شجر سایہ دار

زندگی میں بعض دکھ اور جدائی کے لمحات ایسے ہوتے ہیں جن کو آپ کبھی نہیں بھول سکتے

salmanabidpk@gmail.com

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا

چاہے جانے کے سب ہی عیب و ہنر رکھتا تھا

اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے

وہ الگ اپنا ایک انداز نظر رکھتا تھا

زندگی میں بعض دکھ اور جدائی کے لمحات ایسے ہوتے ہیں جن کو آپ کبھی نہیں بھول سکتے ۔ کیونکہ بعض افراد اپنی ذات میں آپ کی حقیقی طور پر طاقت ہوتے ہیں اور آپ ان کو قریب پاکر یا محسوس کرکے یا ان کی قربت میں خود کو بڑا محفوظ سمجھتے ہیں۔

خونی رشتوں کی اپنی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر کچھ رشتے آپ کو تنہا کردیتے ہیں اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ۔ا

حمد ناصر محض میرا بڑا بھائی ہی نہیں تھا بلکہ اس کی حیثیت ایک شفیق انسان ، دوست، راہنما، محبت اور انکساری ، مدد گار ،ڈھارس باندھنے والا اور سب سے بڑھ کر وہ ایک شفیق باپ کی حیثیت بھی رکھتا تھا ۔

ہمارے والدین کی جدائی جو ہمارے سب کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا اور آج تک ہم اس صدمہ سے باہر نہیں نکلے ۔لیکن بڑے بھائی احمد ناصر نے حقیقی معنوں میں ہم سب بہن بھائیوں کے لیے ایک بڑے باپ کا کردار ادا کیا ۔اس کا جو سہارا تھا وہی ہمارے خاندان کی اصل طاقت بھی تھا ۔

وہ ایک ایسا خاموش کردار تھا جو کبھی اپنے دکھ کو نہ تو نمایاں کرتا اور نہ ہی اس کا برملا اظہار کرتا ۔عاجزی ، انکساری، قناعت پسندی ، صبر و شکر اور سادہ طرز زندگی اس کی نمایاں خصوصیت تھی ۔سیاسی اور سماجی طور پر ایک بہت بڑی متحرک زندگی گزاری اور زندگی کے آخری سانس تک وہ اسی مشن کے تحت خود بھی لڑتا رہا اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتا کہ اصل زندگی انسانوں کی خدمت ہے۔

تعصب اور انتہا پسندانہ رجحانات سے پاک احمد ناصر ہر طبقہ میں مقبول تھا ۔ اس کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ہر نقطہ نظر کے لوگ اس کے قافلے میں شامل تھے ۔ کمزور اور محروم فرد کی مدد کرنا اس کی زندگی کا اہم شیوہ تھا ۔

جو لوگ بھی اس کے دروازے پر آتے یا تو وہ خالی ہاتھ نہ جاتے یا وہ ان کے کام میں مدد کرنے کے لیے بڑی گرم جوشی سے چل پڑتا تھا ۔پچھلے کئی برسوں سے اس کی زندگی ایک ایسے درویش صفت بابے کی تھی جس کے ہر عمل سے شفقت اور اخلاص سمیت محبت اور دوستی جھلکتی تھی۔

وہ مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ انسانوں کا کام انسانوں کو جوڑنا ہوتا ہے اور وہ انسانوں میں سیاسی ، مذہبی یا سماجی بنیادوں پر تقسیم کے سخت خلاف تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ عملی سیاست سے کئی برسوں سے لاتعلق ہوگیا تھا اور اس کے بقول یہ سیاست ہم کو بس اقتدار کے کھیل میں الجھا دیتی ہے اس کا نتیجہ عام افراد کی بھلائی نہیں رہا ۔

وہ ایک حقیقی اسپورٹس مین اور پروفیشل باکسر تھا ۔ قومی باکسنگ ٹیم کا حصہ رہا اور آج کل وہ واپڈا کی باکسنگ ٹیم کا کوچ بھی تھا ۔وہ طویل عرصہ سے مختلف بیماریوں سے بھی لڑرہا تھا جس میں کینسر جیسا مرض بھی تھا اور آخری حصہ میں ایک چوٹ کے باعث وہ دماغ کی سرجری سے بھی گزرا تھا ۔

55 دن وہ اس آپریشن کے بعد زندگی سے لڑتا رہا اور کئی بار ایسے محسوس ہوا کہ وہ واپس زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے مگر اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ 20جنوری 2023کی فجر کی نماز سے قبل وہ ہم سب کو چھوڑ کر رب تعالی کے حضور پیش ہوگیا ۔

اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ایک کمال کا فرد ہمارے خاندان ، علاقہ اور اس کے دوستوں نے کھویا ہے ۔سب کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور سب کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اپنا ہم سے جدا ہوا ہے ۔

اس کی وفات پر وہ سب لوگوں کو دیکھا جن کی وہ کسی نہ کسی شکل میں مددکرتا رہا یا ان کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ایسے لوگوں کو بھی روتا دیکھا جن کے بقول احمد ناصر ہمارا سہارا تھا اور کسی نہ کسی شکل میں وہ ہماری مدد کرنے میں پیش پیش ہوتا تھا ۔


رہنے کو سدا دہر میںآتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

وہ ایک شفیق باپ ، دوست اور بھائی تھا ۔ مذہبی خیالات رکھتا تھا اور اس پر ہمیشہ قائم بھی رہا ۔مگر وہ مذہبی ہم آہنگی کا قائل تھا اور فرقہ ورانہ معاملات سے خود کو ہمیشہ دور رکھا ۔مولانا مودودی کی تفاسیر خوب پڑھتا اور دوستوں کو ان تفاسیر کا تحفہ پیش کرتا اور نصیحت کرتا تھا کہ اپنی زندگی کو اپنے رب کے حوالے کردو اور اس کی منشا کے مطابق خود کو ڈھالو۔چاروں بچے حماد ناصر، ہارون ناصر ، صالحہ ناصر اور فائزہ ناصر اس کی جان تھے ۔

بچوں کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتا تھا اور کہتا تھا کہ میری خواہش ہے کہ بچے ان ہی طور طریقوں پر چلیں جس پر وہ اپنی زندگی اور آخرت بھی سنواسکیں ۔ بھائی کا گھر مستقل بنیادوں پر درس قران اور دینی مجالس کا مرکز تھا۔ میری بھابی خود درس قرا ن دیتی ہیں اور ان کا بیٹا ڈاکٹر حافظ ہارون ناصر درس، تراویح اور دعا کرواتے تھے۔

ماشااللہ ان کے بیٹے حافظ ہارون ناصر نے ہی اپنے باپ کا جنازہ بھی پڑھایا اور دعابھی کروائی ۔ان کی بیماری میں بھابی اور بچوں سمیت میرے چھوٹے بھائی ریحان عابد اور بھائی کے دوست عبدالغفور نے ان کی جس انداز میں خدمت کی وہ بھی قابل تعریف ہے۔

احمد ناصر رمضان میں راشن پیکیج، سحری اور افطاری کی محفلیں ، درس قران کی مجالس ہو یا عید گفٹ پیکیج، قربانی کے گوشت کی تقسیم ہو یا غریب لڑکیوں کی شادی میں جہیز کی فراہمی میں پیش پیش ہوتا تھا ۔

دیکھ لو میں کیا کمال کر گیا ہوں

زندہ بھی ہوں اور انتقال کر گیا ہوں

وہ ہمیشہ لڑائیوں میں صلح کروانے والے قبیلہ کا فرد تھا ۔ بچوں سے خوب پیار کرتے تھے اپنی نواسی ، نواسے اور پوتی کو وہ خوب لاڈ پیار کرتے تھے ۔

میرے والد گرامی عبدالکریم عابد اور والدہ کی محبت ا ن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور اپنے بچوں، بچیوںاور بہن یا بھائی کے بچوں سے خوب پیار کرتے تھے۔ اہلیہ سے بھی ان کا رشتہ کمال کا تھا اور دونوں میں جہاں خوب محبت تھی وہیں ایک دوسرے کی خدمت میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔

پھول وہ شاخ سے ٹوٹا کہ چمن ویران ہے

آج منہ ڈھانپ کے پھولوںمیںصبا روئے گی

میرے ساتھ اس کا تعلق ایک دوست کا سا تھا ۔ ہمیشہ ہم دونوں کئی گھنٹوں بیٹھ کر اپنے دل کی باتیں کرتے، گھر کے معاملات زیر بحث آتے اور خاندانی معاملات پر بھی بات ہوتی ۔ علاقے میں اس نے مسجد کی تعمیر ، درس قران کی مجلس، حفظ کی کلاسیں ، مسافر کے لیے مسجد میں رہائش کا انتظام اور قبرستان کی تعمیر میں حصہ لیا ۔

ان کی خواہش تھی کہ جلد ہی وہ مسجد میں عورتوں کی نماز اور درس قرآن کا اہتمام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ ایسا بھائی اور دوست واقعی قسمت والوں کو ہی ملتا ہے جو ا ایک مضبوط سہارا رکھتا تھا۔اللہ تعالی بھائی کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین

شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
Load Next Story