لنکن ٹیم پر حملہ5 برس بعد بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ایک خواب
اعجاز بٹ، ذکا اشرف کی کوششیں بے سود، پی سی بی کے ویران ملکی گراؤنڈز آباد کرنے کے وعدے وفا نہ ہو سکے
FAISALABAD:
پانچ برس گزر جانے کے باوجود پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا خواب پورا نہ ہو سکا، پی سی بی کے ویران ملکی گراؤنڈز آباد کرنے کے وعدے وفا نہ ہو سکے۔
کروڑوں روپے پر مشتمل پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہوا۔ تفصیلات کے مطابق 3مارچ 2009 کو لاہور ٹیسٹ کے تیسرے روز سری لنکن ٹیم کو مال روڈ پر فائیوا سٹار ہوٹل سے پولیس کے پہرے میں قذافی اسٹیڈیم لایا جا رہا تھا کہ لبرٹی چوک پر اچانک دہشت گردوں نے مہمان کھلاڑیوں کی بس کے آگے یلو کیب کھڑی کر کے 3 اطراف سے راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈز، کلاشنکوفوں سمیت دیگر خطرناک ہتھیاروں سے حملہ کر دیا، دہشت گردوں کے اس حملے میں 6پولیس اہلکاروں سمیت 8افراد جاں بحق ہوئے۔ مہمان ٹیم کے 6کھلاڑیوں تھرنگا وتانا، سمارا ویرا، اجنتھا مینڈس، مہیلا جے وردھنے، کمارا سنگاکارا اور امپائر حسن رضا سمیت 2درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں ایلیٹ فورس کے فیصل بٹ، مدثر کمبوہ اور علی جبکہ مجاہد اسکواڈ کا ٹیپو سلطان، ٹریفک کانسٹیبل محمود، ٹریفک وارڈن تنویر، امپائرز کی گاڑی کا ڈرائیور ظفر اور ایک نامعلوم شخص شامل تھے۔ سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کی طرف سے حملے کے واقعے کی وجہ سے پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی، ٹوئنٹی 20ورلڈ کپ سمیت متعدد میگا ایونٹس کی میزبانی سے محروم ہو کر بھاری مالی نقصان برداشت کرنے کے ساتھ دنیا بھر کی ٹیموں کیساتھ شیڈول ہوم سیریز بھی نیوٹرل مقام پر کھیلنا پڑیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ نے واقعے کی ذمے داری قبول کر کے مستعفی ہونے سے تو انکار کر دیا لیکن بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے عالمی پلیٹ فارم پر خاصا کام کیا، انکی کوششوں کی وجہ سے آئی سی سی الیون پاکستان میں آنے کیلیے تیار بھی ہو گئی لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔ بعدازاں بورڈ کے نئے چیئرمین ذکا اشرف نے گراؤنڈز آباد کرنے کیلئے سنجیدہ کام کیا اور دنیا بھر کی متعدد ٹیموں کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، ایک مرحلے پر بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان آنے پر تیار بھی ہو گئی، دورے سے قبل سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کیلیے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے مصطفی کمال دوسرے عہدیداروں اور سیکیورٹی وفدکے یساتھ پاکستان آئے، پی سی بی نے انھیں نہ صرف مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی بلکہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈریس ریہرسل کے طور پر فوجی ہیلی کاپٹرز بھی گراؤنڈز میں اتارے گئے، بنگلہ دیش بورڈ کے سربراہ ٹیم بھجوانے پر آمادہ تو ہو گئے لیکن انھوں نے دورے کو آئی سی سی کی اجازت سے مشروط بھی کر دیا۔ انٹرنیشنل ٹیموں کو لانے میں ناکامی کے بعد پی سی بی نے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو لانے کا منصوبہ بنایا اور آئی پی ایل، سی پی ایل اور بی بی ایل طرز پر پاکستان سپر لیگ کروانے کا اعلان کیا، اس مقصد کیلئے آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹوہارون لوگارٹ اور پاکستانی نژاد امریکی شہری سلمان بٹ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، تاہم یہ منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہوا اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پی سی بی کو ایکبار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
پانچ برس گزر جانے کے باوجود پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا خواب پورا نہ ہو سکا، پی سی بی کے ویران ملکی گراؤنڈز آباد کرنے کے وعدے وفا نہ ہو سکے۔
کروڑوں روپے پر مشتمل پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہوا۔ تفصیلات کے مطابق 3مارچ 2009 کو لاہور ٹیسٹ کے تیسرے روز سری لنکن ٹیم کو مال روڈ پر فائیوا سٹار ہوٹل سے پولیس کے پہرے میں قذافی اسٹیڈیم لایا جا رہا تھا کہ لبرٹی چوک پر اچانک دہشت گردوں نے مہمان کھلاڑیوں کی بس کے آگے یلو کیب کھڑی کر کے 3 اطراف سے راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈز، کلاشنکوفوں سمیت دیگر خطرناک ہتھیاروں سے حملہ کر دیا، دہشت گردوں کے اس حملے میں 6پولیس اہلکاروں سمیت 8افراد جاں بحق ہوئے۔ مہمان ٹیم کے 6کھلاڑیوں تھرنگا وتانا، سمارا ویرا، اجنتھا مینڈس، مہیلا جے وردھنے، کمارا سنگاکارا اور امپائر حسن رضا سمیت 2درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں ایلیٹ فورس کے فیصل بٹ، مدثر کمبوہ اور علی جبکہ مجاہد اسکواڈ کا ٹیپو سلطان، ٹریفک کانسٹیبل محمود، ٹریفک وارڈن تنویر، امپائرز کی گاڑی کا ڈرائیور ظفر اور ایک نامعلوم شخص شامل تھے۔ سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کی طرف سے حملے کے واقعے کی وجہ سے پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی، ٹوئنٹی 20ورلڈ کپ سمیت متعدد میگا ایونٹس کی میزبانی سے محروم ہو کر بھاری مالی نقصان برداشت کرنے کے ساتھ دنیا بھر کی ٹیموں کیساتھ شیڈول ہوم سیریز بھی نیوٹرل مقام پر کھیلنا پڑیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ نے واقعے کی ذمے داری قبول کر کے مستعفی ہونے سے تو انکار کر دیا لیکن بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے عالمی پلیٹ فارم پر خاصا کام کیا، انکی کوششوں کی وجہ سے آئی سی سی الیون پاکستان میں آنے کیلیے تیار بھی ہو گئی لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔ بعدازاں بورڈ کے نئے چیئرمین ذکا اشرف نے گراؤنڈز آباد کرنے کیلئے سنجیدہ کام کیا اور دنیا بھر کی متعدد ٹیموں کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، ایک مرحلے پر بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان آنے پر تیار بھی ہو گئی، دورے سے قبل سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کیلیے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے مصطفی کمال دوسرے عہدیداروں اور سیکیورٹی وفدکے یساتھ پاکستان آئے، پی سی بی نے انھیں نہ صرف مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی بلکہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈریس ریہرسل کے طور پر فوجی ہیلی کاپٹرز بھی گراؤنڈز میں اتارے گئے، بنگلہ دیش بورڈ کے سربراہ ٹیم بھجوانے پر آمادہ تو ہو گئے لیکن انھوں نے دورے کو آئی سی سی کی اجازت سے مشروط بھی کر دیا۔ انٹرنیشنل ٹیموں کو لانے میں ناکامی کے بعد پی سی بی نے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو لانے کا منصوبہ بنایا اور آئی پی ایل، سی پی ایل اور بی بی ایل طرز پر پاکستان سپر لیگ کروانے کا اعلان کیا، اس مقصد کیلئے آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹوہارون لوگارٹ اور پاکستانی نژاد امریکی شہری سلمان بٹ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، تاہم یہ منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہوا اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پی سی بی کو ایکبار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔