آئی ایم ایف سے مذاکرات منصوبہ کہاں ہے
ہمارے نمایندے کس بنیاد پر آئی ایم ایف یا کسی دوست ملک سے موثر یا مفید مذاکرات کرسکیں گے؟
ہم پھر سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی میز پر ہیں، ایک نالائق شاگرد کی طرح جسے پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد کرایا جا رہا ہو۔
ترقی پذیر ممالک میں آئی ایم ایف کے پاس جانا اسی طرح کی ایک بری خبر ہے جیسے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا جو آپ کو کچھ کڑوی گولیاں دے گا، کچھ کھانے پینے کی بری عادتیں چھوڑنے کا کہے گا اور کاہلی کے بجائے محنت کرکے چربی کم کرنے کا کہے گا۔
سوال یہ ہے کہ ہر علاج کے کچھ بعد آپ پھر سے ایمرجنسی وارڈ میں کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ بری عادتیں چھوڑنے پر تیار نہیں اور آپ کی بیماری کا مستقل علاج اس ڈاکٹر کے پاس نہیں۔
جب بھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی نوبت آتی ہے ہمیں دو انتہائی رویوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کچھ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو معاشی خودکشی کے مترادف قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے ہمارے تمام مسائل کا واحد اور کامل حل سمجھتے ہیں۔ ایک متوازن رویہ کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔
اسی انتہا کے رویوں کا مشاہدہ ہمارے وزرائے خزانہ میں بھی رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس سوچ کے حامل تھے کہ روپے کی قیمت کو چند بینکوں اور منی چینجرز کی مارکیٹ کے ذریعے بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس طرح بہت سی بدعنوانیاں ہوئیں اور ناجائر منافع کمائے گئے۔
اس کے برعکس موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی ماہ تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ ڈالر کو واپس دو سو روپے تک لے آئیں گے لیکن ڈالر کے مارکیٹ سے غائب ہو جانے کے بعد انھوں نے اپنے دعوے سے رجوع کر لیا۔ ایک متوازن پالیسی یہ ہوتی کہ ناجائز منافعوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ڈالر کا مناسب ریٹ مقرر ہونے دیا جاتا۔
اسی قسم کے انتہائی رویوں کا اظہار پچھلی حکومت میں بھی نظر آیا جہاں ڈاکٹر حفیظ شیخ دبئی سے آتے ہی آئی ایم ایف کے معاہدہ پر بغیر کسی بحث کے دستخط کرنے پر تیار تھے۔ ان کے بعد شوکت ترین صاحب اسی معاہدہ کو بدلنے پر مصر تھے جب کہ اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک اس بات کے حامی نہیں تھے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی معیشت کے دائمی مسائل کا حل نہیں ہوسکتے۔ یہ پروگرام معیشت کو ایک وقتی سہارا دیتے ہیں۔ کچھ مزید قرضے، کچھ عرصے کا مانیٹری نظم و ضبط، اخراجات میں جزوقتی کمی اور معیشت کے استحکام کی نوید سناتے ہوئے خوشنما چارٹ۔ آئی ایم ایف کی واپسی کے کچھ ہی سالوں بعد اور بعض اوقات پروگرام کے دوران ہی معیشت واپس انھی یا ان سے بھی زیادہ مشکل حالات کا شکار نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرامز کی کسی معیشت کے لیے مستحکم بنیادوں پر افادیت نہ ہونے کا مصر اور ارجنٹینا کی بدحالی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک ڈوبتی معیشت کی کشتی کو بچانے والا چند سوراخوں کو ہی بھر سکتا ہے۔ اس سے ایک نئی کشتی بنانے کی توقع کرنا غیرحقیقی ہوگا۔ پاکستان جیسی بگڑی ہوئی معیشت کی نئے سرے سے تعمیر کے لیے ایک متفقہ معاشی منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے طویل مدتی معاشی عزائم اور اہداف کا آیٰینہ دار ہو اور جس کا اطلاق اگلے بیس تیس سالوں کی مالیات، توانائی، تجارت، زراعت، صنعت اور سرمایاکاری کی پالیسیوں پر بلا تعطل و تحریف کرنے کا مشترکہ اور متفقہ عزم ہو۔ کیا ہمارا کوئی سالانہ بجٹ ایسے قومی عزائم کا آئینہ دارہوتا ہے جو ملک کو معاشی یا توانائی اور خوراک کی خود کفالت کی طرف لے جائے؟
ہمارے معاشی ماہرین کا ایک طبقہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ مغربی معاشیات کی مودبانہ تقلید ہماری معیشت کے لیے اکسیر ہوگی۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اس سوچ نے ہماری معیشت کو درپیش خرابیوں کی بنیاد رکھی جن میں تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ، گردشی قرضے اور صنعتی زوال شامل ہیں۔ البتہ یہ اخذ کرنا بالکل غلط ہوگا کہ قرضہ دینے والے اداروں کے اصلاحات کے نام پر چلنے والے پروگرامز کی وجہ سے ایسا ہوا۔
مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے جو ان پروگرامز کو یا تو آسمانی صحیفہ مانتے ہیں یا پھر ہماری معیشت کے خلاف گہری سازش۔ہماری بنیادی ضرورت ایک ایسا معاشی پلان ہے جو ہمارے معروضی حالات کے مطابق ڈھلا ہوا ہو نہ کہ وہ جو کسی ایسی معیشت کا چربہ ہو جس کے حالات کی ہم سے کوئی مطابقت نہ ہو۔
آسان الفاظ میں یہ ایک ایسا معاشی پلان ہو جو ہمارے وسائل جن میں سرفہرست انسانی وسائل، معدنیات اور زرعی زمین ہیں، کے بہترین استعمال پر مبنی ہو۔ جنھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ موثر طور پر اور بہتر پیداواری استعداد کے ساتھ اور آسان قرضوں کے حصول کے ساتھ، معاشی ترقی کے لیے کام میں لایا جائے۔
یہ پلان مختصر عرصے میں سرکاری اداروں کے اخراجات، نقصانات اور سبسڈی میں نمایاں کمی لائے اور ہمارے دفاع اور سرکاری اداروں کوکم خرچ مگر موثر بنانے کا ایک جدید منصوبہ دے سکے۔ ایسے معاشی منصوبے کے تحت بننے والی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ان کو اشرافیہ کے مفادات سے بچانا، دیانت دار سرمایاکاروں اور چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کی بھرپور اعانت کے لیے موثر بنانا ہوگا۔
موجودہ حالات میں، جب ہمارے پاس ایسا کوئی معاشی منصوبہ نہیں جسے معاشرے کا ہر طبقہ، آئینی پاکستان کی طرح، ملکی مفاد کا مظہر سمجھتا ہو، ہمارے نمایندے کس بنیاد پر آئی ایم ایف یا کسی دوست ملک سے موثر یا مفید مذاکرات کرسکیں گے؟ ان حالات میں کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے آئی ایم ایف کی دی ہوئی کڑوی گولیاں نگل لیں اور ایسے متفقہ معاشی منصوبے کی تیاری کریں۔
امید کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت قوم کے روشن مستقبل کا راستہ متعین کرنے میں کامیاب ہوگی جو ہمیں ان ممالک کی صف میں شامل کردے جنھوں نے مشکل حالات سے نکل کر معاشی ترقی حاصل کی۔ ایسی کامیابی کے راستے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے سرکاری اور کاروباری اداروں کو اپنے مفادات کی قربانیاں بھی دینا ہوگی۔
(مصنف سابق وفاقی سیکریٹری اور موجودہ چیئرمین پالیسی ایڈوائزری بورڈ، ایف پی سی سی آئی ہیں۔)
ترقی پذیر ممالک میں آئی ایم ایف کے پاس جانا اسی طرح کی ایک بری خبر ہے جیسے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا جو آپ کو کچھ کڑوی گولیاں دے گا، کچھ کھانے پینے کی بری عادتیں چھوڑنے کا کہے گا اور کاہلی کے بجائے محنت کرکے چربی کم کرنے کا کہے گا۔
سوال یہ ہے کہ ہر علاج کے کچھ بعد آپ پھر سے ایمرجنسی وارڈ میں کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ بری عادتیں چھوڑنے پر تیار نہیں اور آپ کی بیماری کا مستقل علاج اس ڈاکٹر کے پاس نہیں۔
جب بھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی نوبت آتی ہے ہمیں دو انتہائی رویوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کچھ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو معاشی خودکشی کے مترادف قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے ہمارے تمام مسائل کا واحد اور کامل حل سمجھتے ہیں۔ ایک متوازن رویہ کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔
اسی انتہا کے رویوں کا مشاہدہ ہمارے وزرائے خزانہ میں بھی رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس سوچ کے حامل تھے کہ روپے کی قیمت کو چند بینکوں اور منی چینجرز کی مارکیٹ کے ذریعے بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس طرح بہت سی بدعنوانیاں ہوئیں اور ناجائر منافع کمائے گئے۔
اس کے برعکس موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی ماہ تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ ڈالر کو واپس دو سو روپے تک لے آئیں گے لیکن ڈالر کے مارکیٹ سے غائب ہو جانے کے بعد انھوں نے اپنے دعوے سے رجوع کر لیا۔ ایک متوازن پالیسی یہ ہوتی کہ ناجائز منافعوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ڈالر کا مناسب ریٹ مقرر ہونے دیا جاتا۔
اسی قسم کے انتہائی رویوں کا اظہار پچھلی حکومت میں بھی نظر آیا جہاں ڈاکٹر حفیظ شیخ دبئی سے آتے ہی آئی ایم ایف کے معاہدہ پر بغیر کسی بحث کے دستخط کرنے پر تیار تھے۔ ان کے بعد شوکت ترین صاحب اسی معاہدہ کو بدلنے پر مصر تھے جب کہ اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک اس بات کے حامی نہیں تھے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی معیشت کے دائمی مسائل کا حل نہیں ہوسکتے۔ یہ پروگرام معیشت کو ایک وقتی سہارا دیتے ہیں۔ کچھ مزید قرضے، کچھ عرصے کا مانیٹری نظم و ضبط، اخراجات میں جزوقتی کمی اور معیشت کے استحکام کی نوید سناتے ہوئے خوشنما چارٹ۔ آئی ایم ایف کی واپسی کے کچھ ہی سالوں بعد اور بعض اوقات پروگرام کے دوران ہی معیشت واپس انھی یا ان سے بھی زیادہ مشکل حالات کا شکار نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرامز کی کسی معیشت کے لیے مستحکم بنیادوں پر افادیت نہ ہونے کا مصر اور ارجنٹینا کی بدحالی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک ڈوبتی معیشت کی کشتی کو بچانے والا چند سوراخوں کو ہی بھر سکتا ہے۔ اس سے ایک نئی کشتی بنانے کی توقع کرنا غیرحقیقی ہوگا۔ پاکستان جیسی بگڑی ہوئی معیشت کی نئے سرے سے تعمیر کے لیے ایک متفقہ معاشی منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے طویل مدتی معاشی عزائم اور اہداف کا آیٰینہ دار ہو اور جس کا اطلاق اگلے بیس تیس سالوں کی مالیات، توانائی، تجارت، زراعت، صنعت اور سرمایاکاری کی پالیسیوں پر بلا تعطل و تحریف کرنے کا مشترکہ اور متفقہ عزم ہو۔ کیا ہمارا کوئی سالانہ بجٹ ایسے قومی عزائم کا آئینہ دارہوتا ہے جو ملک کو معاشی یا توانائی اور خوراک کی خود کفالت کی طرف لے جائے؟
ہمارے معاشی ماہرین کا ایک طبقہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ مغربی معاشیات کی مودبانہ تقلید ہماری معیشت کے لیے اکسیر ہوگی۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اس سوچ نے ہماری معیشت کو درپیش خرابیوں کی بنیاد رکھی جن میں تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ، گردشی قرضے اور صنعتی زوال شامل ہیں۔ البتہ یہ اخذ کرنا بالکل غلط ہوگا کہ قرضہ دینے والے اداروں کے اصلاحات کے نام پر چلنے والے پروگرامز کی وجہ سے ایسا ہوا۔
مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے جو ان پروگرامز کو یا تو آسمانی صحیفہ مانتے ہیں یا پھر ہماری معیشت کے خلاف گہری سازش۔ہماری بنیادی ضرورت ایک ایسا معاشی پلان ہے جو ہمارے معروضی حالات کے مطابق ڈھلا ہوا ہو نہ کہ وہ جو کسی ایسی معیشت کا چربہ ہو جس کے حالات کی ہم سے کوئی مطابقت نہ ہو۔
آسان الفاظ میں یہ ایک ایسا معاشی پلان ہو جو ہمارے وسائل جن میں سرفہرست انسانی وسائل، معدنیات اور زرعی زمین ہیں، کے بہترین استعمال پر مبنی ہو۔ جنھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ موثر طور پر اور بہتر پیداواری استعداد کے ساتھ اور آسان قرضوں کے حصول کے ساتھ، معاشی ترقی کے لیے کام میں لایا جائے۔
یہ پلان مختصر عرصے میں سرکاری اداروں کے اخراجات، نقصانات اور سبسڈی میں نمایاں کمی لائے اور ہمارے دفاع اور سرکاری اداروں کوکم خرچ مگر موثر بنانے کا ایک جدید منصوبہ دے سکے۔ ایسے معاشی منصوبے کے تحت بننے والی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ان کو اشرافیہ کے مفادات سے بچانا، دیانت دار سرمایاکاروں اور چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کی بھرپور اعانت کے لیے موثر بنانا ہوگا۔
موجودہ حالات میں، جب ہمارے پاس ایسا کوئی معاشی منصوبہ نہیں جسے معاشرے کا ہر طبقہ، آئینی پاکستان کی طرح، ملکی مفاد کا مظہر سمجھتا ہو، ہمارے نمایندے کس بنیاد پر آئی ایم ایف یا کسی دوست ملک سے موثر یا مفید مذاکرات کرسکیں گے؟ ان حالات میں کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے آئی ایم ایف کی دی ہوئی کڑوی گولیاں نگل لیں اور ایسے متفقہ معاشی منصوبے کی تیاری کریں۔
امید کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت قوم کے روشن مستقبل کا راستہ متعین کرنے میں کامیاب ہوگی جو ہمیں ان ممالک کی صف میں شامل کردے جنھوں نے مشکل حالات سے نکل کر معاشی ترقی حاصل کی۔ ایسی کامیابی کے راستے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے سرکاری اور کاروباری اداروں کو اپنے مفادات کی قربانیاں بھی دینا ہوگی۔
(مصنف سابق وفاقی سیکریٹری اور موجودہ چیئرمین پالیسی ایڈوائزری بورڈ، ایف پی سی سی آئی ہیں۔)