کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

پشاور پولیس لائنز مسجد میں خودکش دھماکے میں شہدا کی تعداد 100ہو گئی ہے۔ان شہداء میں 93پولیس اہلکار شامل ہیں۔ پولیس اور دیگر شہدا کو ان کے آبائی علاقوں میں سپرد خاک کر دیا گیا، شہدا کے جنازوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے۔

ادھر دھماکے کے بعد ریسکیو آپریشن مکمل ہوگیا اور وہاں نماز کی ادائیگی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے، اس افسوسناک واقعہ کے بعد خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ اعظم خان نے صوبے میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا، یوں منگل کو خیبرپختونخوا میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا جب کہ ملک بھر میں فضا سوگوار رہی۔ پشاور پولیس لائنز سانحہ کی تحقیقات جاری ہیں۔

ابتدائی طور پر اس سانحہ کے مختلف زاویوں پر غور کیا گیا ہے۔یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ خود کش حملے میں استعمال کیا جانے والا بارودی مواد گاڑی کے ذریعے پولیس لائنز منتقل کیا گیا ہے۔تحقیقاتی ٹیموں نے پولیس لائنز گیٹ اور خیبرروڈ کی وڈیوز کا جائزہ لیا ہے۔

پشاور پولیس کے مطابق جس روز مسجد میں دھماکا ہوا، اس روز 140 افراد پولیس لائنز میں داخل ہوئے۔ پولیس لائنزبیرک میں موجود تمام افراد کی پرو فائلنگ بھی کی جارہی ہے۔

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران میں اعتراف کیا کہ علاقے میں سیکیورٹی لیپس ہوا ہے، ایسا کیوں ہوا ہے، اس کا پتہ چلانے کے لیے بھی تحقیقات جاری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خود کش حملہ آور کے سہولت کاروں کا بھی پتا لگا نے کی کوشش کررہے ہیں، جے آئی ٹی کی تحقیقات میں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

انھوں نے مزیدکہا کہ پولیس لائنز میں فیملی کوارٹرز بھی ہیں جہاں پولیس اہل کار اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں، ان اہلکاروں کے مہمانوں کی آمد ورفت بھی رہتی ہے، پولیس لائنز کے اندر کھانے پینے کی کینٹینیں بھی ہیں، اس کے علاوہ وہاں تعمیراتی کام بھی چل رہا تھا۔

آئی جی کے مطابق خود کش دہشت گرد پیر کو ہی بارودی جیکٹ پہن کر پولیس لائنز اور پھر مسجد میں نہیں داخل ہوا بلکہ بارودی سامان اور جیکٹ وغیرہ تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں لاتا رہا' خودکش دہشت گرد سائلین یا مہمانوں کے روپ میں داخل ہوا' اس حوالے سے سیکیورٹی کی ناکامی کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

میڈیا نے سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کے حوالے سے بتایاہے کہ ممکن ہے خود کش دہشت گرد کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز کے اندر آیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو، سی ٹی ڈی تمام پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے تمام سیاسی قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان دشمنوں کے خلاف متحد ہوں۔ ہم اپنے سیاسی جھگڑے بعد میں نبٹا لیں گے۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصدکے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلانا اور دہشت گردی، عسکریت پسندی کے خلاف ہماری محنت سے حاصل کردہ کامیابیوں کو رائیگاں کرنا چاہتے ہیں۔

ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ تمام سیاسی قوتوں کو میرا پیغام پاکستان دشمن عناصر کے خلاف اتحاد کا ہے، ہم اپنی سیاسی لڑائی بعد میں لڑ سکتے ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ غیر اخلاقی اور بزدلانہ کارروائیاں قوم کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں،یہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے لیے ہمارے عزم کو تقویت دیتی ہیں، کسی بھی دہشت گرد کے لیے زیرو ٹالرنس ہے۔


آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو میں 255 ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس کی صدارت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کی، شرکا کو موجودہ اور ابھرتے ہوئے خطرات، مقبوضہ جموں کشمیر کی صورت حال،دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ اور حمایتی میکنزم توڑنے کے لیے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔

آرمی چیف نے تمام کمانڈرز کو ہدایت کی کہ وہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر اس وقت تک توجہ مرکوز رکھیں جب تک ہم پائیدار امن حاصل نہ کر لیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سانحہ پشاور زیر بحث رہا، وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے تاہم اس کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کرے گی کیونکہ قومی سلامتی کمیٹی ہی ایسے فیصلے لینے کا مجاز فورم ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ 100 افراد کی شہادت، سانحہ آرمی پبلک اسکول سے کم نہیں ہے۔ اے پی ایس سانحہ کے وقت بھی تمام سیاستدان اکٹھے ہوئے تھے ، آج بھی اتفاق رائے چاہیے، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔انھوں نے انکشاف کیا کہ ساڑھے چار لاکھ افغانی قانونی دستاویزات پر پاکستان آئے اور واپس نہیں گئے، معلوم نہیں ان میں سے کون معصوم شہری ہے اور کون دہشت گرد ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی اس موقع پر اپنے خطاب میںکہا ہم نے ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے۔ پالیسی تو پارلیمنٹ نے دینی ہے، وزیر اعظم، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی بھی ایوان میں آئیں گے۔ پہلے کی طرح پارلیمنٹیرینز کو بریفنگ دی جائے گی، ہماری پالیسی آج بھی اے پی ایس سانحے کے بعد والی ہے۔ ٹی ٹی پی کے خراسانی گروپ نے اس دہشت گردی کی ذمے داری قبول کی ہے۔

پولیس لائنز کے اندر خودکش بمبار کیسے پہنچا؟ کس نے پہنچایا؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی قریب ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ کالعدم تنظیم کے لوگوں کو معاف کردینے کی سرکاری پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے، پی ٹی آئی حکومت میں سزائے موت کے مجرم بھی چھوڑے گئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیاں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان کے اعلیٰ پالیسی ساز حلقوں میں تو شاید اس قسم کی صورت حال پیدا ہونے کے امکانات کا پتہ ہو لیکن یہ سب کچھ ملک کی اکثریت کی توقعات اور امیدوں کے برعکس تھا کیونکہ پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل طبقہ عوام کو یہ یقین دہانی کرا رہا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کا قیام پاکستان کے لیے غیرمعمولی فوائد کا باعث ہوگا۔

پاکستان کے اندر یہ مخصوص مائنڈ سیٹ علمی سطح پر بھی یہی تاثر پھیلا رہا تھا کہ افغان طالبان نے امریکا کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا ہے حالانکہ طالبان کا اقتدار دوحہ معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوا تھا' بہرحال سابق حکومت کے وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے عالمی سطح پر افغانستان کی طالبان حکومت کامقدمہ لڑنا شروع کر دیا۔

ادھر امریکا اور دیگر ممالک افغان طالبان کے عملی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔طالبان حکومت نے دوحہ میںجو معاہدہ کیا تھا' اس کی بعض شرائط پر عمل نہیں کیا' جس کے نتیجے میں طالبان حکومت کو دنیا میں کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا' لیکن پاکستان میں موجودمخصوص مائنڈ سیٹ طالبان کا ساتھ دیتا رہا جب کہ اس کے برعکس افغانستان کی طالبان حکومت نے سرد خانے میں پڑے ہوئے معاملات کو ازسرنو اٹھانا شروع کردیا۔

ڈیورنڈ لائن جو انٹرنیشنلی تسلیم شدہ سرحد ہے' اسے متنازعہ بنانے کا کام شروع کردیا' پاکستان نے اپنی سرحد کے اندر آہنی باڑ نصب کی تھی' اس کی تعمیر پر اشرف غنی کی حکومت نے بھی گرین سگنل دیاتھا لیکن افغان طالبان نے اس سرحدی باڑ کو کئی جگہ سے اکھاڑنے کی کوشش کی' اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کی حکومت نے افغانستان میں موجودٹی ٹی پی کے لوگوں کو نقل و حرکت کی پہلے سے بھی زیادہ اجازت دے دی اور اشرف غنی حکومت نے ٹی ٹی پی کے جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا انھیں جیلوں سے رہا کر دیا۔

ٹی ٹی پی کے سرکردہ لوگ جو زیرزمین تھے وہ منظرعام پر آ گئے' افغان طالبان نے پاکستان کے مطالبات کے باوجود انھیں نہ پاکستان کے حوالے کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خود ایکشن کیا' ادھر پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان میں آنا شروع ہوئے' حکومت نے آنکھیں بند رکھیں 'اس کوتاہی بلکہ عاقبت نااندیشی کا نتیجہ آج ایک بار پھر دہشت گردی کی شکل میں سامنے آ گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کثیرالجہتی آپریشن شروع کیا جائے۔
Load Next Story