پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول بھٹوکے حوالے کرنے کا عمل شروع
لاڑکانہ کے حالیہ دورے کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری سے طویل ملاقات اور بلاول بھٹو زرداری کی...
لاڑکانہ کے حالیہ دورے کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری سے طویل ملاقات اور بلاول بھٹو زرداری کی جذباتی تقریر سننے کے بعد جو عمومی تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی باگیں بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔
تاہم لاڑکانہ گئے سینئر صحافیوں کے وفد کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں ماضی کی کئی ملاقاتوں کی طرح وہ اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے منتخب حکومت کو اپنی 5سالہ مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ صحافیوں نے نواز شریف کے حوالے سے تابڑ توڑ سوالات کئے کہ پیپلزپارٹی کی سیاست نواز حکومت بچاؤ تک محدود ہو گئی ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ ماضی میں غیر جمہوری قوتیں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو درست سمت میں لے جایا جائے۔ جیسے ہم نے 5 سال پورے کئے ، اب میاں نواز شریف کو بھی اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنی چاہیے۔
قوموں کی تاریخ میں 5 سال کا عرصہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ پاکستان کی بقاء، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے 5سال قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ وہ پاکستان اور جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر موجودہ منتخب حکومت کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میمو گیٹ کے حوالے سے سابق صدر نے انکشاف کیا کہ سچ سامنے آ گیا ہے، میمو گیٹ کے آرکیٹیکٹ نے پیغام بھیجا ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے ، اس سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی عصمت ریزی کرنے والے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کا غداری کے الزام میں ٹرائیل ہو اور انہیں ان کے کئے کی سزا ملے ۔ نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو درست سمت میں پہنچانے کے لئے وہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ (دوران گفتگو وہ پرویز مشرف کو علامتی طور پر بلا کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور کہا کہ بلا بچ کر نہیں جائے گا ) ۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے حوالے سے جلسے کا مرکزی خطاب بلاول بھٹو زرداری نے کیا اور سابق صدر زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے برعکس کھل کر نواز شریف حکومت پر تنقید کی ۔ ان کا بنیادی مؤقف یہ تھا کہ نواز شریف حکومت کو طالبان سے مذاکرات کے بجائے ان کے مکمل خاتمے کی پالیسی وضح کرنی چاہیے، ان کا خیال تھا کہ منافقانہ اپروچ کے ساتھ حکومتیں نہیں چل سکتیں، ملک اور قوم ڈوب جاتے ہیں۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے، اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اہم قومی امور میں حکومت کی اصل پالیسیاں کیا ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایک طرف تو طالبان کے ہاتھوں فوجی جوانوں کی شہادت پر اہم لیگی وزراء تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں قوم کے شہید قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہی وزراء حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر اسے بھی قوم کا شہید قرار دے چکے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے نواز حکومت کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ قوم کو بتایا جائے، سعودی عرب سے 1.5ارب ڈالر کا تحفہ کس خدمت کے صلے میں دیا گیا ہے؟ انہوں نے شام ، سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے نواز حکومت کی خارجہ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے والے لاہور کے صحافیوں کا وفد بلاول بھٹو کی تقریر سننے کے لئے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر قائم کئے گئے سٹیج پر موجود تھا ، ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ سابق صدر زرداری نے بلاول بھٹو کی تقریر کے بعد جو مختصر خطاب کیا اس میں کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی بات کرنے سے گریز کیوں کیا ؟ سابق صدر صحافیوں کے ساتھ جو بات کر چکے تھے وہ تقریر میں نہیں کی ۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے مؤقف کو مان لیا اور ''آج کی شام بلاول کے نام'' کہہ کر اپنی تقریر مختصر کر دی کہ یہ بلاول کی پارٹی ہے اور اس کے مستقبل کی سمت کا تعین اسی کو کرنا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بے نظیر بھٹو کی وصیت کی روشنی میں پارٹی معاملات چلائیں گے، آصف زرداری نے بھی بلاول کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ اب پارٹی بلاول بھٹو چلائیں گے اور زرداری رہبر اور رہنماء کے طور پر ملک اور پارٹی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ سابق صدر چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو اگلے 5سال اپوزیشن کریں، سندھ حکومت کو سپر وائز کریں، سیاسی تجربہ حاصل کریں تاکہ انہیں پاکستان کی اگلی سیاست کو سمجھنے اور سیاسی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو ۔ ابھی تک تو بلاول کو سندھ حکومت اور پارلیمانی سیاست میں رول دینے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس کا حتمی فیصلہ بلاول بھٹو خود کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے 35 سال بعد اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر رات کے جلسے کی روایت توڑ دی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جلسہ رات کی بجائے دن کے وقت رکھا گیا ۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ صرف بھٹو کا نواسہ ہی کر سکتا تھا ۔ اس بار تقریر کے لئے بلاول کی تیاری بہت اچھی تھی اور انہوں نے ایک بار بھی کاغذ کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ بلاول نے پیپلزپارٹی کا معاشی ایجنڈا بھی واضح کر دیا ۔ ان کی تقریر نجکاری کی مخالفت اور مزدور کی حمایت پر مبنی تھی ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی کو فوج کے حوالے سے ہمیشہ تحفظات رہے ہیں مگر اس دفعہ بلاول بھٹو نے فوج کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ ہماری فوج غیرت مند اور ہمارا سرمایہ ہے۔ پیپلزپارٹی نے سینٹر آف دی لیفٹ پوزیشن لے کر اپنی اصل شناخت کو اجاگر کر دیا ہے۔
93ء میں بے نظیر بھٹو نے بھی یہی سوچ اپنائی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ کئی برس بعد بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سینیئر قیادت کی سربراہی میں نوجوان قیادت کو لایا جائے گا۔ بلاول بھٹو لاہور آرہے ہیں اور ان کی آمد کی خبر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا مورال بڑھا ہے وہ اپنے لیڈر کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو اب لاہور کو مرکز بنا کر اضلاع کی سطح پر پارٹی میٹنگز کریں گے جس کے فیڈ بیک کی روشنی میں تنظیمی تبدیلیاں لائی جائیں گی جس کے پیپلز پارٹی کی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور پارٹی کو مکمل طور پر فعال ہونے میں بھی مدد ملے گی ۔اب یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی نے آئندہ الیکشن پنجاب میں لڑنا ہے، اس سے پہلے سندھ کو بیس کیمپ بنا یا جاتا تھا لیکن اب اس پالیسی میں تبدیلی آچکی ہے۔
تاہم لاڑکانہ گئے سینئر صحافیوں کے وفد کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں ماضی کی کئی ملاقاتوں کی طرح وہ اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے منتخب حکومت کو اپنی 5سالہ مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ صحافیوں نے نواز شریف کے حوالے سے تابڑ توڑ سوالات کئے کہ پیپلزپارٹی کی سیاست نواز حکومت بچاؤ تک محدود ہو گئی ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ ماضی میں غیر جمہوری قوتیں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو درست سمت میں لے جایا جائے۔ جیسے ہم نے 5 سال پورے کئے ، اب میاں نواز شریف کو بھی اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنی چاہیے۔
قوموں کی تاریخ میں 5 سال کا عرصہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ پاکستان کی بقاء، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے 5سال قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ وہ پاکستان اور جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر موجودہ منتخب حکومت کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میمو گیٹ کے حوالے سے سابق صدر نے انکشاف کیا کہ سچ سامنے آ گیا ہے، میمو گیٹ کے آرکیٹیکٹ نے پیغام بھیجا ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے ، اس سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی عصمت ریزی کرنے والے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کا غداری کے الزام میں ٹرائیل ہو اور انہیں ان کے کئے کی سزا ملے ۔ نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو درست سمت میں پہنچانے کے لئے وہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ (دوران گفتگو وہ پرویز مشرف کو علامتی طور پر بلا کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور کہا کہ بلا بچ کر نہیں جائے گا ) ۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے حوالے سے جلسے کا مرکزی خطاب بلاول بھٹو زرداری نے کیا اور سابق صدر زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے برعکس کھل کر نواز شریف حکومت پر تنقید کی ۔ ان کا بنیادی مؤقف یہ تھا کہ نواز شریف حکومت کو طالبان سے مذاکرات کے بجائے ان کے مکمل خاتمے کی پالیسی وضح کرنی چاہیے، ان کا خیال تھا کہ منافقانہ اپروچ کے ساتھ حکومتیں نہیں چل سکتیں، ملک اور قوم ڈوب جاتے ہیں۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے، اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اہم قومی امور میں حکومت کی اصل پالیسیاں کیا ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایک طرف تو طالبان کے ہاتھوں فوجی جوانوں کی شہادت پر اہم لیگی وزراء تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں قوم کے شہید قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہی وزراء حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر اسے بھی قوم کا شہید قرار دے چکے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے نواز حکومت کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ قوم کو بتایا جائے، سعودی عرب سے 1.5ارب ڈالر کا تحفہ کس خدمت کے صلے میں دیا گیا ہے؟ انہوں نے شام ، سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے نواز حکومت کی خارجہ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے والے لاہور کے صحافیوں کا وفد بلاول بھٹو کی تقریر سننے کے لئے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر قائم کئے گئے سٹیج پر موجود تھا ، ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ سابق صدر زرداری نے بلاول بھٹو کی تقریر کے بعد جو مختصر خطاب کیا اس میں کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی بات کرنے سے گریز کیوں کیا ؟ سابق صدر صحافیوں کے ساتھ جو بات کر چکے تھے وہ تقریر میں نہیں کی ۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے مؤقف کو مان لیا اور ''آج کی شام بلاول کے نام'' کہہ کر اپنی تقریر مختصر کر دی کہ یہ بلاول کی پارٹی ہے اور اس کے مستقبل کی سمت کا تعین اسی کو کرنا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بے نظیر بھٹو کی وصیت کی روشنی میں پارٹی معاملات چلائیں گے، آصف زرداری نے بھی بلاول کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ اب پارٹی بلاول بھٹو چلائیں گے اور زرداری رہبر اور رہنماء کے طور پر ملک اور پارٹی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ سابق صدر چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو اگلے 5سال اپوزیشن کریں، سندھ حکومت کو سپر وائز کریں، سیاسی تجربہ حاصل کریں تاکہ انہیں پاکستان کی اگلی سیاست کو سمجھنے اور سیاسی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو ۔ ابھی تک تو بلاول کو سندھ حکومت اور پارلیمانی سیاست میں رول دینے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس کا حتمی فیصلہ بلاول بھٹو خود کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے 35 سال بعد اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر رات کے جلسے کی روایت توڑ دی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جلسہ رات کی بجائے دن کے وقت رکھا گیا ۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ صرف بھٹو کا نواسہ ہی کر سکتا تھا ۔ اس بار تقریر کے لئے بلاول کی تیاری بہت اچھی تھی اور انہوں نے ایک بار بھی کاغذ کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ بلاول نے پیپلزپارٹی کا معاشی ایجنڈا بھی واضح کر دیا ۔ ان کی تقریر نجکاری کی مخالفت اور مزدور کی حمایت پر مبنی تھی ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی کو فوج کے حوالے سے ہمیشہ تحفظات رہے ہیں مگر اس دفعہ بلاول بھٹو نے فوج کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ ہماری فوج غیرت مند اور ہمارا سرمایہ ہے۔ پیپلزپارٹی نے سینٹر آف دی لیفٹ پوزیشن لے کر اپنی اصل شناخت کو اجاگر کر دیا ہے۔
93ء میں بے نظیر بھٹو نے بھی یہی سوچ اپنائی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ کئی برس بعد بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سینیئر قیادت کی سربراہی میں نوجوان قیادت کو لایا جائے گا۔ بلاول بھٹو لاہور آرہے ہیں اور ان کی آمد کی خبر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا مورال بڑھا ہے وہ اپنے لیڈر کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو اب لاہور کو مرکز بنا کر اضلاع کی سطح پر پارٹی میٹنگز کریں گے جس کے فیڈ بیک کی روشنی میں تنظیمی تبدیلیاں لائی جائیں گی جس کے پیپلز پارٹی کی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور پارٹی کو مکمل طور پر فعال ہونے میں بھی مدد ملے گی ۔اب یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی نے آئندہ الیکشن پنجاب میں لڑنا ہے، اس سے پہلے سندھ کو بیس کیمپ بنا یا جاتا تھا لیکن اب اس پالیسی میں تبدیلی آچکی ہے۔