واٹ آ کنٹری
گزشتہ دس ماہ سے جاری مالیاتی تھیٹر میں بار بار ایسے مناظر دیکھے کہ بے اختیار زبان سے نکلا؛ واٹ آ کنٹری!
واٹ آ کنٹری؛ انکل سرگم کے نام سے معروف فاروق قیصر کے ایک کیریکٹر کا یہ مشہور تکیہ کلام تھا۔ فاروق قیصر ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جن کے لکھے ہوئے اکثر ڈائیلاگ اور کردار ضرب المثال بنے۔
ان کی شاعری، وائس اوور، پتلیوں کے کردار اور اسکرپٹ ہماری عام زندگی کا عکس تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کم وبیش ہر کردار اور خاکے کو پذیرائی ملی۔
ماسی مصیبتے، خود انکل سرگم سمیت ان کے اکثر کرداروں کے نام ان کے کردار کا مظہر تھے۔ ان کی انفرادیت تھی کہ سماجی تضادات کے چھوٹے چھوٹے روزمرہ مسائل کو موضوع بناتے اور اپنے پتلی کرداروں کے ذریعے سماجی تضادات کا کچا چٹھا سامنے لے آتے۔ ان کا ایک ایسا ہی کردار انگریز سیاح کا تھا۔
پاکستان کی سیاحت پر آیا یہ کردار ٹریفک قوانین توڑنے، جعلسازی، ملاوٹ اور بد انتظامی کے واقعات کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے، اس کی حیرانی اس وقت اسے مزید بوکھلا دیتی جب تضادات پر مبنی واقعات اور مناظر کی توجیح " بد تر از گناہ" کی جاتی تو وہ ورطہ ء حیرت میں ڈوبتے ہوئے انگشت بدنداں کہتا؛ واٹ آ کنٹری!!!
ہمیں یہ کردار اس وقت بے اختیار یاد آتا ہے جب ہم اپنے روزمرہ کے سیاسی سماجی تضادات پر ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، دلیل اور دوسروں سے موازنے کے باوجود اپنی غلطی پر اڑے رہتے ہیں، بہت سے معاملات میں ہمیں معلوم بھی ہو کہ غلطی پر ہیں تو بھی اپنی ناک کی خاطر یا اپنے مفاد کی خاطر اس پر ڈٹ جانے کو کمال سمجھتے ہیں۔
اس وقت ملک بھر میں جاری روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کی ہاہا کار کو لے لیجیے۔ گلوبل فنانسنگ اور ٹریڈنگ میں ماضی کا وہ معاشی طرز کب کا متروک ہو چکا کہ کوئی ملک اپنی مرضی کی شرح مبادلہ کے ساتھ اپنی کرنسی کو ورلڈ کرنسی یعنی ڈالر کے ساتھ فکس یعنی Peg کر دے۔
نوے کی دہائی میں بار بار کے تجربات نے دنیا کو سکھا دیا کہ دیرپا اقتصادی اور مالیاتی پالیسی یہی ہے کہ ملکی اکانومی زیادہ سے زیادہ ویلیو ایڈڈ پیداوار کرے، اس کی برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں، اس کی بیرونی مالی ادائیگیاں اس کے مالیاتی وسائل اور بیرونی ریزرو سے مطابقت رکھتی ہوں تو مالی استحکام یقینی ہے۔
ان بنیادی عوامل کی موجودگی میں ہی ملک کی کرنسی آزادانہ ٹریڈنگ میں مستحکم رہتی ہے۔تاہم اگر ٹریڈ خسارہ اپنے پاؤں پسارے ہی چلا جائے، کرنٹ اکاؤنٹ کے چھید بڑھتے بڑھتے شگاف بن جائیں تو بھی کوئی ملک اپنی کرنسی کی ویلیو مصنوعی طریقے سے فکس کرنے بیٹھ جائے کہ وہ دنیا سے زیادہ اسمارٹ ہے اور دنیا اس کے بہلاوے میں آ جائے گی تو اس کی بھول ہے۔
گزشتہ دس ماہ سے جاری مالیاتی تھیٹر میں بار بار ایسے مناظر دیکھے کہ بے اختیار زبان سے نکلا؛ واٹ آ کنٹری! دو روز قبل روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کا تماشا دیکھ کر بے اختیار یہی فقرہ ذہن میں آیا؛ واٹ آکنٹری!!
زیادہ پیچھے نہیں جاتے، اپریل کے بعد کرنسی کے ساتھ ہوئے کھیل کو ہی لیں۔ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں ہمیں فنانس ٹیم نے بار بار باور کرایا کہ ڈیفالٹ سر پر کھڑا ہے۔ ڈیفالٹ کیا ہوتا ہے، اتفاق سے اس کی ایک مثال انھی مہینوں میں سری لنکا نے پیش کر دی۔
سو مالیاتی ٹیم کو سمجھانا آسان ہو گیا کہ ڈیفالٹ کسے کہتے ہیں، سری لنکا تو دو کروڑ ابادی کا چھوٹا سا ملک ہے جب کہ پاکستان اس سے گیارہ گنا بڑا ملک ہے، سوچیں ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں ہونے والی ہڑبونگ اور دھما چوکڑی کیا رنگ دکھائے گی۔
مفتاح اسماعیل کے انداز بیان میں ان تلخ فیصلوں کی وضاحت میں شیرینی کی کمی پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر مصدق نے ان کی معاونت کی۔
روپے کی شرح مبادلہ گرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آیا اس پر دونوں نے یقین دلایا کہ تکلیف ہے، عارضی ہے اور ہم آپ کی تکلیف میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ البتہ انھوں نے بتانے سے گریز کیا کہ اس برابری کا اطلاق تکلیف سہنے پر بھی ہے یا صرف تکلیف دینے تک ہے۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ معاشی جادوگر اسحاق ڈار وارد ہوئے اور لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ خواب تھا جو دیکھا تھا افسانہ تھا جو سنا تھا۔۔ اب ڈالر 200 روپے سے نیچے جائے گا۔ اب تک جو ہوا وہ غلط ہوا۔ بے اختیار زبان سے یہی نکلا؛ واٹ اے کنٹری!
اسحاق ڈار نے آتے ہی ان ناہنجار منافع خوروں کی خبر لینا شروع کی جنھوں نے "میاں میرا گھر نہیں مجھے کسی کا ڈر نہیں" والے طور طریقے اپنا لیے تھے۔
بینکوں کے بہی کھاتوں کو ٹٹولا تو فارن کرنسی کی بڑھوتری سے کمائے منافعے گزشتہ کئی سالوں کی یافت سے بھاری نکلے۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے دھندے نے بھی بہتی گنگا میں اشنان کی عادتیں اپنائی ہوئی تھیں۔
انتظامی اختیارات کے استعمال سے ان چور راستوں پر پہرے بٹھانے سے کچھ بہتری تو ہوئی مگر دوسری طرف موصوف نے اپنے پچھلے دور میں آزمودہ نسخے کو روبہ عمل لانا شروع کر دیا یعنی غیراعلانیہ انداز میں اسٹیٹ بینک کے ذریعے اور انتظامی طاقت سے مشکیں کسنے کر انٹر بینک میں مصنوعی طور پر ڈالر کی شرح مبادلہ کو 223-225 کے درمیان فکس کرنا۔
تاہم اس عمل میں بیرونی ترسیلات زر میں کمی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شارٹیج نے اپنے اپنے ریٹ بنا لیے۔ اس پر مستزاد اپنی ہی پرورش کی ہوئی سبسڈائزڈ امپورٹ کی عادت کی حوصلہ شکنی کی کوشش میں اسٹیٹ بینک کے ذریعے امپورٹ کے فلڈ گیٹ کے سامنے بند باندھنے کا کام ذمے لے لیا۔
ہزاروں کنٹینرز پورٹ پر رک گئے، ہر قسم کی انڈسٹری اور ٹریڈ کی سپلائی چین کو جھٹکے لگنے لگے تو ہاہا کار مچ گئی شور شرابا ہونے لگا۔ دو دن قبل کرنسی پر سے کیپ ہٹا تو روپے ڈالر کی شرح ایک ہی دن 30 روپے سے زائد چھلانگ لگا گئی یعنی 10فی صد سے بھی زائد؛ 260 روپے۔ اس دوران ایک لفظ بھی معذرت اور اشک شوئی کا نہ سنا... یہی سوچ کر چپ رہے کہ...واٹ آ کنٹری!
خزانے کی درماندگی کے باوجود دوسری طرف یہ جذبہ کہ ای سی سی نے ممبران پارلیمنٹ میں اپنے ممبران کے لیے پروجیکٹس کے لیے رقوم میں 30 فی صد اضافے کی منظوری دی یعنی اب 90ارب روپے ۔۔۔۔اتنی لمبی چوڑی کابینہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ سادگی اور کفایت کیسے کی جائے, سو ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے وہی ڈھلے ڈھلائے نسخے تجویز کیے ہیں جن پر عمل کے لیے وقت کی رادھا موجود ہے نہ نو من تیل کی کوئی صورت۔۔۔ کیا کہہ سکتے سوائے اس کے کہ ۔۔۔ واٹ آ کنٹری!!
ان کی شاعری، وائس اوور، پتلیوں کے کردار اور اسکرپٹ ہماری عام زندگی کا عکس تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کم وبیش ہر کردار اور خاکے کو پذیرائی ملی۔
ماسی مصیبتے، خود انکل سرگم سمیت ان کے اکثر کرداروں کے نام ان کے کردار کا مظہر تھے۔ ان کی انفرادیت تھی کہ سماجی تضادات کے چھوٹے چھوٹے روزمرہ مسائل کو موضوع بناتے اور اپنے پتلی کرداروں کے ذریعے سماجی تضادات کا کچا چٹھا سامنے لے آتے۔ ان کا ایک ایسا ہی کردار انگریز سیاح کا تھا۔
پاکستان کی سیاحت پر آیا یہ کردار ٹریفک قوانین توڑنے، جعلسازی، ملاوٹ اور بد انتظامی کے واقعات کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے، اس کی حیرانی اس وقت اسے مزید بوکھلا دیتی جب تضادات پر مبنی واقعات اور مناظر کی توجیح " بد تر از گناہ" کی جاتی تو وہ ورطہ ء حیرت میں ڈوبتے ہوئے انگشت بدنداں کہتا؛ واٹ آ کنٹری!!!
ہمیں یہ کردار اس وقت بے اختیار یاد آتا ہے جب ہم اپنے روزمرہ کے سیاسی سماجی تضادات پر ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، دلیل اور دوسروں سے موازنے کے باوجود اپنی غلطی پر اڑے رہتے ہیں، بہت سے معاملات میں ہمیں معلوم بھی ہو کہ غلطی پر ہیں تو بھی اپنی ناک کی خاطر یا اپنے مفاد کی خاطر اس پر ڈٹ جانے کو کمال سمجھتے ہیں۔
اس وقت ملک بھر میں جاری روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کی ہاہا کار کو لے لیجیے۔ گلوبل فنانسنگ اور ٹریڈنگ میں ماضی کا وہ معاشی طرز کب کا متروک ہو چکا کہ کوئی ملک اپنی مرضی کی شرح مبادلہ کے ساتھ اپنی کرنسی کو ورلڈ کرنسی یعنی ڈالر کے ساتھ فکس یعنی Peg کر دے۔
نوے کی دہائی میں بار بار کے تجربات نے دنیا کو سکھا دیا کہ دیرپا اقتصادی اور مالیاتی پالیسی یہی ہے کہ ملکی اکانومی زیادہ سے زیادہ ویلیو ایڈڈ پیداوار کرے، اس کی برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں، اس کی بیرونی مالی ادائیگیاں اس کے مالیاتی وسائل اور بیرونی ریزرو سے مطابقت رکھتی ہوں تو مالی استحکام یقینی ہے۔
ان بنیادی عوامل کی موجودگی میں ہی ملک کی کرنسی آزادانہ ٹریڈنگ میں مستحکم رہتی ہے۔تاہم اگر ٹریڈ خسارہ اپنے پاؤں پسارے ہی چلا جائے، کرنٹ اکاؤنٹ کے چھید بڑھتے بڑھتے شگاف بن جائیں تو بھی کوئی ملک اپنی کرنسی کی ویلیو مصنوعی طریقے سے فکس کرنے بیٹھ جائے کہ وہ دنیا سے زیادہ اسمارٹ ہے اور دنیا اس کے بہلاوے میں آ جائے گی تو اس کی بھول ہے۔
گزشتہ دس ماہ سے جاری مالیاتی تھیٹر میں بار بار ایسے مناظر دیکھے کہ بے اختیار زبان سے نکلا؛ واٹ آ کنٹری! دو روز قبل روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کا تماشا دیکھ کر بے اختیار یہی فقرہ ذہن میں آیا؛ واٹ آکنٹری!!
زیادہ پیچھے نہیں جاتے، اپریل کے بعد کرنسی کے ساتھ ہوئے کھیل کو ہی لیں۔ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں ہمیں فنانس ٹیم نے بار بار باور کرایا کہ ڈیفالٹ سر پر کھڑا ہے۔ ڈیفالٹ کیا ہوتا ہے، اتفاق سے اس کی ایک مثال انھی مہینوں میں سری لنکا نے پیش کر دی۔
سو مالیاتی ٹیم کو سمجھانا آسان ہو گیا کہ ڈیفالٹ کسے کہتے ہیں، سری لنکا تو دو کروڑ ابادی کا چھوٹا سا ملک ہے جب کہ پاکستان اس سے گیارہ گنا بڑا ملک ہے، سوچیں ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں ہونے والی ہڑبونگ اور دھما چوکڑی کیا رنگ دکھائے گی۔
مفتاح اسماعیل کے انداز بیان میں ان تلخ فیصلوں کی وضاحت میں شیرینی کی کمی پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر مصدق نے ان کی معاونت کی۔
روپے کی شرح مبادلہ گرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آیا اس پر دونوں نے یقین دلایا کہ تکلیف ہے، عارضی ہے اور ہم آپ کی تکلیف میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ البتہ انھوں نے بتانے سے گریز کیا کہ اس برابری کا اطلاق تکلیف سہنے پر بھی ہے یا صرف تکلیف دینے تک ہے۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ معاشی جادوگر اسحاق ڈار وارد ہوئے اور لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ خواب تھا جو دیکھا تھا افسانہ تھا جو سنا تھا۔۔ اب ڈالر 200 روپے سے نیچے جائے گا۔ اب تک جو ہوا وہ غلط ہوا۔ بے اختیار زبان سے یہی نکلا؛ واٹ اے کنٹری!
اسحاق ڈار نے آتے ہی ان ناہنجار منافع خوروں کی خبر لینا شروع کی جنھوں نے "میاں میرا گھر نہیں مجھے کسی کا ڈر نہیں" والے طور طریقے اپنا لیے تھے۔
بینکوں کے بہی کھاتوں کو ٹٹولا تو فارن کرنسی کی بڑھوتری سے کمائے منافعے گزشتہ کئی سالوں کی یافت سے بھاری نکلے۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے دھندے نے بھی بہتی گنگا میں اشنان کی عادتیں اپنائی ہوئی تھیں۔
انتظامی اختیارات کے استعمال سے ان چور راستوں پر پہرے بٹھانے سے کچھ بہتری تو ہوئی مگر دوسری طرف موصوف نے اپنے پچھلے دور میں آزمودہ نسخے کو روبہ عمل لانا شروع کر دیا یعنی غیراعلانیہ انداز میں اسٹیٹ بینک کے ذریعے اور انتظامی طاقت سے مشکیں کسنے کر انٹر بینک میں مصنوعی طور پر ڈالر کی شرح مبادلہ کو 223-225 کے درمیان فکس کرنا۔
تاہم اس عمل میں بیرونی ترسیلات زر میں کمی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شارٹیج نے اپنے اپنے ریٹ بنا لیے۔ اس پر مستزاد اپنی ہی پرورش کی ہوئی سبسڈائزڈ امپورٹ کی عادت کی حوصلہ شکنی کی کوشش میں اسٹیٹ بینک کے ذریعے امپورٹ کے فلڈ گیٹ کے سامنے بند باندھنے کا کام ذمے لے لیا۔
ہزاروں کنٹینرز پورٹ پر رک گئے، ہر قسم کی انڈسٹری اور ٹریڈ کی سپلائی چین کو جھٹکے لگنے لگے تو ہاہا کار مچ گئی شور شرابا ہونے لگا۔ دو دن قبل کرنسی پر سے کیپ ہٹا تو روپے ڈالر کی شرح ایک ہی دن 30 روپے سے زائد چھلانگ لگا گئی یعنی 10فی صد سے بھی زائد؛ 260 روپے۔ اس دوران ایک لفظ بھی معذرت اور اشک شوئی کا نہ سنا... یہی سوچ کر چپ رہے کہ...واٹ آ کنٹری!
خزانے کی درماندگی کے باوجود دوسری طرف یہ جذبہ کہ ای سی سی نے ممبران پارلیمنٹ میں اپنے ممبران کے لیے پروجیکٹس کے لیے رقوم میں 30 فی صد اضافے کی منظوری دی یعنی اب 90ارب روپے ۔۔۔۔اتنی لمبی چوڑی کابینہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ سادگی اور کفایت کیسے کی جائے, سو ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے وہی ڈھلے ڈھلائے نسخے تجویز کیے ہیں جن پر عمل کے لیے وقت کی رادھا موجود ہے نہ نو من تیل کی کوئی صورت۔۔۔ کیا کہہ سکتے سوائے اس کے کہ ۔۔۔ واٹ آ کنٹری!!