لائف اسٹائل بدلنے کی ضرورت
راقم کا تعلق سندھ کے مشہور شہر شکارپور سے ہے جو قیام پاکستان سے قبل سندھ کا پیرس کہلاتا تھا
لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا ہے کہ ہمیں اپنا لائف اسٹائل بدلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں رات گئے تک ریسٹورنٹ کہیں نہیں کھلتے۔ انھوں نے یہ ریمارکس ریسٹورنٹس ایسوسی ایشن کی درخواست کی سماعت کے دوران دیے جس میں حکومت کے رات دس بجے تک کی پابندی کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
وفاقی حکومت نے توانائی بچانے کے جس منصوبے پر عمل کا اعلان کیا تھا وہ بھی حسب سابق ہر حکومت کے اعلانات کی طرح اعلان ہی رہا اور حکومت نے بھی چپ سادھ لی اور حکومتی فیصلوں کی ہر بار مخالفت کرنے والے اپنی من مانی برقرار رکھنے عدالتوں میں پہنچ گئے مگر عدالت کی طرف سے ریمارکس آئے کہ ہمیں بھی اپنا لائف اسٹائل بدلنے کی ضرورت ہے۔
توانائی بحران میں تو کیا کورونا کی وبا کے دوران بھی تاجروں اور چھوٹے دکانداروں نے حکومت کی طرف سے کاروبار کے اوقات مقرر کرنے کی مخالفت کی تھی اور عمل صرف کورونا کے خوف کے باعث کیا گیا تھا۔
اب حکومت تاجروں کے سامنے پھر بے بس اور مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے اور دس پندرہ سالوں سے اقتدار میں رہنے والوں کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ملک میں پہلے بھی شاپ ایکٹ کا قانون تھا اور دکانوں کے کھولنے بند کرنے کے اوقات بھی مقرر تھے جو صرف قصابوں کے لیے باقی رہ گئے ہیں اور ہر ہفتے ناغہ صرف گوشت فروشوں کے لیے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔
پہلے چھوٹے شہروں میں دکانداروں نے اپنے کاروبار کے اوقات اور ہفتہ وار چھٹی کا دن خود مقرر کر رکھا تھا۔ گوشت فروشوں کے علاوہ ہیئر کٹنگ سیلون والے بھی پیر کو چھٹی کیا کرتے تھے وہ بھی اب ختم ہوگئی ہے۔ اکثر بڑی ہول سیل مارکیٹوں میں اب بھی سرکاری تعطیل کے حساب سے کاروبار بند رکھتے ہیں۔
چھوٹے شہروں میں اب بھی جمعہ کو ناغہ کیا جاتا ہے مگر بڑے شہر کے دیگر کاروباری علاقوں میں جمعہ اور اتوار کو بھی معمول کے مطابق دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور شاپ ایکٹ پر نہ حکومت عمل کراتی ہے نہ دکاندار کرتے ہیں اور کسی دکان کے کھلنے بند ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں جب تک گاہک آتے رہتے ہیں دکانیں کھلی رہتی ہیں کیونکہ سرکاری طور پر انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
کاروباری سلسلے میں تاجر تو زیادہ آمدنی بڑھانے کے لیے اپنی دکانیں زیادہ سے زیادہ دیر تک کھلی رکھنے کے ذمے دار ہیں ہی اور تقریباً ہر بڑی دکان والے نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کاروبار جاری رکھنے کے لیے جنریٹر کا انتظام کر رکھا ہے۔
بجلی جاتے ہی پٹرول و ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر آن کرکے بجلی کا متبادل انتظام کر لیتے ہیں جس سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے بھی دکانداروں کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور نرخ بڑھا کر جنریٹروں کا اضافی خرچ گاہکوں سے ہی وصول کرتے ہیں مگر حکومت پر پٹرول ڈیزل برآمد زیادہ کرنا پڑتا ہے اور ملک پر مالی بوجھ بڑھتا ہے جس کا نقصان بھی گاہکوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کاروبار دیر تک کھلے رہنے میں خریداروں کا بھی زیادہ قصور ہے کیونکہ بڑے بازاروں میں دیر سے جا کر شاپنگ کرنا اور ہوٹلنگ اب فیشن بن گیا ہے اسی لیے پاکستان میں ہوٹل رات گئے تک کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا استعمال بڑھا رہتا ہے اور بجلی مہنگی ہونے کے باوجود ہوٹلوں اور دکانوں کے مالکان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان کی آمدنی بڑھتی ہے۔
گاہکوں کو پتا ہے کہ رات 12 بجے کے بعد بھی دکانیں اور ہوٹل کھلے ملیں گے اس لیے گاہک آرام کرکے تاخیر سے شاپنگ کرنے نکلتے ہیں جس سے راتوں کو بھی ٹریفک کا رش رہتا ہے مگر کسی کو کوئی فکر نہیں۔ ان مفاد پرستوں کو صرف اپنے مفاد اور سہولت کی فکر ہے ملک کی کسی کو فکر نہیں۔ ملک میں توانائی کا بحران سالوں سے چل رہا ہے اور اس سال گیس کا بھی بحران شدید ہو چکا ہے۔
گھروں میں گیس نہ ہونے سے ہوٹلوں پر رش بڑھ گیا ہے، لوگ گھروں میں گیس نہ ہونے کی مجبوری میں ہوٹلوں پر جاتے ہیں اور مہنگا کھانا خریدتے ہیں۔ کھانے پینے کی تمام جگہوں پر گیس کے بڑے بڑے سلینڈر ان کی خوراک کی ضرورت پوری کردیتے ہیں جس سے گاہکوں کا مالی بوجھ بڑھتا ہے مگر فکر صرف کم آمدنی والوں کو ہوتی ہے۔
رات 12 بجے بھی ہوٹلوں میں بیٹھنے کے لیے کرسی نہیں ملتی اور لوگ کرسیاں خالی ہونے کا انتظار کرتے ہیں جس سے کہنے والے کہتے ہیں کہ کون کہتا پاکستان میں غربت ہے لوگ اپنی فیملی پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر ہوٹلوں کی یہ عیاشی پیسے والے ہی کرتے ہیں اکثریت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر فیملی ہوٹلنگ کر ہی نہیں سکتی۔
راقم کا تعلق سندھ کے مشہور شہر شکارپور سے ہے جو قیام پاکستان سے قبل سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔ راقم نے تو اپنے بچپن سے جوانی تک شکارپور اور دیگر شہروں میں یہی دیکھا تھا کہ فجر کے بعد دودھ کی دکانیں، ہوٹل، سبزی اور گوشت کی دکانیں کھل جاتی تھیں۔ لوگ صبح جلد اٹھ کر اپنی مطلوبہ اشیا خرید کر دکاندار اپنی دکانیں جلد کھول لیتے تھے اور ملازم پیشہ لوگ اپنے دفاتر چلے جاتے تھے۔
دیہی علاقوں کے لوگ بھی جلد اپنی اشیا فروخت کرنے اور خریدنے آ جاتے اور دوپہر تک اپنے معاملات نمٹا کر دیہاتوں میں لوٹ جاتے اور دکاندار بھی مغرب تک اپنی دکانیں بند کرکے گھروں کو چلے جاتے صرف ہوٹل رات دس گیارہ بجے تک کھلے رہتے تھے اور لوڈ شیڈنگ کا نام بھی نہیں سنا جاتا تھا۔
شکارپور میں صبح دس بجے تک دودھ دہی اور گیارہ بجے تک گوشت اور مچھلی کی مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں صرف سبزی اور پھل فروش بھی اپنا کاروبار عصر تک کھلا رکھتے اور ظہر کے بعد سے ہی بازاروں میں رش نہیں ہوتا تھا۔ رات 11 بجے تک سناٹا چھا جاتا مگر اب وہ بات نہیں رہی۔ وہاں بھی معمولات تبدیل ہوگئے اور لوگ دیر تک جاگنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور بڑے شہروں میں اب مارکیٹیں 11 بجے کھلنا شروع ہوتی ہیں، بارہ بجے گاہک آتے ہیں، ہول سیل مارکیٹیں عشا کے بعد تک کھلی رہتی ہیں جس سے بجلی کی طلب بڑھی، رات کو گاڑیوں والے اور دوسرے گھروں کو لوٹتے ہیں جس سے سڑکوں پر ٹریفک کا رش معمول بنا ہوا ہے۔
رات 11 بجے کے بعد لوگ ہوٹلوں کے لیے نکلتے ہیں اور دیر سے گھر لوٹ کر صبح دیر سے اٹھنے کو عادت بنا چکے ہیں اور سورج نکلتا وہ نہیں دیکھتے۔ سورج غروب ہوتا ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ لائف اسٹائل تبدیل ہونے، کھانا دیر سے کھانے سے کھانا ہضم نہیں ہوتا جس سے بیماریاں بڑھ گئیں اور ڈاکٹروں کے کلینکس بھی رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔
حکومت کے کاروباری اوقات ہوا میں اڑائے جا رہے ہیں، گاہکوں کو بھی پتا ہے کہ ان کی مطلوبہ اشیا انھیں رات گئے بھی ملیں گی تو وہ کیوں جلد خریداری کریں گے۔ اب تک ہر حکومت تاجروں کے آگے اور تاجر گاہکوں کے آگے بے بس تو حکومت کیا کرلے گی؟
وفاقی حکومت نے توانائی بچانے کے جس منصوبے پر عمل کا اعلان کیا تھا وہ بھی حسب سابق ہر حکومت کے اعلانات کی طرح اعلان ہی رہا اور حکومت نے بھی چپ سادھ لی اور حکومتی فیصلوں کی ہر بار مخالفت کرنے والے اپنی من مانی برقرار رکھنے عدالتوں میں پہنچ گئے مگر عدالت کی طرف سے ریمارکس آئے کہ ہمیں بھی اپنا لائف اسٹائل بدلنے کی ضرورت ہے۔
توانائی بحران میں تو کیا کورونا کی وبا کے دوران بھی تاجروں اور چھوٹے دکانداروں نے حکومت کی طرف سے کاروبار کے اوقات مقرر کرنے کی مخالفت کی تھی اور عمل صرف کورونا کے خوف کے باعث کیا گیا تھا۔
اب حکومت تاجروں کے سامنے پھر بے بس اور مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے اور دس پندرہ سالوں سے اقتدار میں رہنے والوں کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ملک میں پہلے بھی شاپ ایکٹ کا قانون تھا اور دکانوں کے کھولنے بند کرنے کے اوقات بھی مقرر تھے جو صرف قصابوں کے لیے باقی رہ گئے ہیں اور ہر ہفتے ناغہ صرف گوشت فروشوں کے لیے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔
پہلے چھوٹے شہروں میں دکانداروں نے اپنے کاروبار کے اوقات اور ہفتہ وار چھٹی کا دن خود مقرر کر رکھا تھا۔ گوشت فروشوں کے علاوہ ہیئر کٹنگ سیلون والے بھی پیر کو چھٹی کیا کرتے تھے وہ بھی اب ختم ہوگئی ہے۔ اکثر بڑی ہول سیل مارکیٹوں میں اب بھی سرکاری تعطیل کے حساب سے کاروبار بند رکھتے ہیں۔
چھوٹے شہروں میں اب بھی جمعہ کو ناغہ کیا جاتا ہے مگر بڑے شہر کے دیگر کاروباری علاقوں میں جمعہ اور اتوار کو بھی معمول کے مطابق دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور شاپ ایکٹ پر نہ حکومت عمل کراتی ہے نہ دکاندار کرتے ہیں اور کسی دکان کے کھلنے بند ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں جب تک گاہک آتے رہتے ہیں دکانیں کھلی رہتی ہیں کیونکہ سرکاری طور پر انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
کاروباری سلسلے میں تاجر تو زیادہ آمدنی بڑھانے کے لیے اپنی دکانیں زیادہ سے زیادہ دیر تک کھلی رکھنے کے ذمے دار ہیں ہی اور تقریباً ہر بڑی دکان والے نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کاروبار جاری رکھنے کے لیے جنریٹر کا انتظام کر رکھا ہے۔
بجلی جاتے ہی پٹرول و ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر آن کرکے بجلی کا متبادل انتظام کر لیتے ہیں جس سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے بھی دکانداروں کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور نرخ بڑھا کر جنریٹروں کا اضافی خرچ گاہکوں سے ہی وصول کرتے ہیں مگر حکومت پر پٹرول ڈیزل برآمد زیادہ کرنا پڑتا ہے اور ملک پر مالی بوجھ بڑھتا ہے جس کا نقصان بھی گاہکوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کاروبار دیر تک کھلے رہنے میں خریداروں کا بھی زیادہ قصور ہے کیونکہ بڑے بازاروں میں دیر سے جا کر شاپنگ کرنا اور ہوٹلنگ اب فیشن بن گیا ہے اسی لیے پاکستان میں ہوٹل رات گئے تک کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا استعمال بڑھا رہتا ہے اور بجلی مہنگی ہونے کے باوجود ہوٹلوں اور دکانوں کے مالکان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان کی آمدنی بڑھتی ہے۔
گاہکوں کو پتا ہے کہ رات 12 بجے کے بعد بھی دکانیں اور ہوٹل کھلے ملیں گے اس لیے گاہک آرام کرکے تاخیر سے شاپنگ کرنے نکلتے ہیں جس سے راتوں کو بھی ٹریفک کا رش رہتا ہے مگر کسی کو کوئی فکر نہیں۔ ان مفاد پرستوں کو صرف اپنے مفاد اور سہولت کی فکر ہے ملک کی کسی کو فکر نہیں۔ ملک میں توانائی کا بحران سالوں سے چل رہا ہے اور اس سال گیس کا بھی بحران شدید ہو چکا ہے۔
گھروں میں گیس نہ ہونے سے ہوٹلوں پر رش بڑھ گیا ہے، لوگ گھروں میں گیس نہ ہونے کی مجبوری میں ہوٹلوں پر جاتے ہیں اور مہنگا کھانا خریدتے ہیں۔ کھانے پینے کی تمام جگہوں پر گیس کے بڑے بڑے سلینڈر ان کی خوراک کی ضرورت پوری کردیتے ہیں جس سے گاہکوں کا مالی بوجھ بڑھتا ہے مگر فکر صرف کم آمدنی والوں کو ہوتی ہے۔
رات 12 بجے بھی ہوٹلوں میں بیٹھنے کے لیے کرسی نہیں ملتی اور لوگ کرسیاں خالی ہونے کا انتظار کرتے ہیں جس سے کہنے والے کہتے ہیں کہ کون کہتا پاکستان میں غربت ہے لوگ اپنی فیملی پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر ہوٹلوں کی یہ عیاشی پیسے والے ہی کرتے ہیں اکثریت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر فیملی ہوٹلنگ کر ہی نہیں سکتی۔
راقم کا تعلق سندھ کے مشہور شہر شکارپور سے ہے جو قیام پاکستان سے قبل سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔ راقم نے تو اپنے بچپن سے جوانی تک شکارپور اور دیگر شہروں میں یہی دیکھا تھا کہ فجر کے بعد دودھ کی دکانیں، ہوٹل، سبزی اور گوشت کی دکانیں کھل جاتی تھیں۔ لوگ صبح جلد اٹھ کر اپنی مطلوبہ اشیا خرید کر دکاندار اپنی دکانیں جلد کھول لیتے تھے اور ملازم پیشہ لوگ اپنے دفاتر چلے جاتے تھے۔
دیہی علاقوں کے لوگ بھی جلد اپنی اشیا فروخت کرنے اور خریدنے آ جاتے اور دوپہر تک اپنے معاملات نمٹا کر دیہاتوں میں لوٹ جاتے اور دکاندار بھی مغرب تک اپنی دکانیں بند کرکے گھروں کو چلے جاتے صرف ہوٹل رات دس گیارہ بجے تک کھلے رہتے تھے اور لوڈ شیڈنگ کا نام بھی نہیں سنا جاتا تھا۔
شکارپور میں صبح دس بجے تک دودھ دہی اور گیارہ بجے تک گوشت اور مچھلی کی مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں صرف سبزی اور پھل فروش بھی اپنا کاروبار عصر تک کھلا رکھتے اور ظہر کے بعد سے ہی بازاروں میں رش نہیں ہوتا تھا۔ رات 11 بجے تک سناٹا چھا جاتا مگر اب وہ بات نہیں رہی۔ وہاں بھی معمولات تبدیل ہوگئے اور لوگ دیر تک جاگنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور بڑے شہروں میں اب مارکیٹیں 11 بجے کھلنا شروع ہوتی ہیں، بارہ بجے گاہک آتے ہیں، ہول سیل مارکیٹیں عشا کے بعد تک کھلی رہتی ہیں جس سے بجلی کی طلب بڑھی، رات کو گاڑیوں والے اور دوسرے گھروں کو لوٹتے ہیں جس سے سڑکوں پر ٹریفک کا رش معمول بنا ہوا ہے۔
رات 11 بجے کے بعد لوگ ہوٹلوں کے لیے نکلتے ہیں اور دیر سے گھر لوٹ کر صبح دیر سے اٹھنے کو عادت بنا چکے ہیں اور سورج نکلتا وہ نہیں دیکھتے۔ سورج غروب ہوتا ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ لائف اسٹائل تبدیل ہونے، کھانا دیر سے کھانے سے کھانا ہضم نہیں ہوتا جس سے بیماریاں بڑھ گئیں اور ڈاکٹروں کے کلینکس بھی رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔
حکومت کے کاروباری اوقات ہوا میں اڑائے جا رہے ہیں، گاہکوں کو بھی پتا ہے کہ ان کی مطلوبہ اشیا انھیں رات گئے بھی ملیں گی تو وہ کیوں جلد خریداری کریں گے۔ اب تک ہر حکومت تاجروں کے آگے اور تاجر گاہکوں کے آگے بے بس تو حکومت کیا کرلے گی؟