200 روپے کی چیز 2 روپے میں
آپ عنوان پڑھ کر ہنس رہے ہونگے۔ ہاں ٹھیک ہے یہ آپ کا قصور نہیں ہے۔
آپ عنوان پڑھ کر ہنس رہے ہونگے۔ ہاں ٹھیک ہے یہ آپ کا قصور نہیں ہے۔ عنوان میں بات ہی کچھ ایسی ہے کہ پڑھنے والے کو ہنسی آنا فطری تقاضہ ہے، بات ہی ناقابل فہم ہے۔ بھلا 200 روپے کی چیز دو روپے میں کیوں کر فروخت ہو گی۔یہ بات ہمارے معزز اور قابل احترام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہی ہے۔ کیوں کہی ہے؟ اس کا حوالہ کچھ یوں ہے کہ وزیر موصوف بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کے سلسلے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ منطق اس وقت بیان کی جب ان سے ایک معصومانہ سوال کیا گیا تھا کہ ہمارے اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والے وزیراعظم (دو تہائی سے زیادہ) بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے اور بڑھانے کے لیے اس قدر جلدی کیوں کر رہے ہیں جب کہ مخالفین کا ایک بڑا طبقہ اور کاروباری طبقہ دونوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ بھارت ہمارے ساتھ صرف تجارتی شعبے میں ہی نہیں دیگر تمام سیاسی معاملات میں بھی تشددانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور سب سے بڑا تو ''مسئلہ کشمیر'' ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ دو چار دنوں کا معاملہ نہیں بلکہ پورے 66 سال پر پھیلا ہوا متنازعہ مسئلہ ہے۔ دوسری سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ جب کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان دیگر مسائل پر بات کرنے کے مواقع آئے تو صورتحال کچھ یوں بنتی تھی اور اب بھی بنتی ہے کہ بھارت بات چیت کے دوران ''مسئلہ کشمیر'' پر بات کرنے کے لیے کتراتا ہے جب کہ پاکستان بات چیت کے دوران ''مسئلہ کشمیر'' کو ہی سرفہرست رکھتا ہے اس لیے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور بات چیت التوا کا شکار ہوجاتی ہے۔''مسئلہ کشمیر'' تو بھارت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔ یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں تعلقات بحال ہونا تو درکنار اور کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا بیان کردہ صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارے معزز وزیر کی یہ تجویز کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا، بے معنی سی لگتی ہے اور عوامی حلقوں کو تو چھوڑیے، خود ہمارے ملک کا تجارتی اور کاروباری طبقہ اس تجویز سے اتفاق نہیں کر رہا ہے بلکہ مخالفت کر رہا ہے۔
ایسی صورت میں جب تجارتی تعلقات سے وابستہ طبقات ہی مخالفت کر رہے ہوں تو اس تجویز کا پیش رفت ہونا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ تجارتی و کاروباری طبقات کا موقف یہ ہے کہ بھارت سے درآمد ہونے والی اشیا (جو ہمارے ملک میں بھی دستیاب ہیں) ہماری مارکیٹوں میں آئیں گی تو وہ سستی ہونے کی بنا پر ہماری مصنوعات پر اثرانداز ہوگی اور ہماری معیشت ہر طرح سے زوال پذیر ہوجائے گی۔ تو جناب! ایسی صورت میں ہمارا تجارتی و کاروباری طبقہ بھارت سے تجارتی تعلقات قائم کرنے پر کسی قیمت پر راضی نہیں ہوسکتا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاتا کہ بلاشبہ تجارتی تعلقات قائم ہوجائینگے تو دیگر مسائل کے تحفظات دور کرنے میں اور ان کے حل کرنے میں مدد ملے گی جیسے کہ جب الجھے ہوئے دھاگے کی الجھن کو دور کرنے کے لیے اس کا سرا ڈھونڈنا ہوتا ہے، اسی طرح الجھے ہوئے مسائل کا حل نکالنے کے لیے کوئی نہ کوئی بیس (Base) قائم کرنا ہوگا۔ اور وہ یہی ہے کہ کسی نہ کسی مسئلے جیسے تجارتی تعلقات کو بنیاد بنا کر دیگر الجھے ہوئے مسائل کو آگے لانے کی راہ کھل جائے گی۔کہنا تو بہت آسان ہے کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرلو مگر یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ناممکن ہے۔ جب سیلاب کا پانی اپنی تیزی کے ساتھ بہتے ہوئے آتا ہے تو راستے کی تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنا راستہ خود بناتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جب قومی معاملات وسائل پر بات چیت شروع ہوجائے گی تو تمام رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی سبیل ہو جائے گی بشرطیکہ بات چیت خلوص و نیک نیتی سے آگے بڑھے ورنہ یوں ہی دھکم پیل اور ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو پھر بات وہیں پہنچے گی کہ ''نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی''۔ تجارتی تعلقات کا بحال ہونا نیک شگون ثابت ہوگا تو دیگر مسائل کے حل کرنے میں بھی آسانیاں پیدا ہونگی، ابتدا ہی میں اعتراضات، شک و شبہات، ناپسندیدگی، جارحانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہوگا تو الجھے ہوئے مسائل کا نہ سرا ملے گا نہ ہی مسائل سلجھنے کے کوئی آثار نظر آئینگے۔
بات ہے نہایت غوروفکر کی، محض طفلانہ گفتگو یا لٹھ مار گفتگو کرنے سے نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ پیاسا کنوئیں کے پاس جاتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں آتا چونکہ ہماری معیشت پیاسی ہے، زبوں حالی کی حالت میں ہے اس لیے ہمیں ہمارے ہمسایہ ملک سے رجوع کرنا ہوگا۔کیا ہم اس حقیقت سے آنکھیں چرا سکتے ہیں کہ دونوں ممالک نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی تھی لیکن ہمارے ہمسایہ ملک نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لیے خلوص نیت، نیک نیتی اور قومی جذبے کے ساتھ کام کیا۔ مسلسل ترقی کی جانب گامزن رہنے کے لیے سماجی، سیاسی، قانونی میدانوں میں بے حساب اصلاحات اور ترامیم کیں جن میں سب سے اولین انقلاب زرعی اصلاحات نافذ کر کے آگے بڑھنا ہے اور مختلف شعبوں کو بھی ترقیاتی منزل تک پہنچانے کے لیے انتھک محنت کرتے رہے بالآخر اپنے ملک کو نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا بلکہ ایشیا اور برصغیر کا سپر پاور بنادیا۔ تمام ایشیائی ممالک راہ تکتے رہ گئے لیکن سوائے ہمارے ملک کے دیگر ایشیائی ممالک نے بھارت کے ترقی پانے کے راستوں پر چلنا شروع کردیا انھوں نے بھی اپنے ممالک کو ترقی یافتہ بنانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ آج وہ بھی ہمارے ملک سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں ہمارے ملک کی بدقسمتی ہی تھی کہ ابتدا ہی سے ہمارے حکمراں رشوت، بدعنوانی، لاقانونیت، لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ذاتی مفادات جیسے عوامل میں غرق ہوگئے جس کا خمیازہ ملک و قوم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت ہمسایہ ملک سے تعلقات (تجارتی، سماجی، معاشرتی) قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن یہ بات ضرور ذہن میں رکھنا ہوگی کہ عوامی و قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تعلقات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی لیکن جو بات ہمارے معزز وزیر اطلاعات و نشریات نے کہی ہے وہ ہی میرے مضمون کا موضوع بنی، وہ کیا؟ کہ واہگہ بارڈر کے ذریعے تجارتی تعلقات قائم ہونگے تو 200 روپے مالیت کی درآمدی اشیا ہمارے ملک میں دو روپے میں دستیاب ہونگی جب کہ دبئی کے راستے اسمگل ہونے والی دو روپے والی اشیا ہمارے ہاں 200 روپے میں دستیاب ہوتی ہیں۔ میں از خود معاشی ماہر تو ہوں نہیں کہ وزیر موصوف کی اس تجویز پر اپنی رائے یا اپنا تجزیہ مسلط کروں، یہ تو ماہرین معاشیات ہی تجارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی دینگے۔ بعض سیاسی حلقوں سے تو یہ بھی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا بلکہ یہ محض ایک سیاسی شوشہ چھوڑا گیا ہے تاکہ عوام کی توجہ ان کے اپنے مسائل (بھوک، مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی وغیرہ) کی طرف سے ہٹایا جانا ہے۔ صرف تجارتی تعلقات بحالی سے کام نہیں چلے گا دیگر اور بھی عوامی مسائل (دونوں ممالک کے درمیان) حل طلب ہیں ان کی طرف بھی توجہ دے کر حل نکالنا ہوگا۔
ایسی صورت میں جب تجارتی تعلقات سے وابستہ طبقات ہی مخالفت کر رہے ہوں تو اس تجویز کا پیش رفت ہونا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ تجارتی و کاروباری طبقات کا موقف یہ ہے کہ بھارت سے درآمد ہونے والی اشیا (جو ہمارے ملک میں بھی دستیاب ہیں) ہماری مارکیٹوں میں آئیں گی تو وہ سستی ہونے کی بنا پر ہماری مصنوعات پر اثرانداز ہوگی اور ہماری معیشت ہر طرح سے زوال پذیر ہوجائے گی۔ تو جناب! ایسی صورت میں ہمارا تجارتی و کاروباری طبقہ بھارت سے تجارتی تعلقات قائم کرنے پر کسی قیمت پر راضی نہیں ہوسکتا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاتا کہ بلاشبہ تجارتی تعلقات قائم ہوجائینگے تو دیگر مسائل کے تحفظات دور کرنے میں اور ان کے حل کرنے میں مدد ملے گی جیسے کہ جب الجھے ہوئے دھاگے کی الجھن کو دور کرنے کے لیے اس کا سرا ڈھونڈنا ہوتا ہے، اسی طرح الجھے ہوئے مسائل کا حل نکالنے کے لیے کوئی نہ کوئی بیس (Base) قائم کرنا ہوگا۔ اور وہ یہی ہے کہ کسی نہ کسی مسئلے جیسے تجارتی تعلقات کو بنیاد بنا کر دیگر الجھے ہوئے مسائل کو آگے لانے کی راہ کھل جائے گی۔کہنا تو بہت آسان ہے کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرلو مگر یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ناممکن ہے۔ جب سیلاب کا پانی اپنی تیزی کے ساتھ بہتے ہوئے آتا ہے تو راستے کی تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنا راستہ خود بناتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جب قومی معاملات وسائل پر بات چیت شروع ہوجائے گی تو تمام رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی سبیل ہو جائے گی بشرطیکہ بات چیت خلوص و نیک نیتی سے آگے بڑھے ورنہ یوں ہی دھکم پیل اور ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو پھر بات وہیں پہنچے گی کہ ''نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی''۔ تجارتی تعلقات کا بحال ہونا نیک شگون ثابت ہوگا تو دیگر مسائل کے حل کرنے میں بھی آسانیاں پیدا ہونگی، ابتدا ہی میں اعتراضات، شک و شبہات، ناپسندیدگی، جارحانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہوگا تو الجھے ہوئے مسائل کا نہ سرا ملے گا نہ ہی مسائل سلجھنے کے کوئی آثار نظر آئینگے۔
بات ہے نہایت غوروفکر کی، محض طفلانہ گفتگو یا لٹھ مار گفتگو کرنے سے نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ پیاسا کنوئیں کے پاس جاتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں آتا چونکہ ہماری معیشت پیاسی ہے، زبوں حالی کی حالت میں ہے اس لیے ہمیں ہمارے ہمسایہ ملک سے رجوع کرنا ہوگا۔کیا ہم اس حقیقت سے آنکھیں چرا سکتے ہیں کہ دونوں ممالک نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی تھی لیکن ہمارے ہمسایہ ملک نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لیے خلوص نیت، نیک نیتی اور قومی جذبے کے ساتھ کام کیا۔ مسلسل ترقی کی جانب گامزن رہنے کے لیے سماجی، سیاسی، قانونی میدانوں میں بے حساب اصلاحات اور ترامیم کیں جن میں سب سے اولین انقلاب زرعی اصلاحات نافذ کر کے آگے بڑھنا ہے اور مختلف شعبوں کو بھی ترقیاتی منزل تک پہنچانے کے لیے انتھک محنت کرتے رہے بالآخر اپنے ملک کو نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا بلکہ ایشیا اور برصغیر کا سپر پاور بنادیا۔ تمام ایشیائی ممالک راہ تکتے رہ گئے لیکن سوائے ہمارے ملک کے دیگر ایشیائی ممالک نے بھارت کے ترقی پانے کے راستوں پر چلنا شروع کردیا انھوں نے بھی اپنے ممالک کو ترقی یافتہ بنانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ آج وہ بھی ہمارے ملک سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں ہمارے ملک کی بدقسمتی ہی تھی کہ ابتدا ہی سے ہمارے حکمراں رشوت، بدعنوانی، لاقانونیت، لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ذاتی مفادات جیسے عوامل میں غرق ہوگئے جس کا خمیازہ ملک و قوم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت ہمسایہ ملک سے تعلقات (تجارتی، سماجی، معاشرتی) قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن یہ بات ضرور ذہن میں رکھنا ہوگی کہ عوامی و قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تعلقات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی لیکن جو بات ہمارے معزز وزیر اطلاعات و نشریات نے کہی ہے وہ ہی میرے مضمون کا موضوع بنی، وہ کیا؟ کہ واہگہ بارڈر کے ذریعے تجارتی تعلقات قائم ہونگے تو 200 روپے مالیت کی درآمدی اشیا ہمارے ملک میں دو روپے میں دستیاب ہونگی جب کہ دبئی کے راستے اسمگل ہونے والی دو روپے والی اشیا ہمارے ہاں 200 روپے میں دستیاب ہوتی ہیں۔ میں از خود معاشی ماہر تو ہوں نہیں کہ وزیر موصوف کی اس تجویز پر اپنی رائے یا اپنا تجزیہ مسلط کروں، یہ تو ماہرین معاشیات ہی تجارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی دینگے۔ بعض سیاسی حلقوں سے تو یہ بھی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا بلکہ یہ محض ایک سیاسی شوشہ چھوڑا گیا ہے تاکہ عوام کی توجہ ان کے اپنے مسائل (بھوک، مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی وغیرہ) کی طرف سے ہٹایا جانا ہے۔ صرف تجارتی تعلقات بحالی سے کام نہیں چلے گا دیگر اور بھی عوامی مسائل (دونوں ممالک کے درمیان) حل طلب ہیں ان کی طرف بھی توجہ دے کر حل نکالنا ہوگا۔