کراچی میں زہریلی گیس سے اموات اور حکام کی بے حسی

کراچی میں رہائشی علاقوں میں فیکٹریوں کے قیام کی وجہ سے زہریلی گیس کے اخراج سے پہلے بھی ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں

tauceeph@gmail.com

پہلے کھانسی ہوتی ہے، پھر بخار اور سانس کی تکلیف شروع ہوجاتی ہے ، کچھ ہی دنوں میں موت ہوجاتی ہے۔ ایسے بھی گھر ہیں جہاں ایک موت کے بعد ابھی سوئم شروع نہیں ہوا کہ دوسرے دن موت ہوگئی۔

یہ سلسلہ پانچ ہفتوں سے شروع ہوا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔ کراچی کے کیماڑی ٹاؤن کے علی محمد گوٹھ اور مواچھ گوٹھ میں پندرہ دن میں اٹھارہ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جس میں سولہ بچے شامل ہیں۔

کراچی میں کیماڑی ٹاؤن 2001میں قائم ہوا، یہ 11یونین کونسل پر مشتمل ہے۔ ملک میں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کیماڑی ٹاؤن کی آبادی 1,829,837 ہے جس میں سے 974,232 مرد اور 855,383 خواتین ہیں۔ اس ٹاؤن کی آبادی کا بڑا حصہ گوٹھوں میں آباد ہے ۔ متاثرہ گوٹھ 950 کے قریب افراد پر مشتمل ہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہیں۔ فیکٹریوں میں پلاسٹک جلایا جاتا ہے جس سے خطرناک دھواں اور گیس پیدا ہوتا ہے۔ اس علاقہ میں غیر ملکی کمپنیاں بھی آگئی ہیں جو پتھر جلا کر لوہا حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کے بوائلر سے بھی زہریلا دھواں فضاء کو آلودہ کرتا ہے، گریس اور آئل بنانے والے کارخانے بھی ہیں۔

برطانوی خبررساں ایجنسی بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقہ کے مکین غلام قادر لغاری جن کی دو پوتیاں اور ایک نواسی اب تک جاں بحق ہوچکی ہیں، نے رپورٹر کو بتایا کہ پہلے گریس اور آئل بنانے کے کارخانے 24گھنٹوں میں صرف چند گھنٹے چلتے تھے، پھر علاقہ میں غیر ملکی کمپنیاں قائم ہوگئیں۔ ان کمپنیوں میں 24 گھنٹے کام ہونے لگا، گریس اور آئل بنانے والے کارخانے بھی 24 گھنٹے چلنے لگے۔

صوبائی محکمہ صحت نے ایک اعلامیہ میں یہ بات تسلیم کی کہ ہلاکتوں کی وجہ فضاء میں ایسے اجزاء ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔

کیماڑی ضلع ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرکا خیال ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں ایک مخصوص قسم کا پتھر لاتی ہیں جس کو آگ کی تپش سے جلا کر اس میں سے لوہے کے ذرات حاصل کیے جاتے ہیں۔ انھیں پرانے ٹائر جلا کر تپش دی جاتی ہے جس سے پھیپھڑوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

محکمہ صحت کی ٹیم نے علی محمد گوٹھ کا دورہ کیا تھا۔ اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ گوٹھ کے 40سے زائد بچوں کو ویکسین نہیں لگائی گئی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علاقہ میں فیکٹریوں کو بند کرنے کے بعد کھانسی ، بخار اور سانس کی تکلیف کی شکایات کم ہوگئی ہیں۔ اس علاقہ میں کوئی سرکاری اسپتال موجود نہیں۔ مواچھ گوٹھ اور علی محمد گوٹھ وغیرہ کے مکینوں کی اکثریت انتہائی غریب ہے، یوں یہ اپنے پیاروں کو اسپتال تک نہیں لے جاسکتے، یہی وجہ ہے کہ 18افراد میں سے کسی ایک کی بھی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا۔ یوں اتنی ساری اموات کی حقیقی وجوہات کا علم نہ ہوسکا۔

ضلع کیماڑی کی انتظامیہ کا مفروضہ ہے کہ ہلاکتوں کی داستان حقیقی نہیں بلکہ فیکٹری مالکان سے معاوضہ وصول کرنے کے لیے ہے ، مگر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انھوں نے خود تازہ قبریں دیکھی ہیں جن پر کتبے نہیں لگے ہوئے ہیں۔ ایک متاثرہ شخص خادم حسین نے ماچکو پولیس میں ہلاکتوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرادیا ہے۔


کیماڑی کے علاقہ میں فروری 2020میں اچانک زہریلی گیس پھیلنے سے 14افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس گیس کے پھیلاؤ سے 250 کے قریب افراد متاثر ہوئے تھے۔ ان افراد کو مختلف اسپتالوں میں لے جایا گیا تھا اور ابتدائی طبی امداد کے بعد متاثرہ افراد کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اس خوف ناک واقعہ کے بعد سندھ کی حکومت نے ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی تھی مگر کوئی حتمی بات سامنے نہیں آسکی۔

اخبارات کی فائلوں میں اس واقعے سے متعلق خبروں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020میں بھی کسی ہلاک ہونے والے شخص کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا۔ پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کے بغیر موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکتی۔ اس وقت یہ رپورٹیں منظر عام پر آئی تھیں کہ کراچی بندرگاہ پر جہاز سے سویا بین اتارا جارہا تھا۔ اس جہاز سے خارج ہونے والی گیس زہریلی ہوسکتی ہے۔

سندھ کے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ نے بتایا تھا کہ کیماڑی کے علاقے کی ہوا میں نائٹرک آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائڈ کی موجود گی زیادہ تھی جب کہ باقی معیار ٹھیک ہے۔ یہ بھی شکایت آئی تھی کہ ریلوے ٹریک کے ساتھ خام تیل کے ذخائر سے آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نائٹریٹ کا کنٹینر آیا ہو اور لیک ہوا ہو۔

اس وقت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان نے بھی اس واقعے کی ذمے داری لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گیس کا اخراج کراچی کی بندرگاہ پر موجود کسی کنٹینر سے نہیں ہوا۔

جب کسی ادارہ پر زہریلی گیس کے اخراج کی باقاعدہ ذمے داری عائد نہ ہوئی تو کراچی کے جیکسن تھانے کے ایس ایچ او نے زہریلی گیس کے اخراج کی ذمے داری نامعلوم افراد پر ڈال کر فائل کو منطقی انجام کو پہنچا دیا تھا مگر اس دفعہ پھر کیماڑی کا علاقہ زہریلی گیس سے متاثر ہوا مگر ماضی کی طرح کسی مرنے والے فرد کا پوسٹ مارٹم نہ ہوا۔ البتہ یہ حقیقت واضح ہوئی کہ مواچھ گوٹھ ، علی محمد گوٹھ اور اطراف کے علاقوں میں رہائشی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کارخانے موجود ہیں جہاں پلاسٹک کو جلا کر خطرناک کیمیکل تیار کی جائے۔

چینی کمپنیوں کو بھی زہریلا مواد جلا کر قیمتی دھات حاصل کرنے کے لیے مواچھ گوٹھ، علی محمد گوٹھ اور اطراف کے علاقے پسند آئے، یوں ابھی تک صرف 16 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔

ملک میں رائج قوانین کے تحت رہائشی علاقوں میں کسی بھی نوعیت کے کارخانے قائم نہیں ہوسکتے۔ اس ساری صورتحال کی براہ راست ذمے داری سندھ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ کے محکمہ محنت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ رہائشی علاقوں میں کسی قسم کے کارخانوں کی اجازت نہ دے۔ مزدور تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سندھ کے محکمہ محنت میں رشوت اور سفارش کا زور ہے۔

محکمہ محنت کے لیبر انسپکٹر کا کردار تقریبا ختم ہو چلا ہے ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیبر انسپکٹر ایسے علاقوں کا دورہ ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دوروں کا بنیادی مقصد کارخانوں سے نذرانہ وصول کرنا ہوتا ہے۔ یہ لیبر انسپکٹر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تفریحی طور پر ایسے علاقہ کا دورہ کرتے ہیں اور باقاعدہ سے نذرانہ وصول کرتے ہیں۔

گزشتہ دو عشروں سے سندھ میں ماحولیاتی کنٹرول کا محکمہ موجود ہے۔ کورونا میں اور اس کے بعد حالات میں انوائرمنٹل کنٹرول کے محکمے کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ محکمہ سندھ حکومت کے دیگر محکموں کی طرح بدنام ہے۔ اس علاقہ میں کوئی سرکاری ڈسپنسری اور اسپتال موجود نہیں ہے۔

ضلع کیماڑی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ان کے ماتحت عملہ نے ان غریبوں کے علاقہ کا کبھی دورہ نہیں کیا نا بچوں کو ویکسین لگانے والی ٹیمیں آتی ہیں، اگر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس متحرک ہوتا تو متاثرہ علاقہ کے لوگوں کی مجموعی صحت کا ریکارڈ دستیاب ہوتا۔

کراچی میں رہائشی علاقوں میں فیکٹریوں کے قیام کی وجہ سے زہریلی گیس کے اخراج سے پہلے بھی ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں مگر حکومت سندھ نے کبھی بھی رہائشی علاقوں میں فیکٹریوں کو بند کرنے کے بارے میں کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔ صوبائی حکومت کی بے حسی عوام میں مایوسی پیدا کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ سندھ اسمبلی اس ساری صورتحال پر غور کرے اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔
Load Next Story