محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب
آئین میں صاف لکھا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار اور اس کا فیصلہ حتمی قرار دیا گیا ہے
پنجاب اور کے پی میں نگران وزراء اعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ کے پی میں تو کوئی خاص اتنا شور نہیں ہے۔ لیکن پنجاب میں محسن نقوی کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بننے پر تحریک انصاف اور ق لیگ بہت شور مچا رہے ہیں۔
بہر حال آئین کے تحت اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن کسی ایک نام پر متفق نہ ہوں تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک کو نامزد کر دے۔ الیکشن کمیشن اپنی طرف سے کوئی نام شامل نہیں کر سکتا۔
اس لیے الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کو نامزد کر دیا ہے اور انھوں نے اپنے عہدہ کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ عدالت اس معاملہ میں کچھ کر سکتی ہے۔ آئین میں صاف لکھا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار اور اس کا فیصلہ حتمی قرار دیا گیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، کسی عدالت کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
محسن نقوی پنجاب کے تیسرے صحافی نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس سے پہلے نجم سیٹھی اور حسن عسکری بھی نگران وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔
محسن نقوی کا نام بھی اپوزیشن نے تجویز کیا تھا جب کہ حسن عسکری اور نجم سیٹھی کا نام بھی اس وقت کی اپوزیشن نے ہی تجویز کیا تھا۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے کوئی نیا اور انوکھا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ صحافیوں کو پہلے بھی نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔
اب بھی اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ ایک صحافی کو ہی نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔ حسن عسکری بھی نگران وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے روز ٹی وی پر بیٹھ کر تحریک انصاف کی حمایت کرتے تھے اور تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
اسی لیے عمران خان نے انھیں نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تھا کیونکہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے نرم گوشہ ہی نہیں بلکہ ان کی کھلی حمایت بھی کرتے تھے۔ اس کے مقابلے میں محسن نقوی تو روزانہ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر کسی سیاسی جماعت کی نہ تو حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مخالفت کرتے ہیں۔
ان کی زیرادارت چلنے والے اداروں کی پالیسی پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے ذاتی خیالات کا کبھی کہیں اظہار نہیں کیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے نجم سیٹھی اور حسن عسکری تو کھلے عام اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
اس طرح ان دونوں کے مقابلے میں محسن نقوی کو کافی حد تک غیر جانبدار کہا جا سکتا ہے۔ویسے بھی عمران خان کے نزدیک صرف ان کے حامی کو ہی زندہ رہنے کا حق ہے۔
ان کے مخالفین کو ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو صحافی ان کے ہمدرد ہیں وہ نیک ہیں جو ان کے مخالف ہیں وہ بد ہیں۔ وہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت ملک میں یہ کلچر پروان چڑھا رہے ہیں اور ان کے حامی اب اس رنگ میں ڈھل گئے ہیں۔ وہ مخالف نظریہ سننے کی ہمت نہیں رکھتے اور ذاتی الزامات اور کردار کشی پر آجاتے ہیں۔ محسن نقوی کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔
میری رائے میں محسن نقوی کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہر چیز کو متنازعہ بنانے کی خاص صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی اس خاص صلاحیت کی وجہ سے وہ ہر ایک کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش رکھتے ہیں۔
آپ آرمی چیف کی تعیناتی کو ہی دیکھ لیں انھوں نے آخری لمحہ تک اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی تا کہ وہ نئے آرمی چیف کو ایک خاص دباؤ میں رکھ سکیں۔ اداروں کے ذمے داران کے نام رکھے کسی کو مسٹر ایکس اور کسی کو مسٹر وائی کہا تا کہ ذمے داروں کو ایک دباؤ میں رکھا جا سکے۔ ان کی حکمت عملی ہے کہ بے وجہ ہی شور مچا دیا جائے۔
چاہے کچھ بھی نہ ہو تا کہ ایک خاص ماحول بن جائے اور پھر اس ماحول کا مخصوص فائدہ اٹھایا جا سکے۔ حال ہی میں اعتماد کا ووٹ بہترین مثال ہے۔
ایسے ہی شور مچا دیا کہ اسٹبلشمنٹ ہمارے لوگوں کو توڑ رہی ہے۔ گمنام نمبروں سے فون آرہے ہیں۔ پھر جب نمبر پورے ہو گئے تو جیت کا جشن منا لیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اس سب کا کیا ہوا۔ اس لیے تحریک انصاف کی یہ ایک حکمت عملی ہے کہ شور مچا کر اگلے کو دباؤ میں رکھو اور فائدہ اٹھاؤ وہ محسن نقوی کے ساتھ بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کو اعتراض ہے کہ وہ ان کے رشتے دار ہیںحالانکہ محسن نقوی جس گھرانے کے داماد ہیں وہ سیاست میں نہیں ہے اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔اس طرح تو پنجاب میں کسی نہ کسی کی کہیں نہ کہیں رشتے داری نکل ہی آئے گی۔
لوگ برادریوں سے دور کی رشتہ داری نکال لیتے ہیں۔ محسن نقوی نے خود کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے۔ان کے بھائی بہن نے کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے۔
محسن نقوی کو آئین پاکستان کے تحت ایک منصب ملا ہے۔ انھیں بلا خوف اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیے۔ سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
ویسے جو لوگ محسن نقوی کو جانتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ محسن نقوی کسی بھی قسم کا سیاسی و غیر سیاسی دباؤ نہیں لیتے۔ ان کا چینل کئی دفعہ بند ہوا ہے۔
انھیں لوگوں کونکالنے کے لیے کہا گیا ہے۔نجم سیٹھی کو جب کوئی چینل رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا تو محسن نقوی نے انھیں رکھا۔ رد عمل میں ان کا چینل بند بھی کیا گیا لیکن انھوں نے نجم سیٹھی کا پروگرام بند نہیں کیا۔ اس لیے جو لوگ محسن نقوی کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ محسن نقوی اس طرح دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
وہ گجرات کی سیاست میں بطور نگران وزیر اعلیٰ کسی کی بالادستی قائم نہیں ہونے دیں گے۔ سب کو الیکشن لڑنے کا برابر موقع ہوگا اگر کسی ایک فریق کا یہ خیال تھا کہ وہ دوسرے فریق کو الیکشن لڑنے ہی نہیں دے گا تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔
محسن نقوی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں۔ ہنستے رہتے ہیں۔ انھیں کم ہی غصہ میں دیکھا گیا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اپنے خلاف رد عمل میں وہ غصہ میں نہیں آئے ہوہوں گے اور کوئی کام بھی غصہ میں نہیں کریں گے۔
لیکن انھیں اپنے مخالفین کو راضی کرنے کے لیے انھیں خوش کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنانی چاہیے۔ وہ رعایت ہی تو چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے یہی ہیں کہ محسن نقوی کو دباؤ میں لائیں اور اپنا کام نکلوائیں۔ اس کوشش کو ناکام بنانا ہی محسن نقوی کا پہلا امتحان ہوگا۔ ان کی شخصیت کو جانتے ہوئے مجھے اندازہ ہے کہ یہ ان کے لیے کوئی امتحان نہیں ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کی جانب سے ایک سیاسی خود کشی ہے۔ آہستہ آہستہ انھیں اس کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہوگا۔ 2018 میں ان کی من مرضی کی نگران حکومتیں بن گئی تھیں۔
لیکن اس دفعہ انھیں یہ سہولت کاری حاصل نہیں ہے۔ محسن نقوی کی نامزدگی صاف اشارہ ہے عمران خان کو 2018جیسی سہولت کاری حاصل نہیں ہے۔ اب ادارے ان کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے۔ وہ ڈکٹیشن دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ محسن نقوی کی تعیناتی کو خاموشی سے قبول کر لیتے۔ جتنا شور مچائیں گے اپنا نقصان کریں گے۔
محسن نقوی کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جتنا نقصان ہوگا چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان کا ہی ہوگا۔ انھیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہے تو جلد ہو جائے گا۔ یہی سیاست ہے۔ یہاں جب تک اندازہ ہوتا ہے نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
بہر حال آئین کے تحت اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن کسی ایک نام پر متفق نہ ہوں تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک کو نامزد کر دے۔ الیکشن کمیشن اپنی طرف سے کوئی نام شامل نہیں کر سکتا۔
اس لیے الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کو نامزد کر دیا ہے اور انھوں نے اپنے عہدہ کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ عدالت اس معاملہ میں کچھ کر سکتی ہے۔ آئین میں صاف لکھا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار اور اس کا فیصلہ حتمی قرار دیا گیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، کسی عدالت کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
محسن نقوی پنجاب کے تیسرے صحافی نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس سے پہلے نجم سیٹھی اور حسن عسکری بھی نگران وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔
محسن نقوی کا نام بھی اپوزیشن نے تجویز کیا تھا جب کہ حسن عسکری اور نجم سیٹھی کا نام بھی اس وقت کی اپوزیشن نے ہی تجویز کیا تھا۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے کوئی نیا اور انوکھا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ صحافیوں کو پہلے بھی نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔
اب بھی اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ ایک صحافی کو ہی نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔ حسن عسکری بھی نگران وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے روز ٹی وی پر بیٹھ کر تحریک انصاف کی حمایت کرتے تھے اور تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
اسی لیے عمران خان نے انھیں نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تھا کیونکہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے نرم گوشہ ہی نہیں بلکہ ان کی کھلی حمایت بھی کرتے تھے۔ اس کے مقابلے میں محسن نقوی تو روزانہ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر کسی سیاسی جماعت کی نہ تو حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مخالفت کرتے ہیں۔
ان کی زیرادارت چلنے والے اداروں کی پالیسی پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے ذاتی خیالات کا کبھی کہیں اظہار نہیں کیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے نجم سیٹھی اور حسن عسکری تو کھلے عام اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
اس طرح ان دونوں کے مقابلے میں محسن نقوی کو کافی حد تک غیر جانبدار کہا جا سکتا ہے۔ویسے بھی عمران خان کے نزدیک صرف ان کے حامی کو ہی زندہ رہنے کا حق ہے۔
ان کے مخالفین کو ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو صحافی ان کے ہمدرد ہیں وہ نیک ہیں جو ان کے مخالف ہیں وہ بد ہیں۔ وہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت ملک میں یہ کلچر پروان چڑھا رہے ہیں اور ان کے حامی اب اس رنگ میں ڈھل گئے ہیں۔ وہ مخالف نظریہ سننے کی ہمت نہیں رکھتے اور ذاتی الزامات اور کردار کشی پر آجاتے ہیں۔ محسن نقوی کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔
میری رائے میں محسن نقوی کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہر چیز کو متنازعہ بنانے کی خاص صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی اس خاص صلاحیت کی وجہ سے وہ ہر ایک کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش رکھتے ہیں۔
آپ آرمی چیف کی تعیناتی کو ہی دیکھ لیں انھوں نے آخری لمحہ تک اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی تا کہ وہ نئے آرمی چیف کو ایک خاص دباؤ میں رکھ سکیں۔ اداروں کے ذمے داران کے نام رکھے کسی کو مسٹر ایکس اور کسی کو مسٹر وائی کہا تا کہ ذمے داروں کو ایک دباؤ میں رکھا جا سکے۔ ان کی حکمت عملی ہے کہ بے وجہ ہی شور مچا دیا جائے۔
چاہے کچھ بھی نہ ہو تا کہ ایک خاص ماحول بن جائے اور پھر اس ماحول کا مخصوص فائدہ اٹھایا جا سکے۔ حال ہی میں اعتماد کا ووٹ بہترین مثال ہے۔
ایسے ہی شور مچا دیا کہ اسٹبلشمنٹ ہمارے لوگوں کو توڑ رہی ہے۔ گمنام نمبروں سے فون آرہے ہیں۔ پھر جب نمبر پورے ہو گئے تو جیت کا جشن منا لیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اس سب کا کیا ہوا۔ اس لیے تحریک انصاف کی یہ ایک حکمت عملی ہے کہ شور مچا کر اگلے کو دباؤ میں رکھو اور فائدہ اٹھاؤ وہ محسن نقوی کے ساتھ بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کو اعتراض ہے کہ وہ ان کے رشتے دار ہیںحالانکہ محسن نقوی جس گھرانے کے داماد ہیں وہ سیاست میں نہیں ہے اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔اس طرح تو پنجاب میں کسی نہ کسی کی کہیں نہ کہیں رشتے داری نکل ہی آئے گی۔
لوگ برادریوں سے دور کی رشتہ داری نکال لیتے ہیں۔ محسن نقوی نے خود کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے۔ان کے بھائی بہن نے کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے۔
محسن نقوی کو آئین پاکستان کے تحت ایک منصب ملا ہے۔ انھیں بلا خوف اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیے۔ سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
ویسے جو لوگ محسن نقوی کو جانتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ محسن نقوی کسی بھی قسم کا سیاسی و غیر سیاسی دباؤ نہیں لیتے۔ ان کا چینل کئی دفعہ بند ہوا ہے۔
انھیں لوگوں کونکالنے کے لیے کہا گیا ہے۔نجم سیٹھی کو جب کوئی چینل رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا تو محسن نقوی نے انھیں رکھا۔ رد عمل میں ان کا چینل بند بھی کیا گیا لیکن انھوں نے نجم سیٹھی کا پروگرام بند نہیں کیا۔ اس لیے جو لوگ محسن نقوی کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ محسن نقوی اس طرح دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
وہ گجرات کی سیاست میں بطور نگران وزیر اعلیٰ کسی کی بالادستی قائم نہیں ہونے دیں گے۔ سب کو الیکشن لڑنے کا برابر موقع ہوگا اگر کسی ایک فریق کا یہ خیال تھا کہ وہ دوسرے فریق کو الیکشن لڑنے ہی نہیں دے گا تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔
محسن نقوی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں۔ ہنستے رہتے ہیں۔ انھیں کم ہی غصہ میں دیکھا گیا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اپنے خلاف رد عمل میں وہ غصہ میں نہیں آئے ہوہوں گے اور کوئی کام بھی غصہ میں نہیں کریں گے۔
لیکن انھیں اپنے مخالفین کو راضی کرنے کے لیے انھیں خوش کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنانی چاہیے۔ وہ رعایت ہی تو چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے یہی ہیں کہ محسن نقوی کو دباؤ میں لائیں اور اپنا کام نکلوائیں۔ اس کوشش کو ناکام بنانا ہی محسن نقوی کا پہلا امتحان ہوگا۔ ان کی شخصیت کو جانتے ہوئے مجھے اندازہ ہے کہ یہ ان کے لیے کوئی امتحان نہیں ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کی جانب سے ایک سیاسی خود کشی ہے۔ آہستہ آہستہ انھیں اس کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہوگا۔ 2018 میں ان کی من مرضی کی نگران حکومتیں بن گئی تھیں۔
لیکن اس دفعہ انھیں یہ سہولت کاری حاصل نہیں ہے۔ محسن نقوی کی نامزدگی صاف اشارہ ہے عمران خان کو 2018جیسی سہولت کاری حاصل نہیں ہے۔ اب ادارے ان کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے۔ وہ ڈکٹیشن دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ محسن نقوی کی تعیناتی کو خاموشی سے قبول کر لیتے۔ جتنا شور مچائیں گے اپنا نقصان کریں گے۔
محسن نقوی کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جتنا نقصان ہوگا چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان کا ہی ہوگا۔ انھیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہے تو جلد ہو جائے گا۔ یہی سیاست ہے۔ یہاں جب تک اندازہ ہوتا ہے نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔