ہر پروٹین پیچیدہ 3D ڈھانچے پر مشتمل ہوتا ہے جس کی مدد سے یہ پتا چلتا ہے کہ پروٹینز کیسے اپنا کام کرتے ہیں۔
ہم 200 ملین پروٹینز کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم ان میں سے صرف ایک حصے کی 3D شکلیں جانتے ہیں۔ اگر ہم پروٹین کے اندر جھانکیں تو ہمیں (string of beads) موتیوں کی تار نظر آتی ہے جو بیس مختلف قسم کے ایمائنو ایسڈز سے بنی ہوتی ہے۔
ان ایمائنو ایسڈز کے درمیان تعامل پروٹین کو لپیٹ دیتا ہے، اسے پروٹین فولڈنگ کہتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے سائنسدانوں کی ایک ٹیم پروٹین کے اندر ایمائنو ایسڈز کی (string) تار سے اس کی درست ڈھانچے کا اندازہ لگانے پر کام کر رہی ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک آرٹی فیشل سسٹم بنایا گیا جسے الفا فولڈ (Alphafold) کا نام دیا گیا، اسے ہزاروں کی تعداد میں پروٹینز کی ساخت اور ترتیب کو مد نظر رکھ کے تیار کیا گیا ہے۔ پوری دنیا سے اس مشن میں شریک سائنس دانوں نے بڑی محنت سے یہ نقشہ تیار کیا ہے، آج یہ سسٹم پروٹین کے ڈھانچے کی بالکل درست پیش گوئی کرتا ہے۔
اس کی مدد سے ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہم بیماریوں کا جلد پتا لگا سکیں گے اور انہیں جلدی سمجھ سکیں گے۔ اور ان سے لڑنے کے لیے نئی ڈرگز بنا سکیں گے اور پلاسٹک ویسٹ کو ختم کرنے کے لیے اینزائمز کا استعمال کر سکیں گے اور پروٹین کی مدد سے ماحول سے کاربن کے اخراج کو ممکن بنا سکیں گے۔
"ڈیپ مائنڈ" انگلینڈ میں واقع ایک آرٹی فیشل انٹیلی جنس لیب ہے ڈیپ مائنڈ نے ایک سافٹ ویئر بنایا ہے جس کا نام الفا فولڈ 2 ہے۔ یہ سافٹ ویئر پروٹینز کی ہیئت کی پیش گوئی کرنے کے لیے اے آئی ٹیکنیک "ڈیپ لرننگ" کا استعمال کرتا ہے۔
اس سافٹ ویئر کو سائنس داں کینسر، اینٹی باؤٹکس کی مزاحمت اور کووڈ 19 پہ ریسرچ کے لیے استعمال کر سکیں گے۔
اسینتھیٹک ڈیٹا سیٹس:
پچھلے سال ڈیٹا سائنس نائجیریا کے ریسرچز کے علم میں یہ بات آئی کہ کچھ انجنیئرز جن کو کمپیوٹر ویژن الگورتھمز کے لیے ڈیٹا سیٹس کی ضرورت تھی، جو مغربی ملبوسات پر مشتمل تھے، اس ڈیٹا سیٹ میں افریقن ملبوسات شامل نہیں تھے، ٹیم نے اس مسئلے کا حل آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی مدد سے افریقن فیشن کی مصنوعی تصاویر کو جنریٹ کر کے نکالا۔
یہ ایک بالکل نیا ڈیٹا سیٹ تھا۔ ایسے ڈیٹا سیٹس کو اسینتھیٹک ڈیٹا سیٹس کہتے ہیں، جو کمپیوٹر جنریٹڈ ڈیٹا سیٹس ہوتے ہیں جو اپنے اندر وہی خصوصیات سموئے ہوتے ہیں جو اصلی ڈیٹا سیٹ میں موجود ہوتی ہیں۔
ان کمپیوٹر جنریٹڈ ڈیٹا سٹس کو مشین لرننگ ماڈلز کے لیے اس صورت میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں اصل ڈیٹا سیٹس کو استعمال کرنا حساس ہے جیسا کہ میڈیکل ریکارڈز یا کسی کی ذاتی معلومات جس میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں۔
اسینتھیٹک ڈیٹا کا خیال نیا نہیں ہے، اس کی مدد سے بغیر کسی ڈرائیور کے چلنے والی خودکار کاروں کو ورچوئل اسٹریٹس پر ٹرین کیا گیا ہے۔
کچھ کمپنیز جیسے کہ Datagen اور synthesis Ai ڈیجیٹل ہیومن ڈیٹا کو ڈیمانڈ پر مہیا کر رہی ہیں۔ اسینتھیٹک ڈیٹا ایک ایسی انفارمیشن ہے جسے ریئل ورلڈ انفارمیشن کے بجائے مصنوعی طور پر جنریٹ کیا جاتا ہے۔
کمپلیکس ورلڈ میں اے آئی سسٹمز کے کام کرنے کے لیے صورت حال کے مطابق بہت سے ڈیٹا سیٹس کی ضرورت ہوتی ہے، جو دست یاب نہیں ہوتے، اس صورت میں انہیں آرٹی فیشلی جنریٹ کیا جاتا ہے۔
گرڈ بیٹریز:
سولر اور ونڈ پاور کو استعمال کرنے کے لیے ہمیں ایسی ڈیوائسز کی ضرورت ہوتی ہے جو دھوپ اور ہوا نہ ہونے کی صورت میں انرجی اسٹور کر سکیں۔
1970 کی دہائی میں سفارتی تناؤ کی وجہ سے بہت سے ممالک میں تیل کی کمی ہو گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو انرجی اسٹور کرنے کے لالے پڑگئے۔
اس مسئلے کا حل سب سے پہلے ناسا نے نکالا، ناسا ایک ایک ایسی بیٹری بنانا چاہتا تھا جو اضافی انرجی کو بچا سکے جو دوسری صورت میں ضایع ہوجاتی تھی۔
ناسا نے جو بیٹری ایجاد کی اسے فلو بیٹری کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے سائنس دانوں نے بیٹری میں استعمال کرنے کے لیے بہترین کیمیکلز کی تلاش شروع کردی۔
ایک نوجوان مڈ ویسٹرن سائنٹسٹ باب ساوینیل کے ذہن میں آئرن سے بنی فلو بیٹری کے لیے ایک خیال کوندا۔ بیٹری میں استعمال ہونے والے دیگر عناصر جیسے کہ لیتھیم اور ٹائٹینیم جو ہمارے موبائلز اور لیپ ٹاپس بیٹریز میں استعمال ہوتے ہیں، کی نسبت لوہا کرہ ارض میں بکثرت پایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوسرے ایلیمنٹس کی نسبت سستا اور اور ماحول دوست ہے۔
باب اور اس کی ٹیم نے ایک پروٹو ٹائپ بنایا مگر وہ اس کام کے لیے سہی وقت نہیں تھا۔ باب کی بیٹری کو چند تیکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور جوں ہی توانائی کے بحران کا خاتمہ ہوا۔
اس طرح کی ہیوی بیٹریز بنانے میں سائنس دانوں کی دل چسبی باقی نہ رہی۔ اوریگون سے تعلق رکھنے والے دو کیمیکل انجنیئرز کریگ ایونز اور جولیا سانگ نے 2010 میں انرجی کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی محسوس کی۔
ونڈ اور سولر پاور انرجی سستی ہوتی جا رہی تھی اور لوگوں نے انرجی اسٹور کرنے کے لیے ان پر انحصار کرنا شروع کردیا تھا۔
دونوں نے محسوس کیا کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو ری نیو ایبل انرجی کو اسٹور کرنے کے لیے بیٹریز کی ضرورت پڑے گی۔
دونوں نے ESS کے نام سے ایک کمپنی بنائی دونوں نے آئرن فلو بیٹریز بنانے کے لیے حکومت کے پروگرام ARDA-E سے گرانٹ حاصل کی جو کلین انرجی آئڈیاز کو فنڈ کرتا ہے۔ آخر کار سالوں کی ریسرچ کے بعد انہوں نے ایک آئرن فلو بیٹری بنائی ہے، جس میں ایسا کوئی تیکنیکی مسئلہ نہیں ہے، جس کا سامنا باب اور اس کی ٹیم نے کیا تھا۔
ان کا بزنس ایک چھوٹے سے گیراج سے ایک بڑی فیکٹری تک پھیل چکا ہے۔ نیشنل ری نیو ایبل انرجی لیب کے مطابق گرڈ سکیل بیٹریز میں انرجی اسٹور کرنے کی صلاحیت میں اور اضافہ ہوجائے گا۔
آج کل لیتھیم آئرن بیٹریز زیادہ استعمال ہو رہی ہیں، کیوںکہ لیتھیم آئرن سے سستا ہے۔ ای ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ بیٹری اسٹوریج کے پہلے چار گھنٹوں کے بعد ان کی بیٹری لیتھیم بیٹری سے سستی ہوجاتی ہے۔ بیٹری اسٹوریج کے ابتدائی چار گھنٹوں کے بعد سے بارہ گھنٹوں تک بیٹری کی کارکردگی لیتھیم بیٹری کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ہے۔
انرجی اسٹوریج کے بزنس میں مقابلہ بڑھ رہا ہے۔ ایک اسٹارٹ اپ Form energy نے فولاد اور ہوا کی مدد سے ایک ایسی بیٹری بنائی ہے جو سو گھنٹوں تک انرجی اسٹور کرسکتی ہے۔
یہاں تک کہ باب ساوینیل جنہوں نے توانائی کے بحران کے دوران اصل آئرن بیٹری پر کام کیا تھا، انہوں نے بھی دوبارہ میدان سنبھال لیا ہے۔
انہوں نے ایک ایسی آئرن فلو بیٹری بنائی ہے جس میں انرجی اسٹوریج کو ہمیشہ کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے۔ فوسل فیولز سے بچنے کے لیے ہمیں آنے والے وقت میں بہت سی دیگر انرجی اسٹوریج ٹیکنالوجیز پر منتقل ہونا پڑے گا۔
کاربن جذب کرنے والی فیکٹری:
کلائم ورکس آئس لینڈ میں شروع ہونے والا ایک اسٹارٹ اپ ہے جس نے کاربکس کے ساتھ مل کر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا ایک پلانٹ بنایا ہے۔
پلانٹس چار یونٹس پر مشتمل ہے، ہر یونٹ دو دھاتی باکسز سے مل کر بنا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو براہ راست فضا سے جذب کرتے ہیں۔ بڑے پنکھوں سے ہوا فلٹر ہو کے اندر آتی ہے جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پانی کے ساتھ ملایا جاتا ہے پھر اسے زیر زمین بھیجا جاتا ہے۔ جہاں یہ بسالٹ راک کے ساتھ تعامل کرتا ہے اور پتھر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پورا پلانٹ کاربن فری الیکٹریسٹی پر چلتا ہے۔
4000 ٹنز بہت زیادہ نہیں ہیں، اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کی دنیا کو ممکنہ طور پر ماحول سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے، تاکہ گلوبل وارمنگ کو روکا جا سکے۔
براہ راست کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے طریقۂ کار کا شمار ان چند جدید ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے جن کی مدد سے گلوبل وارمنگ میں کمی لائی جا رہی ہے۔
فوسل فیولز کے بے جا استعمال اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہیٹ کی شدت میں اضافہ، جنگلات میں آگ اور سمندری سطح بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی کرائسز کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق یہ پلانٹ ایک سال میں 4000 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا فضا سے خاتمہ کرے گا جو 800 کاروں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے۔
مل کنگ بانڈز جو ایک انرجی اسٹریٹجیسٹ ہیں ان کے مطابق کرۂ ارض کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے سولر، ونڈ ٹربائنز اور گرین ہائیڈروجن جسے اور بہت سے طریقے ہیں اور کرۂ ارض کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کا یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اس لیے دنیا میں اس طرز کے صرف پندرہ پلانٹس موجود ہیں۔