آئی ایم ایف پروگرام اور عوام کی مشکلات
فی الوقت ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے عارضی سہارے ملنا شروع ہو گئے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے اسی ماہ معاہدہ ہوجائے گا، ہم مشکلات سے باہر نکل آئیں گے، ہم کب تک دوسروں کے سہاروں پر چلیں گے؟ یہ سفر مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، ہمیں دن رات کام کرنا ہوگا، قربانی دینا ہوگی۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے زر مبادلہ کی شرح کے مصنوعی انتظام کو ترک کرنے اور مارکیٹ پر مبنی شرح کی جانب بڑھنے کے فیصلے کے درمیان آئی ایم ایف نے 9 ویں جائزے کی تکمیل اور 1ارب ڈالر کی قسط کے اجراء کے لیے اگلے ہفتے سے پاکستانی حکام کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کرنے اور اپنا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی امید پیدا ہونا نوید مسرت ہے، لیکن اس بات کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ وقت گنوانے والے ہتھکنڈوں اور ڈھائی ماہ کی مدت ضایع کرنے کا ذمے دار کون ہے جس کی وجہ سے ایڈجسٹمنٹ لاگت بڑھ جائے گی۔
فنڈ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے نفاذ کے ساتھ عام سی پی آئی پر مبنی افراط زر موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں اوسطاً 25 فیصد کی موجودہ شرح کے مقابلے میں اوسطاً 35 فیصد تک جا سکتی ہے۔ ہم حقائق کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ حقیقت فراموش کیے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس کے فروری میں روس کے یو کرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد دنیا میں ہم جیسے بے تحاشہ ممالک کو مذکورہ ادارے کی توجہ درکار ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ چل پڑے تو دنیا بھی ہماری مدد کرے گی۔
دراصل پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر قرض نہیں دیتے تھے لیکن اب امیر ممالک بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر قرض نہیں دے رہے، جیسا کہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ آیندہ پاکستان کی پرفارمنس اور شرائط کو مدنظر رکھ کر قرض دیے جائیں گے، یعنی وہ بھی اگلی مرتبہ آئی ایم ایف آرٹیکل فارکنسلٹیشن کے تحت ہی ہمیں قرض دیا کرے گا۔
پاکستان کو اب کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا جب تک ہم امداد اور قرض کی مد میں ملنے والے ڈالرز پر تکیہ کیے رکھیں گے ملک میں ڈالرز کی ریل پیل نہیں ہوگی۔ ڈالرز کی بارش اس صورت میں ممکن ہے جب ہم برآمدات بڑھائیں اور درآمدات گھٹائیں گے۔
ہمیں ایکسپورٹرز کو سہولتیں دینا ہوں گی کیونکہ ایکسپورٹرز کو سہولتیں دے کر ملک جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے ۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے جن مطالبات پر عمل درآمد کرنے کی حامی بھری ہے، ان میں بجلی قیمت میں تقریبا سات روپے فی کلو واٹ اضافہ ، گیس قیمت میں تقریباً 750روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ، ڈالر کی فری فلوٹنگ، بینکوں سے کیش نکلوانے اور ودہولڈنگ ٹیکس، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر اضافی ٹیکس اور شرح سود میں مزید اضافے سمیت کئی دیگر شرائط بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے اگر اسے مزید بڑھایا گیا تو اس سے ایک طرف کاروباری طبقہ متاثر ہوگا اور دوسری طرف بینکوں کے کریڈٹ ڈپارٹمنٹس کی کارکردگی مزید کمزور ہوجائے گی کیونکہ ان حالات میں بینکوں کے قرض پر کاروبار کرنا بہت مہنگا ہوچکا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان پر بھی شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ دوسری جانب بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی، وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بینکوں اور قومی بچت کے ذرایع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا، لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی۔
جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔
'' پائے رفتن ، نہ جائے ماندن '' کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں۔
بحیثیت ملک پاکستان اب بھی ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمارے معاشی حالات اُس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ہم مزید قرضوں پر مزید عیاشی نہیں کر سکتے۔ ہمارے سیاستدان اور ہماری افسر شاہی، بڑے بڑے عالی شان دفاتر، قیمتی گاڑیوں اور ماتحتوں کی فوج ظفر موج کی صورت میں ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتے چلے آئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اُن کی کارکردگی صفر ہے۔
گوگل اور فیس بک سمیت بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی دیگر کمپنیوں کے مالکان عالی شان دفاتر کے بجائے بڑے بڑے ہالز میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور آج اُن کی کمپنیاں دنیا پر راج کر رہی ہیں جب کہ اس کے برعکس ہم سرکاری افسران کے عالی شان دفاتر کا حال دیکھیں، کیا قرضوں میں ڈوبے ملک کی افسر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟
پچیس سے پچاس ہزار روپے کے درمیان ماہانہ آمدنی والے لاکھوں گھرانے ، اس وقت اشیائے خورونوش خریدنے کے لیے گزشتہ برس کے مقابلے میں30 فی صد زیادہ رقم خرچ کرنے کو مجبور ہیں، اب50ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہی نہیں بلکہ دو لاکھ تک ماہوار آمدنی کے حامل پاکستانی بھی اب خط غربت کے قریب لڑھکنا شروع ہوجائیں گے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہر صورت مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح افغان ٹرانزٹ ہمارا بہت بڑا ناسور ہے ، افغان ٹرانزٹ ہماری معیشت اور زر مبادلہ کو ختم کر رہا ہے، امپورٹر مافیا نے افغانستان کا راستہ چنا ہے کیونکہ وہ ڈیوٹی فری ہے۔
افغان ٹرانزٹ سے وہاں دو ارب ڈالرز ماہانہ جارہے ہیں، حکومت کو ہر صورت میں ڈالرز کی اسمگلنگ پر قابو پانا ہوگا۔ آئی ایم ایف مختلف مواقع پر پاکستان کو بھی مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا بیان اس بات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ یہ ادارہ کس طرح دنیا بھر میں معاشی استحکام کو فروغ دینے کے اپنے مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔ اکثر، اس میں ممالک کی معاشی صحت کی نگرانی کرنا اور معاشی بدحالی پھوٹ پڑنے اور مالیاتی عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قرضے اور دیگر اقسام کی امداد فراہم کرنے کے لیے شرائط شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کے یہ ہتھکنڈے تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں اور بہت سے لوگ اس میں ادارہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جب عالمی اقتصادی استحکام خطرے میں پڑجائے تو ادارہ ایک اہم شراکت دار کے طور پر اپنا روایتی کردار ادا کرتا ہے۔
آج 190ممالک آئی ایم ایف کے رکن ہیں۔ ہر رکن ملک، عالمی معیشت میں اپنے حجم کے مطابق آئی ایم ایف کو فنانس فراہم کرتا ہے، جسے کوٹہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی رکن ملک کو آئی ایم ایف سے قرض درکار ہوتا ہے تو اس ملک کو امداد بھی مقررہ کوٹہ کے مطابق فراہم کی جاتی ہے، تاہم آئی ایم ایف مختلف دو طرفہ اور کثیر الجہتی پروگراموں کے ذریعے اس میں اضافہ کرنے کا مجاز ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک ایسے وقت میں حکومت ملی جب ملکی معیشت مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، عالمی مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی ملکی سیاسی بحران اور دیگر اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھ چکا تھا۔ معاشی ترقی، مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے کے لیے حکومت کے پاس مالی وسائل بالکل نہیں تھے۔
موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کو کس طرح اور کیسے استعمال کیا جائے گا؟
یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس کے لیے حکومت کو بہترین اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں کی ترقی کے لیے بڑے فنڈز درکار ہیں جب کہ مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے اور وفاقی و صوبائی سطح پر شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔
اگرچہ پاکستان کی معیشت کی صحیح معنوں میں مستقل بحالی کے لیے کافی وقت درکار ہے لیکن فی الوقت ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے عارضی سہارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ان مالی وسائل کو بہترین حکمت عملی کے ذریعے استعمال کر کے ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ایک آخری موقع پاکستان کو مل گیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے زر مبادلہ کی شرح کے مصنوعی انتظام کو ترک کرنے اور مارکیٹ پر مبنی شرح کی جانب بڑھنے کے فیصلے کے درمیان آئی ایم ایف نے 9 ویں جائزے کی تکمیل اور 1ارب ڈالر کی قسط کے اجراء کے لیے اگلے ہفتے سے پاکستانی حکام کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کرنے اور اپنا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی امید پیدا ہونا نوید مسرت ہے، لیکن اس بات کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ وقت گنوانے والے ہتھکنڈوں اور ڈھائی ماہ کی مدت ضایع کرنے کا ذمے دار کون ہے جس کی وجہ سے ایڈجسٹمنٹ لاگت بڑھ جائے گی۔
فنڈ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے نفاذ کے ساتھ عام سی پی آئی پر مبنی افراط زر موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں اوسطاً 25 فیصد کی موجودہ شرح کے مقابلے میں اوسطاً 35 فیصد تک جا سکتی ہے۔ ہم حقائق کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ حقیقت فراموش کیے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس کے فروری میں روس کے یو کرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد دنیا میں ہم جیسے بے تحاشہ ممالک کو مذکورہ ادارے کی توجہ درکار ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ چل پڑے تو دنیا بھی ہماری مدد کرے گی۔
دراصل پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر قرض نہیں دیتے تھے لیکن اب امیر ممالک بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر قرض نہیں دے رہے، جیسا کہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ آیندہ پاکستان کی پرفارمنس اور شرائط کو مدنظر رکھ کر قرض دیے جائیں گے، یعنی وہ بھی اگلی مرتبہ آئی ایم ایف آرٹیکل فارکنسلٹیشن کے تحت ہی ہمیں قرض دیا کرے گا۔
پاکستان کو اب کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا جب تک ہم امداد اور قرض کی مد میں ملنے والے ڈالرز پر تکیہ کیے رکھیں گے ملک میں ڈالرز کی ریل پیل نہیں ہوگی۔ ڈالرز کی بارش اس صورت میں ممکن ہے جب ہم برآمدات بڑھائیں اور درآمدات گھٹائیں گے۔
ہمیں ایکسپورٹرز کو سہولتیں دینا ہوں گی کیونکہ ایکسپورٹرز کو سہولتیں دے کر ملک جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے ۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے جن مطالبات پر عمل درآمد کرنے کی حامی بھری ہے، ان میں بجلی قیمت میں تقریبا سات روپے فی کلو واٹ اضافہ ، گیس قیمت میں تقریباً 750روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ، ڈالر کی فری فلوٹنگ، بینکوں سے کیش نکلوانے اور ودہولڈنگ ٹیکس، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر اضافی ٹیکس اور شرح سود میں مزید اضافے سمیت کئی دیگر شرائط بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے اگر اسے مزید بڑھایا گیا تو اس سے ایک طرف کاروباری طبقہ متاثر ہوگا اور دوسری طرف بینکوں کے کریڈٹ ڈپارٹمنٹس کی کارکردگی مزید کمزور ہوجائے گی کیونکہ ان حالات میں بینکوں کے قرض پر کاروبار کرنا بہت مہنگا ہوچکا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان پر بھی شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ دوسری جانب بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی، وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بینکوں اور قومی بچت کے ذرایع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا، لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی۔
جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔
'' پائے رفتن ، نہ جائے ماندن '' کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں۔
بحیثیت ملک پاکستان اب بھی ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمارے معاشی حالات اُس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ہم مزید قرضوں پر مزید عیاشی نہیں کر سکتے۔ ہمارے سیاستدان اور ہماری افسر شاہی، بڑے بڑے عالی شان دفاتر، قیمتی گاڑیوں اور ماتحتوں کی فوج ظفر موج کی صورت میں ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتے چلے آئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اُن کی کارکردگی صفر ہے۔
گوگل اور فیس بک سمیت بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی دیگر کمپنیوں کے مالکان عالی شان دفاتر کے بجائے بڑے بڑے ہالز میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور آج اُن کی کمپنیاں دنیا پر راج کر رہی ہیں جب کہ اس کے برعکس ہم سرکاری افسران کے عالی شان دفاتر کا حال دیکھیں، کیا قرضوں میں ڈوبے ملک کی افسر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟
پچیس سے پچاس ہزار روپے کے درمیان ماہانہ آمدنی والے لاکھوں گھرانے ، اس وقت اشیائے خورونوش خریدنے کے لیے گزشتہ برس کے مقابلے میں30 فی صد زیادہ رقم خرچ کرنے کو مجبور ہیں، اب50ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہی نہیں بلکہ دو لاکھ تک ماہوار آمدنی کے حامل پاکستانی بھی اب خط غربت کے قریب لڑھکنا شروع ہوجائیں گے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہر صورت مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح افغان ٹرانزٹ ہمارا بہت بڑا ناسور ہے ، افغان ٹرانزٹ ہماری معیشت اور زر مبادلہ کو ختم کر رہا ہے، امپورٹر مافیا نے افغانستان کا راستہ چنا ہے کیونکہ وہ ڈیوٹی فری ہے۔
افغان ٹرانزٹ سے وہاں دو ارب ڈالرز ماہانہ جارہے ہیں، حکومت کو ہر صورت میں ڈالرز کی اسمگلنگ پر قابو پانا ہوگا۔ آئی ایم ایف مختلف مواقع پر پاکستان کو بھی مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا بیان اس بات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ یہ ادارہ کس طرح دنیا بھر میں معاشی استحکام کو فروغ دینے کے اپنے مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔ اکثر، اس میں ممالک کی معاشی صحت کی نگرانی کرنا اور معاشی بدحالی پھوٹ پڑنے اور مالیاتی عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قرضے اور دیگر اقسام کی امداد فراہم کرنے کے لیے شرائط شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کے یہ ہتھکنڈے تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں اور بہت سے لوگ اس میں ادارہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جب عالمی اقتصادی استحکام خطرے میں پڑجائے تو ادارہ ایک اہم شراکت دار کے طور پر اپنا روایتی کردار ادا کرتا ہے۔
آج 190ممالک آئی ایم ایف کے رکن ہیں۔ ہر رکن ملک، عالمی معیشت میں اپنے حجم کے مطابق آئی ایم ایف کو فنانس فراہم کرتا ہے، جسے کوٹہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی رکن ملک کو آئی ایم ایف سے قرض درکار ہوتا ہے تو اس ملک کو امداد بھی مقررہ کوٹہ کے مطابق فراہم کی جاتی ہے، تاہم آئی ایم ایف مختلف دو طرفہ اور کثیر الجہتی پروگراموں کے ذریعے اس میں اضافہ کرنے کا مجاز ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک ایسے وقت میں حکومت ملی جب ملکی معیشت مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، عالمی مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی ملکی سیاسی بحران اور دیگر اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھ چکا تھا۔ معاشی ترقی، مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے کے لیے حکومت کے پاس مالی وسائل بالکل نہیں تھے۔
موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کو کس طرح اور کیسے استعمال کیا جائے گا؟
یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس کے لیے حکومت کو بہترین اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں کی ترقی کے لیے بڑے فنڈز درکار ہیں جب کہ مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے اور وفاقی و صوبائی سطح پر شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔
اگرچہ پاکستان کی معیشت کی صحیح معنوں میں مستقل بحالی کے لیے کافی وقت درکار ہے لیکن فی الوقت ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے عارضی سہارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ان مالی وسائل کو بہترین حکمت عملی کے ذریعے استعمال کر کے ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ایک آخری موقع پاکستان کو مل گیا ہے۔