فلورائیسز دانتوں کی بیماری جس کا سبب آگاہی کی کمی
دانتوں کی بیماریاں جو حکام کی نااہلی کا شاہ خسانہ ہیں
بیماری اور تکلیف یقیناً اللہ کی جانب سے انسان کا امتحان ہوتی ہیں۔ یہ انسانی آزمائش کی ایک شکل ہوتی ہیں پر بعض اوقات کچھ ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو بیماریوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔کچھ غلطیاں انجانے میں ہوتی ہیں جبکہ کچھ جانے بوجھتے کی جاتی ہیں۔
ایسی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا دشوار تو ہوتا ہی ہے پر تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی تو اتنی کم نہیں مگر آگاہی کی کمی ہے جو کہ بڑے مسائل کا سبب بنتی ہے۔
پاکستان میں قوانین موجود ہیں ادارے موجود ہیں پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔صاف پانی تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔مگر افسوس کے ساتھ ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں۔
جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور بات صرف یہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے خطرناک اثرات انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پاکستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی میں فلورائیڈ کی مقداد خطرناک حد تک زیادہ ہے اور اس کے بدترین اثرات میں سے ایک اثر بچوں کے دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جس سے فلورائیسسز نامی بیماری جنم لیتی ہے جو دانتوں کی ساخت کو متاثر کرتی ہے۔
اس ضمن میں جاننے کے لئے پہلے دانتوں کے حوالے سے کچھ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔اس حوالے سے ہم نے ماہر امراضِ داندان ڈاکٹر سلمان بشیر طاہر سے رجوع کیا ۔
ڈاکٹر سیلمان سینئر ڈینٹل سرجن ہیں ہیں اور تحصیل بھوریوالا میں میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ذیل میں دانتوں کی اس بیماری کے حوالے سے اہم معلومات ان کی بدولت ممکن ہوئیں۔
دانتوں کی ساخت
دانت قدرت کا خوبصورت تحفہ ہیں۔ دانتوں کی بیماریوںسے متعلق جانے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دانتوں کی ساخت کیا ہوتی ہے۔دانتوں کو ماہرین دو طرح سے دیکھتے ہیں ایک ان کی شکل یا شیپ (جس میں روٹ اور کراؤن آتے ہیں )کے حوالے سے اور دوسراہسٹولوجیکل خصوصیات جن میں دانتوں کی بیرونی ساخت، اندونی حصے اور اینیمل کو دیکھتے ہیں۔
اینیمل دانتوں پر پروٹیکشن شیلڈ کا کام کرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ ننھے سے دانت کیسے اس شیلڈ سے مخفوظ ہو جاتے ہیں؟ دراصل کیلشیم اور فلورائیڈ سے بنے آپس میں پیچیدگی سے جڑے مرکبات سے بنی ایک دیوار ہوتی ہے جو دانتوںکی اوپری سطح کی حفاظت کرتی ہے۔
بیماری میں ہوتا کیا ہے؟
اس بیماری میں اینیمل کی تشکیل کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دانت بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دانتوں کی نشوونما کا آغاز شکمِ مادہ سے ہی ہو جاتا ہے۔ دودھ کے دانت بھی حمل کے دوران ہی بچے کے جبڑے میں بن جاتے ہیں اور پھر چھ ماہ کے بعد باہر آنا شروع ہوتے ہیں اسی طرح بالغ دانت ( دانت جو دودھ کے دانتوں کے بعد آتے ہیں) وہ بھی تین سے پانچ برس کی عمر تک جبڑے میں تشکیل پا چکے ہوتے ہیں جو سات آٹھ سال کی عمر میں بچے کے دودھ کے دانت گرنے کے بعد باہر آتے ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سب عمل میں دانتوں کی تشکیل کے حوالے سے بچے کے زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں اس دوران بچے کو ان تمام وٹامنز منرلز اور غذائیت کی مناسب مقدار کا ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں ایک اہم کردار فلورائید کا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ مقدار کم ہو یا زیادہ ہوجائے تو اس کے نقصانات ہوتے ہیں۔
اگر فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے؟
فلورائیڈ ایک قدرتی مادہ ہے جو ایک خاص مقدارمیں پانی کے اندر پایا جاتا ہے۔یہ ہڈیوں اور دانتوں کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ماخد پانی، مٹی ، پودے ، پتھر اور ہوا ہیں۔
فلورائیڈ دانتوں کی اوپری سطح کو ہموار کرنے میں اور اس کی کیڑوں سے حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہاں تک کے جن ممالک میں اس کی مقدار واٹر سپلائی میں کم ہوتی ہے وہاں انتظامی سطح پر اسے پانی میں ایک حاض حد تک ڈال کر لوگوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔فلورائیڈ کو عموماً ٹوٹھ پیسٹس ، ماوتھ واش اور سپلیمینٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے فوائد کی بات کی جائے تویہ دانتوں کی حفاظت کرتا ہے اور دانتوں میں منرلز کی سطح کو برقرار رکھتا ہے۔
بیکٹریا کو دانتوں میں آنے سے محفوظ رکھتا ہے۔آپ نے اکثر ٹوٹھ پیسٹس پہ بھی فلورائیڈ سے بھر پور ہونے کے دعوے لکھے دیکھے ہوں گے ۔
پر شاید ہی آپ کو کسی نے یہ بتایا ہو کہ فلورائیڈ کی مقدار ذیادہ ہونے سے آپ کے دانتوںکو فلورائیسز نامی بیماری لگ سکتی ہے جس کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔
علامات کیا ہیں؟
فلورائیسز عموماً آٹھ سے دس برس کے بچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اس بیماری میں دانتوں پہ پہلے سفید سفید دھبے بننا شروع ہوتے ہیں پھر وہ پیلے ہوجاتے ہیں اور پھر کیونکہ ان کی اوپری سطح کمزور ہوچکی ہوتی ہے تو کیڑا ان پہ حملہ آور ہوکر سارے دانتوں کو ختم کر دیتا ہے۔
یہ عام کیڑا لگے دانتوں سے مختلف یوں ہوتے ہیں کہ کیڑا یوں تو کسی ایک دانت کو متاثر کرتا ہے پر فلورائسز میں سارے دانتوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
دانت آہستہ آہستہ بھرنے لگتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن پہ فلورائسز حملہ آور ہوتا ہے اگر ان کے دانت بچ جائیں اور وہ کچھ عرصہ برش کرنے میں کوتاہی کریں تو وہ ان کے دانتوں کا حشر یوں ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ ابتدائی عمر میں بچوں کا ہوتا ہے۔
پاکستان کے کن علاقوں میں پانی کے اندر فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے؟
یوں تو اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں گیا جارہا مگر 2013میں ایک ریسرچ یونیسیف اور نیشنل واٹر کوالٹی لیبارٹری کے تعاون سے کی گئی جس کا مقصد پاکستان میں پینے کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کو زمینی پانی میں جانچنا اور اور کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔
اس تحقیق میںسطح کے پانی اور زمینی پانی کے پاکستان کے 16 مختلف شہروں سے747 نمونے لئے گئے۔ جن میں لاہور، فیصل آباد، قصور، خوشاب، چکوال، میانوالی، جہلم، بہاولپور، کراچی، میرپورخاص، پشاور، رسالپور، کوئٹہ، زیارت، لورالائی اور متوانگ شامل تھے۔
اور ان نمونوں کی جانچ WHOکی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کی گئی ۔ سب سے زیادہ فلورائیڈ کی مقدار بلوچستان کے پانی میں پائی گئی جو کہ 22فیصد تھی جب کے دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔
WHOکے مطابق ایک لیٹر پانی میں 1.5mgفلورائیڈ سے زیادہ مقدار نقصان دہ ہے۔اور اس تحقیق میں پنجاب کے شہر میانوالی،لاہور، خوشاب، چکوال، فیصل آباداور قصور میں اس کی سطح بلند رہی او بلوچستان کے شہر کوئٹہ ، مستونگ اور لورالائی میں۔
بیماری جنم کیوں لیتی ہے؟
ہمارے ہاں کمیونٹی اوئیرنس نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا شاخسانہ ہے کہ پانی میں اگر فلورائیڈ کی مقدار ایک معقول حد سے زیادہ ہو تو اس کا اثر دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جیسے پینے کا پانی ۔پینے کا صاف پانی مہیا کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
بیماری کے بارے میںآگاہی دینا محکمہ صحت اور تعلیم کی ذمہ داری ہے۔عموماً یونین کونسلز کی سطح پر نیوٹریشن سپروائزر کا ایک کردار ہوتا ہے آگاہی فراہم کرنا۔ ہر تحصیل میں محکمہ زراعت پانی کی کوالٹی چیک کر کے بتاتا ہے اور اس ضمن میں ایگریکلچرل لیبز موجود ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم کردار پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں۔اور بیماری کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائیں۔ کوئی بھی ادارہ تنہا سارے کام نہیں کرسکتا اس کے لئے اداروں کا آپس میں باہمی تعاون ہی عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔
اس ضمن میں محکمہ صحت کو محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر پانی کی جانچ کروانی چاہیئے اور جن بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو ان کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر کمیونٹی میں آگاہی کی مہمات کا اطلاق کرنا چاہیئے۔ ادارے اور وہاں کام کرنے والے افراد اگر اپنے کام اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں تو بڑے سے بڑے مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔
نجانے اب تک کتنے لوگ انتظامی غفلت و نااہلی کی بھینٹ چکے ہوں گے ۔حکومتی سطح پر ہر تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال میں دانتوں کی شعبے میں انتظامات اور ماہرین کی موجودگی یقینی ہو تو بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
بیماری کا علاج کیا ہے؟
اس بیماری میں علاج سے زیادہ پریکوائشنز جنھیں پیشگی تدابر کہا جاتا ہے وہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن اگر کسی کو یہ بیماری ہو گئی ہے تو اس کا علاج ابتدائی سطح پہ تو یہی کیا جائے گا کہ دانت کی پالش اور بلیچینگ کر کے ان داغوں کو مٹایا جائے، نارمل فیلنگ اورUV Lightٹریٹمنٹ دیا جائے جس کے بعد بہت زیادہ حفاظت کرنا ہوتی ہے۔
لیکن اگر موڈریٹ تو سوئیر سٹیج پہ ہو تو اس میں وینئیرز جو کہ سرامکس سے بنے انڈے کے خول کی طرح باریک خول دانتوں کی باہر والی سطح پہ لگائے جاتے ہیں۔اور دانت کے رنگ اور اس کی ساخت میں جو بھی تبدیلی آئی ہو اس کو چھپا دیتا ہے۔اور اگر دانت بہت زیادہ خراب حالت میں ہوںتو ان پہ کراؤن لگاتے ہیں۔
بیماری سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
سب سے اہم چیز اس ضمن میں آگاہی اور احتیاطی تدابیر ہیاں۔ اس ضمن میں پانی کو ہمیشہ ابال کر استعمال کرنا چاہیئے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس برتن میں پانی کو ابالیں اسی میں سے استعمال کریں، لیکن برتن میں بچی آخری ایک انچ کی لئیر کو استعمال نہ کریں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس کو بوتلوں میں منتقل کر کے استعمال کرنا ہے تو اس کے لئے فلٹر پیپر اوراگر وہ میسرنہ ہو تو ململ کے کپڑے سے پانی کو گزار کر استعمال والے برتنوں میں منتقل کریں۔ بورننگ کروانے کے بعد پانی کا لیب ٹیسٹ ضرور کروائیں جو کہ تحصیل میں موجود محکمہ زراعت کی لیبز سے بآسانی ہوسکتا ہے۔
فلورائیسز سے بچنے کے لئے اپنی خوراک کا بھی دھیان رکھیں دانتوں کو مضبوطی کے لئے کیلشیم، فلورائیڈا ور فاسفیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے بنیادی ذرائع، دودھ، فلورائیڈ(پانی میں) اور دہی ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ اگر آپ کو فلورائیسز کی علامات نظرآئیں تو کسی اچھے ماہر داندان کو دیکھائیں عموماً جن کی خاصیت Restorative Dentisteryہوتی ہے وہ اس کا بہتر علاج کرتے ہیں۔ دانتوں کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔
ایسی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا دشوار تو ہوتا ہی ہے پر تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی تو اتنی کم نہیں مگر آگاہی کی کمی ہے جو کہ بڑے مسائل کا سبب بنتی ہے۔
پاکستان میں قوانین موجود ہیں ادارے موجود ہیں پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔صاف پانی تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔مگر افسوس کے ساتھ ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں۔
جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور بات صرف یہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے خطرناک اثرات انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پاکستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی میں فلورائیڈ کی مقداد خطرناک حد تک زیادہ ہے اور اس کے بدترین اثرات میں سے ایک اثر بچوں کے دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جس سے فلورائیسسز نامی بیماری جنم لیتی ہے جو دانتوں کی ساخت کو متاثر کرتی ہے۔
اس ضمن میں جاننے کے لئے پہلے دانتوں کے حوالے سے کچھ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔اس حوالے سے ہم نے ماہر امراضِ داندان ڈاکٹر سلمان بشیر طاہر سے رجوع کیا ۔
ڈاکٹر سیلمان سینئر ڈینٹل سرجن ہیں ہیں اور تحصیل بھوریوالا میں میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ذیل میں دانتوں کی اس بیماری کے حوالے سے اہم معلومات ان کی بدولت ممکن ہوئیں۔
دانتوں کی ساخت
دانت قدرت کا خوبصورت تحفہ ہیں۔ دانتوں کی بیماریوںسے متعلق جانے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دانتوں کی ساخت کیا ہوتی ہے۔دانتوں کو ماہرین دو طرح سے دیکھتے ہیں ایک ان کی شکل یا شیپ (جس میں روٹ اور کراؤن آتے ہیں )کے حوالے سے اور دوسراہسٹولوجیکل خصوصیات جن میں دانتوں کی بیرونی ساخت، اندونی حصے اور اینیمل کو دیکھتے ہیں۔
اینیمل دانتوں پر پروٹیکشن شیلڈ کا کام کرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ ننھے سے دانت کیسے اس شیلڈ سے مخفوظ ہو جاتے ہیں؟ دراصل کیلشیم اور فلورائیڈ سے بنے آپس میں پیچیدگی سے جڑے مرکبات سے بنی ایک دیوار ہوتی ہے جو دانتوںکی اوپری سطح کی حفاظت کرتی ہے۔
بیماری میں ہوتا کیا ہے؟
اس بیماری میں اینیمل کی تشکیل کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دانت بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دانتوں کی نشوونما کا آغاز شکمِ مادہ سے ہی ہو جاتا ہے۔ دودھ کے دانت بھی حمل کے دوران ہی بچے کے جبڑے میں بن جاتے ہیں اور پھر چھ ماہ کے بعد باہر آنا شروع ہوتے ہیں اسی طرح بالغ دانت ( دانت جو دودھ کے دانتوں کے بعد آتے ہیں) وہ بھی تین سے پانچ برس کی عمر تک جبڑے میں تشکیل پا چکے ہوتے ہیں جو سات آٹھ سال کی عمر میں بچے کے دودھ کے دانت گرنے کے بعد باہر آتے ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سب عمل میں دانتوں کی تشکیل کے حوالے سے بچے کے زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں اس دوران بچے کو ان تمام وٹامنز منرلز اور غذائیت کی مناسب مقدار کا ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں ایک اہم کردار فلورائید کا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ مقدار کم ہو یا زیادہ ہوجائے تو اس کے نقصانات ہوتے ہیں۔
اگر فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے؟
فلورائیڈ ایک قدرتی مادہ ہے جو ایک خاص مقدارمیں پانی کے اندر پایا جاتا ہے۔یہ ہڈیوں اور دانتوں کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ماخد پانی، مٹی ، پودے ، پتھر اور ہوا ہیں۔
فلورائیڈ دانتوں کی اوپری سطح کو ہموار کرنے میں اور اس کی کیڑوں سے حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہاں تک کے جن ممالک میں اس کی مقدار واٹر سپلائی میں کم ہوتی ہے وہاں انتظامی سطح پر اسے پانی میں ایک حاض حد تک ڈال کر لوگوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔فلورائیڈ کو عموماً ٹوٹھ پیسٹس ، ماوتھ واش اور سپلیمینٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے فوائد کی بات کی جائے تویہ دانتوں کی حفاظت کرتا ہے اور دانتوں میں منرلز کی سطح کو برقرار رکھتا ہے۔
بیکٹریا کو دانتوں میں آنے سے محفوظ رکھتا ہے۔آپ نے اکثر ٹوٹھ پیسٹس پہ بھی فلورائیڈ سے بھر پور ہونے کے دعوے لکھے دیکھے ہوں گے ۔
پر شاید ہی آپ کو کسی نے یہ بتایا ہو کہ فلورائیڈ کی مقدار ذیادہ ہونے سے آپ کے دانتوںکو فلورائیسز نامی بیماری لگ سکتی ہے جس کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔
علامات کیا ہیں؟
فلورائیسز عموماً آٹھ سے دس برس کے بچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اس بیماری میں دانتوں پہ پہلے سفید سفید دھبے بننا شروع ہوتے ہیں پھر وہ پیلے ہوجاتے ہیں اور پھر کیونکہ ان کی اوپری سطح کمزور ہوچکی ہوتی ہے تو کیڑا ان پہ حملہ آور ہوکر سارے دانتوں کو ختم کر دیتا ہے۔
یہ عام کیڑا لگے دانتوں سے مختلف یوں ہوتے ہیں کہ کیڑا یوں تو کسی ایک دانت کو متاثر کرتا ہے پر فلورائسز میں سارے دانتوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
دانت آہستہ آہستہ بھرنے لگتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن پہ فلورائسز حملہ آور ہوتا ہے اگر ان کے دانت بچ جائیں اور وہ کچھ عرصہ برش کرنے میں کوتاہی کریں تو وہ ان کے دانتوں کا حشر یوں ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ ابتدائی عمر میں بچوں کا ہوتا ہے۔
پاکستان کے کن علاقوں میں پانی کے اندر فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے؟
یوں تو اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں گیا جارہا مگر 2013میں ایک ریسرچ یونیسیف اور نیشنل واٹر کوالٹی لیبارٹری کے تعاون سے کی گئی جس کا مقصد پاکستان میں پینے کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کو زمینی پانی میں جانچنا اور اور کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔
اس تحقیق میںسطح کے پانی اور زمینی پانی کے پاکستان کے 16 مختلف شہروں سے747 نمونے لئے گئے۔ جن میں لاہور، فیصل آباد، قصور، خوشاب، چکوال، میانوالی، جہلم، بہاولپور، کراچی، میرپورخاص، پشاور، رسالپور، کوئٹہ، زیارت، لورالائی اور متوانگ شامل تھے۔
اور ان نمونوں کی جانچ WHOکی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کی گئی ۔ سب سے زیادہ فلورائیڈ کی مقدار بلوچستان کے پانی میں پائی گئی جو کہ 22فیصد تھی جب کے دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔
WHOکے مطابق ایک لیٹر پانی میں 1.5mgفلورائیڈ سے زیادہ مقدار نقصان دہ ہے۔اور اس تحقیق میں پنجاب کے شہر میانوالی،لاہور، خوشاب، چکوال، فیصل آباداور قصور میں اس کی سطح بلند رہی او بلوچستان کے شہر کوئٹہ ، مستونگ اور لورالائی میں۔
بیماری جنم کیوں لیتی ہے؟
ہمارے ہاں کمیونٹی اوئیرنس نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا شاخسانہ ہے کہ پانی میں اگر فلورائیڈ کی مقدار ایک معقول حد سے زیادہ ہو تو اس کا اثر دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جیسے پینے کا پانی ۔پینے کا صاف پانی مہیا کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
بیماری کے بارے میںآگاہی دینا محکمہ صحت اور تعلیم کی ذمہ داری ہے۔عموماً یونین کونسلز کی سطح پر نیوٹریشن سپروائزر کا ایک کردار ہوتا ہے آگاہی فراہم کرنا۔ ہر تحصیل میں محکمہ زراعت پانی کی کوالٹی چیک کر کے بتاتا ہے اور اس ضمن میں ایگریکلچرل لیبز موجود ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم کردار پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں۔اور بیماری کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائیں۔ کوئی بھی ادارہ تنہا سارے کام نہیں کرسکتا اس کے لئے اداروں کا آپس میں باہمی تعاون ہی عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔
اس ضمن میں محکمہ صحت کو محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر پانی کی جانچ کروانی چاہیئے اور جن بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو ان کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر کمیونٹی میں آگاہی کی مہمات کا اطلاق کرنا چاہیئے۔ ادارے اور وہاں کام کرنے والے افراد اگر اپنے کام اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں تو بڑے سے بڑے مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔
نجانے اب تک کتنے لوگ انتظامی غفلت و نااہلی کی بھینٹ چکے ہوں گے ۔حکومتی سطح پر ہر تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال میں دانتوں کی شعبے میں انتظامات اور ماہرین کی موجودگی یقینی ہو تو بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
بیماری کا علاج کیا ہے؟
اس بیماری میں علاج سے زیادہ پریکوائشنز جنھیں پیشگی تدابر کہا جاتا ہے وہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن اگر کسی کو یہ بیماری ہو گئی ہے تو اس کا علاج ابتدائی سطح پہ تو یہی کیا جائے گا کہ دانت کی پالش اور بلیچینگ کر کے ان داغوں کو مٹایا جائے، نارمل فیلنگ اورUV Lightٹریٹمنٹ دیا جائے جس کے بعد بہت زیادہ حفاظت کرنا ہوتی ہے۔
لیکن اگر موڈریٹ تو سوئیر سٹیج پہ ہو تو اس میں وینئیرز جو کہ سرامکس سے بنے انڈے کے خول کی طرح باریک خول دانتوں کی باہر والی سطح پہ لگائے جاتے ہیں۔اور دانت کے رنگ اور اس کی ساخت میں جو بھی تبدیلی آئی ہو اس کو چھپا دیتا ہے۔اور اگر دانت بہت زیادہ خراب حالت میں ہوںتو ان پہ کراؤن لگاتے ہیں۔
بیماری سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
سب سے اہم چیز اس ضمن میں آگاہی اور احتیاطی تدابیر ہیاں۔ اس ضمن میں پانی کو ہمیشہ ابال کر استعمال کرنا چاہیئے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس برتن میں پانی کو ابالیں اسی میں سے استعمال کریں، لیکن برتن میں بچی آخری ایک انچ کی لئیر کو استعمال نہ کریں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس کو بوتلوں میں منتقل کر کے استعمال کرنا ہے تو اس کے لئے فلٹر پیپر اوراگر وہ میسرنہ ہو تو ململ کے کپڑے سے پانی کو گزار کر استعمال والے برتنوں میں منتقل کریں۔ بورننگ کروانے کے بعد پانی کا لیب ٹیسٹ ضرور کروائیں جو کہ تحصیل میں موجود محکمہ زراعت کی لیبز سے بآسانی ہوسکتا ہے۔
فلورائیسز سے بچنے کے لئے اپنی خوراک کا بھی دھیان رکھیں دانتوں کو مضبوطی کے لئے کیلشیم، فلورائیڈا ور فاسفیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے بنیادی ذرائع، دودھ، فلورائیڈ(پانی میں) اور دہی ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ اگر آپ کو فلورائیسز کی علامات نظرآئیں تو کسی اچھے ماہر داندان کو دیکھائیں عموماً جن کی خاصیت Restorative Dentisteryہوتی ہے وہ اس کا بہتر علاج کرتے ہیں۔ دانتوں کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔