براڈ کاسٹر عارفہ شمسہ مسرور انور اور میں

جنھوں نے اپنے کام سے پاکستان میں اپنی ایک منفرد شناخت اور پہچان پیدا کی

hamdam.younus@gmail.com

ریڈیو کے بچوں کے پروگرام سے بے شمار بچوں کو کچھ نہ کچھ کہنے اور کرنے کا موقع ملا اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر زندگی کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوئے انھیں بڑی شہرت نصیب ہوئی اور انھوں نے ملک و قوم کے لیے بڑے بڑے کام کیے۔

ریڈیو کے زمانے سے میں دو شخصیات کے بڑا قریب رہا ہوں اور ان دو شخصیات سے انسپائریشن بھی حاصل کی۔ ان شخصیات میں ایک شخصیت عارفہ شمسہ صاحبہ کی تھی اور دوسری شخصیت مسرور انور کی۔ عارفہ شمسہ ریڈیو کی مشہور براڈ کاسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی اور سماجی شخصیت بھی تھیں۔

جنھوں نے اپنے کام سے پاکستان میں اپنی ایک منفرد شناخت اور پہچان پیدا کی۔ مسرور انور کا تعلق بھی ریڈیو پاکستان کراچی ہی سے تھا۔ ابتدا میں وہ ریڈیو کی کمرشل سروس کے اسکرپٹ رائٹر بھی تھے اور پروگرام لکھنے کے ساتھ ساتھ بولتے بھی تھے۔

جب کہ عارفہ شمسہ ریڈیو کی مشہور پروڈیوسر تھیں اور ریڈیو کے لیے ملک کی نام ور شخصیات کے انٹرویوز بھی بڑے خوبصورت انداز میں کرتی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عارفہ شمسہ نے ریڈیو کے بچوں کے پروگرام سے ریڈیو پر آنا شروع کیا اور بہت چھوٹی عمر میں جب وہ پہلی بار ریڈیو کے بچوں کے پروگرام میں آئیں تو پروگرام کے انچارج نام ور آرٹسٹ عبدالماجد بچوں کا پروگرام بھی کیا کرتے تھے۔

عارفہ شمسہ نے اپنا پہلا پروگرام عبدالماجد کی گود میں بیٹھ کر کیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ جب بڑی ہوئیں تو وہ بچوں کے پروگرام کی باجی بن کر کافی عرصے تک ریڈیو سے بچوں کا پروگرام کرتی رہیں۔ ریڈیو پر بے شمار پروگراموں کی میزبان بھی رہیں اور پروگرام لکھتی بھی رہیں اور ریڈیو ان کا گھر آنگن بن چکا تھا۔ عارفہ شمسہ ایک ادبی اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے خاندان کا تعلق غیر منقسم ہندوستان کے شہر میرٹھ سے تھا۔

پھر ان کے والدین میرٹھ سے دہلی میں آ کر بس گئے۔ ان کے والد کا نام امان الحق تھا وہ اپنے دور کے مشہور ادیب اور صحافی بھی تھے۔ اس زمانے میں دہلی سے ان کی ادارت میں دو مشہور رسالے نکلتے تھے جن میں ایک کا نام تھا ''دین اور دنیا'' اور دوسرے رسالے کا نام تھا ''توحید''۔ یہ دونوں رسالے مذہبی نوعیت کے تھے اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے۔

عارفہ شمسہ کے والد اپنے دور میں دہلی کے اعزازی مجسٹریٹ بھی رہ چکے تھے اور ان کا خاندان تحریک پاکستان میں بھی پیش پیش تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا دیوانہ تھا۔ ان کے خاندان نے مسلم لیگ کے پرچم تلے پاکستان کی تحریک کے لیے شب و روز انتھک کام کیا تھا۔ جب ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا اور پاکستان عالم وجود میں آیا تو ہندوستان میں مسلم لیگ سے وابستہ مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی تھی۔

پھر ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ عارفہ شمسہ کو ابتدا ہی سے ایک روشن خیال ماحول ملا تھا۔ عارفہ شمسہ نے کراچی میں تعلیم حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر سماجی خدمات کے شعبوں میں کام کرتی رہیں اور خواتین کے ادارے ''اپوا'' سے وابستہ ہوگئی تھیں۔

اس وقت ''اپوا'' کی روح رواں بیگم رعنا لیاقت علی خان تھی جنھوں نے اپنے شوہر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خود کو سماجی خدمات کے لیے وقف کردیا تھا۔ عارفہ شمسہ پھر رعنا لیاقت علی خان کی دست راس بھی ہوگئی تھیں اور ریڈیو کے بعد سماجی خدمات سے جڑتی چلی گئی تھیں۔

عارفہ شمسہ کراچی کے بعد اسلام آباد چلی گئیں وہاں بھی خواتین کی ترقی کے کاموں سے وابستہ رہیں اور کچھ عرصہ منسٹری آف فیملی پلاننگ میں بھی کام کیا۔ ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت کی طرف سے ان کو ایوارڈ بھی دیا گیا اور سماجی خدمات پر بہترین سوشل ورکر کی حیثیت سے ان کو گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ اسلام آباد میں کافی عرصے تک نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو سے بھی منسلک رہیں۔

ایک بار ایک تقریب میں عبدالستار ایدھی صاحب نے عارفہ شمسہ کی سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری عارفہ شمسہ عورتوں کی عبدالستار ایدھی ہیں اور یہ عارفہ شمسہ کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔


اب میں آتا ہوں دوسری ریڈیو کی نام ور شخصیت مشہور رائٹر اور شاعر مسرور انور کی طرف۔ حسن اتفاق سے ہم دونوں ایک ہی اسکول کے طالب علم تھے۔ مسرور انور انور علی کے نام سے گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن میں جب نویں جماعت کا طالب علم تھا تو میں اس اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب تھا اور میرا نام سید یونس علی تھا۔

مسرور انور اسکول میگزین کا ایڈیٹر تھا اور میں بھی اسکول میگزین کے لیے چھوٹی چھوٹی بچوں کی کہانیاں اور نظمیں لکھتا تھا، اور مسرور انور کی میں گڈبک میں تھا دونوں کی دوستی بھی گہری تھی۔ دونوں نے یکے بعد دیگرے گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ مسرور انور نیشنل کالج چلا گیا تھا اور میں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا تھا۔ پھر ہم دونوں کی ریڈیو اسٹیشن کراچی سے مزید ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ میں ریڈیو کے لیے لکھتا تھا اور مسرور انور کمرشل سروس ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر اور رائٹر منسلک تھا۔

انھی دنوں کراچی ریڈیو پر ملتان کی ایک صوفی گیت سنگر ثریا ملتانیکر کی کراچی آمد ہوئی اور اس کی آواز میں کئی غزلیں ریکارڈ کی گئیں۔ ان میں ایک غزل مسرور انور کی لکھی ہوئی بھی تھی۔ غزل کے بول تھے:

محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب

جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا

بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے

کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا

اس غزل کی موسیقی ریڈیو کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ نے مرتب کی تھی۔ جب یہ غزل ریڈیو سے نشر کی گئی تو ثریا ملتانیکر کی کھرج دار آواز میں بڑی پسند کی گئی اور پھر فرمائشی پروگراموں میں اس غزل کی پسندیدگی کے بے شمار خطوط آنے شروع ہوگئے اور یہ غزل ہاٹ کیک کی طرح مشہور ہوگئی اور ثریا ملتانیکر کی سارے پاکستان میں دھوم ہوگئی تھی۔

پھر یہی غزل فلم ساز و ہدایت کار اقبال شہزاد نے اپنی فلم ''بدنام'' میں رکھ لی اور فلم میں اداکارہ نبیلہ پر فلمائی گئی یہ غزل فلم ''بدنام'' کی ہائی لائٹ بن گئی تھی۔ مسرور انور کراچی کی چند فلموں خاص طور پر فلم ساز و اداکار وحید مراد کی فلموں ''ہیرا اور پتھر''، ''ارمان''، ''دوراہا'' اور ''احسان'' کے مشہور گیتوں کے بعد کراچی سے لاہور شفٹ ہو گیا تھا۔

پھر میں بھی فلمی صحافی سے فلمی نغمہ نگار بن گیا تھا اور کراچی کی چند فلمیں لکھ کر لاہور چلا گیا اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا۔ مسرور انور اور میری لاہور میں مختلف اسٹوڈیوز میں مختلف فلموں کی شوٹنگ کے دوران ملاقاتیں رہتی تھیں۔ مسرور انور اب معروف ترین رائٹر و نغمہ نگار اور فلم ساز بھی بن چکا تھا۔ میں اور مسرور جب کبھی کراچی آتے تھے تو ہماری عارفہ شمسہ صاحبہ کے گھر پر ملاقاتیں رہتی تھیں۔

جہاں شعری نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک بار عارفہ شمسہ نے مسرور انور کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے بے شمار گیتوں کو یکجا کرکے ایک کتاب کی صورت میں منظر عام پر لائے۔ پھر انھوں نے مسرور انور سے کہا تھا۔ مسرور! تم اور یونس ہمدم دونوں لاہور میں ہی رہتے ہو، ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہو، میں نے لاہور میں کئی بار مسرور انور کو یاد دہانی کرائی مگر ہر بار اس کی بے پناہ مصروفیت آڑے آجاتی تھی۔

پھر لاہور کی فلم انڈسٹری کو زوال آگیا۔ میں لاہور چھوڑ کر کراچی واپس آگیا۔ مسرور انور لاہور ہی میں رہا۔ پھر میں امریکا آگیا اور عارفہ شمسہ اور مسرور انور سے ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ مجھے امریکا ہی میں پہلے عارفہ شمسہ اور پھر مسرور انور کے انتقال کی خبریں ملی تھیں۔
Load Next Story