جامعہ اردو بدترین مالی وانتظامی بحران کا شکار ہوگئی

گزشتہ برس وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کی دیگر وائس چانسلرز کے مقابلے میں 11 لاکھ روپے ماہانہ طے کی گئی تھی، ذرائع

فوٹو: فائل

اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور اُردو یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مابین جاری شدید چپقلش اور اختلافات کے سبب جامعہ اُردو بدترین مالی وانتظامی بحران سے دوچار ہوگئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور اُردو یونیورسٹی کی انتظامیہ میں شدید اختلافات کے باعث جامعہ بدترین مالی و انتظامی بحران کا شکار ہوگئی۔

یونیورسٹی کی موجودہ قائم مقام انتظامیہ نے 7 ماہ قبل اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی پانے والے اور براہ راست اس عہدے پر فائز ہونے والے اساتذہ کو جواننگ لیٹر دیتے ہوئے ان کی مذکورہ عہدے پر خدمات لینے شروع کردیئے ہیں تاکہ فیکلٹی میں موجود خلا کو پُر کیا جاسکے لیکن تاحال یہ اساتذہ اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں جبکہ حال ہی میں 73 لیکچرز کو بھی جوائننگ دے دی ہے انہیں بھی تنخواہیں نہیں دی جارہی۔

کہا جارہا ہے کہ لیکچررز کی بھرتیاں یونیورسٹی کے دو سینئر اساتذہ کو پروفیسر کے عہدے پر فائز کرنے کے التوا میں پڑے کیس کو نمٹانے کے لئے دی گئی۔

ادھر یونیورسٹی میں انتظامی کے ساتھ ساتھ بدترین مالی بحران ہے اور تین ماہ سے تنخواہیں معمول کے مطابق نہیں دی جارہی، کبھی آدھی تنخواہ مہینے کے شروع اور آدھی مہینے کے درمیان دی جاتی ہے اور کبھی basic pay دے کر کام چلایا جارہا ہے۔

یونیورسٹی ذرائع کے مطابق اسے ہر ماہ تقریباً 4 کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کو فیڈرل ایچ ای سی بھی تیار نہیں ہے۔

چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن ڈاکٹر مختار احمد کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ "لیکچررز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے سلیکشن بورڈ متنازعہ تھے اور یہ معاملہ ابھی انکوائری کے مرحلے میں تھا اس دوران اساتذہ کو تقررنامے دے دیئے گئے لہذاجن اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے ان کی تنخواہوں کے لئے رقم ہم نہیں دیں گے یونیورسٹی اب خود ہی ان کا انتظام کرے۔

"ایکسپریس" سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی نے یونیورسٹی انتظامیہ سے متعلقہ سیکشن بورڈز کی proceding مانگی تھی تاہم جب یہ ہمیں موصول ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ انتظامیہ نے سلیکشن بورڈ کی کارروائی کے منٹس کے بجائے کسی بچے کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائری ہمیں بھیج دی ہے جس میں سب کچھ قلم سے لکھا ہوا ہے یہ قابل قبول نہیں اب ہماری ٹیم کراچی آکر اس کی خود جانچ کرے گی۔


واضح رہے کہ متعلقہ اور متنازعہ قرار دیئے گئے ان دونوں عہدوں کے سلیکشن بورڈ کا اشتہار کئی برس پرانا ہے اور اس پر بورڈ تقریباً دو برس قبل ہوا تھا جس کے ٹیسٹ پیپر اور انٹرویوز میں کئی طرح کی شکایات سامنے آئی تھیں۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر کے سلیکشن بورڈ کوالیفائی کرنے والے جامعہ اُردو کے اپنے لیکچررز بھی اس عہدے پر فائز ہونے کے باوجود گریڈ 18 کی لیکچرر کی تنخواہ ہی لے رہے ہیں اور مالی بحران کے سبب اب تک انہیں بھی نئے گریڈ کی تنخواہیں نہیں مل سکی ہیں جب کہ اس عہدے پر جو اساتذہ براہ راست تعینات کئے گئے ہیں ان چھ ماہ میں تنخواہ تو نہیں دی گئی صرف دسمبر کے آغٖاز میں 1 لاکھ 10 ہزار روپے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے گئے جب کہ ان کی چھ ماہ کی تنخواہ کئی لاکھ روپے بنتی ہے۔

ادھر یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاالدین کا سلیکشن بورڈ کے بعد چھ ماہ قبل اسسٹنٹ پروفیسراور اب لیکچررکے عہدے پر اساتذہ کے تقرر کے حوالے سے کہنا ہے کہ "یونیورسٹی کی سینیٹ کے ایک رکن نے ہم سے باقاعدہ اس معاملے پر اصرار کیا اور کہا کہ آخرجب سینیٹ اس حوالے سے تقرریوں کا فیصلہ کرچکی ہے تو پھر ان اساتذہ کو تقررنامے کیوں نہیں دیئے جاتے جس کے بعد ہم نے ان اساتذہ کو جوائننگ دی جس سینیٹ میں یہ فیصلہ ہوا، اس میں چیئرمین ایچ ای سی بھی موجود تھے جب یہ معاملہ سامنے آیا تو انھوں نے کہا کہ سلیکشن بورڈ کی روداد ہمیں بھیجوا دیں لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا تھا کہ ابھی اس معاملے کو روک کر رکھیں۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جس روداد کو چیئرمین ایچ ای سی بچوں کی ڈائری کہہ رہے ہیں سلیکشن بورڈ کے منٹس ہر یونیورسٹی میں اسی طرح لکھے جاتے ہیں کیونکہ ایکسپرٹس فوری اپنے نمبرز اور کمنٹس دیتے ہیں جو ہاتھ کے ہاتھ نوٹ ہوے ہیں۔

وائس چانسلر نے بتایا کہ ایچ ای سی کی ٹیم نے کراچی آکر اردو یونیورسٹی کے دونوں سلیکشن بورڈ کے ریکارڈ کی چھان بین کی ہے ہم نے انھیں تمام سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں تاہم اب تک ان کی حتمی رپورٹ نہیں آئی۔

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علی اس یونیورسٹی کے چانسلر ہیں اور قومی زبان کے نام پر قائم اس یونیورسٹی کا گزشتہ دو سال سے کوئی مستقل انتظامی سربراہ نہیں ہے گزشتہ برس ڈاکٹر اطہرعطا کو یونیورسٹی کا مستقل وائس چانسلر مقر ر کیا گیا تھا تو ان کی تنخوا ہ دیگر وائس چانسلرز کے مقابلے میں 11 لاکھ روپے ماہانہ طے کی گئی تھی تاہم وہ کچھ روز کے لیے کراچی آئے اور پھر تعطیلات کا بہانہ کر کے کینیڈا واپس چلے گئے اور وہاں سے یونیورسٹی آن لائن چلانے کا ایک انوکھا سلسلہ شروع کر دیا، جس پر وفاقی وزارت تعلیم نے ایکشن لیا، ڈاکٹر اطہر عطا کو مستعفی ہونا پڑا۔

اس سے قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس اردویونیورسٹی کے وائس چانسلر کا چارج رہا اور بھی یونیورسٹی قائم مقام سربراہ کے پاس ہے یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر کے لیے تلاش کمیٹی تو بنادی گئی ہے تاہم اساتذہ کے دو نمائندے اپنے نامزدگیوں باوجود تلاش کمیٹی کے اجلاس میں اس لیے شریک نہیں ہوئے کہ ان کی نامزدگیوں کی منظوری یونیورسٹی سینیٹ سے نہیں لی گئی جس کے سبب اب دوبارہ تلاش کمیٹی اجلاس بھی نہیں ہوسکا۔

ادھر قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ "یونیورسٹی سینیٹ کے بیشتر اراکین کی مدت پوری ہونے کے سبب اب سینیٹ بھی تحلیل ہو چکی ہے نئے نام منظوری کے لیے وزارت تعلیم کے ذریعے ایوان صدر بھجوا رکھے ہیں تاہم اس کی منظوریاں نہیں آئی ہیں۔ 4 نامزدگیاں جولائی اور 6 نومبر میں بھجوائی ہیں لیکن منظوری نہ ہونے سے یونیورسٹی کا کام آگے نہیں بڑھ رہا ۔

واضح رہے کہ جامعہ اردو کے کراچی سمیت تینوں کیمپسز کے ماہانہ اخراجات18 کروڑ روپے ماہانہ میں جس میں سے ساڑھے 13 کروڑ روپے تنخواہوں میں خرچ ہوتے ہیں کراچی کے دونوں کیمپسز کی تنخواہیں 9 کروڑ جبکہ باقی اسلام آباد کیمپس میں خرچ ہوتی ہیں بجلی کے بل کی مد میں 22لاکھ روپے جبکہ پینشن کی مد میں 3کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں اور یونیورسٹی کو ماہانہ 4 کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا ہے جو دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔
Load Next Story