کراچی کے نئے میئر
عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کو چھوڑ کر کسی نے اِس شہر کی حالت کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی
قارئینِ کرام! اِس بات کا ہم بار بار اعادہ کرتے رہے ہیں اور آج پھر کر رہے ہیں ، ہماری وابستگی نہ کسی سیاسی جماعت سے اور نہ کسی مخصوص گروہ سے ہے۔
ہماری وابستگی اگر کسی سے ہے تو وہ ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ ہمارا جینا مرنا اور اوڑھنا بچھونا پاکستان سے ہے۔ ہر وہ شخص، ہر وہ سیاسی جماعت، ہر وہ گروہ جو پاکستان کو اولیت دیتا ہے اور اُس کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے ہماری ہمدردی اُسی کے ساتھ ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو بنتے ہوئے اور بگڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
یقین مانیے کہ جب وطنِ عزیز دو لخت ہوا تھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا تھا جیسے ہمارا دل دو لخت ہوگیا ہو۔ نہ کچھ کھانے کو جی چاہتا تھا اور نہ پینے کو۔ انتہا تو یہ ہے کہ کسی سے بات تک کرنے کو جی چاہتا تھا۔ ایک پژمردگی کا عالم تھا۔
اِس کیفیت سے نکلنے کے لیے خاصہ طویل عرصہ گزرا۔ ہمارے بزرگ تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔
ہماری عمر سات آٹھ سال کی تھی اور ہم دہلی میں ہونے والے خوں ریز فسادات کے احوال سے پوری طرح واقف تھے بلکہ ہمیں جان بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ ایک رفیوجی کیمپ میں بھی کچھ عرصہ کے لیے پناہ لینی پڑی تھی۔
ہمارے خاندان کا ارادہ تھا کہ دلی سے کسی اسپیشل ٹرین میں سوار ہوکر لاہور پہنچا جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پنجاب میں ہندو اور سِکھ مل کر مسلمانوں کو گاجر مُولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔
ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ملک کی باگ ڈور اُن لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جن کو اِس کا قطعی احساس نہیں ہے اور جن کا کام اقتدار کے مزے لُوٹنا ہے۔
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
وطنِ عزیز کنگال ہوگیا ہے اور ہمارے لیڈروں کی ہوس کا ٹوکرا بھرنے نہیں پا رہا۔ سچ پوچھیے کہ اگر کسی طور یہ لوٹا ہوا پیسہ وطن واپس آجائے تو ملک کی قسمت بدل جائے۔
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے اُس وقت یہ خبریں گرم ہیں کہ قومی خزانہ میں صرف چار ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ باقی رہ گیا ہے اور پیٹرول کا ذخیرہ صرف دو ہفتہ تک استعمال کے لیے دستیاب ہوگا۔
اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی ہیں اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گلی گلی اور کوچہ کوچہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ برسرِاقتدار ٹولہ اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور حسبِ مخالف ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔
چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن عام انتخابات جلد سے جلد کروائے جائیں۔ عام انتخابات کوئی ہنسی مذاق نہیں کیونکہ یہ اربوں روپے کا کھیل ہے اور حالت یہ ہے کہ اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انتخابات صاف، شفاف اور غیر متنازعہ نہیں ہوںگے اور ہارنے والی پارٹی خواہ کوئی بھی ہو الیکشن کے نتائج کو تسلیم اور قبول کرلے گی لہٰذا عام انتخابات ایک مَشقِ رائیگاں کے سوا اور کچھ نہ ہوں گے۔ بس وہی ڈھاک کے تین پات۔ سیاسی جماعتوں میں ذرا سی بھی لچک نہیں ہے اور روز بروز جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے۔
کراچی طویل عرصہ سے لاوارث شہر ہے، شہر کو موئن جو دڑو کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آپ اِسے لطیفہ نہ سمجھیے کہ یہاں کی حاملہ خواتین کو زچگی کے لیے کسی میٹرنٹی ہوم جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں کے کھَڈے ہی اِس کام کے لیے کافی ہیں۔
یہاں کئی میئر تبدیل ہوچُکے ہیں لیکن دو میئروں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کو چھوڑ کر کسی نے اِس شہر کی حالت کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ تیسرے میئر مصطفی کمال نے یہ کمال ضرور کیا کہ نعمت اللہ خان کے شروع کیے گئے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور کچھ نئی کاوشیں بھی کیں۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن کو متعدد حِیلوں بہانوں سے بار بار ملتوی کیا جاتا رہا اور '' کفُر ٹوٹا خدا خدا کرکے '' کے مِصداق حالیہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہوا جس میں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت خوب دھاندلی کروائی گئی اور جماعتِ اسلامی کے امیدوار انجینیئر حافظ نعیم الرحمن کو جو یقینی فتح کے حامل تھے ہرانے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی جو پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔ برقؔ لکھنوی نے ٹھیک ہی کہا ہے:
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اَب ہم اُس خط کی طرف آتے ہیں جو ہمیں ہمارے مستقل قاری محمد فہیم اشرف نے ہمیں بذریعہ ای میل بھیجا ہے۔ خط کا متن یہ ہے:
موجودہ ملکی حالات اور معاشرے کو سدھارنے میں یقیناً آپ کے کالم بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کراچی کے بلدیاتی الیکشنز میں نتائج تبدیل کرنے کی مذموم حرکت سے آپ واقف ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے امیدوار کے جیتنے کے ثبوت جو کہ فارم 11 کی صورت میں پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط کے ساتھ موجود ہیں لیکن ریٹرننگ آفیسر اس کے برعکس پی پی پی کے حق میں نتیجے کا اعلان کر دیتا ہے۔ بہت احتجاج کے بعد بھی 9 میں سے صرف 2 نتیجے درست کیے جاتے ہیں۔
محمد فہیم اشرف ہماری حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکریہ۔ جواباً عرض ہے کہ کسی بھی ممکنہ اختلاف کے باوجود اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جماعتِ اسلامی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا ریکارڈ آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہے جس کی حب الوطنی اور خدمت گذاری بے داغ ہے۔ اِس کی گراس رُوٹ سطح کی کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ مزید عرض یہ ہے کہ:
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
توقع ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اِس شہر کی کایا پلٹ دیں گے۔
ہماری وابستگی اگر کسی سے ہے تو وہ ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ ہمارا جینا مرنا اور اوڑھنا بچھونا پاکستان سے ہے۔ ہر وہ شخص، ہر وہ سیاسی جماعت، ہر وہ گروہ جو پاکستان کو اولیت دیتا ہے اور اُس کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے ہماری ہمدردی اُسی کے ساتھ ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو بنتے ہوئے اور بگڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
یقین مانیے کہ جب وطنِ عزیز دو لخت ہوا تھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا تھا جیسے ہمارا دل دو لخت ہوگیا ہو۔ نہ کچھ کھانے کو جی چاہتا تھا اور نہ پینے کو۔ انتہا تو یہ ہے کہ کسی سے بات تک کرنے کو جی چاہتا تھا۔ ایک پژمردگی کا عالم تھا۔
اِس کیفیت سے نکلنے کے لیے خاصہ طویل عرصہ گزرا۔ ہمارے بزرگ تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔
ہماری عمر سات آٹھ سال کی تھی اور ہم دہلی میں ہونے والے خوں ریز فسادات کے احوال سے پوری طرح واقف تھے بلکہ ہمیں جان بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ ایک رفیوجی کیمپ میں بھی کچھ عرصہ کے لیے پناہ لینی پڑی تھی۔
ہمارے خاندان کا ارادہ تھا کہ دلی سے کسی اسپیشل ٹرین میں سوار ہوکر لاہور پہنچا جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پنجاب میں ہندو اور سِکھ مل کر مسلمانوں کو گاجر مُولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔
ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ملک کی باگ ڈور اُن لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جن کو اِس کا قطعی احساس نہیں ہے اور جن کا کام اقتدار کے مزے لُوٹنا ہے۔
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
وطنِ عزیز کنگال ہوگیا ہے اور ہمارے لیڈروں کی ہوس کا ٹوکرا بھرنے نہیں پا رہا۔ سچ پوچھیے کہ اگر کسی طور یہ لوٹا ہوا پیسہ وطن واپس آجائے تو ملک کی قسمت بدل جائے۔
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے اُس وقت یہ خبریں گرم ہیں کہ قومی خزانہ میں صرف چار ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ باقی رہ گیا ہے اور پیٹرول کا ذخیرہ صرف دو ہفتہ تک استعمال کے لیے دستیاب ہوگا۔
اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی ہیں اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گلی گلی اور کوچہ کوچہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ برسرِاقتدار ٹولہ اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور حسبِ مخالف ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔
چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن عام انتخابات جلد سے جلد کروائے جائیں۔ عام انتخابات کوئی ہنسی مذاق نہیں کیونکہ یہ اربوں روپے کا کھیل ہے اور حالت یہ ہے کہ اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انتخابات صاف، شفاف اور غیر متنازعہ نہیں ہوںگے اور ہارنے والی پارٹی خواہ کوئی بھی ہو الیکشن کے نتائج کو تسلیم اور قبول کرلے گی لہٰذا عام انتخابات ایک مَشقِ رائیگاں کے سوا اور کچھ نہ ہوں گے۔ بس وہی ڈھاک کے تین پات۔ سیاسی جماعتوں میں ذرا سی بھی لچک نہیں ہے اور روز بروز جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے۔
کراچی طویل عرصہ سے لاوارث شہر ہے، شہر کو موئن جو دڑو کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آپ اِسے لطیفہ نہ سمجھیے کہ یہاں کی حاملہ خواتین کو زچگی کے لیے کسی میٹرنٹی ہوم جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں کے کھَڈے ہی اِس کام کے لیے کافی ہیں۔
یہاں کئی میئر تبدیل ہوچُکے ہیں لیکن دو میئروں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کو چھوڑ کر کسی نے اِس شہر کی حالت کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ تیسرے میئر مصطفی کمال نے یہ کمال ضرور کیا کہ نعمت اللہ خان کے شروع کیے گئے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور کچھ نئی کاوشیں بھی کیں۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن کو متعدد حِیلوں بہانوں سے بار بار ملتوی کیا جاتا رہا اور '' کفُر ٹوٹا خدا خدا کرکے '' کے مِصداق حالیہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہوا جس میں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت خوب دھاندلی کروائی گئی اور جماعتِ اسلامی کے امیدوار انجینیئر حافظ نعیم الرحمن کو جو یقینی فتح کے حامل تھے ہرانے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی جو پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔ برقؔ لکھنوی نے ٹھیک ہی کہا ہے:
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اَب ہم اُس خط کی طرف آتے ہیں جو ہمیں ہمارے مستقل قاری محمد فہیم اشرف نے ہمیں بذریعہ ای میل بھیجا ہے۔ خط کا متن یہ ہے:
موجودہ ملکی حالات اور معاشرے کو سدھارنے میں یقیناً آپ کے کالم بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کراچی کے بلدیاتی الیکشنز میں نتائج تبدیل کرنے کی مذموم حرکت سے آپ واقف ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے امیدوار کے جیتنے کے ثبوت جو کہ فارم 11 کی صورت میں پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط کے ساتھ موجود ہیں لیکن ریٹرننگ آفیسر اس کے برعکس پی پی پی کے حق میں نتیجے کا اعلان کر دیتا ہے۔ بہت احتجاج کے بعد بھی 9 میں سے صرف 2 نتیجے درست کیے جاتے ہیں۔
محمد فہیم اشرف ہماری حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکریہ۔ جواباً عرض ہے کہ کسی بھی ممکنہ اختلاف کے باوجود اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جماعتِ اسلامی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا ریکارڈ آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہے جس کی حب الوطنی اور خدمت گذاری بے داغ ہے۔ اِس کی گراس رُوٹ سطح کی کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ مزید عرض یہ ہے کہ:
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
توقع ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اِس شہر کی کایا پلٹ دیں گے۔