بجلی اور حرارت کے بغیر مچھربھگانے والا نظام فوجیوں کے لیے بھی مؤثر
جامعہ فلوریڈا کے آلے کو چار ہفتے تک کھلے ماحول میں آزمایا گیا ہے جو مؤثر انداز میں مچھروں کو دور بھگاسکتا ہے
جامعہ فلوریڈا نے مچھروں کوآپ سے دور رکھنے والا ایک ایسا نظام بنایا ہے جسے جلد پر لگانےیا چلانے کے لیے حرارت یا بجلی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر حکام نے اسے عسکری استعمال کے لیے بھی منظورکرلیا ہے۔
منصوبے کے لیے رقم امریکی محکمہ دفاع نے ادا کی تھی ۔ یہ آلہ جامعہ کے پی ایچ ڈی طالبعلم، ناگ راجن راجہ گوپال نے اپنے پروفیسر کرسٹوفر بیٹخ کی نگرانی میں بنایا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت نے اسے چار ہفتے تک مختلف کھیتوں اور کھلے میدان میں آزمایا ہے۔ یہاں اس کی افادیت سامنے آئی ہے۔ اس دوران مختلف ماہرین نے نظام کی افادیت کو دیکھا اور اس کی تصدیق کی۔
یہ آلہ دھیرے دھیرے ایک عام نامیاتی کیمیکل 'ٹرانسفلوتھرن' خارج کرتا رہتا ہے جو انسان اور جانوروں کے لیے بے ضرر بھی ہے۔ اس آلے نے تمام اقسام کے مچھروں کو فوجی خیمے یا تنصیبات کے قریب آنے سے روکے رکھا۔ اسے ہاتھوں سے اٹھاکر ایک سے دوسری جگہ لے جایا جاسکتا ہے، اس میں موجود محلول، کسی حرارت، بجلی اور آلے کے بغیر کام کرتا رہتا ہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر دوا چھڑکنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہ دوا عام مفید حشرات، زرعی اور آبی وسائل کو نقصان دے سکتی ہے۔ گھنے جنگلات میں ڈیوٹی کرنے والے فوجیوں کو نہ صرف مچھروں اور حشرات سے کام میں دخل کا خطرہ رہتا ہے بلکہ اس سے جان لیوا امراض بھی جنم لیتے ہیں جن میں ڈینگی، زکا، ملیریا اور ویسٹ نائل وائرس کے امراض شامل ہیں۔
ماہرین نے ایک فوجی خیمے کے اطراف ایسے 70 آلات لگائے۔ نلکی کی شکل کے ہر آلے کو دیگرچھوٹی نلکیوں سے جوڑا گیا تھا اور نلکی کے سرے پر مچھر بھگانے والا کیمیکل روئی میں ڈال کر لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈبوں میں بند کئی مچھر چھوڑے گئے اوران میں سے تقریباً تمام مچھر 24 گھنٹے میں مرگئے یا بھاگ گئے۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ گویا تمام آلات نے چار ہفتے تک خیمے کے گرد ایک ان دیکھا حصار بنائے رکھا جو مچھروں سے بالکل محفوظ تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سادہ نظام کو تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا جاسکتا ہے اور اس کی افادیت مزید تین ماہ تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے مزید کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کےلیے استعمال کیا جائے گا۔
منصوبے کے لیے رقم امریکی محکمہ دفاع نے ادا کی تھی ۔ یہ آلہ جامعہ کے پی ایچ ڈی طالبعلم، ناگ راجن راجہ گوپال نے اپنے پروفیسر کرسٹوفر بیٹخ کی نگرانی میں بنایا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت نے اسے چار ہفتے تک مختلف کھیتوں اور کھلے میدان میں آزمایا ہے۔ یہاں اس کی افادیت سامنے آئی ہے۔ اس دوران مختلف ماہرین نے نظام کی افادیت کو دیکھا اور اس کی تصدیق کی۔
یہ آلہ دھیرے دھیرے ایک عام نامیاتی کیمیکل 'ٹرانسفلوتھرن' خارج کرتا رہتا ہے جو انسان اور جانوروں کے لیے بے ضرر بھی ہے۔ اس آلے نے تمام اقسام کے مچھروں کو فوجی خیمے یا تنصیبات کے قریب آنے سے روکے رکھا۔ اسے ہاتھوں سے اٹھاکر ایک سے دوسری جگہ لے جایا جاسکتا ہے، اس میں موجود محلول، کسی حرارت، بجلی اور آلے کے بغیر کام کرتا رہتا ہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر دوا چھڑکنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہ دوا عام مفید حشرات، زرعی اور آبی وسائل کو نقصان دے سکتی ہے۔ گھنے جنگلات میں ڈیوٹی کرنے والے فوجیوں کو نہ صرف مچھروں اور حشرات سے کام میں دخل کا خطرہ رہتا ہے بلکہ اس سے جان لیوا امراض بھی جنم لیتے ہیں جن میں ڈینگی، زکا، ملیریا اور ویسٹ نائل وائرس کے امراض شامل ہیں۔
ماہرین نے ایک فوجی خیمے کے اطراف ایسے 70 آلات لگائے۔ نلکی کی شکل کے ہر آلے کو دیگرچھوٹی نلکیوں سے جوڑا گیا تھا اور نلکی کے سرے پر مچھر بھگانے والا کیمیکل روئی میں ڈال کر لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈبوں میں بند کئی مچھر چھوڑے گئے اوران میں سے تقریباً تمام مچھر 24 گھنٹے میں مرگئے یا بھاگ گئے۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ گویا تمام آلات نے چار ہفتے تک خیمے کے گرد ایک ان دیکھا حصار بنائے رکھا جو مچھروں سے بالکل محفوظ تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سادہ نظام کو تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا جاسکتا ہے اور اس کی افادیت مزید تین ماہ تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے مزید کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کےلیے استعمال کیا جائے گا۔