امپورٹ پر پابندی قائم رکھیں
میری رائے میں پاکستان میں ہر چیز کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے جو پاکستان میں بن سکتی ہے
پاکستان میں آجکل امپورٹس پر پابندی کے حوالے سے بہت شور ہے،کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں۔ ایل سی نہیں کھل رہی۔ ملک میں ڈالر نہیں مل رہے، لیکن میں اس ساری صورتحال کو دوسری طرح دیکھتا ہوں۔ میری رائے میں پاکستان میں ہر چیز کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے جو پاکستان میں بن سکتی ہے۔
چاہے پاکستان میں مہنگی بنے لیکن اس بنیاد پر ہم اپنے ملک کی صنعت کو تباہ نہیں کر سکتے کہ باہر سے سستی مل سکتی ہے۔
اس لیے یہاں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے درآمدات پر پابندی ہونی چاہیے۔ ایل سیز کھولنے کی کھلی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
آجکل بہت شور ہے کہ باہر سے پارٹس نہیں آرہے اس لیے گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں اپنے پلانٹ بند کر رہی ہیں۔ میں اس بارے میں بھی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ پلانٹ بند کرتی ہیں تو انھیں کرنے دیے جائیں۔ لیکن جب تک یہ تمام پارٹس پاکستان میں نہیں بناتے انھیں گاڑی بنانے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ کیا بات ہے کہ گاڑیاں بنانے کے یہی بڑے بڑے نام بھارت میں تو اپنی فیکٹریوں میں تمام پارٹس بناتے ہیں، لیکن پاکستان میں نہیں بناتے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی گاڑی کے جو پرزے بھارت میں بن سکتے ہیں۔پاکستان میں کیوں نہیں بن سکتے۔ عجب بات ہے کہ پہلے پرزے درآمد کرنے پر پاکستان کا زرمبادلہ ضایع کیا جاتا ہے۔ پھر منافع کما کر زر مبادلہ باہر لے کر جاتے ہیں۔
ملک کا دہرا نقصان ہے۔ اس لیے اگر انھوں نے فیکٹریاں بند کرنی ہیں تو کردیں لیکن اگر یہاں گاڑیاں بنانی ہیں تو مکمل یہیں بنائیں۔ صارفین سے پیسے لے کر کئی کئی ماہ گاڑیاں نہیں دی جاتیں۔ صارفین کے پیسوں سے ہی گاڑیاں بنا کر انھیں کو لوٹا جاتا ہے۔
بلیک میں گاڑیاں فروخت کرنے کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے۔ لیکن گاڑیوں کی اس قدر مانگ کے باوجود یہ ملک میں گاڑیوں کے پارٹس بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میری رائے میں پاکستان میں صرف اسی کمپنی کو گاڑی بنانے کی اجازت ہونی چاہیے جو مکمل گاڑی پاکستان میں بنائے۔ یہ اسمبلنگ پلانٹ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔
آج وقت آگیا ہے کہ واضح پالیسی بنائی جائے۔ اس بات کی فکر نہ کی جائے کہ پلانٹ بند ہو جائیں گے۔ ہم کئی سال ان گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں سے بلیک میل ہوئے۔ ناقص معیار کی گاڑیاں دی جاتی ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق گاڑیاں نہیں بنائی جا رہیں۔
جو ٹیکنالوجی پوری دنیا میں ختم ہو جائے وہ پاکستان میں دینا شروع کر دی جاتی ہے۔ اس لیے یہ گاڑیاں کوئی بنیادی ضرورت زندگی نہیں ہیں۔ یہ جائیں گے تو نئے پلانٹ آجائیں گے۔ لیکن گاڑیوں کے پارٹس کی درآمد پر پابندی قائم رہنی چاہیے۔ گاڑیاں پاکستان میں بنائی جائیں،لیکن درآمد بند ہونی چاہیے۔
موٹر سائیکل کی بھی یہی کہانی ہے۔عجیب کہانی ہے کہ ہم موٹر سائیکل کے پارٹس بھی درآمد کرتے ہیں۔ کیوں؟ موٹر سائیکل کے پارٹس کی ہر قسم کی درآمد بند ہونی چاہیے۔ صرف اسی موٹر سائیکل کی پاکستان میں فروخت کی اجازت ہونی چاہیے جو پاکستان میں مکمل بنتی ہے۔
اسی طرح ٹریکٹر کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ٹریکٹر بھی وہی بننا چاہیے جو مکمل پاکستان میں بنے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہم سائیکل بھی درآمد کرتے ہیں۔ چینی سائیکل نے پاکستان کی سائیکل انڈسٹری ختم کر دی ہے۔ پاکستان میں اچھی سائیکل بنتی تھی۔ لیکن اب بند ہوگئی ہے۔
ہم اربوں ڈالر کی سائیکل ہی درآمد کرتے ہیں۔ کیوں۔ہم سائیکل بنا سکتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں سائیکل بنانی چاہیے۔ سائیکل کی درآمد پر پابندی ہونی چاہیے۔ ہم قیمتی زر مبادلہ سائیکلوں کی درآمد پر خرچ نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر سائیکل کی درآمد کی ایل سی نہیں کھل رہی تو کوئی بات نہیں۔
فارما سوٹیکل کے را میٹریل کا بھی بہت شور ہے۔ مجھے اندازہ ہے ادویات کوئی آسائش نہیں ہے۔ یہ زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ مجھے پاکستان کی فارما انڈسٹری نے بھی بہت مایوس کیا ہے۔ وہاں بھی درآمدات کی ایک کہانی ہے۔ ہم نے مقامی طور پر ادویات بنانے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ باہر سے منگوا لیں اور بیچ دیں۔ ہم سرنج بھی نہیں بناتے۔ کیوں؟ بہت سی ادویات پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ لیکن درآمد کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
اس لیے حکومت کو چاہیے پاکستان کی فارما انڈسٹری کے ساتھ بیٹھ کر ایک پانچ سال کا روڈ میپ تیار کرے کہ اگلے پانچ سال میں کون کون سی ادویات پاکستان میں بننا شروع ہو جائیں گی۔ ہم سر درد کی گولی بھی امپورٹڈ کھاتے ہیں۔
میں بڑی بیماریوں کی بات نہیں کر رہا۔ لیکن بہت سی ادویات پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ اس پر کام نہیں ہوا۔ اس پر کام ہونا چاہیے۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہم خود انحصاری کی طرف جائیں۔ امپورٹڈ چیز سے جان چھڑائی جائے۔
آپ ٹیکسٹائل کو دیکھ لیں۔ کپاس درآمد کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسان کی مدد نہیں کی جاتی۔ ہمارا ٹیکسٹائل کا صنعتکار کسان کے پاس جاکر کپاس کی پیداوار بڑھانے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ آسانی سے کپاس باہر سے منگوا لے گا۔ برآمد کے نام پر حکومت کو بلیک میل کر لے گا۔
لیکن یہ درست نہیں۔ ٹیکسٹائل والوں کو کسانوں کے ساتھ ملکر کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ جیسے شوگر مل والے گنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ ویسے درآمد بند کرنے پر شور ہے۔ شور سنتے جائیں۔
چاہے پاکستان میں مہنگی بنے لیکن اس بنیاد پر ہم اپنے ملک کی صنعت کو تباہ نہیں کر سکتے کہ باہر سے سستی مل سکتی ہے۔
اس لیے یہاں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے درآمدات پر پابندی ہونی چاہیے۔ ایل سیز کھولنے کی کھلی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
آجکل بہت شور ہے کہ باہر سے پارٹس نہیں آرہے اس لیے گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں اپنے پلانٹ بند کر رہی ہیں۔ میں اس بارے میں بھی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ پلانٹ بند کرتی ہیں تو انھیں کرنے دیے جائیں۔ لیکن جب تک یہ تمام پارٹس پاکستان میں نہیں بناتے انھیں گاڑی بنانے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ کیا بات ہے کہ گاڑیاں بنانے کے یہی بڑے بڑے نام بھارت میں تو اپنی فیکٹریوں میں تمام پارٹس بناتے ہیں، لیکن پاکستان میں نہیں بناتے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی گاڑی کے جو پرزے بھارت میں بن سکتے ہیں۔پاکستان میں کیوں نہیں بن سکتے۔ عجب بات ہے کہ پہلے پرزے درآمد کرنے پر پاکستان کا زرمبادلہ ضایع کیا جاتا ہے۔ پھر منافع کما کر زر مبادلہ باہر لے کر جاتے ہیں۔
ملک کا دہرا نقصان ہے۔ اس لیے اگر انھوں نے فیکٹریاں بند کرنی ہیں تو کردیں لیکن اگر یہاں گاڑیاں بنانی ہیں تو مکمل یہیں بنائیں۔ صارفین سے پیسے لے کر کئی کئی ماہ گاڑیاں نہیں دی جاتیں۔ صارفین کے پیسوں سے ہی گاڑیاں بنا کر انھیں کو لوٹا جاتا ہے۔
بلیک میں گاڑیاں فروخت کرنے کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے۔ لیکن گاڑیوں کی اس قدر مانگ کے باوجود یہ ملک میں گاڑیوں کے پارٹس بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میری رائے میں پاکستان میں صرف اسی کمپنی کو گاڑی بنانے کی اجازت ہونی چاہیے جو مکمل گاڑی پاکستان میں بنائے۔ یہ اسمبلنگ پلانٹ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔
آج وقت آگیا ہے کہ واضح پالیسی بنائی جائے۔ اس بات کی فکر نہ کی جائے کہ پلانٹ بند ہو جائیں گے۔ ہم کئی سال ان گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں سے بلیک میل ہوئے۔ ناقص معیار کی گاڑیاں دی جاتی ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق گاڑیاں نہیں بنائی جا رہیں۔
جو ٹیکنالوجی پوری دنیا میں ختم ہو جائے وہ پاکستان میں دینا شروع کر دی جاتی ہے۔ اس لیے یہ گاڑیاں کوئی بنیادی ضرورت زندگی نہیں ہیں۔ یہ جائیں گے تو نئے پلانٹ آجائیں گے۔ لیکن گاڑیوں کے پارٹس کی درآمد پر پابندی قائم رہنی چاہیے۔ گاڑیاں پاکستان میں بنائی جائیں،لیکن درآمد بند ہونی چاہیے۔
موٹر سائیکل کی بھی یہی کہانی ہے۔عجیب کہانی ہے کہ ہم موٹر سائیکل کے پارٹس بھی درآمد کرتے ہیں۔ کیوں؟ موٹر سائیکل کے پارٹس کی ہر قسم کی درآمد بند ہونی چاہیے۔ صرف اسی موٹر سائیکل کی پاکستان میں فروخت کی اجازت ہونی چاہیے جو پاکستان میں مکمل بنتی ہے۔
اسی طرح ٹریکٹر کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ٹریکٹر بھی وہی بننا چاہیے جو مکمل پاکستان میں بنے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہم سائیکل بھی درآمد کرتے ہیں۔ چینی سائیکل نے پاکستان کی سائیکل انڈسٹری ختم کر دی ہے۔ پاکستان میں اچھی سائیکل بنتی تھی۔ لیکن اب بند ہوگئی ہے۔
ہم اربوں ڈالر کی سائیکل ہی درآمد کرتے ہیں۔ کیوں۔ہم سائیکل بنا سکتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں سائیکل بنانی چاہیے۔ سائیکل کی درآمد پر پابندی ہونی چاہیے۔ ہم قیمتی زر مبادلہ سائیکلوں کی درآمد پر خرچ نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر سائیکل کی درآمد کی ایل سی نہیں کھل رہی تو کوئی بات نہیں۔
فارما سوٹیکل کے را میٹریل کا بھی بہت شور ہے۔ مجھے اندازہ ہے ادویات کوئی آسائش نہیں ہے۔ یہ زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ مجھے پاکستان کی فارما انڈسٹری نے بھی بہت مایوس کیا ہے۔ وہاں بھی درآمدات کی ایک کہانی ہے۔ ہم نے مقامی طور پر ادویات بنانے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ باہر سے منگوا لیں اور بیچ دیں۔ ہم سرنج بھی نہیں بناتے۔ کیوں؟ بہت سی ادویات پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ لیکن درآمد کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
اس لیے حکومت کو چاہیے پاکستان کی فارما انڈسٹری کے ساتھ بیٹھ کر ایک پانچ سال کا روڈ میپ تیار کرے کہ اگلے پانچ سال میں کون کون سی ادویات پاکستان میں بننا شروع ہو جائیں گی۔ ہم سر درد کی گولی بھی امپورٹڈ کھاتے ہیں۔
میں بڑی بیماریوں کی بات نہیں کر رہا۔ لیکن بہت سی ادویات پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ اس پر کام نہیں ہوا۔ اس پر کام ہونا چاہیے۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہم خود انحصاری کی طرف جائیں۔ امپورٹڈ چیز سے جان چھڑائی جائے۔
آپ ٹیکسٹائل کو دیکھ لیں۔ کپاس درآمد کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسان کی مدد نہیں کی جاتی۔ ہمارا ٹیکسٹائل کا صنعتکار کسان کے پاس جاکر کپاس کی پیداوار بڑھانے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ آسانی سے کپاس باہر سے منگوا لے گا۔ برآمد کے نام پر حکومت کو بلیک میل کر لے گا۔
لیکن یہ درست نہیں۔ ٹیکسٹائل والوں کو کسانوں کے ساتھ ملکر کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ جیسے شوگر مل والے گنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ ویسے درآمد بند کرنے پر شور ہے۔ شور سنتے جائیں۔