مسلم امہ کہاں ہے

امت مسلمہ جسے یہ افتخار حاصل رہا ہے کہ طاغوتی نظاموں کے سامنے سینہ سپر رہی اور ہر دور کے شیاطین کے ساتھ مبارزہ آرائی میں مصروف عمل رہی ہے، لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم امہ شاید اپنا یہ امتیاز اور افتخار رفتہ رفتہ کھوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ شاید دین اسلام کے سنہرے اصولوں سے دوری بھی ہے اور آپس کی چپقلش نے بھی امت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ہم اپنے راستے سے انحراف کرتے چلے جا رہے ہیں اور کیوں اپنا افتخار اور اعزاز دشمن کے قدموں میں نچھاور کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے ذاتی اختلافات یا پھر فروعی اختلافات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں امت کے اجتماعی مسائل اور اجتماعی مفادات کے تحفظ کی پرواہ ہی نہیں رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام اور قبلہ اول بیت المقدس تاحال صہیونی شکنجے میں ہے اور مسلم امہ خواب غفلت کی نیند میں ہے یا پھر اپنے معمولی نوعیت کے اختلافات میں مصروف عمل ہے۔

پورے کا پورا مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے اور کوئی بھی ایسی مسلم حکومت موجود نہیں ہے کہ جو ان حالات میں امت کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائے، البتہ ایک آدھ مسلم ریاست مسئلہ فلسطین جیسے بنیادی معاملے کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں مصروف ہے تاہم یہ کوششیں بھی کافی نہیں ہیں۔ بہرحال حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور دنیا کا نقشہ بھی شاید تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ان سب میں آخرکار مسلم حکومتوں کا بھی کردار موجود ہے، مثال کے طور پر مصر میں اسلامی جماعت کی کامیابی کو ختم کرنے کے لیے ایک اسلامی عرب ریاست نے فنڈنگ کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ مصر کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کا نقصان براہ راست جہاں امت مسلمہ کو پہنچے گا وہاں فلسطین کے معاملے کو بھی شدید زک پہنچے گی۔

دوسری طرف شام ہے جہاں کی حکومت نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے اور فلسطینی جماعتوں کو نہ صرف مالی بلکہ مسلح مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں دفاتر اور دیگر مراعات عنایت کی تھیں۔ آج امریکا اور اسرائیل سمیت ہمارے ہی چند مسلم عرب حکمران اس کوشش میں مصروف ہیں کہ شام کی وہ حکومت جو اسرائیل مخالف اور فلسطین کاز کی حامی ہے، اسے ہٹا دیا جائے اور اس کام کو پورا کرنے کے لیے مسلح دہشت گرد گروہوں کو مالی اور مسلح مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔


بحرین کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں پر حکمران اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کے لیے اپنے ہی وطن کے عوام کے خلاف ہوگئے ہیں۔ لبنان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ لبنانی فوج کو کمزور کرنے کے لیے دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، جب کہ لبنان کی سیاسی و مزاحمتی تحریک حزب اﷲ کے مجاہدین کو بھی کہیں ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں بم دھماکوں کے ذریعے پوری پوری آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس سب کام میں عالمی استعماری قوتیں امریکا، اسرائیل اور یورپ ملوث ہیں۔

پاکستان کے حالات ہمارے سامنے ہی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دہشت گردی عروج پر ہے، حتیٰ کہ ہماری حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہو گئی ہے۔ یمن ، لیبیا، افریقی ریاستوں سمیت تیونس اور دیگر مسلم ریاستیں سب کے سب پریشانی کا شکار ہیں، اور ان سب کی پریشانی میں عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل براہ راست ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مسلم حکمران بھی ملوث ہیں ۔

یہاں ایک واضح سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان تمام ممالک میں عدم استحکام اور مسائل کی اصل وجہ کیا ہے؟ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت دنیا کی تمام ایسی مسلم ریاستوں کو عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے کہ جو کسی بھی وقت اور کبھی بھی مسلم دنیا کے اہم ترین مسائل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور پورے خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطین اور القدس ہے کہ جسے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مسلم امہ کو اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھا کر انھیں اس بات پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل میں الجھے رہیں اور امریکی سازش کے تحت فرقہ واریت اور دیگر خطرناک مسائل میں پریشان رہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل میں کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔

خیر سوال ہے مسلم امہ کے مقدس مقام بیت المقدس قبلہ اول کا جو گزشتہ پینسٹھ برسوں سے صہیونی شکنجے میں ہے اور آئے روز حملوں کا نشانہ بھی بن رہا ہے تو کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ مسلم امہ اب بھی بیدار ہو جائے اور امریکی اور اسرائیلی سازشوں کے چنگل سے نکل کر امت کو یک جان بنانے کا کام کرے، کیا وہ حکمران جو امریکی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں، مسلم امہ کے مفادات اور مقدسات کے تحفظ کے لیے ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے؟ یا پھر شاید بیٹھنا ہی نہیں چاہتے۔ قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا ہے کوئی جو ماضی کے نامور مسلم مجاہد قائدین کی طرح آج بھی قبلہ اول کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے۔ سوال پھر وہی ہے کہ قبلہ اول خطرے میں ہے اور مسلم امہ کہاں ہے؟ مسلم امہ اپنے فروعی اور ذاتی مسائل میں الجھی ہوئی ہے یا پھر امریکا نے ان کو ایسے مسائل میں الجھا دیا ہے اور خود فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ مل کر فلسطین کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہے۔

ایک طرف اسرائیلی دشمن نے مسلم دنیا کو آپس میں باہم دست و گریباں کر دیا ہے جب کہ دوسری جانب وہ فلسطین پر اپنے مکمل تسلط سمیت مشرق وسطیٰ اور ایشیاء میں گریٹر اسرائیل جیسے ناپاک منصوبے کی تکمیل کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلم امہ کہاں ہے؟ کیا مسلم امہ اب بھی بیدار نہ ہو گی؟ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
Load Next Story