’’میرا جان خان‘‘ کا وکیل
ایک نے کہا کہ نواب صاحب کے یہ بٹیر صرف بٹیر ہی نہیں بلکہ بیرسٹر بھی تھا
یہ منصب خاص جس پر آج کل ہماری کرینہ سیف فائز ہے یعنی پٹودی خاندان کی معاونہ خصوصیہ برائے اطلاعیہ،ویسے تو یہ منصب اب سرکاری سیکٹر میں آگیا ہے لیکن اگلے وقتوں میں یہ منصب پرائیویٹ سیکٹر میں رہاہے۔
اکثر بادشاہ، امیرکبیر، نواب،رئیس اورسرکردہ لوگ اپنے ساتھ ایک یا چند معاونین خصوصی برائے اطلاعات وصفات رکھتے تھے جو ''بینگن'' کے نوکر ہرگزنہیں ہوتے تھے بلکہ نواب صاحب کے نوکر ہوتے تھے اور ہروقت اپنے ممدوح کی مدح سرائی کے لیے مواقعے ڈھونڈتے تھے بلکہ ممدوح کے کتے، بلیوں، گدھے، گھوڑوں، طوطوں، بٹیروں میں بھی دنیا جہاں کی خوبیاں ڈھونڈتے بلکہ ڈالتے رہتے ہیں، مثلاً ایک مرتبہ نواب صاحب کے مرحوم ''بٹیر'' کاذکر آیا تو معاونین خصوصی باری باری اٹھ کر بٹیر کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے لگے۔
ایک نے کہا کہ نواب صاحب کے یہ بٹیر صرف بٹیر ہی نہیں بلکہ بیرسٹر بھی تھا۔ دوسرے نے کہا، میں نے خود دیکھا تھا کہ نواب صاحب کا بٹیر نماز بھی پڑھتا تھا، تیسرے نے کہا، میں نے دیکھا تھا کہ رمضان شریف میں دانہ بالکل نہیں کھاتا تھا بلکہ پانی تک نہیں پیتا تھا۔ چوتھے نے کہا اکثر اخبار بھی پڑھ لیتاتھا بلکہ اپنی زبان میں بیان بھی دے دیتا تھا۔
قصے کہانیاں ایک طرف رہیں، ہم نے خود ایسے ہی معاون خصوصی کو ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا اور بے گناہ کانوں سے سناتھا ۔یہ انیس سو اٹھاسی کا زمانہ تھا، ہم بمبئی موجودہ ممبائی کے علاقے ڈینگری میں حاجی کریم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
حاجی کریم خان کا ذکر ہم پہلے بھی کہیں کرچکے ہیں، ایک وقت میں بمبئی کا ''ڈان'' تھا اور اس کی ایک دوسرے ڈان حاجی مستان سے ہمیشہ گینگ وار چلتی تھی لیکن اب وہ سب کچھ چھوڑ کر حاجی کریم ہوگیا تھا اور پورے بھارت میں پختون جرگہ ہند کا چیئرمین تھا۔
اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے اس کے گہرے مراسم رہے تھے چنانچہ جہاں بھی پختونوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا، وہ لوگ حاجی صاحب کے پاس آتے تھے، ان ہی دنوں ان کے پاس کلکتہ کاایک افغان نژاد آدمی ''میرا جان خان ''کسی مسئلے کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔
''میرا جان خان''کے ساتھ ان کاچمچہ خصوصی بھی تھا، نام تو اس کا کوئی اور تھا لیکن ''میراجان خان'' اسے وکیل کہہ کر پکارتا تھا ۔وہ کوئی چوبیس گھنٹے وہاں رہے، حاجی کریم اوردوسرے کئی لوگوں سے ''میراجان خان'' کی بات چیت چلتی رہی اوراس تمام وقت میں معاون خصوصی عرف وکیل میرے دائیں کان میں میرا جان خان کی صفات اور فتوحات انڈیلتا رہا۔ میراجان خان کاکلکتہ میں بڑا رسوخ ہے ۔گورنر بھی میرا جان خان سے ملتا ہے، بنگال کا سی ایم بھی میرا جان خان کا قدردان ہے ۔
میراجان خان بہت بڑا شاعر بھی ہے ،میراجان خان بہت نڈر آدمی ہے ۔میراجان خان صرف کلکتہ میں نہیں پورے بنگال میں مشہورہے ۔میرا جان خان، میراجان خان اور پھر میرا جان ، مجال ہے جو اس نے کوئی بھی دوسری بات کہی ہو۔صرف میرا جان خان پر اس کی سوئی اٹکی ہوئی تھی اوروہ بھی اس انتظام کے ساتھ کہ اس کی ''اطلاعات'' دوسروں کے ساتھ ساتھ خود میرا جان خان بھی سن لے۔
وکیل کے بیانات میں نہ صرف ''میرا جان خان'' کی موجودہ صفات وفتوحات کاذکر ہوتاتھا بلکہ اسے میرا جان خان کی ان فتوحات وصفات کا بھی پتہ تھا جو ابھی پوشیدہ اور امکانی صورت میں تھیں اور جن کا خود میرا جان خان کوبھی پتہ نہیں تھا، صرف ''وکیل'' ہی کو معلوم تھیں اور اکثرانکشافی بیانات جاری کرتا مثلاً اگر میرا جان خان کو انڈیاکا پی ایم بنا دیا جائے تو چٹکی میں سارے مسائل حل ہوجائیں۔
ایک مرتبہ ہم گاؤں میں جارہے تھے ،ایک جگہ وہ بازار تھا جہاں بھانت بھانت کی بدصورتیاں اور بے تحاشاسرخی پاؤڈر تھوپ کر راہگیروں کو باقاعدہ کھینچ کر اپنے ساتھ لے جانے کی سعی کررہی تھیںکیونکہ اگر وہ نہ کرتیں تو رات کو ان کانائیک یاملک ان کی کھال ادھیڑتا اوررات کو سونے کے بجائے، اپنے زخموں کو ہلدی چونالگانے میں گزارتیں۔
وکیل کو اچانک موقع ملا اور وہ بولا، ان کو میراجان خان جیسے کوئی نڈر افسر چاہیے کہ سب کو ایک دن بوریوں میں ڈال کو سمندربرد کردے۔
ایک اخبار میں خبر آئی کہ بہار میں پولیس والوں نے عوام کے ساتھ کوئی ظلم کیا ہے، وکیل جھٹ سے بول پڑا،نہ ہوا میراجان خان پولیس کاآئی جی ورنہ ان ظالموں کو مزا چکھاتا کہ اگلی پچھلی سات پشتیں توبہ توبہ ...مطلب یہ کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات کامنصب اس نام سے تو موجود نہیں کیوں کہ اس پوسٹ کو سرکاری منصب کی شکل دینے کاسہرہ ہمارے اپنے ''میراجان خان'' کے سرجاتاہے جس کی معاونہ خصوصیہ اطلاعیہ کرینہ سیف ہے ۔
ویسے کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ کرینہ سیف کو دریافت کرنے والے کو کولمبس کاخطاب دیناچاہیے کیونکہ پٹودی خاندان کے لیے اس سے زیادہ بہتر معاونہ خصوصیہ برائے اطلاعیہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتی تھی۔
تیزرفتار اتنی کہ اب اس نے ایک بیان روزانہ '' ترقی'' کے بارے میں دینا شروع کیاہے، ایک بیان وہ جو عین سیف علی خان کے بیان کے نیچے یا برابر میں ہوتا ہے، دوسرا بیان اخبار کے پچھلے صفحے پر اورتیسرا کسی بھی جگہ تصویر کی شکل میں ۔اسے آپ تصویری خبرنامہ بھی کہہ سکتے ہیں ،ایک بیان میں پٹودی خاندان کاذکر ،دوسرے میں امپورٹڈ اداکاہ کترینہ کیف پر گولہ باری اورتیسرے بیان میں سیف علی خان کی مدح سرائی۔
اکثر بادشاہ، امیرکبیر، نواب،رئیس اورسرکردہ لوگ اپنے ساتھ ایک یا چند معاونین خصوصی برائے اطلاعات وصفات رکھتے تھے جو ''بینگن'' کے نوکر ہرگزنہیں ہوتے تھے بلکہ نواب صاحب کے نوکر ہوتے تھے اور ہروقت اپنے ممدوح کی مدح سرائی کے لیے مواقعے ڈھونڈتے تھے بلکہ ممدوح کے کتے، بلیوں، گدھے، گھوڑوں، طوطوں، بٹیروں میں بھی دنیا جہاں کی خوبیاں ڈھونڈتے بلکہ ڈالتے رہتے ہیں، مثلاً ایک مرتبہ نواب صاحب کے مرحوم ''بٹیر'' کاذکر آیا تو معاونین خصوصی باری باری اٹھ کر بٹیر کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے لگے۔
ایک نے کہا کہ نواب صاحب کے یہ بٹیر صرف بٹیر ہی نہیں بلکہ بیرسٹر بھی تھا۔ دوسرے نے کہا، میں نے خود دیکھا تھا کہ نواب صاحب کا بٹیر نماز بھی پڑھتا تھا، تیسرے نے کہا، میں نے دیکھا تھا کہ رمضان شریف میں دانہ بالکل نہیں کھاتا تھا بلکہ پانی تک نہیں پیتا تھا۔ چوتھے نے کہا اکثر اخبار بھی پڑھ لیتاتھا بلکہ اپنی زبان میں بیان بھی دے دیتا تھا۔
قصے کہانیاں ایک طرف رہیں، ہم نے خود ایسے ہی معاون خصوصی کو ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا اور بے گناہ کانوں سے سناتھا ۔یہ انیس سو اٹھاسی کا زمانہ تھا، ہم بمبئی موجودہ ممبائی کے علاقے ڈینگری میں حاجی کریم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
حاجی کریم خان کا ذکر ہم پہلے بھی کہیں کرچکے ہیں، ایک وقت میں بمبئی کا ''ڈان'' تھا اور اس کی ایک دوسرے ڈان حاجی مستان سے ہمیشہ گینگ وار چلتی تھی لیکن اب وہ سب کچھ چھوڑ کر حاجی کریم ہوگیا تھا اور پورے بھارت میں پختون جرگہ ہند کا چیئرمین تھا۔
اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے اس کے گہرے مراسم رہے تھے چنانچہ جہاں بھی پختونوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا، وہ لوگ حاجی صاحب کے پاس آتے تھے، ان ہی دنوں ان کے پاس کلکتہ کاایک افغان نژاد آدمی ''میرا جان خان ''کسی مسئلے کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔
''میرا جان خان''کے ساتھ ان کاچمچہ خصوصی بھی تھا، نام تو اس کا کوئی اور تھا لیکن ''میراجان خان'' اسے وکیل کہہ کر پکارتا تھا ۔وہ کوئی چوبیس گھنٹے وہاں رہے، حاجی کریم اوردوسرے کئی لوگوں سے ''میراجان خان'' کی بات چیت چلتی رہی اوراس تمام وقت میں معاون خصوصی عرف وکیل میرے دائیں کان میں میرا جان خان کی صفات اور فتوحات انڈیلتا رہا۔ میراجان خان کاکلکتہ میں بڑا رسوخ ہے ۔گورنر بھی میرا جان خان سے ملتا ہے، بنگال کا سی ایم بھی میرا جان خان کا قدردان ہے ۔
میراجان خان بہت بڑا شاعر بھی ہے ،میراجان خان بہت نڈر آدمی ہے ۔میراجان خان صرف کلکتہ میں نہیں پورے بنگال میں مشہورہے ۔میرا جان خان، میراجان خان اور پھر میرا جان ، مجال ہے جو اس نے کوئی بھی دوسری بات کہی ہو۔صرف میرا جان خان پر اس کی سوئی اٹکی ہوئی تھی اوروہ بھی اس انتظام کے ساتھ کہ اس کی ''اطلاعات'' دوسروں کے ساتھ ساتھ خود میرا جان خان بھی سن لے۔
وکیل کے بیانات میں نہ صرف ''میرا جان خان'' کی موجودہ صفات وفتوحات کاذکر ہوتاتھا بلکہ اسے میرا جان خان کی ان فتوحات وصفات کا بھی پتہ تھا جو ابھی پوشیدہ اور امکانی صورت میں تھیں اور جن کا خود میرا جان خان کوبھی پتہ نہیں تھا، صرف ''وکیل'' ہی کو معلوم تھیں اور اکثرانکشافی بیانات جاری کرتا مثلاً اگر میرا جان خان کو انڈیاکا پی ایم بنا دیا جائے تو چٹکی میں سارے مسائل حل ہوجائیں۔
ایک مرتبہ ہم گاؤں میں جارہے تھے ،ایک جگہ وہ بازار تھا جہاں بھانت بھانت کی بدصورتیاں اور بے تحاشاسرخی پاؤڈر تھوپ کر راہگیروں کو باقاعدہ کھینچ کر اپنے ساتھ لے جانے کی سعی کررہی تھیںکیونکہ اگر وہ نہ کرتیں تو رات کو ان کانائیک یاملک ان کی کھال ادھیڑتا اوررات کو سونے کے بجائے، اپنے زخموں کو ہلدی چونالگانے میں گزارتیں۔
وکیل کو اچانک موقع ملا اور وہ بولا، ان کو میراجان خان جیسے کوئی نڈر افسر چاہیے کہ سب کو ایک دن بوریوں میں ڈال کو سمندربرد کردے۔
ایک اخبار میں خبر آئی کہ بہار میں پولیس والوں نے عوام کے ساتھ کوئی ظلم کیا ہے، وکیل جھٹ سے بول پڑا،نہ ہوا میراجان خان پولیس کاآئی جی ورنہ ان ظالموں کو مزا چکھاتا کہ اگلی پچھلی سات پشتیں توبہ توبہ ...مطلب یہ کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات کامنصب اس نام سے تو موجود نہیں کیوں کہ اس پوسٹ کو سرکاری منصب کی شکل دینے کاسہرہ ہمارے اپنے ''میراجان خان'' کے سرجاتاہے جس کی معاونہ خصوصیہ اطلاعیہ کرینہ سیف ہے ۔
ویسے کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ کرینہ سیف کو دریافت کرنے والے کو کولمبس کاخطاب دیناچاہیے کیونکہ پٹودی خاندان کے لیے اس سے زیادہ بہتر معاونہ خصوصیہ برائے اطلاعیہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتی تھی۔
تیزرفتار اتنی کہ اب اس نے ایک بیان روزانہ '' ترقی'' کے بارے میں دینا شروع کیاہے، ایک بیان وہ جو عین سیف علی خان کے بیان کے نیچے یا برابر میں ہوتا ہے، دوسرا بیان اخبار کے پچھلے صفحے پر اورتیسرا کسی بھی جگہ تصویر کی شکل میں ۔اسے آپ تصویری خبرنامہ بھی کہہ سکتے ہیں ،ایک بیان میں پٹودی خاندان کاذکر ،دوسرے میں امپورٹڈ اداکاہ کترینہ کیف پر گولہ باری اورتیسرے بیان میں سیف علی خان کی مدح سرائی۔