گورے کی قید سے کالے کی قید تک
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں شامل ایک سو اسی ممالک میں بھارت ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے
کیا میڈیا واقعی آزاد ہے یا آزادی کے نام پر آقا بدل گیا ہے؟
جب تک میڈیا سرکاری کنٹرول میں تھا تو مجھ جیسے ادھ پکے صحافی اس گمان میں غلطاں تھے کہ کسی طرح سرکار کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو صحافت ایک پروپیگنڈہ ساز فیکٹری کے بجائے دوبارہ مشن بن جائے گی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر نجی شعبے کے ہاتھوں میں پہنچ کے اطلاعات کی آزاد ، شفاف اور منصفانہ ترسیل کا ماحول پھلنے پھلنے لگے گا۔
مگر آج محسوس ہوتا ہے کہ جس خواب کی تعبیر کے لیے ہم سے پچھلی نسل کے اہلِ قلم نے ہر طرح سے جدوجہد کی تھی۔وہ خواب آدھا پورا ہوا اور آدھا مسخ ہوگیا۔یعنی صحافتی اطلاعاتی نظام میں نجی شعبے کی حصہ داری تو خاصی بڑھ گئی ہے مگر اطلاعات کی غیر جانبدارانہ ترسیل پہلے سے زیادہ مشکل ، محدود اور بے یقین ہو گئی ۔
اس فضا میں وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب مرزا غالب جوئے کی نال لینے کے جرم میں قید کاٹ کے رہا ہوئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں کچھ روز فروکش رہے۔ایک روز کسی نے مرزا کو قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی۔مرزا نے کہا '' کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔ ''
پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کو تو خیر جانے ہی دیجیے۔دنیا کی سب سے طاقت ور جمہوریت جہاں آئین کی پہلی ترمیم کے ذریعے لگ بھگ ڈھائی سو برس پہلے آزادیِ اظہار کو آئینی تحفظ ملا۔اسی جمہوریت میں ایک صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے دو ہزار سترہ کے ایک مضمون میں تذکرہ کیا کہ صرف چھ کارپوریشنز نوے فیصد امریکی میڈیا کنٹرول کرتی ہیں۔
ان کارپوریشنز میں کوم کاسٹ ، نیوز کورپ ، ڈزنی ، وایاکوم ، ٹائم وارنر اور سی بی ایس شامل ہیں۔
دو ہزار سولہ میں فوربس میگزین میں رپورٹ شایع ہوئی کہ نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل سمیت تمام بڑے قومی اخبارات کے مالک پندرہ ارب پتی سیٹھ ہیں۔
دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت برطانیہ میں ذرایع ابلاغ پر چند ہاتھوں کی گرفت کے بارے میں میڈیا ریفارم کولیشن کا کہنا ہے کہ یہ حالت ایک جدید جمہوری ریاست کو درپیش چند بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔
اس تسلط کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ دو ہزار پندرہ تک برطانیہ کے قومی اخبارات کی اکہتر فیصد اشاعت تین کمپنیوں ( نیوز یوکے، ڈیلی میل گروپ، ریچ ) کے ہاتھوں میں تھی۔دو ہزار انیس میں تینوں کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر بڑھ کے تراسی فیصد اور دو ہزار اکیس میں نوے فیصد تک پہنچ گیا۔
اٹلی میں سابق وزیرِ اعظم سلوئیو برلسکونی کی ایک کمپنی فن انویسٹ اٹلی کے تین بڑے نیوز چینلز کی مالک ہے یہی کمپنی اخبارات اور کتابوں کی اشاعت پر قابض سب سے بڑا گروپ ہے۔
چند ممالک نے چند ہاتھوں میں میڈیا کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی بھی کی۔ مثلاً جرمنی میں کوئی ایک میڈیا ہاؤس یا میڈیا کمپنی ٹی وی سامعین کی پسند ناپسند قانوناً تیس فیصد سے زائد کنٹرول نہیں کر سکتی۔
بھارت میں گزشتہ نو برس سے جاری مودی دور میں رفتہ رفتہ کارپوریشنز کے ذریعے تمام سرکردہ میڈیا کو سرکار نے اپنی پسند کی زنجیریں پہنا دی۔
بھارت میں میڈیا انڈسٹری کا شمار چند منفعت بخش کاروباروں میں ہوتا ہے۔اس کی مجموعی مارکیٹ ویلیو بائیس ارب ڈالر ہے جو اگلے تین برس میں بڑھ کے چون ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اس وقت بھارت میں ایک لاکھ سے زائد چھوٹے بڑے اخبارات و جرائد اور مختلف زبانوں میں کل ملا کے تین سو اسی نیوز چینلز ہیں۔جب کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا مسلسل پھیلاؤ ایک الگ دنیا ہے۔
ایک دہائی پہلے بھارت کا سب سے بڑا صنعتی گروپ ریلائنس میڈیا منڈی میں داخل ہوا۔دو ہزار گیارہ میں لوک سبھا نے کیبل ٹی وی نیٹ ورک کو باقاعدہ بنانے والے ایکٹ کی منظوری دی۔اس ایکٹ کے تحت کیبل ٹی وی کو ڈیجیٹل نشریات میں تبدیل کرنے کی مدت تین برس مقرر کی گئی۔اس ایکٹ سے سب سے بڑے کیبل نیٹ ورک کے مالک انیل امبانی کے ریلائنس گروپ کی اجارہ داری راتوں رات صفر سے اسی تک جا پہنچی۔
دیکھتے ہی دیکھتے انیل امبانی کے ریلائنس گروپ نے نیٹ ورک ایٹین میڈیا گروپ کی جبری حصہ داری حاصل کر لی۔چنانچہ ریلائنس بھارت کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بن گیا جو سب سے زیادہ چینلز کے علاوہ سب سے زیادہ اخبارات کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
نیٹ ورک ایٹین گروپ کے ایک معروف چینل سی این این۔آئی بی این کے آزاد طبیعت ایڈیٹر انچیف راج دیپ سرڈیسائی نے اپنے استعفیٰ کی ای میل میں لکھا کہ میں نے چھبیس سالہ صحافتی کیریئر میں آزادی و دیانت کو مقدم جانا مگر نئے دور کو شاید ایسی '' خرافات '' کی اب ضرورت نہیں رہی۔
آج سیاست و صحافت بھارت میں ایک ہی بستر پر سوتے ہیں۔زی ٹی وی ایسل گروپ کی ملکیت ہے۔اس گروپ کے مالک راجیہ سبھا کے سابق رکن اور نریندر مودی کی آنکھوں کا تارہ سبھاش چندرہ ہیں۔اوڈیسہ ٹی وی نیٹ ورک کے مالک بی جے پی کے نائب صدر بیجنت پانڈے ہیں۔
نیوز لائیو شمال مشرقی بھارت کا سب سے مقبول چینل ہے۔اس کی مالکن آسام کے بی جے پی وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسواس شرما کی اہلیہ ہیں۔
باقی چینلز اور اخبارات ہوا کا رخ دیکھ کے آنکھ بند کیے سویلین روپ میں منتخب فاشسٹ آمریت کے اشاروں پر رضاکارانہ چل رہے ہیں کیونکہ سب کی ٹیکس فائلیں سی بی آئی کے کنٹرول میں ہیں اور سی بی آئی پردھان منتری بھون کے کنٹرول میں اور اعلیٰ سے ادنیٰ عدلیہ ٹرولنگ اور ہجوم اور پرموشنز ڈیموشنز کے نرغے میں ہے۔
این ڈی ٹی وی کا شمار آخری بڑے مزاحمتی مورچے میں ہوتا تھا۔اس کا محاصرہ دو ہزار انیس سے شروع ہوا اور پھر آخری وار اڈانی گروپ کے ذریعے ہوا جب گروپ کی فرنٹ کمپنیوں نے این ڈی ٹی وی کے اکثریتی شیئرز خرید کے مودی کے قدموں میں ڈال دیے۔این ڈی ٹی وی کا چہرہ رویش کمار تھے۔اب رویش کمار اپنے یو ٹیوب چینل تک محدود ہو گئے ہیں۔
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں شامل ایک سو اسی ممالک میں بھارت ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔دو ہزار اکیس میں بھارت کی رینکنگ ایک سو بیالیس پر تھی۔یعنی ایک ہی سال میں بھارت کی رینکنگ آٹھ پوائنٹس اور نیچے چلی گئی۔جب کہ پاکستان گزشتہ دو برس سے ایک سو ستاونویں اور بنگلہ دیش ایک سو باسٹھویں نمبر پر ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
جب تک میڈیا سرکاری کنٹرول میں تھا تو مجھ جیسے ادھ پکے صحافی اس گمان میں غلطاں تھے کہ کسی طرح سرکار کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو صحافت ایک پروپیگنڈہ ساز فیکٹری کے بجائے دوبارہ مشن بن جائے گی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر نجی شعبے کے ہاتھوں میں پہنچ کے اطلاعات کی آزاد ، شفاف اور منصفانہ ترسیل کا ماحول پھلنے پھلنے لگے گا۔
مگر آج محسوس ہوتا ہے کہ جس خواب کی تعبیر کے لیے ہم سے پچھلی نسل کے اہلِ قلم نے ہر طرح سے جدوجہد کی تھی۔وہ خواب آدھا پورا ہوا اور آدھا مسخ ہوگیا۔یعنی صحافتی اطلاعاتی نظام میں نجی شعبے کی حصہ داری تو خاصی بڑھ گئی ہے مگر اطلاعات کی غیر جانبدارانہ ترسیل پہلے سے زیادہ مشکل ، محدود اور بے یقین ہو گئی ۔
اس فضا میں وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب مرزا غالب جوئے کی نال لینے کے جرم میں قید کاٹ کے رہا ہوئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں کچھ روز فروکش رہے۔ایک روز کسی نے مرزا کو قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی۔مرزا نے کہا '' کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔ ''
پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کو تو خیر جانے ہی دیجیے۔دنیا کی سب سے طاقت ور جمہوریت جہاں آئین کی پہلی ترمیم کے ذریعے لگ بھگ ڈھائی سو برس پہلے آزادیِ اظہار کو آئینی تحفظ ملا۔اسی جمہوریت میں ایک صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے دو ہزار سترہ کے ایک مضمون میں تذکرہ کیا کہ صرف چھ کارپوریشنز نوے فیصد امریکی میڈیا کنٹرول کرتی ہیں۔
ان کارپوریشنز میں کوم کاسٹ ، نیوز کورپ ، ڈزنی ، وایاکوم ، ٹائم وارنر اور سی بی ایس شامل ہیں۔
دو ہزار سولہ میں فوربس میگزین میں رپورٹ شایع ہوئی کہ نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل سمیت تمام بڑے قومی اخبارات کے مالک پندرہ ارب پتی سیٹھ ہیں۔
دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت برطانیہ میں ذرایع ابلاغ پر چند ہاتھوں کی گرفت کے بارے میں میڈیا ریفارم کولیشن کا کہنا ہے کہ یہ حالت ایک جدید جمہوری ریاست کو درپیش چند بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔
اس تسلط کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ دو ہزار پندرہ تک برطانیہ کے قومی اخبارات کی اکہتر فیصد اشاعت تین کمپنیوں ( نیوز یوکے، ڈیلی میل گروپ، ریچ ) کے ہاتھوں میں تھی۔دو ہزار انیس میں تینوں کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر بڑھ کے تراسی فیصد اور دو ہزار اکیس میں نوے فیصد تک پہنچ گیا۔
اٹلی میں سابق وزیرِ اعظم سلوئیو برلسکونی کی ایک کمپنی فن انویسٹ اٹلی کے تین بڑے نیوز چینلز کی مالک ہے یہی کمپنی اخبارات اور کتابوں کی اشاعت پر قابض سب سے بڑا گروپ ہے۔
چند ممالک نے چند ہاتھوں میں میڈیا کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی بھی کی۔ مثلاً جرمنی میں کوئی ایک میڈیا ہاؤس یا میڈیا کمپنی ٹی وی سامعین کی پسند ناپسند قانوناً تیس فیصد سے زائد کنٹرول نہیں کر سکتی۔
بھارت میں گزشتہ نو برس سے جاری مودی دور میں رفتہ رفتہ کارپوریشنز کے ذریعے تمام سرکردہ میڈیا کو سرکار نے اپنی پسند کی زنجیریں پہنا دی۔
بھارت میں میڈیا انڈسٹری کا شمار چند منفعت بخش کاروباروں میں ہوتا ہے۔اس کی مجموعی مارکیٹ ویلیو بائیس ارب ڈالر ہے جو اگلے تین برس میں بڑھ کے چون ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اس وقت بھارت میں ایک لاکھ سے زائد چھوٹے بڑے اخبارات و جرائد اور مختلف زبانوں میں کل ملا کے تین سو اسی نیوز چینلز ہیں۔جب کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا مسلسل پھیلاؤ ایک الگ دنیا ہے۔
ایک دہائی پہلے بھارت کا سب سے بڑا صنعتی گروپ ریلائنس میڈیا منڈی میں داخل ہوا۔دو ہزار گیارہ میں لوک سبھا نے کیبل ٹی وی نیٹ ورک کو باقاعدہ بنانے والے ایکٹ کی منظوری دی۔اس ایکٹ کے تحت کیبل ٹی وی کو ڈیجیٹل نشریات میں تبدیل کرنے کی مدت تین برس مقرر کی گئی۔اس ایکٹ سے سب سے بڑے کیبل نیٹ ورک کے مالک انیل امبانی کے ریلائنس گروپ کی اجارہ داری راتوں رات صفر سے اسی تک جا پہنچی۔
دیکھتے ہی دیکھتے انیل امبانی کے ریلائنس گروپ نے نیٹ ورک ایٹین میڈیا گروپ کی جبری حصہ داری حاصل کر لی۔چنانچہ ریلائنس بھارت کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بن گیا جو سب سے زیادہ چینلز کے علاوہ سب سے زیادہ اخبارات کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
نیٹ ورک ایٹین گروپ کے ایک معروف چینل سی این این۔آئی بی این کے آزاد طبیعت ایڈیٹر انچیف راج دیپ سرڈیسائی نے اپنے استعفیٰ کی ای میل میں لکھا کہ میں نے چھبیس سالہ صحافتی کیریئر میں آزادی و دیانت کو مقدم جانا مگر نئے دور کو شاید ایسی '' خرافات '' کی اب ضرورت نہیں رہی۔
آج سیاست و صحافت بھارت میں ایک ہی بستر پر سوتے ہیں۔زی ٹی وی ایسل گروپ کی ملکیت ہے۔اس گروپ کے مالک راجیہ سبھا کے سابق رکن اور نریندر مودی کی آنکھوں کا تارہ سبھاش چندرہ ہیں۔اوڈیسہ ٹی وی نیٹ ورک کے مالک بی جے پی کے نائب صدر بیجنت پانڈے ہیں۔
نیوز لائیو شمال مشرقی بھارت کا سب سے مقبول چینل ہے۔اس کی مالکن آسام کے بی جے پی وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسواس شرما کی اہلیہ ہیں۔
باقی چینلز اور اخبارات ہوا کا رخ دیکھ کے آنکھ بند کیے سویلین روپ میں منتخب فاشسٹ آمریت کے اشاروں پر رضاکارانہ چل رہے ہیں کیونکہ سب کی ٹیکس فائلیں سی بی آئی کے کنٹرول میں ہیں اور سی بی آئی پردھان منتری بھون کے کنٹرول میں اور اعلیٰ سے ادنیٰ عدلیہ ٹرولنگ اور ہجوم اور پرموشنز ڈیموشنز کے نرغے میں ہے۔
این ڈی ٹی وی کا شمار آخری بڑے مزاحمتی مورچے میں ہوتا تھا۔اس کا محاصرہ دو ہزار انیس سے شروع ہوا اور پھر آخری وار اڈانی گروپ کے ذریعے ہوا جب گروپ کی فرنٹ کمپنیوں نے این ڈی ٹی وی کے اکثریتی شیئرز خرید کے مودی کے قدموں میں ڈال دیے۔این ڈی ٹی وی کا چہرہ رویش کمار تھے۔اب رویش کمار اپنے یو ٹیوب چینل تک محدود ہو گئے ہیں۔
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں شامل ایک سو اسی ممالک میں بھارت ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔دو ہزار اکیس میں بھارت کی رینکنگ ایک سو بیالیس پر تھی۔یعنی ایک ہی سال میں بھارت کی رینکنگ آٹھ پوائنٹس اور نیچے چلی گئی۔جب کہ پاکستان گزشتہ دو برس سے ایک سو ستاونویں اور بنگلہ دیش ایک سو باسٹھویں نمبر پر ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)