طلبہ یونین کے بجائے طلبہ سوسائٹیز کا قیام

اگر انتظامیہ اور دیگر ایجنسیاں ناپسندیدہ عناصر کی سرپرستی نہ کریں تو منتخب طلبہ یونین ان عناصر کی سرکوبی کرسکتی ہے

tauceeph@gmail.com

سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکی اکثریت طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں نہیں ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے منتظمین کا مدعا ہے کہ طلبہ یونین کے بجائے طلبہ سوسائٹیز معارف کرائی جائیں۔

سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے نگراں وزیر اسماعیل راہو نے چند ماہ قبل یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے اجلاس میں یہ رائے دی تھی کہ وائس چانسلر صاحبان طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔

اس اجلاس میں وزیر موصوف کی تجویز پر عملدرآمد کے لیے کچھ وائس چانسلروں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے اراکین سندھ اسمبلی ، طلبہ یونین کے منظور شدہ قانون پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس میں گزشتہ دنوں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے سیکریٹری کی صدارت میں وائس چانسلروں کے اجلاس میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن نے طلبہ یونین کو اس کی اصل شکل میں بحالی پر زور دیا۔

اجلاس میں شریک دیگر تمام وائس چانسلرز نے اس بات پر زور دیا کہ اگر طلبہ یونین کے ڈھانچہ کے ساتھ بحال کیا گیا تو بحال ہونے والی طلبہ یونین سیاست کا شکار ہوجائیں گی۔

ان صاحبان علم و دانش نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ طلبہ یونین کی بحالی سے یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت اور اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ یہ وائس چانسلر صاحبان طلبہ سوسائٹیز کی بحالی کے حق میں ہیں۔

محکمہ کے سیکریٹری صاحب نے وائس چانسلر صاحبان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سمری وزیر اعلیٰ کو بھجوادی۔ روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر صفدر رضوی نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ یونیورسٹیوں میں طلبہ سوسائٹیز کے قیام کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔

جمہوری نظام پر تحقیق کرنے والے محققین کی رائے ہے کہ طلبہ یونین جمہوری نظام کا بنیادی ادارہ ہے۔ برطانوی ہند حکومت نے گزشتہ سے پیوستہ صدی میں ہندوستان میں یونیورسٹیاں قائم کیں تو کچھ برسوں بعد ان یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین قائم ہوئیں۔ بٹوارے کے بعد پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کا قیام عمل میں آیا۔

ابتدائی برسوں میں طلبہ یونین کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا کالج پرنسپل کے سپرد تھی۔ ایوب خان کے دورِ اقتدار میں طلبہ کو اپنی یونین کا صدر منتخب کرنے کا حق حاصل ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں یونیورسٹیوں کے قانون میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اب یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں میں طالب علموں کو نمایندگی مل گئی۔

جنرل ضیاء الحق نے اس ملک سے جمہوری کلچر کے خاتمہ کے لیے کئی اقدامات کیے۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی جس کی بناء پر کلاشنکوف کلچر عام ہوا اور خطرناک منشیات آسانی سے دستیاب ہونے لگیں۔

کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو تعلیمی اداروں میں داخل کیا گیا جس کی بناء پر ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال ملک بھر میں خراب ہونے لگی۔

طلبہ کو 1973کے آئین کی بحالی کی جمہوری تحریک میں شمولیت سے روکنے کے لیے ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت یونیورسٹیوں میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے عام انتخابات ملتوی کیے ، طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی ، اخبارات پر سنسر شپ عائد ہوئی۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افضل ظلہ نے دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے رکن کی عرضداشت پر ابتدائی طور پر طلبہ یونین انتخابات کے انعقاد کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا۔ جسٹس افضل ظلہ نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں طلبہ یونین پر پابندی ختم کی۔

اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر جسٹس افضل ظلہ کے فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں مسلسل طلبہ یونین کی بحالی کے لیے آگہی کی مہم چلاتی رہیں۔


سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ اقتدار میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد نے پورے ملک میں مظاہرے کیے۔ عمران خان اور بلاول بھٹو نے طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک سے یکجہتی کا اظہار کیا مگر تحریک انصاف کی سابقہ حکومت طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی نہ کرسکی۔

بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر 2019میں سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کا قانون منظور کیا۔ گزشتہ سال اس قانون پر عملدرآمد کے لیے قواعد و ضوابط کا نوٹیفکیشن جاری ہوا مگر اب سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں کی اساتذہ کی سوسائٹیز میں طلبہ یونین کی بحالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

گزشتہ صدی کی 80کی دہائی میں طلبہ یونین کا ادارہ ختم ہوا، یوں 42-43 برسوں میں لاکھوں طالب علم یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئے۔

ان میں سے بہت سے یونیورسٹیوں میں لیکچرار مقرر ہوئے اور مختلف عہدوں سے گزرتے ہوئے وائس چانسلر کے عہدوں پر تعینات ہوئے۔ یہ وائس چانسلر طلبہ یونین کے تجربہ سے نہیں گزرے۔ ان میں سے بیشتر وائس چانسلر اپنے رویوں میں مطلق العنان ہیں اور ان کے رفقاء کو یہ خوف ہے کہ اگر طلبہ یونین بحال ہوئی اور طلبہ کے نمایندے یونیورسٹی کے بنیادی فیصلہ ساز اداروں سنڈیکیٹ اور سینیٹ وغیرہ کے رکن بنے تو پھر ان اداروں کو فیصلہ کرتے ہوئے طلبہ کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

اس وقت معروضی صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ بعض طلبہ تنظیموں سے مفاہمت سے کام چلاتی ہے۔ ان طلبہ تنظیموں کے عہدیدار اورکارکن طلبہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے مگر جب تک طلبہ یونین موجود تھی یونیورسٹیوں میں ٹیچرز سوسائٹی کا کردار خاصا محدود تھا مگر طلبہ یونین پر پابندی کے بعد ٹیچرز سوسائٹی کا بنیادی کردار بن گیا۔

کراچی یونیورسٹی کی ٹیچرز سوسائٹی کی تاریخ جاننے والے کچھ سابق اساتذہ کی یہ رائے ہے کہ برسوں سے یونیورسٹی انتظامیہ ٹیچرز سوسائٹی کی ڈکٹیشن پر فیصلے کرتی رہی ہے ، اب اگر طلبہ یونین بحال ہوئی تو ٹیچرز سوسائٹی کا موجودہ کردار کم ہوجائے گا۔

سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے لیے محدود دائرہ میں کام کرنے والی طلبہ سوسائٹیز زیادہ قابل قبول ہیں۔ طلبہ سوسائٹیز منتخب طلبہ یونین کا نعم البدل نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ سوسائٹیز کے عہدیداران کے انتخاب کو آسانی سے ریگولیٹ کرسکے گی۔

سوسائٹیز کے عہدیدار اپنی انتظامیہ سے اسمارٹ کلاس رومز، تجربہ گاہوں میں آلات اور کیمیکل کی فراہمی، نئے کلاس رومز کی تعمیر، کھیل کی سہولتوں اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی جیسے معاملات پر سوال نہیں کرسکیں گے، نا ہی یہ سوسائٹیز سندھ کی یونیورسٹیوں کی محدود گرانٹ کی بناء پر یونیورسٹیوں کی زبوں حالی کا حال حکام بالا کے سامنے پیش کرسکیں گی اور نا ہی اپنی انتظامیہ سے فنڈز کے شفاف استعمال کے بارے میں کوئی مدعا بیان کرسکیں گی ، یہ سوسائٹیز تو پہلے سے قائم ہیں۔ اس طرح طلبہ کی یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی نہیں ہوسکے گی۔

بنیادی طور پر یہ تصور ہی غلط ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی سے یونیوسٹیوں میں سیاسی اثر و رسوخ بڑھے گا۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کی پروردہ طلبہ تنظیمیں یونیورسٹی کے معاملات کو کنٹرول کرتی رہی ہیں۔

ان طلبہ تنظیموں کے دباؤ پر داخلے دیے جاتے رہے ہیں۔ ان تنظیموں کی زیادہ دلچسپی یونیورسٹیوں کے شعبہ امتحانات سے رہی ہے۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کے تقرر میں ان تنظیموں کا کردار بہت بڑھ گیا تھا مگر ان تنظیموں کی سرپرستی صوبائی اور وفاقی حکومتیں کرتی تھیں۔

خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ان تنظیموں کے عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکار شہر میں اسلحہ کی غیر قانونی فروخت کو نظرانداز کرتے تھے۔ سندھ کی یونیورسٹیوں میں جو عناصر فائرنگ اور طلبہ کے قتل جیسے جرائم میں ملوث تھے ان کی سرپرستی بھی کسی نہ کسی کی طرف سے کی جاتی تھی۔

طلبہ یونین اکثریتی طلبہ کی نمایندہ ہوتی ہے، اگر انتظامیہ اور دیگر ایجنسیاں ناپسندیدہ عناصر کی سرپرستی نہ کریں تو منتخب طلبہ یونین ان عناصر کی سرکوبی کرسکتی ہے۔ طلبہ یونین کے ادارہ سے طالب علم کی کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنے کی ترغیب ہوتی ہے۔ طلبہ یونین کے عہدیداروں کے لیے تمام امتحانات پاس کرنا ضروری ہوتے ہیں۔

گزشتہ 75 برسوں کی تاریخ شاہد ہے کہ عملی زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے اکابرین طلبہ یونین کے عہدیدار رہے ہیں۔ ان میں صرف سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ نامور ڈاکٹر، انجنیئر، بینکرز، وکیل، صحافی اور سوشل ایکٹیوسٹ شامل ہیں۔ سندھ کی حکومت کا فرض ہے کہ منتخب اسمبلی سے منظور شدہ قانون کے تحت طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے اقدامات کرے۔

انتظامیہ یونیورسٹی انتظامیہ کی امن و امان کی بحالی اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں مکمل مدد فراہم کرے، یوں طلبہ یونین کے ادارے کے مستحکم ہونے سے ملک میں رواداری ، برداشت اور جمہوری کلچر مستحکم ہوگا۔
Load Next Story