بائیکاٹ ایم کیو ایم کا درست فیصلہ تھا

بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے جو غلطی کی ہے اس کا فائدہ آنے والے وقتوں میں جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کو پہنچے گا

کراچی میں بلدیاتی انتخابات اللہ ، اللہ کر کے خیر سے مکمل ہوئے، لیکن جس طرح انتخابات کو بار بار ملتوی کیا گیا ، انتخابات سے چند گھنٹے پہلے ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ، جب کہ ایم کیو ایم لندن پہلے ہی بائیکاٹ کی اپیل کرچکی تھی۔

اس تمام صورتحال میں شہریوں نے خود کو انتخابات سے دور رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کی مجموعی شرح کہیں 15 فیصد اورکہیں 18 فیصد رہی ۔

کراچی کی 246 یونین کونسل میں سے پیپلز پارٹی نے 93 یوسیز میں ، جب کہ جماعت اسلامی نے 86 یوسیز میں کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف 40 یوسیز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

پیپلز پارٹی کی 93 یوسیز پرکامیابی اس لیے حیران کن نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے ڈسٹرکٹ ویسٹ کو تقسیم کر کے ایک نیا ڈسٹرکٹ کیماڑی بنایا اور اس کے بعد ملیر میں 7 لاکھ 44 ہزار ووٹوں پر 30 یوسیز اورکیماڑی میں تقریباً 9 لاکھ ووٹرز کے لیے 32 یوسیز بنائی۔

پیپلز پارٹی نے کیماڑی کی 32، ملیرکی 30 اور ضلع جنوبی کی 33 یوسیزکو ٹارگٹ بناکر منصوبہ بندی کی تھی ، اسے امید تھی کہ کراچی سے وہ 70سے 80 یوسیزمیں کامیابی حاصل کر لے گی ، جب کہ کراچی کے ان حلقوں میں جہاں سے ایم کیو ایم جیت جایا کرتی تھی۔ ان حلقوں میں یوسیزکی تعداد کم کردی گئی۔

ایم کیو ایم کے مطابق کراچی کی 70 یوسیزکوکم کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے نئی حلقہ بندیوں اور نئے ڈسٹرکٹ بنانے کا کام اگست 2020 میں مکمل کر لیا تھا۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے ،ان ڈھائی سالوں میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف حلقہ بندیوں کو درست کرنے میں ناکام کیوں رہیں۔

ایم کیو ایم جب پی ٹی آئی کی حکومت چھوڑ کر پی ڈی ایم کا حصہ بنی تو اس وقت بھی اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترامیم کے مطالبے کو تحریری معاہدے کا حصہ بنایا تھا جس پر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بھی دستخط کیے تھے مگر گزشتہ 8 ماہ کے دوران نہ تو ایم کیو ایم نے اس حوالے سے سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے اس پر توجہ دی ، یوں تو ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی سے تعلقات بہت خوشگوار رہے ہیں ، دونوں جماعتوں کے درمیان بہت سے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جاتے ہیں ، جب کہ وفاقی حکومت میں بھی اہم پوزیشن حاصل ہے۔

بلدیاتی الیکشن سے پندرہ دن قبل ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کو دھمکی دی اگر انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہوئے تو ہم حکومت چھوڑ دیں گے۔ اس دھمکی کے بعد وفاق کی نمایندگی کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ اور ایاز صادق کراچی آئے، حلقہ بندیوں میں توکوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ مذاکرات کے بعد ایم کیو ایم نے اعلان کیا کہ وہ حکومت سے الگ نہیں ہو رہے۔


دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی حلقہ بندیوں کو تبدیل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھی جب کہ الیکشن کمیشن ہر صورت میں 15 جنوری کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اس صورت حال میں ایم کیو ایم ایک بند گلی میں داخل ہوچکی تھی ، وہ نا تو وفاقی حکومت سے باہرآسکتی تھی اور نہ ہی الیکشن میں حصہ لے کر اپنی سیاسی کمزوریوں کو ظاہرکرنا چاہتی تھی۔

اس صورت حال میں ایم کیو ایم کے پاس بائیکاٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، ایم کیو ایم کو اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ اسے ماضی کی طرح واضح اکثریت نہیں ملے گی۔گزشتہ چھ برسوں میں ایم کیو ایم میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ،گروپ بندی ہوئی ، بڑی تعداد میں کارکنان ناراض اور مایوس ہو کر گھروں پر بیٹھ گئے ، ان تمام معاملات کو ٹھیک کیے بغیر الیکشن میں اترنا سیاسی خود کشی کے مترادف تھا۔

ایم کیو ایم، پی ایس پی اور فاروق ستارکا انضمام ایک ایسے وقت میں ہوا جب بلدیاتی انتخابات سر پر تھے ، تینوں دھڑوں کا انضمام جس عجلت میں ہوا ، لگ یہ رہا تھا کہ یہ صف بندی بلدیاتی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کے لیے کی جا رہی ہے۔ عوامی حلقے جہاں ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں کے اکٹھے ہونے پر حیران تھے ، اب وہ ایم کیو ایم کے اچانک بائیکاٹ پر بھی حیران اور پریشان ہیں۔

ملکی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتخابی عمل اور جمہوری نظام سے باہر رہ جانے والی جماعتیں ہمیشہ قوی دھارے اور عوام سے کٹ کر غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بقا جمہوری نظام سے جڑے رہنے اور انتخابات میں حصہ لینے سے ہی قائم رہتی ہیں۔

بائیکاٹ کے بعد یہ کہنا کہ'' ووٹ پڑنے کی شرح انتہائی کم رہی، عوام نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ، عوام نے جھرلو انتخابات کو مسترد کردیا ہے'' یہ باتیں اس وقت تک میسر ہوتی ہے جب تک منتخب ارکان حلف اُٹھا کر اسمبلی کا حصہ نہیں بن جاتے۔ چاہے وہ ارکان صوبائی اسمبلی کے ہوں، قومی اسمبلی کے ہوں یا بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ میں کامیاب ہوئے ہوں۔ ماضی کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بائیکاٹ کے فیصلے سے ہمیشہ دوسرے فریق کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔

ایم کیو ایم نے بلدیاتی اداروں کی بنیاد پر ہی کراچی اور حیدرآباد میں اپنے پیر جمائے اور سیاسی طاقت حاصل کی۔ ماضی کی بات کی جائے تو 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے شاندارکامیابی حاصل کی تھی ، اس کامیابی نے ایم کیو ایم کو بام عروج تک پہنچایا، جب 88 اور 90 کے قومی اور صوبائی کے الیکشن ہوئے تو بلدیاتی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے برعکس جب 2001 میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اسے اس کا نقصان ہوا۔

ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ '' ناظم کراچی'' منتخب ہوئے اور جب2003 میں قومی انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی نے کراچی سے چار اور حیدرآباد سے ایک نشست پرکامیابی حاصل کی۔ حیدر آباد میں جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے مضبوط امیدوار آفتاب شیخ کو شکست دی۔ حیدرآباد ،ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے مضبوط گڑھ رہا ہے، ایم کیو ایم وہاں سے بلا مقابلہ میئر منتخب کرتی رہی ہے، برے سے برے حالات میں بھی وہاں سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی دونوں سیٹوں پرکامیابی حاصل کی تھی۔ ان چار سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے بجائے پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار ہوگئی ہے۔ اس بار پی پی پی پہلی بار حیدرآباد سے میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے جو غلطی کی ہے اس کا فائدہ آنے والے وقتوں میں جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کو پہنچے گا۔ میئرکراچی پیپلز پارٹی کا بنے یا جماعت اسلامی کا اگر وہ شہریوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ایم کیو ایم کے لیے آیندہ قومی وصوبائی الیکشن میں بڑی اکثریت سے جیتنا مشکل نہیں بلکہ بہت مشکل ہو جائے گا۔
Load Next Story