اشراف اورکمی کمین

دونوں کا اگرمقابلہ ہوجائے تو زمین اور مٹی اگر صرف آگ سے تعاون چھوڑدے

barq@email.com

اشرافین اورکمی کمین کے معاملے میں اگر کم سے کم لفظوں میں کہاجائے تو ...

خرد کا نام جنوں رکھ دیا ،جنوں کا خرد

جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

کیونکہ حقیقت بالکل ہی برعکس ہے، جو ''کمی کمین ''کہلاتے ہیں، وہ دراصل وہ ہیں جن کے بارے میں دنیا کی سب سے پاک، مبارک اورسچی زبان نے فرمایا ہے ۔الکاسب حبیب اللہ۔آج ان کاسبوں ہی کو تو کمی کمین کہاجارہاہے جو اگاتے ہیں۔

بناتے ہیں، پہنچاتے ہیں اورکھلاتے، کماتے اور تعمیر کرتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو کچھ نہیں کرتے، پانی تک دوسرے پلاتے ہیں، اپنے گلدستوں کے لیے پھول بھی دوسرے سے تڑواتے ہیں ،ان کو اشراف یا اعلیٰ نسل یا ذات کہاجاتاہے ،اپنے اجداد کی غداریوں، چاپلوسیوں اورکشف برداریوں کا دیاکماتے ہیں، یہ روساء اورسربراہ لوگ ۔ خوشحال خان خٹک ''خان''کی تعریف تین لفظوں میں یوں کی ہے ۔

چہ گٹل، خوڑل بخل کا خان ھغہ

جو کماتاہے، کھاتاہے اورکھلاتاہے ''خان'' وہی ہے۔

گویا جن کو ہمارا ''غیر ہموار''معاشرہ کمی کمین کہتاہے وہی اصل خان بھی ہیں، خداکے دوست بھی ۔

اگر حقیقت دیکھی جائے تو یہ جو اشراف ہوتے ہیں،یہ پچھلے کسی دورکے ارذل تھے یاآیندہ کسی بھی دورکے ارذل ہوں گے کیونکہ ہر نئی حکومت ،نئی رجیم، نئے انقلاب کے ساتھ جب ''ہل جل'' ہوتی ہے تو اوپر کی مٹی نیچے اورنیچے کی مٹی اوپر آجاتی ہے۔

کسی بھی دور کے اشراف چونکہ موجودہ رژیم سے نالاں ہوتے ہیں، نئے آنے والوں کاساتھ دیتے ہیں، یوں ہردورکے اشراف اورکمین بدلتے رہتے ہیں ۔


ایک اور انتہائی قابل توجہ بات یہ کہ برتری کے مدعی اپنے کسی ذاتی وصف یا خوبی پر برتر نہیں ہوتے بلکہ بیرونی اور''منقولہ'' چیزوں پر اپنی برتری جتاتے، مال، دوست، جائیداد یاکسی بھی ایسی چیز پر برتری جتانا انتہائی حماقت ہوتی ہے کیوں کہ جن پر یہ لوگ نازاں ہوتے ہیں۔

کل جاکر کسی اورکے پاس بھی جاسکتی ہیں، یوں برتری دراصل ان چیزوں کی ہوتی ہے، خود اس کی نہیں جس کے پاس جاتی ہیں۔ اگر کسی کے اجداد نے کارنامے کیے ہوں ،عبادتیں کی ہوں اور ان کی اولادیں کسی بھی کام کی نہ ہوں تو اولادوں کو اجداد کے کارناموں پر فخر کرنے کیاحق ہے۔رحمان بابا نے اس بات کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔

ھغہ ناوی چہ پخپلہ خائستہ نہ وی

سوک بہ ئے سہ کاندی خائست دہ مور او نیا

(جو دلہن خود خوبصورت نہ ہو کوئی اس کی ماں، دادی کے حسن کو لے کو کیاکرے گا)

اوراگر دیکھاجائے تو ہمارے معاشروں میں اکثر یہی ہوتا ہے ،نہایت نکمے نکھٹو لوگ بھی اپنے اجداد کے نام پر لوگوں سے پیر دبواتے ہیں، لوگوں سے شکرانے وصول کرتے ہیں، خدمت کراتے ہیں اور ''زادگان'' کہلاتے ہیں۔

وزیر زادگان ،صاحب زادگان ،خان زادگان، اخونزاد گان، شاہ زادگان وغیرہ۔ یا مال و جائیداد یا منصب کو لے کر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہیں جو حقیقت میں ہوتی ہی نہیں ہیں ۔ان بیرونی منقولہ اور عارضی چیزوں پر فخر، دعویٰ برتری اورغرور کابانی مبانی ''ابلیس'' نے بھی یہی تو کیا تھا اورکہا تھا کہ میں خاکی آدم سے برتر ہوں کیوں کہ ناری ہوں۔

یہ دعویٰ برتری قطعی جھوٹا ہے کیونکہ آگ مٹی پر کسی بھی لحاظ سے برتر نہیں کہ آگ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتی جب کہ مٹی آگ سمیت ہرکسی کو کھلاتی ہے ،آگ کوئی پیدا نہیں کرسکتی بلکہ فنا کرتی ہے۔

دونوں کا اگرمقابلہ ہوجائے تو زمین اور مٹی اگر صرف آگ سے تعاون چھوڑدے، اپنی عطائیں روک دیں تو آگ خود بخود بجھ جائے گا کہ اس میں بذات خود زندہ رہنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اوراگر آگ لاکھ جتن کرے لیکن مٹی کاکچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوکر اینٹ، برتن، لوہا اورشیشہ بن جائے گی اوراگر مٹی آگ کو فنا کرنا چاہے تو چشم زدن میں فنا کرسکتی ہے بلکہ کچھ بھی نہ کرکے صرف تعاون کاہاتھ کھینچ لے تو آگ فنا ہوجائے گی۔

خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ برتری کادعویٰ ہمیشہ جھوٹا ہوتا ہے کہ یا تو کسی خارجی اورمنقولہ چیزکی بنیاد پر ہوتاہے یادعویٰ بے دلیل۔ چنانچہ خود اپنی محنت سے کما کر پیداکرکے کھانے اورکھلانے والے کمی کمین ہی اصل میں برتر ہوتے ہیں نہ کہ دوسروں کی کمائی پر جینے والے نکمے نکھٹو اورکچھ بھی نہ کرنے والے ۔
Load Next Story