انصاف سب کے لیے
ہمارے حکمران جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے تھکتے نظر نہیں آتے، جمہوریت بہترین انتقام ہے،
ہمارے حکمران جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے تھکتے نظر نہیں آتے، جمہوریت بہترین انتقام ہے، جمہوریت یہ، جمہوریت وہ ۔۔۔۔ مگر ہمیں تو کہیں جمہوریت اور جمہوریت کے پیدا کردہ فیوض نظر نہیں آتے، ہاں جمہوریت بہترین انتقام ہے یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ عوام سے جمہوریت کے نام پر کیسا انتقام لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کا 5سالہ دور ہو یا موجودہ حکومت کے مختلف ادوار، سب جمہوریت کے نام پر اقتدار کی کرسی ہی حاصل کرتے نظر آتے ہیں مگر آمرانہ مزاج کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں میں یہ رجحان بھی پرورش پا رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر موروثیت کو پروان چڑھایا جائے، اس مقصد کے لیے اپنی اولاد کو تیار کیا جا رہا ہے، ان کی سیاسی تربیت کرکے اگر جمہوری طرز پر عوام کے بہترین لیڈر بنانے کا عمل ہو تو تب بھی بہتر ہے مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں یہ خواہشیں مچلنے لگتی ہیں ان کی جگہ یا ان کے بعد اولاد بھی حکمرانی کے مزے لوٹے۔ پاکستان کے مختلف سیاسی ادوار کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جاگیردارانہ سوچ نے سیاست کو صحیح رخ پر چلنے نہیں دیا اور یہی وجہ ہے کہ سیاست بڑے خاندانوں میں ہی پھل پھول رہی ہے، متوسط طبقے کے نوجوان کارکن صرف جلسے جلوسوں کے لیے وقف ہوکر رہ گئے ہیں۔ اگر کہیں متوسط طبقے سے کوئی لیڈر مدمقابل آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے اور اس کارنامے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا جاتا۔ تحریک انصاف کی ابتدا میں جو رجحان تھا اور جس طرح عمران خان نے عام نوجوان کو مرکز نگاہ بنایا تھا اس سے امید تھی کہ تحریک انصاف پاکستان میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے مگر 2013 کے الیکشن سے پہلے جس طرح پرانے گھاگھ سیاستدانوں نے عمران کا گھیراؤ کیا اور پارٹی میں شمولیت اختیار کی اس سے تحریک انصاف کے منشور اور بلند بانگ دعوؤں کو بڑا دھچکا پہنچا۔ اس لیے قومی سیاست کا رخ دو بڑی پارٹیوں کے درمیان گھوم رہا ہے، باریاں لگ چکی ہیں۔
ہمارے ہاں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان خود کو تو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے نہیں تھکتے، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے جمہوریت کا الاپ مقصد زندگی بن جاتا ہے مگر ساتھ ساتھ یہ اپنی آنیوالی نسلوں کو بھی وزارت عظمیٰ کا 'اصلی تے وڈا' حقدار سمجھتے ہیں حالانکہ سیاسی جماعتوں میں قیادت کا انتخاب جمہوری عمل کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ یہ عمل ہمیں ابھی تک ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی میں نظر آتا ہے کہ انتخابات میں ٹکٹ سیاسی کارکنوں کو ہی دیے جاتے ہیں، کوئی رشتے دار وزیر باتدبیر بنتا نظر نہیں آتا مگر آگے کا کچھ پتہ نہیں، اگلے منصوبے کیا ہوں گے، اﷲ جانے مگر فی الحال ایم کیو ایم روایتی ڈگر سے ہٹتی نہیں نظر آتی ہے جس میں غلط کاموں پر کارکنوں کی رکنیت بھی معطل کردی جاتی ہے، اسی طرح جماعت اسلامی کے اندرونی الیکشن میں سراج الحق کی کامیابی نے واضح کردیا ہے کہ جماعتی الیکشن کتنے صاف شفاف طریقے سے ہوتے ہیں اور جماعت روایتی طور طریقوں سے کام نہیں لے رہی اور موروثیت کی مخالف ہے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ہماری سیاسی جماعتوں میں وہی قدیم سوچ موجود ہے جس میں جمہوری عمل کے ذریعے حکمرانوں کو منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ مسلط کیا جاتا ہے۔ سیاست میں حصہ لینے سے کسی کو انکار نہیں، ہر شخص کا حق ہے کہ وہ سیاسی عمل میں اپنا کردار ادا کرے، خرابی یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اپنے بیٹے یا بیٹیوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نواز دیں اور عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع فراہم نہ کریں ۔ یہ جمہوری سوچ کی عکاسی نہیں کرتی، یہ سوچ بادشاہت کو پروان چڑھاتی نظر آتی ہے۔ بلاول بھٹو نئی نسل کا بہترین انتخاب بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے زیادہ تر مغربی معاشرے میں پرورش پائی اور تعلیم مکمل کی ہے، انھیں جمہوریت کے حقیقی معنوں کے بارے میں زیادہ علم ہے مگر تھر کے واقعے پر ان کے طرز عمل نے بڑا مایوس کیا ہے۔ تھر کے لوگوں سے انگریزی میں گفتگو کرنا، قحط کے ذمے داروں کو سزا نہ دینا، ان کی اندرونی سوچ کی عکاسی ہے کہ مقصد عوام کی بھلائی نہیں صرف سیاست میں آنا اور اقتدار پر قابض ہونا ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ق) بھی اس نقش قدم پر چلتی نظر آتی ہے۔ اصل بات ان لوگوں کی کامیابی کی یہ ہے کہ عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں ہے، پاکستان کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے، برادری سسٹم ہے، اسی لیے عوام کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ یہ موروثیت پاکستان ہی نہیں ہم دیکھتے ہیں بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ رجحان بدرجہ اتم موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں تو سیاست دو خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے، بیگم حسینہ واجد جو شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں، انھوں نے تو جمہوریت کے نام پر وہ ہتھکنڈے اور کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ جمہوریت بھی ہاتھ جوڑ کر پناہ مانگ رہی ہے۔ حالیہ بنگلہ دیشی الیکشن اس کی بدترین مثال ہیں جہاں پارلیمنٹ میں اپوزیشن ہی موجود نہیں ہے اپوزیشن کی طرف سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے ووٹ ہی نہیں پڑے۔ اقوام متحدہ اور عالمی مبصرین کس مصلحت کی بنا پر ان نتائج کو قبول کر رہے ہیں، ہماری ناقص العقل سے تو یہ سب بالاتر ہے۔
اسی طرح خالدہ ضیا بنگلہ دیشی صدر کی بیوہ ہیں، بنگلہ دیشی جمہوریت میں ان دونوں خواتین کا راج ہے، تمام تر سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسی طرح جمہوریت کا چیمپئن بھارت بھی ہے، مگر موروثی سیاسی ہتھکنڈوں سے وہ بھی مبرا نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کے دعوے داروں کو چاہیے اگر ملک کو صحیح خطوط پر چلانا ہے تو جمہوری رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا، جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کو ختم کرنا ہو گا، پارلیمنٹ کی مضبوطی میں ہی سیاست کا اصل حسن ہے مگر پارلیمنٹ کی مضبوطی بھی اسی صورت میں ممکن ہے، جب عوام کے اصل نمایندے ایوانوں میں بیٹے ہوں، انھیں عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس ہو، ورنہ الیکشن پھر نمایشی چیز بن کر رہ جاتے ہیں پنکچر سیاست جب تک چلتی رہے گی اسی طرح جمہوریت کے نام پر بادشاہت غالب رہے گی،آمروں کو غاصب کہا جاتا ہے جو صحیح بھی ہے مگر جمہوریت کے نام لیوا بدترین آمریت کا ثبوت کیوں دیتے ہیں ؟ آج پاکستان کی ساری حکومت شخصی طاقت پر گھوم رہی ہے، شخصی فیصلوں پر ملک کو چلایا جا رہا ہے، کسی ادارے میں بھی آئین و قانون کی بالادستی نظر نہیں آرہی۔ اصل معاملہ صرف یہ ہے کہ ہمیں صرف اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کی مالا جپنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے ورنہ اپنے دور اقتدار میں آکر بادشاہت پسندیدہ بن جاتی ہے۔ پاکستان کی ترقی، خوشحالی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر انصاف سب کے لیے ہونا چاہیے، یہ سب ورنہ ایسے ہی چلتا رہے گا، عوام پستے رہیں گے، دھکے کھاتے رہیں گے اور انصاف دور کھڑا ہوگا مگر جمہوریت کا انتقام جاری رہے گا۔
ہمارے ہاں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان خود کو تو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے نہیں تھکتے، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے جمہوریت کا الاپ مقصد زندگی بن جاتا ہے مگر ساتھ ساتھ یہ اپنی آنیوالی نسلوں کو بھی وزارت عظمیٰ کا 'اصلی تے وڈا' حقدار سمجھتے ہیں حالانکہ سیاسی جماعتوں میں قیادت کا انتخاب جمہوری عمل کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ یہ عمل ہمیں ابھی تک ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی میں نظر آتا ہے کہ انتخابات میں ٹکٹ سیاسی کارکنوں کو ہی دیے جاتے ہیں، کوئی رشتے دار وزیر باتدبیر بنتا نظر نہیں آتا مگر آگے کا کچھ پتہ نہیں، اگلے منصوبے کیا ہوں گے، اﷲ جانے مگر فی الحال ایم کیو ایم روایتی ڈگر سے ہٹتی نہیں نظر آتی ہے جس میں غلط کاموں پر کارکنوں کی رکنیت بھی معطل کردی جاتی ہے، اسی طرح جماعت اسلامی کے اندرونی الیکشن میں سراج الحق کی کامیابی نے واضح کردیا ہے کہ جماعتی الیکشن کتنے صاف شفاف طریقے سے ہوتے ہیں اور جماعت روایتی طور طریقوں سے کام نہیں لے رہی اور موروثیت کی مخالف ہے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ہماری سیاسی جماعتوں میں وہی قدیم سوچ موجود ہے جس میں جمہوری عمل کے ذریعے حکمرانوں کو منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ مسلط کیا جاتا ہے۔ سیاست میں حصہ لینے سے کسی کو انکار نہیں، ہر شخص کا حق ہے کہ وہ سیاسی عمل میں اپنا کردار ادا کرے، خرابی یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اپنے بیٹے یا بیٹیوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نواز دیں اور عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع فراہم نہ کریں ۔ یہ جمہوری سوچ کی عکاسی نہیں کرتی، یہ سوچ بادشاہت کو پروان چڑھاتی نظر آتی ہے۔ بلاول بھٹو نئی نسل کا بہترین انتخاب بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے زیادہ تر مغربی معاشرے میں پرورش پائی اور تعلیم مکمل کی ہے، انھیں جمہوریت کے حقیقی معنوں کے بارے میں زیادہ علم ہے مگر تھر کے واقعے پر ان کے طرز عمل نے بڑا مایوس کیا ہے۔ تھر کے لوگوں سے انگریزی میں گفتگو کرنا، قحط کے ذمے داروں کو سزا نہ دینا، ان کی اندرونی سوچ کی عکاسی ہے کہ مقصد عوام کی بھلائی نہیں صرف سیاست میں آنا اور اقتدار پر قابض ہونا ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ق) بھی اس نقش قدم پر چلتی نظر آتی ہے۔ اصل بات ان لوگوں کی کامیابی کی یہ ہے کہ عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں ہے، پاکستان کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے، برادری سسٹم ہے، اسی لیے عوام کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ یہ موروثیت پاکستان ہی نہیں ہم دیکھتے ہیں بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ رجحان بدرجہ اتم موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں تو سیاست دو خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے، بیگم حسینہ واجد جو شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں، انھوں نے تو جمہوریت کے نام پر وہ ہتھکنڈے اور کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ جمہوریت بھی ہاتھ جوڑ کر پناہ مانگ رہی ہے۔ حالیہ بنگلہ دیشی الیکشن اس کی بدترین مثال ہیں جہاں پارلیمنٹ میں اپوزیشن ہی موجود نہیں ہے اپوزیشن کی طرف سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے ووٹ ہی نہیں پڑے۔ اقوام متحدہ اور عالمی مبصرین کس مصلحت کی بنا پر ان نتائج کو قبول کر رہے ہیں، ہماری ناقص العقل سے تو یہ سب بالاتر ہے۔
اسی طرح خالدہ ضیا بنگلہ دیشی صدر کی بیوہ ہیں، بنگلہ دیشی جمہوریت میں ان دونوں خواتین کا راج ہے، تمام تر سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسی طرح جمہوریت کا چیمپئن بھارت بھی ہے، مگر موروثی سیاسی ہتھکنڈوں سے وہ بھی مبرا نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کے دعوے داروں کو چاہیے اگر ملک کو صحیح خطوط پر چلانا ہے تو جمہوری رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا، جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کو ختم کرنا ہو گا، پارلیمنٹ کی مضبوطی میں ہی سیاست کا اصل حسن ہے مگر پارلیمنٹ کی مضبوطی بھی اسی صورت میں ممکن ہے، جب عوام کے اصل نمایندے ایوانوں میں بیٹے ہوں، انھیں عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس ہو، ورنہ الیکشن پھر نمایشی چیز بن کر رہ جاتے ہیں پنکچر سیاست جب تک چلتی رہے گی اسی طرح جمہوریت کے نام پر بادشاہت غالب رہے گی،آمروں کو غاصب کہا جاتا ہے جو صحیح بھی ہے مگر جمہوریت کے نام لیوا بدترین آمریت کا ثبوت کیوں دیتے ہیں ؟ آج پاکستان کی ساری حکومت شخصی طاقت پر گھوم رہی ہے، شخصی فیصلوں پر ملک کو چلایا جا رہا ہے، کسی ادارے میں بھی آئین و قانون کی بالادستی نظر نہیں آرہی۔ اصل معاملہ صرف یہ ہے کہ ہمیں صرف اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کی مالا جپنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے ورنہ اپنے دور اقتدار میں آکر بادشاہت پسندیدہ بن جاتی ہے۔ پاکستان کی ترقی، خوشحالی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر انصاف سب کے لیے ہونا چاہیے، یہ سب ورنہ ایسے ہی چلتا رہے گا، عوام پستے رہیں گے، دھکے کھاتے رہیں گے اور انصاف دور کھڑا ہوگا مگر جمہوریت کا انتقام جاری رہے گا۔